معاشرہ اور سوسائٹی کی تشکیل میں مردوزن دونوں کی حصہ
داری برابرہے ،کسی ایک کے بغیر معاشرہ مکمل نہیں ہوسکتاہے اور نہ ہی دونوں
صنف میں سے کسی ایک پر ظلم وزیادتی کی اجازت ہے ،معاشرہ کی کامیابی اور
خوشحالی کیلئے ضروری ہے کہ مردوزن دونوں کے پاس اختیارات ہوں ،دونوں کو
سوسائٹی کا کلیدی حصہ ماناگیاہو ، دونوں کو آزادی حاصل ہو،حضرت آدم علیہ
السلام کی تخلیق کے بعد سب سے پہلے حضرت حوا ء کی تخلیق کی گئی اور اس طرح
انسانی معاشرہ کا وجود میں عمل میں آیا ،مرورزمانہ کے بعد معاشرہ میں
عورتوں کو کم تراور حقیر سمجھا جانے لگا ، مختلف مذاہب نے بھی عورتوں کو حق
نہیں دیا ،کہیں پاپ اور گناہ کہاگیاتو کہیں اس کے وجود کو انسانیت کیلئے
شرمناک بتایاگیا ،کسی معاشرہ میں عورت کی پیدائش کے ساتھ ہی اس کے قتل کو
واجب قراردیاگیا ، تو کسی مذہب میں عورتوں کو انسانی حقوق سے محروم رکھاگیا،
ساتویں صدی میں اسلام نے اپنی آمد کے بعد عورتوں کے ساتھ ہونے والے ان تمام
مظالم پر روک لگائی ،خواتین کو مردوں کے برابر لاکھڑا کیااورواضح طور پر
کہاکہ مردوزن کے درمیان معاشرتی طور پر کوئی امتیاز نہیں برتاجاسکتاہے ،دونوں
سماج کے اہم اجز اء ہیں،اسلام نے پرانی رسم وراج کے خاتمہ کا اعلان کرتے
ہوئے جگہ بہ جگہ قرآن میں خواتین کے حقوق کو بیان کیا اور فضیلت و اہمیت کے
اعتبار سے مردوں پر عورتوں کو ترجیح دی، ایک خاتون کی مختلف حیثیت بیان کی
گئی اور ہرجگہ اسے اہمیت دی گئی ،چناں چہ ماں اور باپ کی فضیلت بتاتے ہوئے
اسلام نے ماں کو حصول جنت کا سبب قراردیا ، ماں کے حقوق تین گنازیادہ بتائے
گئے ۔ جب بیٹا اور بیٹی کے رشتے کی بات آتی ہے تو یہاں بھی اسلام بیٹی کو
رحمت قراردیتاہے وراثت میں اس کی بھی حصہ داری بیان کرتاہے ۔جب شوہر اور
بیوی کے درمیان رشتوں کا تذکرہ ہوتاہے تو وہاں بھی اسلام عورت کو اہمیت
دیتاہے ،مردوں پر ان کا نان ونفقہ واجب قراردیتاہے ،کسی بھی طرح کی خدمت
لینے سے منع کرتاہے ،اگر دونوں کے درمیان رشتوں کانباہ مشکل ہوتاہے اور
نوبت جدائیگی کی آتی ہے تو یہاں بھی اسلام عورتوں کو تین حقوق فراہم کرتاہے
۔بھائی اور بہن کے رشتے میں بھی بہن کو ترجیح حاصل ہوتی ہے ۔مجموعی طور پر
اسلام عورتوں کو سماج میں برابری اور مساوات سے آگے بڑھ کر انہیں زیادہ
حقوق دینے کا علمبردار رہاہے ،اسلام کی پوری تعلیمات میں کہیں بھی کوئی
گوشہ ایسا نہیں ملتاہے جس سے مردوں کو عورتوں کو استحصال کرنے کا موقع مل
سکے یا پھر خواتین کو کمتر سمجھا گیا ہو ،لیکن مغربی معاشرہ کی سوچ وفکر
اور آزادی نسواں کی تحریک نے مردو زن کے اختلاط سے وجود پانے والے خوبصورت
معاشرہ کے شیرازہ کو منتشر کرکے رکھ دیا ہے ،مغرب کی فکری یلغار نے مشرقی
تہذیب پر مسلط ہوکر یہاں کے معاشرہ کو بھی تباہ وبرباد کریاہے ، مساوات اور
برابری جیسے نعروں کی وجہ سے معاشرہ زوال کی انتہاء کو پہونچ چکاہے ،یوں
ایک کامیاب معاشرہ مردوزن کے درمیان تفریق بڑھ جانے کے بعد برباد ہوچکاہے
اور 14 سوسال قبل اسلام نے جس برائی کا خاتمہ کیا تھا ،خواتین کو جن مظالم
سے آزاد کرایاتھا ایک مرتبہ بھر خواتین اسی کا شکار ہوچکی ہیں اور بات یہاں
تک پہونچ گئی ہے کہ معاشرہ میں خواتین کو کمتر اور حقیر سمجھا جارہاہے ،خواتین
کا استحصال ہورہاہے ،مساوی حقوق نہیں دیئے جارہے ہیں ۔
معاشرتی اور گھریلو سطح پر خواتین کا استحصال ایک اہم مسئلہ ہے ،بر صغیر
میں استحصال کی یہ کیفیت سے سب سے زیادہ پائی جاتی ہے اور اس اس سطح پر
خواتین کا استحصال سب سے زیادہ خود خواتین کرتی ہیں،ساس اور بہو کی لڑائی ،ننند
او ربھوج کے درمیان جھگڑے کبھی کھبی انتہاء کو پہونچ جاتے ہیں ،اکثر مردو
ماں اور بیوی کے درمیان پائے جانے والے نزاع کے سبب ذہنی الجھن کے شکار
ہوتے ہیں،معاشرہ میں ناہمواری یہاں تک پائی جاتی ہے کہ ساس اپنی بہوکو نوکر
سے بھی بدتر سمجھتی ہے ،ہر کام لیتی ہے ،کھانے میں نمک اگر کم ہوجاتاہے تو
آفت ٹوٹ پڑتی ہے لیکن جب ان کی اپنی بیٹی کسی کے گھر میں جاتی ہیں تو یہ
امید ہوتی ہے کہ میری بٹی رانی بن کر رہے ،کوئی کام نہ کرنا پڑے ،اسی ذہنیت
پر مشتمل ایک ویڈیو بھی دوسال سے سوشل میڈیا پر بہت وائرل ہورہی ہے ، محلہ
کاا یک جوان اپنے پڑوسی کے یہاں آتاہے اور پوچھتاہے کہ چچی بہو کیسی ہے ،تو
ساس کا جواب ہوتاہے کہ ارے مت پوچھو ،میرا بیٹا غلام بن چکاہے ، ہر وقت
بیوی کی خدمت کرتارہتاہے ،ناشتہ بناکر کھلاتاہے ،کچھ دنوں بعد جب اسی خاتون
کی بیٹی کی شادی ہوئی تو وہ وہ پڑوسی دوبارہ آکر پوچھتا ہے چچی بیٹی کی
شادی ہوگئی ،داماد کیسا ملا۔ اب سنیئے ارے بابو اﷲ ہر کسی کو ایساداماددے ،ناشتہ
بناکر کھلاتاہے ،کوئی کام نہیں کرنے دیتاہے ،رانی بناکر رکھتاہے ۔
یہ معاشرہ کی تصویر ہے اورسوفیصد حقیقت پر مبنی ہے، ہر گھر کی تقریبا یہی
کہانی ہے ، عورتوں کا سب سے زیادہ استحصال خود عورتیں کرتی ہیں،مرد یعنی
سسر یا دیگررشتے دار بہت کم ہی خواتین اور گھر یلومعاملات میں مداخلت کرتے
ہیں ،جب نئے رشتے کی بات ہوتی ہے اس وقت بھی یہ خواتین لڑکیوں کو کم پریشان
نہیں کرتی ہیں ،مختلف زاویوں سے امتحان لیتی ہیں ،یہاں تک کہ چلاکر ،بیٹھاکر
،کھانا بناکر دیکھتی ہیں کہ لڑکی کیسی ہے ،حسن صورت کے ساتھ حسن سیرت کی
ایک ایک باریکی پر نظر رکھتی ہیں، بیٹا کالاکلوٹا ہو لیکن بہو چاہیئے دو دھ
کی گریا ۔مختصر لفظوں میں یہ کہ خواتین کا استحصال خود خواتین کرتی ہیں
کوئی اور نہیں ۔
معاشرتی امور کے ساتھ معاشی سطح پر بھی خواتین کا استحصال کیا جاتاہے ،عصر
حاضر میں تجارت کو کامیاب بنانے کیلئے عورتوں کا سب سے زیادہ استعمال
ہوتاہے ، ہر انڈسٹری کو کامیاب بنانے کیلئے عورتوں کو یوز کیا جاتاہے، آفس
،دکان،اسٹیج اور کمپنیوں کو مطلوبہ افراد کی نظر میں پرکشش بنانے کیلئے
خصوصی طور پرمخصوص عمر کی خواتین کو بحال کیا جاتاہے ،جب مقاصدکی تکمیل
ہوجاتی تو پھر انہیں نکال دیاجاتاہے ،اس کے بعد ان خواتین کا اگلا سفر مزید
دشوار ہوجاتاہے ،اسلامی نقطہ نر سے دیکھاجائے تو ایسے مقامات اور مخلوط
جگہوں پر خواتین کو ملازمت کرنے کی اجازت بھی نہیں ہے ،اسلام نے خواتین کو
کسب رزق اور تجارت سے کبھی بھی نہیں روکاہے لیکن مخلوط معاشرہ اور ایسے
مقامات سے بچنے کی ہمیشہ تلقین کی ہے جہاں اسے ایک انسان کی طرح عزت دینے
کے بجائے تجارتی اورجنسی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ بنایاجائے ،اس لئے
خواتین کے کرنے کیلئے ان کاموں کو ترجیح دی گئی جہاں نامحرم سے اختلاط نہ
ہو،بر صغیر کے معاشرے میں عرصہ دراز سے خواتین کے درمیان سلائی کا کام
معروف ہے جہاں غیروں سے اختلاط کم ہوتاہے اور معاشی طور پر خواتین کچھ کام
بھی کرلیتی ہیں ،آج کی ڈیجیٹل دنیا میں خواتین کیلئے بہت زیادہ سہولت ہوگئی
ہے، انٹر نیٹ پر ہزاروں طر ح کا کام ہے ،بزنس کا یہ اس وقت سب سے بڑا مرکز
بن گیاہے ،اس ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے خواتین بہت کچھ کرسکتی ہیں، لاکھوں
روپے کماسکتی ہیں اوریوں گھر بیٹھ کر خواتین معاشی طور پر خود کفیل ہوسکتی
ہیں ۔
خواتین کے مسائل اوردرپیش مشکلات کے حل کیلئے دنیا بھر میں سمینار اور
کانفرنسوں کے انعقاد کا سلسلہ جاری ہے ،حقوق نسواں اورمعاشرہ میں خواتین کی
اہمیت پر اقوام متحدہ سمیت کئی عالمی تنظمیں بھی سمینار کا انعقاد کرچکی
ہیں،23/24 ستمبر 2017 کو جنوبی ہند کے معروف شہرکالی کٹ میں ایک ایساہی
سمینار ہندوستانی مسلمانوں کا تھنک ٹینک سمجھاجانے والاادارہ انسٹی ٹیوٹ آف
آبجیکٹیو اسٹڈیز منعقد کررہاہے جس کا عنوان ہے ’’انسانی معاشرہ کو کامیاب
بنانے میں خواتین کا کردار‘‘۔
اس طرح کے سمینار کے انعقاد کی ضرورت پیش آنااس بات کی علامت ہے معاشرہ میں
خواتین کی وہ اہمیت باقی نہیں رہ گئی ہے جو انہیں اسلام نے دی ہے یا پھر
کہیں نہ کہیں دیگر مذاہب او ر مغربی کلچر سے مسلم معاشرہ بھی متاثر ہوگیا
ہے اور خواتین کی اہمیت کو معاشرہ تسلیم نہیں کررہاہے ورنہ سچائی یہ ہے کہ
معاشرہ کا وجود خواتین کے بغیر ناقص ونامکمل ہے، سوسائٹی کی خوبصورتی ،خوشحالی
اور کامیابی کیلئے خواتین کو اہمیت دنیا انتہائی ضروری ہے ۔امید ہے کہ
انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز کا یہ سمینار اس باب میں سنگ میل ثابت ہوگا
اورمعاشرہ کو ایک نئی سمت ملے گی ،خواتین کی اہمیت تسلیم کی جائے گی ۔ |