وہ میری ادیبہ وہ پیاری ادیبہ
دکھ توہوتاہےجب گھرمیں پھول لگاہو،روزانہ اُس کی آبیاری کی جاتی ہو،اس کی
مہک سےدماغ تروتازہ ہو،دیکھنےسےطبیعت شاداب اورآنکھیں ٹھنڈی ہوجاتی ہوں ،پھول
دلکشی بکھیررہاہواورگھرخوبصورت لگ رہاہو،بہارجیساسماں ہو اوراچانک پھول
مرجھاکرفناہوجائے!
دل توٹوٹتاہےجب بندہ سپنےکوحقیقت سمجھ کر حسین وجمیل نظاریں
دیکھے،معطرفضادیکھے،پھولوں کی مہک محسوس کرے،ہریالی اورشادابی دیکھے اورمن
ہی من میں
وہ اس مادی و کثیف دنیا سے دور روحانیت کی اس دنیا میں پہنچ جائے جہاں
روزمرہ زندگی کی کثافتیں اور رکاوٹیں ہوں اور نہ ہی کوئی آزار، نورہی
نوردیکھے ، رنگ و بو دیکھے، فطرت کاحسن وجمال دیکھے ،فضابہارکی دیکھے ،
رنگارنگ پھول دیکھے ،رات چاندنی معلوم ہو اور
خوشی سےپھولےنہ سمائےلیکن جب بیدارہوتوسپناسپناہی رہے،نہ ہی منزل کاسراغ
ملےاورنہ ہی خواب تعبیرآشناہو!
کچھ ایساہی دکھ گزشتہ سال انہیں دنوں میں اُس وقت ہمیں ہواتھاجب ہماری ایک
ہی لاڈلی بیٹی سکول سےواپسی پرگھرمیں چھوٹےبھائی کےساتھ کھیلتےہوئےاپنےہی
ہاتوں ایک حادثہ کاشکارہوکرقومہ میں چلی گئی تھی اورپھر بارہ دنوں بعد ہمیں
داغِ مفارقت دیگئےتھی،
ابھی زندگی کی صرف پانچ بہاریں دیکھیں تھی دوسال سےسکول جانےلگےتھی،بےحد
شوق سےپڑھ رہی تھی پڑھنےلکھنےسےدلچسپی کاعالم یہ تھاکہ
اگرکسی بات پرہم سزادیناچاہتےتویہی کہتےکہ کل تم سکول نہیں جاؤگی اوروہ
فوراًرونےلگ جاتی، بس یہی اُس کےلئےبڑی سزاہواکرتی تھی،سکول سےواپسی پرگاڑی
ہی میں مجھےکارگزاری سناناشروع کردیتی تھی،تیسواں پارہ گھرمیں اپنی والدہ
سےآدھاحفظ کیاہواتھا،خودکوسنبھالنےلگےتھی،یونیفارم خودپہننےلگی تھی
اورچھوٹےموٹےکاموں میں اپنی امی کی مددبھی کرنےلگےتھی،صبح کوبس ایک
آوازسےبیدارہوکرسکول کی تیاری کرنے لگ جاتی،
نشست وبرخاست اورکھانےپینےمیں اپنےبڑےبھائی افنان سےزیادہ سلیقہ
مندتھی،کوئی نیاپوشاک پہن کراُسکی خوشی کی توانتہاءنہ رہتی،چچاؤں کےساتھ
چچڑی رہتی،
اورمسکراہٹ ہروقت گلاب جیسےہونٹوں پہ سجی رہتی
(ادیبہ) نام رکھاتھاکہ ادب سےآراستہ ہواور(عفاف )کہ عفت وپاکدامنی اُس
کازیوربنے..... پر.... نہ .... رہی
اُس کلی کوبن کھلےمرجھائےسال مکمل ہونےکوہے،لکھتےتوہم اُس وقت بھی تھے، کچھ
خیالات اورافکاراُس وقت بھی دماغ میں گھوم رہےتھےمگرجب بھی اُن کوصفحہ
قرطاس پہ لانےکاخیال آتاتوآنکھیں پرنم ہوجاتیں،دل اُداس ہوجاتاسوچتایہ توغم
کوتازہ کرنےوالی بات ہے،خوشی اورغم توزندگی کاحصہ ہےتوپھرکیوں سفینہ حیات
کوموجِ تبسّم سےنکال کرغم واندوہ کےبےرحم موجوں کےحوالہ کروں
لیکن آج برمامیں ظلم وبربریت،حیوانیت اور درندگی کامنظردیکھ کراپناغم بہت
ہلکامحسوس ہورہاہے،
جس اندازسےانسانیت کےتقدس کی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں،مردوں،عورتوں
اورمعصوم پھول جیسےبچےجوعداوت اورمنافرت کے الف ب سےبھی واقف نہیں،ان
کےخونِ ناحق سےجس اندازسےکھیلاجارہاہےتاریخ میں شایداس کی کوئی مثال نہ
ملے،اُن کےبےگناہ خون سے میانمارکےدرودیوار،زمین،باغات کھیت اورکھلیان سب
رنگین ہوچکےہیں،معصوم اوربن کھلےپھولوں کواُن کےماں باپ کےسامنےسفاکانہ
طریقےسےمسلاجارہاہے،گردنیں تن سےجداکی جارہی ہیں،نوخیزلڑکیوں کی عصمت دری
ہورہی ہے،بےگوروکفن لاشیں زمین پرپڑی ہیں،کوئی دادرسی کرنےوالاہےاورنہ کوئی
ان لاچاروں کاپرسان حال!
اےکاش ہم یہ منظرنہ دیکھتےیاہمارےپاس اُن کےدفاع کےلئےکوئی وسیلہ
ہوتا(اےکون ومکان کےمالک تیری طاقت سےاوپرکوئی طاقت نہیں پس توہی اُنکی
مددفرما!)
یہ منظردیکھ کرمجھےپتہ چلاکہ پریشانی اوراضطراب کاایک جہاں اوربھی ہےجہاں
درندگی اور ظلم وستم کی ایک نئی تاریخ لکھی جارہی ہے،جہاں انسان
کٹتےہیں،جلتےہیں اورراک ہوجاتےہیں،جہاں ماں باپ اپنےپیاروں کوظلم کی چکی
میں پستےہوئےدیکھ کرصرف اپنی بےبسی تک رہےہوتےہیں...اوربس... پھر
قربان جاؤں اُس عقیدےپرجو دینِ اسلام نےہمیں سمجھایاہے
جس کی بدولت انسان کاغم خوشی میں بدل جاتاہےٹوٹےہوئےدل جڑجاتےہیں،اُداس
چہروں پرمسکراہٹ لوٹ آتی ہےاورزندگی کی رُکی ہوئی گاڑی پھرسےچلنےلگتی ہے
جی جی یہی نظریہ کہ نابالغ اولادمرنےکےبعدخلیلِ خداحضرت ابراہیم علیہ
السلام کی کفالت میں چلی جاتی ہیں،کہاں اِس گندےاورمہنگےمعاشرےمیں ہماری
تربیت وکفالت اورکہاں جنت کےباغات اورخلیل اللہ کی کفالت،،،
اوریہ کہ وہ اپنےوالدین کےلئےرب کےحضورسفارش کریں گی،
بظاہرنحیف وناتواں مگرگناہوں کےلئےٹرک بنےاس جسم کواگرہماری ادیبہ جہنم
سےآزادکراکرجنت لےجانےمیں کامیاب ہوجاتی ہےتواس سےبڑھ کرنفع بخش سودا
اورکیاہوسکتاہے
لیکن انسان کمزوریوں کاڈھانچہ ہے،،بڑاناشکراہے،،خوشیوں کوجلدبھول
جاتاہےپرغم کبھی نہیں بھولتا،اس لئےکبھی کبھی منہ سے نکل ہی جاتاہے
وہ میری ادیبہ وہ پیاری ادیبہ
دل کی چوٹوں نے کبھی چین سے رہنے نہ دیا
جب سرد ہوا چلی میں نے تجھے یاد کیا |