پیغام کربلا

واقعہ کربلا حق و باطل کے درمیان ہونے والا عظیم معرکہ تھا۔ جس نے ثابت کر دیا کہ حق ہمیشہ غالب آتا ہے اور باطل کو مٹنا ہی ہوتا ہے۔ واقعہ کربلا زمین پر عظیم ترین ہستیوں کا حق کے لیے جانیں قربان کر دینے کی یاد دلاتا ہے اور ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ حق پر قائم رہتے ہوئے کٹ تو جانا چاہیے، لیکن باطل کے سامنے کبھی جھکنا نہیں چاہیے۔ واقعہ کربلا ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ مشکل میں ہمیشہ اﷲ کو ہی پکارنا چاہیے اور اسی کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ اﷲ پر توکل رکھنا چاہیے، کیونکہ اس کی نصرت ہمیشہ یقین کرنے والوں کے ساتھ ہوتی ہے۔ اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی تعمیل میں اپنی جان، مال اولاد سب کو قربان کرنی پڑے تو کردینی چاہیے، کیونکہ اس جان کی حقیقت پیدا کرنے والے رب کے حکم کی تعمیل کے سوا کچھ نہیں ہے، اس کا اجر مرنے کے بعد ہی ملے گا۔ واقعہ کربلا یہ درس بھی دیتا ہے کہ اگر آپ حق پر ہیں تو دشمن کیسا ہی طاقتور ہو، دشمن کے مقابلے میں ڈٹ جائیں۔ خوف صرف اﷲ کا رکھیں۔ اﷲ کے سوا کسی کا خوف دل میں پیدا نہ کریں۔

حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ نے اپنی جان، مال اولاد سب کو قربان کر دیا، مگر نانا کے سچے دین کو بچا لیا۔ بھوک، پیاس، تکالیف سہہ لیں، مگر یزید کی بیت نہیں کی۔ جانیں قربان کردیں لیکن باطل کے سامنے جھکے نہیں۔ آپ اگر اس وقت باطل کے سامنے جھک جاتے تو اسلام کا نام لینے والا شاید آج کوئی نہ ہوتا۔ مگر آپ رضی اﷲ عنہ نے ثابت کر دیا کہ میں ابن علی اور نواسہ رسول ہوں۔ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے پیاروں کو پیاس کی شدت سے مرتا دیکھا۔ ظالموں کے خنجر سے قتل ہوتے دیکھا، زندہ انسانوں کو اپنی آنکھوں سے ذبح ہوتے دیکھا، مگر نواسہ رسول ثابت قدم رہے۔ باطل کے سامنے خود کو جھکنے نہیں دیا۔ آپ نے یہ بتا دیا کہ میں جگر گوشہ رسول ہوں۔ میری رگوں میں عظیم ہستی کا خون ہے۔ میری تربیت میرے نانا نے کی ہے۔ اسلام میرا اوڑھنا بچھونا ہے، جس کے لیے جان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
امام حسین رضی اﷲ عنہ نے کوفہ کی طرف جو خط بھیجا، اس میں فرمایا:
’’آپ دیکھ رہے ہیں کہ رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی سنت مٹ رہی ہے۔ بدعات پھیلائی جا رہی ہیں۔ تمھیں دعوت دیتا ہوں کہ کتاب اﷲ اور سنت رسول کی حفاظت کرو اور اس کی تنفیذ کے لیے کوشش کرو۔‘‘
آپ کے اس فرمان سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنی اور اپنے اہل وعیال کی جانوں کی قربانی فقط اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے پیش کی۔ جب انسان کے پیش نظر ایک عظیم مقصد ہو، تب وہ اس کے رستے میں آنے والے مصائب کے پرواہ نہیں کرتا۔ آپ نے حق کے لیے گردن کٹوا دی، مگر باطل کے سامنے جھکنے نہیں دی۔ واقعہ کربلا نے ہمیں درس دیا کہ حق کے لیے مر جانا کوئی مرنا نہیں، بلکہ شہادت کا مقام پا کر ہمیشہ زندہ رہنا ہے۔ جبکہ اقتدار کے لالچ میں حق کو چھوڑ دینا ہمیشہ کے لیے مر جانا ہے۔ اس واقعے سے یہ پیغام بھی ملتا ہے کہ حالات کیسے ہی ہوں، دشمن نے چاروں طرف سے گھیرا ہو، سجدہ تب بھی ایک اﷲ کے لیے ہے۔ اﷲ کی محبت میں سب کچھ قربان کر دینا اور اﷲ کی اطاعت میں اس کے حکم پر سر تسلیم خم کرنا ہی پیغام کربلا ہے۔

آج امت نے حضرت امام حسین کی قربانی و شہادت کے مقصد کو بھلا دیا ہے۔ بے پناہ بدعات اور خرافات شروع کر لی ہیں، جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ لہٰذا یوم عاشورہ کے دن روزہ رکھ کر ان لوگوں کا رد کرنا چاہیے جو اس دن امام حسین رضی اﷲ عنہ کے نام پر بدعات کو فروغ دیتے ہیں اور ایسے کام کرتے ہیں جن کا حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ کی سنت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ روتے پیٹتے اور اپنے کپڑے پھاڑ لیتے ہیں۔ افسوس کا اظہار کرتے ہیں، حالانکہ شہادت تو خوشی کی بات ہوتی ہے، اس پر پیٹنا نہیں چاہیے۔ یہ سب من گھڑت چیزیں ہیں۔ ان سب باتوں کا شہادت امام حسین سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ شہادت حسین رضی اﷲ عنہ کا مقصد غلبہ حق کے لیے ڈٹ جانا ہے اور باطل کو مٹا کر دم لینا ہے۔ اﷲ اور اس کے رسول کی پیروی ہر صورت کرنی ہے۔ یوم عاشور کے روزے کی فضیلت ہے اور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اس دن روزہ رکھنے کی امت کو تلقین کی ہے۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے یوم عاشور(10محرم) کا روزہ رکھنے کا حکم دیا ہے۔ صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم نے عرض کیا یا رسول اﷲ اس دن کی تو یہود و نصاری بھی تعظیم کرتے ہیں تو نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا آئندہ سال ہم اس کے ساتھ 9محرم کا بھی روزہ رکھیں گے، لیکن اگلے سال آپ کا وصال ہوگیا، ورنہ آپ روزہ ضرور رکھتے۔ ہمیں چاہیے 9،10 محرم کو روزہ رکھیں اور محرم الحرام کے بابرکت مہینے کی تعظیم کریں، اس میں پائی جانے والی بدعات پر عمل نہ کریں۔

Mariyam Hafeez
About the Author: Mariyam Hafeez Read More Articles by Mariyam Hafeez: 3 Articles with 2906 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.