دین اسلام ایک فطری نطام زندگی کا نام ہے ، اس کی تعلیمات
انسانی فطرت کے عین مطابق ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں زمانے کی لچک اور اس
کیمختلف حالات ومراحل کی رعایت بھی ہے ۔ اس لئے آج سے ساڑھے چودہ صدی پہلے
نازل شدہ قرآن کی کوئی ایک آیت یا کوئی ایک فرمان رسول زمانے کے مخالف یا
انسانی فطرت سے متصادم نہیں ہے بلکہ اسلام اپنی اس بے مثال خوبی سے
غیرمسلموں کو اپنے آغوش میں آنے کی دعوت دیتا رہااور ضلالت وگمراہی سیبے
قرارومضطرب دل کلمہ شہادت پڑھ کر دامن اسلام میں محبت وخلوص، امن وراحت ،
اخوت وحلاوت ، عدل ومروت ، اخلاق ووفا اور نوروہدایت سے لذت اندوز ہوتا
رہا۔
آج جب کہ نیا اسلامی اور ہجری سال شروع ہوچکا ہے ،ایک بار پھر سے نزول قرآن
، بعثت نبوی، آمد خاتم الانبیاء والمرسلین اور دین اسلام پہ جان ودل قربان
کرنے والے عظیم المرتبت صحابہ کرام جن سے اﷲ راضی ہوئے اور وہ اﷲ سے ، کی
عظیم تاریخ اورتاریخ کے سنہرے اوراق نظروں کے سامنے آگئے ۔ اﷲ کا لاکھ لاکھ
شکر ہے کہ اسلامی سال ایک ایسے مہینہ سے شروع ہوتا ہے جسے تخلیق کائنات سے
اﷲ تعالی نے حر مت وتقدس سے نوازا ہے ،اس مہینہ کو نبی ﷺ نے شہراﷲ یعنی اﷲ
کا مہینہ قرار دیا ہے ۔اس کی قدر ومنزلت کفارومشرکین بھی کیا کرتے تھے ۔ اﷲ
کا فرمان ہے :
إِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُورِ عِندَ اللَّہِ اثْنَا عَشَرَ شَہْرًا فِی کِتَابِ
اللَّہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْہَا أَرْبَعَۃٌ
حُرُمٌ ذَٰلِکَ الدِّینُ الْقَیِّمُ فَلَا تَظْلِمُوا فِیہِنَّ أَنفُسَکُمْ
وَقَاتِلُوا الْمُشْرِکِینَ کَافَّۃً کَمَا یُقَاتِلُونَکُمْ کَافَّۃً
وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّہَ مَعَ الْمُتَّقِینَ (التوبۃ: 36)
ترجمہ: اﷲ نے جب سے زمین وآسمان پیدا فرمائے ہیں اس وقت سے لے کر اسکے ہاں
کتاب اﷲ میں مہینوں کی کل تعداد بارہ ہے جن میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں
' یہ دین قیم ہے ' لہذا تم ان میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو اور تمام تر
مشرکین سے قتال کرو جسطرح وہ تم سب سے قتال کرتے ہیں اور جان لو کہ یقینا
اﷲ تعالی پرہیز گاروں کے ساتھ ہے ۔
نئے ہجری سال کے آغاز سے ہمارے ذہن میں ہجرت نبوی کی یاد تازہ ہوجاتی ہے ،
یہ ہجرت کفر سے اسلام کی طرف تھی ، یہ ہجرت اسلام کی سربلندی اور اعلائے
کلمۃ اﷲ کے لئے تھی ۔ قربان جائیے ان پاک باز نفوس پرجنہوں نے اسلام کی
حفاظت اور کلمہ کی سرفرازی کے لئے تن ، من دھن کی بازی لگادی ۔ نہ مال
دیکھا، نے گھربار کی پرواہ کی ، نہ آباء واجداد کی محبت اسلام پہ غالب آسکی
، بس اﷲ اور اس کے رسول کی محبت سے سرشار ہوکر اسلام کی سربلندی کے لئے سب
کچھ چھوڑ کر ایک آوازمحمدی پہ لبیک کہتے ہوئے مکہ مکرمہ سے یعنی البلد
الامین ترک کرکے مدینہ طیبہ کی طرف سفر ہجرت اختیار کیا۔ جب انصاریوں کا یہ
قافلہ مدینہ پہنچا تو انصار ومہاجرین کی اخوت ومحبت قابل دید تھی ، دنیا کی
تاریخ میں کسی قوم میں انصاومہاجرین جیسی اخوت وبھائی چارگی کی ایسی مثال
نہیں ملتی ۔ انصاریوں میں اپنے مال وجائداد اور گھربار بلکہ زندگی کی ہرایک
چیز میں مہاجرین کو شریک وشامل کیا ۔ نئے اسلامی سال کی آمد پہ کفر سے
اسلام کی ہجرت کی یاد تازہ ہونے کے ساتھ انصاریوں کا اپنے مہاجرین بھائیوں
کی دل کھول کر مدد کرنا اور خود پہ انہیں ترجیح دینا بھی خوب یاد آتا ہے ۔
آج اگر مسلمان اسلام کی سربلندی کے لئے اسی طرح قربانی دینے پر آمادہ
ہوجائے اور اپنے مظلوم ومجبور بھائیوں کی امداد کرے تو دنیا کے کسی خطہ میں
مسلمان کمزور نہیں رہیں گے اور ان پرکبھی بھی کفارومشرکین ظلم نہیں کرسکتے
۔ دشمنوں کے دل میں جیسے پہلے ہمارا رعب ودبدبہ قائم تھا پھر سے قائم
ہوجائے گامگر افسوس مسلمان ہی مسلمانوں کو مٹانے،کمزور کرنے اور ٹکڑوں میں
تقسیم کرنے پہ تلا ہے ، یہی وجہ ہے کہ آج ہم ہرجگہ پسپا اور کفار سے سہمے
ہوئے ہیں اور کفار ہم پہ غلبہ پالیا ہے۔ اﷲ ہمارے حال پہ رحم فرمائے اور
آپس میں اخوت ومحبت پھر سے بحال کردے ۔
نیا اسلامی سال دستک دے چکا ہے ، ہم نے نئے سال میں قدم رکھ کے حیات مستعار
سے ایک سال کا قیمتی عرصہ کم کرلیا ہے ۔ مسلمانوں میں موجود مختلف فرقوں کے
حالات ، زمانے کا پس منظر، دنیا میں انسانوں کے ہاتھوں انسانیت کی خوفناک
تباہی ، ظلم وعدوان، شراب وکباب، عیاشی وزناکاری اور نیکی کی پستی اور
برائیوں کا عروج ہماری نظروں کے سامنے ہے ۔ ایسے حالات میں نئے سال میں قدم
رکھتے ہوئے ہمیں کن باتوں کو دھیان میں رکھنا چاہئے یا نئے ہجری سال کا
ہمیں کس انداز میں استقبال کرنا چاہئے ؟ ایک اہم سوال ہمارے ذہن میں کھٹکتا
ہے اسی کا مختصر جواب سطور ذیل میں دینے کی خاکسار نے کوشش کی ہے ۔
(۱) احساس کم مائگی : عام طور سے لوگوں میں خیال کیا جاتا ہے کہ نیا سال
آنے سے وہ ایک سال بڑا ہوگیا،یہ بڑکپن لوگوں کے لئے دھوکہ کا سبب بناہواہے
۔ ایک بڑا دھوکہ تو یہ ہے کہ ہرنئے سال کی آمد پہ اپنی پیدائش مناکر خود کو
بڑا منانے اور بنانے کی جھوٹی کوشش کرتا ہے جبکہ حقیقتا وہ ہرنئے سال کی
آمد پہ ایک سال چھوٹا ہوا کرتا ہے ۔ یہ احساس ہوجائے تو لوگ اپنی پیدائش
مناناچھوڑ دے ۔ کون اپنی موت کی خوشی منائے گا ،آدمی زندگی کے جتنے سال
گزارتا ہے وہ موت سے اتنا ہی قریب ہوجاتاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں
پیدائش منانا جائز نہیں ہے ۔ جب حقیقت یہ ہے کہ نیا سال ہماری زندگی سے ایک
سال کم کرتا ہے تو مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں بے بضاعتی کا احساس ہونا
چاہئے ۔ اس با ت کا احساس ہونا چاہئے کہ دنیا کی زندگی میں انجام دئے گئے
عمل پہ آخرت کی کامیابی وناکامی کا انحصار ہے جبکہ ہم سال کے بارہ مہینوں
میں غفلت کی ردا اوڑھیرہے ، کل کی ہمیشگی والی زندگی کے لئے کچھ نہیں
کیا،ہمارا ماضی وحال بالکل تاریک ہے آخرت میں کیسے نجات پاؤں گا؟ دنیاوی
زندگی کو ہم نے لہوولعب کا ذریعہ سمجھ لیا تھا حالانکہ یہی زندگی آخرت
کوسنوارسکتی ہے ،کل مجرم لوگ رب کے سامنے کہیں گے :
رَبَّنَا أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا إِنَّا
مُوقِنُونَ (السجدۃ:12)
ترجمہ:اے ہمارے رب ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا پس ہمیں دوبارہ دنیا میں بھیج
دے تاکہ ہم نیک عمل کریں اب ہمیں یقین آ گیا ہے۔
رب کعبہ کی قسم اگر یہ احساس شدت سے پیدا ہوگیا ،اپنے اعمال کی قلت کا
اندازہ لگالیااور آخرت کے تئیں فکر پیدا رلیا تو نیا سال کا استقبال نیکیوں
کی راہ پہ چلنے کا عزم مصمم سے کریں گے ۔
(۲) نفس کا محاسبہ : مومن کے جو اوقات گزرتے ہیں ان کا ہمیشہ محاسبہ کرتا
رہتا ہے ، یہی محاسبہ ہمارے ایمان کو تازہ رکھے، گا ،خوف الہی پیدا کرتا
رہیگا، فکرآخرت کی رمق ماند نہیں ہونے دے گا اور مسلسل عمل صالح پر گامزن
رکھے گا۔ زندگی سے ایک سال کی کمی اور عمل صالح کی قلت کا احساس کرکے کل کی
تیاری کے لئے پہلی زندگی سے آنے والی زندگی کو بہتر بنانے کی ہم بھرپورکوشش
کریں گے ۔ اﷲ تعالی کا فرمان ہے :
یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّہَ وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا
قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّہَ إِنَّ اللَّہَ خَبِیرٌ بِمَا
تَعْمَلُونَ (الحشر:18)
ترجمہ: اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرو اور ہر شخص کو دیکھنا چاہیے کہ اس نے کل
کے لیے کیا آگے بھیجا ہے، اور اﷲ سے ڈرو، کیونکہ اﷲ تمہارے کاموں سے خبردار
ہے۔
مومن کا اس بات پر ایمان ہے کہ اﷲ تعالی ہماری زندگی کا حساب لے گا اس لئے
اﷲ کے سامنے حساب پیش ہونے سے پہلے خود ہم اپنااحتساب کرلیں ،جہاں ہم سے
غفلت ہوئی،خطا سرزد ہوئی، گناہ کا ارتکاب ہوگیا ، اﷲ تعالی بہت معاف کرنے
والا ہے اس سے معافی طلب کرلیں وہ یقینا معاف کردے گا۔ اگر گناہ کی پوٹری
لیکر اس دنیا سے چلے گئے تو پھر وہاں توبہ کا موقع نہیں ملے گا۔ اس لئے
ہوشیار وہ ہے جو اپنا محاسبہ دنیا میں ہی کرلے تاکہ کل قیامت میں حساب کے
دن ،رب اورسب کے سامنیشرمندہ نہ ہونا پڑے ۔
(۳)وقت کی قدرومنزلت : نئے سال کے استقبال پہ ہمیں وقت کی قدر کرنا بھی
سیکھنا ہوگا،ویسے مومن وقت کا پابند ہوتا ہے مگر کبھی کبھی زمانے کی
چکاچوند اور اس کی دل فریبی کا شکار ہوکر عیش وعشرت اور رنگ رلیوں ہی کو
زندگی سمجھ لیتا ہے ۔ ایسے موقع سے ہمیں اپنے اندر یہ شعور پیدا کرنا ہے کہ
زندگی کا ایک ایک لمحہ رب کی مرضی کے مطابق گزرنا چاہئے ، دنیا فانی اور اس
کی دل فریبی دھوکہ دینے والی ہے ،یہاں ہم مسافر کی طرح زندگی گزاریں ، ہر
لمحہ آخرت کی طرف کوچ کرنے کے لئے تیار رہیں،یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب ہمارا
وقت اﷲ کی رضا کے کام میں گزرتا رہاہوگا۔ نبی ? کا فرمان ہے : کُن فی
الدُّنیا کأنَّکَ غَریبٌ أو عابرُ سبیلٍ وعدَّ نفسَکَ فی أَہْلِ
القبورِ(صحیح الترمذی:2333)
ترجمہ: تم دنیا میں اس طرح رہو گویا کہ تم مسافر ہو یا راہ گیر ہو، اور تم
اپنا شمار ان لوگوں میں کرو جو دنیا سے گزر گئے ہیں۔
یہ حدیث ہماری آنکھ کھولنے کے لئے کافی ہے ، اس کے الفاظ "وعدنفسک فی اھل
القبور " یعنی خود کو مردوں میں شمار کروسے نصیحت حاصل کرتے ہوئے وقت کی
قدر کریں اور اس کا استعمال جائز طریقے سے کریں ۔ کھیل کود،موج مستی،
لایعنی گھوم گھام اور فضول کاموں میں وقت کے ضیاع سے پرہیز کریں۔
(۴)محرم الحرام میں ہونے والی بدعات کا خاتمہ : چونکہ اسلامی سال کا آغاز
حرمت والے مہینہ سے ہورہاہے اس لئے اس کا احترام کرنا ہمارے اوپر واجب ہے
مگر افسوس کہ مسلمانوں کے ایک بڑے طبقہ نے عظمت وتقدس والے مہینوں کو پامال
کیا اور اس میں شیعہ کی مشابہت اختیار کرتے ہوئے طرح طرح کی بدعات وخرافات
کو انجام دیا۔ شہادت حسین رضی اﷲ عنہ کے نام پہ ماتم، تعزیہ ، عزاداری،
نوحہ وزاری،قوالی ومرثیہ ،دیگیں اور سبیلیں ، نحوست وعزا کا اظہار، شہداء
کی نذرونیاز، جسم لہولہان کرنا، عورتوں ومردوں کا اختلاط اور ناچ گانے ،
ڈھول تماشے وغیرہ امت میں رواج دئے ،یہ سارے کام نوایجاد اوربدعات کے قبیل
سے ہیں ان سب کا ٹھکانہ جہنم ہے ۔ اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ احترام والے
مہینے کا احترام کرے جس طرح اہل زمانہ نے کیاہے ۔ اﷲ کے حدود کی پامالی
عذاب کا پیش خیمہ ہے ۔ اﷲ تعالی امت مسلمہ کو دین کی صحیح سمجھ دے کہیں
ایسا نہ ہوکہ ان بدعات کے ارتکاب سے اﷲ امت پر عذاب عام کردے ۔
(۵)نئے سال کا آغاز اورمحرم کے روزے: روزہ شہوتوں کو توڑنے والا اور دل میں
ایمان وعمل صالح بیدار کرنے والا بہترین وسیلہ ہے ۔ محرم الحرام یعنی سال
کا پہلا مہینہ جہاں اس کی عظمت اپنی جگہ مسلم ہے وہیں فرمان رسول سے اس کی
عظمت مزید دوبالا ہوجاتی ہے ۔ آپ ﷺ فرماتے ہیں:
أفضلُ الصیامِ ، بعدَ رمضانَ ، شہرُ اﷲِ المحرمِ . وأفضلُ الصلاۃِ ، بعدَ
الفریضَۃِ ، صلاۃُ اللیلِ(صحیح مسلم:1163)
ترجمہ: رمضان کے بعد سب سے افضل روزے ماہِ محرم کے روزے ہیں اور فرض نمازوں
کے بعد سب سے افضل رات کی نماز (تہجد) ہے۔
اوپر والی قرآنی آیت ہمیں بتلاتی ہے کہ محرم کا احترام کرنا چاہئے اوریہ
حدیث ہمیں بتلاتی ہے کہ ہمیں اس ماہ مبارک میں کثرت سے روزہ رکھنا چاہئے ،
یہ روزے رمضان کے بعد افضل روزے ہیں ۔ جو روزہ کے بجائے اس ماہ میں دیگیں
چڑھاتے ہیں ، سبیلیں تقسیم کرتے ہیں ، قومہ اور بریانی سے پیٹ بھرتے ہیں ان
کے لئے لمحہ فکریہ ہے ۔
اگر ہم اس ماہ مقدس میں کثرت سے روزہ نہیں رکھ سکتے تو کم ازکم عاشوراء
محرم کا روزہ رکھیں جو سابقہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہے ۔نواسہ رسول
امام حسین رضی اﷲ عنہ سے اگر سچی عقیدت ہے تو ان کے نانا کی سنت کی پیروی
کریں اور ڈھول تماشہ ،گانے باجے ، رقص وسرود ، مرغ مسلم اور موج ومستی کی
بجائے عاشوراء ( نو اور دس محرم) کا روزہ رکھیں ۔ اصل سنی کون ہے ؟، اہل
السنہ والجماعۃ کہلانے کا حقدار کون ہے؟ عاشوراء کے روزہ سے پتہ چل جائے
گا۔ ہم یہ بات بھی دعوی کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ سیدنا حسین رضی اﷲ عنہ بھی
اپنے نانا کی سنت پہ چلتے ہوئے عاشوراء کا روزہ رکھتیرہے ہوں گے ۔ لہذا سچے
سنی بنیں اور جھوٹا دعوی چھوڑ دیں ۔
(۶)نئے سال کی شروعات عزم واستقلال سے : اسلام میں نوحہ اور عزاداری کی
گنجائش نہیں ہے اور سال نوکا استقبال ماتم ونوحہ کی بجائے نئے ولولہ خیزعزم
واستقلال سے کریں ۔ امام حسین رضی اﷲ عنہ کی سیرت سے پہاڑ جیسے عزم
واستقلال کا پتہ چلتا ہے ، ان کی شہادت جہاں مسلمانوں کے لئے ماتم کی بجائے
سربلندی کی علامت ہے وہاں کربلا کا سفر عزم مصمم کی ذریں تاریخ بھی ہے ۔ اس
تاریخ سے سبق لیتے ہوئے ہمیں آنے والا سال اسی طرح اسلام کی سربلندی کے لئے
عزم وحوصلہ بیدار کرکے شروع کرنے کی ضرورت ہے ۔
(۷)نیا سال کا آخری پیغام : مسلم قوم کی اپنی الگ پہچان اور الگ شناخت ہے ۔
اس کے پاس اﷲ کا قانون، نبی کی پاکیزہ تعلیمات اور صحابہ کی انمول سیرت ہے
، ہمیں کسی قوم کی کسی چیز میں نقالی کی ضرورت نہیں ہے ۔ آج ہم نیہجرت اور
اس کے اسباق بھلادئے ، ہجری کلنڈر کا استعمال ترک کردیاجو اپنی مثال آپ
ہیاور کلینڈرمیں ،طورطریقے میں غیروں کی نقالی شروع کردی ۔ جب عیسوی سال
آتا ہے تو" ہپی نیو ایر "مناتے ہیں ، پکنک پہ جاتیہیں اور طرح طرح کے رسم
ورواج انجام دیتے ہیں ۔ معلوم ہونا چاہئے کہ ہمارا نیا سال عیسوی نہیں ہجری
ہے اور اس کی مبارک باد دینا اسلام میں جائز نہیں ہے ہاں نئے سال کی دعا
آئی ہے اسے پڑھنا چاہئے ۔
اﷲم أدخلہ علینا بالأمن والإیمان، والسلامۃ والإسلام، وجوارمن الشیطان
ورضوان من الرحمن۔
ترجمہ:اے اﷲ ! اس مہینے یا سال کو ہمارے اوپرامن، ایمان، سلامتی اور اسلام
کے ساتھ اور شیطان کی پناہ اور رحمن کی رضامندی کے ساتھ داخل فرما۔
حوالہ مع حکم : معجم الصحابہ للبغوی رقم :1539، طبرانی میں موجود روایت
ضعیف ہے مگر معجم الصحابہ کی یہ روایت موقوفا صحیح ہے جیساکہ حافظ ابن حجر
رحمہ اﷲ نے الاصابہ میں ذکرکیا ہے۔
ساتھ ساتھ جس طرح دسویں محرم، رمضان المبارک اور ایام حج میں ہجری کلینڈر
کا خیال کرتے ہیں اسی طرح پورے کام کاج میں بلکہ سالوں اسے ازبر رہنا چاہئے
۔ اس سے ہماری عبادت اور عبادتوں کے اوقات جڑے ہوئے ہیں ۔ ایک اور بات
دھیان میں رہے کہ نیا سال خواہ ہجری ہو یا عیسوی اس کو منانے کا کوئی خاص
طریقہ اسلام میں جائز نہیں ہے ، نہ کوئی پکنک ، نہ سیروسیاحت اور نہ ہی
کوئی دعوت وفنکشن ۔ اس لئے نئے سال کی آمد پہ کوئی خاص عمل انجام نہیں دینا
چاہئے ۔ |