کلاڈ لیوی سٹراس(1908-2009)کا شمار فرانس کے ممتاز
نقادوں اور ادیبوں میں ہوتا ہے ۔ وہ سال 1908میں بلجیم میں ایک فرانسیسی
یہودی خاندان میں پیدا ہوا ۔علم بشریات ،علم نسلیات اور ساختیاتی بشریات کے
ماہر کی حیثیت سے اس نے جن فکر پرور اور بصیرت افروز مباحث کا آغاز کیا
،اُنھیں پُوری دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ۔اس رجحان ساز نقاد نے
جدید لسانیات میں وہ کار ہائے نمایاں انجام دئیے جن کی بنا پر اسے ساختیاتی
فکرکے بنیاد گزار کا اہم مقام حاصل ہوا۔ اس کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف
میں اسے کالج ڈی فرانس (Collège de France) میں سماجی علمِ بشریات کے مسند
نشیں کے منصب( 1959-1982) پر فائز کیا گیا ۔ پیرس میں واقع کالج ڈی فرانس
جس نے سال 1530میں روشنی کے سفر کا آغاز کیافرانس میں اعلا تعلیم اور تحقیق
کی ممتاز جامعہ ہے ۔ ساختیاتی فکر میں اس کے تصورات کو کلیدی اہمیت حاصل ہے
اور اسے ساختیاتی بشریات کا موجد سمجھا جاتاہے ۔ فلسفہ، عمرانیات، علم
وادب،تحقیق و تنقید ،لسانیات،تاریخ ،علم بشریات،ساختیات اور سماجی خدمات کے
شعبے میں قدر خدمات انجام دینے کی بنا پر کلاڈ لیوی سٹراس کو متعدد اہم
اعزازات سے نوازا گیا۔ سال 1932میں اس کی شادی ہوئی۔ اس کی اہلیہ ڈینا لیوی
سٹراس (Dina Lévi-Strauss) نے بھی علم بشریات،نسلیات،عمرانیات ،فلسفہ اور
تاریخ میں اپنی صلاحیتوں کا لو ہا منوایا۔اپنی اہلیہ ڈینا(1911-1999) کے
ساتھ مِل کر اس نے سماجی کاموں اور رفاہی سر گرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ
لیا۔ کلاڈ لیوی سٹرا س اور ڈینا میں سال 1939میں علاحدگی ہو گئی جو سال
1945میں طلاق پر منتج ہوئی۔ پہلی شادی کی ناکامی کے بعدکلاڈ لیوی سٹرا نے
روز میر ی المو ( Rose Marie Ullmo)سے سال 1946 میں عقد ثانی کر لیا۔ سال
1954میں اس کی تیسری شادی مونیک رومن( Monique Roman ) سے ہوئی ۔ دوسری اور
تیسری بیوی سے اس کا ایک ایک بیٹا پیدا ہوا ۔اب یہ نوجوان عملی زندگی میں
فعال کردار ادا کر رہے ہیں ۔
کلاڈ لیوی سٹراس نے اس حیران کن انکشاف سے دنیا کو چو نکا دیا کہ اُجاڑ
کھنڈرات، جنگلوں،ویرانوں اورصحراؤں میں جہاں زندگی پتھر کے زمانے کا ماحول
پیش کرتی ہے وہاں کے مکینوں کے اذہان کی ساخت بھی اسی نوعیت کی ہوتی ہے
جیسی شہروں کی چکا چوند کے پُر تعیش ماحول کے عادی اور بلند و بالا ایوانوں
کے مکینوں کے ذہنوں کی ساخت ہوتی ہے ۔ انسانوں کے اذہان کی ساخت کے حوالے
سے وہ شہر اور بَن کے کسی امتیاز کو خاطر میں نہیں لاتا۔ اس نے واضح کیا کہ
انسانی خصوصیات ہر جگہ یکساں رہتی ہیں اور مقامات کے بدلنے سے ان کی ذہنی
کیفیت میں کوئی تغیر رونما نہیں ہوتا ۔اس کا خیال تھا کہ ثقافت کے سب مادی
مظاہر انسانوں کے مرہونِ منت ہیں ۔یہ نسل انسانی ہی ہے جس کی بھر پور شرکت
سے ثقافت نمو پاتی ہے اور ترقی کے مدارج طے کرتی چلی جاتی ہے ۔انسانوں کی
موثر فعالیت سے ایقان و عقائد کا ایک قابل ِ عمل نظام وضع ہوتا ہے جس کا
رسوم و رواج کے ساتھ انسلاک کر کے تہذیبی و ثقافتی ارتقا کو یقینی بنایا جا
سکتا ہے ۔یہی وہ عمل ہے جس کے معجز نما اثر سے ایامِ گزشتہ کی کتاب پر ہر
لمحے کی روداد رقم ہو جاتی ہے جسے آنے والی نسلیں حیرت و استعجاب،تجسس اور
پُر عزم انداز سے دیکھتی ہیں ۔ اس طرح ایامِ گزشتہ کی کتاب کے ا وراق فطرت
کے مقاصدکے بارے میں ادراکی نوعیت کے ہر قسم کے خدشات اور ہر عہد میں
رونماہونے والے حالات اور واقعات کاحقیقی منظر نامہ سامنے لاتے ہیں ۔ان
حقائق کی تفہیم قاری کے لیے منفر د تجربے کی نقیب ثابت ہوتی ہے ۔کسی بھی
خطے کی ثقافت اوراس سے وابستہ تمام مصنوعات خواہ ان کا تعلق مادی اشیا سے
ہو یا معاشرتی میلانات اور باہمی روّیوں سے ہو ان کے نمونے حیران کن انداز
میں اپنے جلوے دکھاتے ہیں۔فطرت کے بارے میں انسان کے خیالات ،جذبات اور
احساسات کواجزاکی شکل میں دیکھا جا سکتا ہے ۔فکر و خیال کے ان
نادرجواہرپاروں کو اجزا کی شکل میں دیکھا جا سکتاہے اور مردِ حر ولوۂ تازہ
کے اعجاز سے ان کو اپنی مرضی کے تابع بنانے پر قادر ہے ۔ایسی صورت میں
انسان ایّام کا مرکب بننے کے بجائے ایّام کے راکب کا کردارادا کرتا ہے ۔یہی
و ہ مر حلہ ہے جہاں انسان مہر و مہ و انجم کا محاسب بن کراپنی دنیا آ پ
پیدا کرنے کے لیے سرگرم ِ عمل ہو جاتا ہے ۔ ان خیال افروز مباحث کی بنا پر
کلاڈ لیوی سٹراس کوسکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والے نامور ادیب جیمز جارج
فریزر ( James George Frazer) اور جرمن ماہر علم بشریات فرانز بواس (Franz
Boas)کے ہم پلہ خیال کیا جاتا ہے ۔ ایک زیرک ماہر علم بشریات کی حیثیت سے
کلاڈ لیوی سٹراس نے تہذیبی و ثقافتی اقدار اور ان کے پسِ پردہ کار فر عوامل
کی تہہ تک پہنچنے کی مقدور بھر کوشش کی۔ اس کی علمی و تحقیقی کاوشوں کا
مرکزی نکتہ یہ تھا کہ روایتی قصے کے وسیلے سے انسان کی بصیرت اور ذہانت کا
کھوج لگایا جائے ۔اس کا خیال تھا کہ کسی بھی قوم کو یہ حقیقت فراموش نہیں
کرنی چاہیے کہ ثقافتی اقدار کے سوتے در اصل روایتی قصے (Myth)سے پُھوٹتے
ہیں۔اس نے اس جانب بھی متوجہ کیا کہ روایتی قصے (Myth)فکر ِ انساں کی جولاں
گاہ اورتخیل کی جو لانیوں کے بارے میں حقیقی معائر تک رسائی میں ممد و
معاون ثابت ہوتے ہیں۔ دیو مالا اور تقابلِ ادیان کے اہم موضوع پرجیمز جارج
فریز ر (1854-1941)کی تحقیقی و تنقیدی تحریروں سے فکری جمود کا خاتمہ ہوا ۔
بابائے جدید علم بشریات فرانز بواس (1858-1942)نے علم بشریات میں اپنے
بصیرت افروز مباحث سے ادبی حلقوں میں تہلکہ مچا دیا۔ان کو ہ پیکر دانش وروں
کی خدمات کے پیشِ نظر تاریخ ہر دور میں ان کے نام کی تعظیم کرے گی۔
اپنی ابتدائی تعلیم کلاڈ لیوی سٹراس نے پیرس میں لائی سی جانسن ڈی سیلی (
Lycée Janson de Sailly ) میں امتیازی کامیابیاں حاصل کر کے مکمل کی۔اس کے
بعد اس نے پیرس کی پبلک سیکٹرکی جامعہ سوربون(Sorbonne)کا رخ کیا۔یہاں سے
اُس نے سال1928میں فلسفہ میں اعلا ڈگری حاصل کیاور اپنی فقید المثال کا
میابی کے جھنڈے گاڑ دئیے ۔جلد ہی وہ فلسفہ کے بجائے علم بشریات میں گہری
دلچسپی لینے لگا۔ پیرس یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد کلاڈ لیوی
سٹراس شعبہ تدریس سے وابستہ ہو گیا ۔ روایتی قصوں اور علم بشریات کے گہرے
تعلق کے موضوع پر اسے بہت دسترس حاصل تھی ۔اسی سوچ کے اعجاز سے ساختیاتی
فکر کو مہمیز کرنے میں مد د ملی۔اس کا شمار سال 1970میں نمو پانی والی
ساختیاتی فکر کے بنیاد گزاروں میں ہوتا ہے۔اپنی علمی و ادبی خدمات کے
باوجود وہ زندگی بھر ستائش و صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے پرورشِ لوح
و قلم میں مصروف رہا۔ساختیات کے بارے میں وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ اس کا
تعلق اس عالمِ آ ب و گِل کے خارجی مظاہر ہی سے ہے ۔اس وسیع و عریض کا ئنات
کی مخلوق کو ساختیاتی عمل کا ادراک حواس خمسہ کے ذریعے ہوتا ہے اورکئی
جداگانہ خصوصیات کے اعجاز سے اس کی تفہیم ہوتی ہے ۔یہ جان لینا ضروری ہے کہ
جِس انداز میں ہمارے حواس خمسہ مشاہدات ،تجربات اور تصورات کے بارے میں
اپنے تاثرات کی ترسیل ہمارے دماغ کو کرتے ہیں ان کے ردِ عمل کے طور پر
انسانی ذہن بھی ان کی ترجمانی کی سعی کرتا ہے ۔اس تمام عمل کوسمجھنے کے لیے
یہ ایک مثالی نمونہ ہے کہ وقت اور خلا جیسے پیہم رواں تصورات کے تسلسل کو
لمحوں کی گرفت میں لے کر اپنی آزاد مرضی سے اپنے ذہن اور نہاں خانۂ دِل میں
روک کر اسے الگ ٹکڑوں یا اکا ئیوں میں تقسیم کر دیا جائے۔اس طرح ماحول کے
بارے میں ہماری ترغیبات اور ترجیحات کو ایسی شکل دی جا سکے گی جو مجرد اشیا
پر مشتمل ہو گی اور اس کے دائرۂ کار میں قابلِ شناخت ،نام اور درجہ رکھنے
والی اشیا ہی ہوں گی۔پرِ زمانہ تو پروازِ نور سے بھی کہیں تیز ہے اس کے زیر
ِ اثر مختلف واقعات کا تواتر اورانداز نئے آ ہنگ سے جلوہ گر ہو گا۔
کلاڈ لیوی سٹراس کے ممتاز معاصرین میں ژاں پال سارتر ،(Jean-Paul Sartre)،
سمون ڈی بیوئر(Simone de Beauvoir)،مشل فوکاں (Michel Foucault)،رولاں
بارتھ (Roland Barthes)،ژا ک دریدا(Jacques Derrida) اور پا ل ریکوئر (
Paul Ricoeur)شامل ہیں ۔ اس کی پہلی تصنیف ’’ The Elementary Structures of
Kinship ‘‘ سال 1949میں شائع ہوئی ۔ اس کے بعد کلاڈ لیوی سٹراس ثقافت کے
دوسرے پہلوؤں پر تحقیق میں مصروف ہو گیا ۔اس کا مقصد یہ تھا کہ ان عوامل کا
احوال معلوم کیا جائے جن کے ذریعے ساختیاتی تجزیہ کو یقینی بنایا جا سکتا
ہے ۔ اس کے بعدسال 1955میں جب اس کی تصنیف Tristes tropiquesمنظر عام پر آ
ئی تو شہرت کی بلندیوں پر جا پہنچا ۔روایتی قصے،ثقافت،مذہب اور سماجی تنظیم
کے موضوع پر اس رجحان ساز نقاد کی تحریروں کو پُور ی دنیا میں سراہا گیا
۔ثقافتی نظام کی ابتدائی اکائیوں کا مطالعہ کرتے وقت اس نے علم بشریات
بالخصوص انسانیت کے وقار اور سر بلندی کو بہت اہمیت دی۔ادب اور فلسفہ میں
اس کی تحقیقات نے تخلیق او ر اس کے پس پردہ کارفرما لا شعوری محرکات کے
بارے میں نئی سوچ کو پروان چڑھایا۔سال 1958میں جب اس کے مضامین کا مجموعہ
کتابی صورت میں ’’Structural Anthropology‘‘شائع ہوا تو اس کی تحقیقی
کامرانیوں کا ہر سطح پر اعتراف کیا گیا۔ان مضامین میں کلاڈ لیوی سٹراس نے
ساختیاتی نظریات کو متعارف کرنے کی بھر پور کوشش کی ۔ ساختیات کی خوابیدہ
صلاحیتوں،رسوم و رواج اور باطنی تاثیرکا چشم کشا صداقتوں سے لبریزاحوال
کلاڈ لیوی سٹراس کی سال 1963میں شائع ہونے والی تصنیف ’’Totemism‘‘ میں
موجود ہے ۔
کلاڈ لیوی سٹراس نے تیس کتب لکھ کر ادب کی ثروت میں اضافہ کیا۔ اپنی اکثر
تنقیدی کتب میں مصنف نے اس جانب توجہ دلائی کہ ماہرین لسانیات اورماہرین
علم بشریات اپنے لیے جس لائحہ ٔ عمل کا انتخاب کرتے ہیں اس پر وہ اپنی
آزادانہ مرضی کے مطابق عمل پیرا ہوتے ہیں۔روشنی کا یہ سفر پیہم جاری رہتاہے
اور ان کے باہمی روابط سے نئے آفاق تک رسائی کے امکانات روشن ہوتے چلے جاتے
ہیں۔ اپنے تحقیقی عمل کے دوران میں وہ جن نتائج تک پہنچتے ہیں ان تک رسائی
حاصل کرنے کے لیے انھیں صبر آزما جد و جہد اور تجزیاتی مراحل سے گزرنا پڑتا
ہے ۔کلاڈ لیوی سٹراس نے ساختیاتی لسانیات کے دوسرے علوم سے گہرے تعلق کی
وضاحت کے بارے میں کوئی لگی لپٹی نہ رہنے دی۔اپنے موقف کی صراحت کرتے ہوئے
کہا اس نے بر ملا کہا کہ جہاں تک ساختیاتی لسانیات کی وسعت اور ہمہ گیر
افادیت کا تعلق ہے یہ سوشل سائنسز کی تعمیر و ترقی او رتزئین و آرائش میں
یقیناً وہی کردار ادا کرے گی جو نیو کلیر فزکس نے سوشل سائنسز کے ساتھ کیا
ہے ۔ لسانیات کی سماجی اہمیت کا ذکرکرتے ہوئے کلاڈ لیوی سٹراس نے لکھا ہے :
,, Language is a social phenomena,it is the one which manifests to the
greatest degree two fundamental characteristics which make it
susceptible of scientific study.In the first place,much of linguistic
behavior lies on the level of unconcious thought.When we speak,we are
concious of the syntactic and morphological laws of our language.,, (1)
برطانیہ سے تعلق رکھنے والے نامورماہر سوشل علم بشریات ایڈ منڈ لیچ (Edmund
Leach)نے بیسویں صدی کے عظیم ماہر علم بشریات کلاڈ لیوی سٹراس کے نظریات کا
عمیق مطالعہ کرنے کے بعد اپنے تجزیاتی مطالعات میں اس فاضل کے اسلوب کی
تحسین کی ہے ۔ایڈ منڈ لیچ(1910-1989)کوکلاڈ لیوی سٹراس سے بہت عقیدت تھی
مگر اپنے تجزیاتی مطالعات میں اس نے غیر جانب دارانہ انداز اپنایا ہے ۔اس
نے نہ صرف تاریخ اور اس کے مسلسل عمل پر نظر رکھی ہے بل کہ موضوع پر بھی
توجہ مرکوز رکھی ہے۔ کلاڈ لیوی سٹراس نے روایتی قصوں ، بنی نوع انسان ،ان
سے وابستہ علامات اور رشتہ داری (kinship)کی تھیوری پرسیر حاصل بحث کی ہے
۔اس کتاب میں مسائل کی تہہ تک پہنچنے میں احتیاط،اختصار اور جامعیت کو
ملحوظ رکھا گیا ہے۔ زبا ن کے نظام اور تکلم کے سلسلوں کے بارے میں کلاڈ
لیوی سٹراس کے نظریات کی وضاحت کرتے ہوئے ایڈمنڈ لیچ نے لکھا ہے :
,, Levi Strauss is not much concerned with the collective conciousness
of any particular social system;his quest rather is to discover the
collective unconcious of " the human mind" (l,esprit humain),and this
should apply not merely to speakers of one language but to speakers of
all languages. (2)
ایڈمنڈ لیچ نے عملی تنقید میں اپنے ممدوحکلاڈ لیوی سٹراس کے تصوارات کو
ہمیشہ پیشِ نظر رکھا ۔اس نے دیو مالا اور صحیفوں کے تجزیاتی مطالعہ میں
کلاڈ لیوی سٹراس کے تصورات سے بھر پور استفادہ کیا ۔اس مقصد کے لیے ایڈمنڈ
لیچ نے توریت کا پہلا باب منتخب کیا ۔اس باب میں آغازِ آفرینش کے موضوع پر
حقائق بیان کیے گئے ہیں۔اس باب کے تجزیاتی مطالعہ میں ایڈمنڈ لیچ نے روایتی
قصے بالخصوص اسطورمیں مستورزندگی کے اسرار و رموزپر نگاہ ڈالی گئی ہے ۔
اپنے تجزیاتی مطالعہ کے دوران میں ایڈمنڈ لیچ نے چشمِ تصور سے کلاڈ لیوی
سٹراس کو فردوسِ بریں کے باغات میں مٹر گشت کرتے دیکھا اور اس کا احوال
زیبِ قرطاس کیا۔اس تجزیاتی اسلوب کے وسیلے سے اس نے وجود اور عدم کے بارے
میں حقائق کی تہہ تک پہنچنے کی سعی کی ہے ۔اساطیر سے وابستہ اسی نوعیت کے
تصورات کلاڈ لیوی سٹراس کے اسلوب میں بہ کثرت موجود ہیں۔ بعض اوقات روایتی
قصے میں اساطیری روایات کی فراوانی اسلوب میں گرانی کا سبب بن جاتی ہے ۔یہی
وہ نا گہانی صورتِ حال ہے جہاں قاری کو یہ فکر دامن گیر ہوتی ہے کہ کلاڈ
لیوی سٹراس نے کون سی اُلجھن کو سلجھانے اور کون سا معما حل کرنے کی کوشش
کی ہے ؟ساختیات کی اسا س پر تجزیاتی مطالعہ کے ذریعے روایتی قصوں کی ریزہ
کاری اورقلزمِ معانی کی غواصی کر کے مطالب کے گہر ہائے آب دارکی تلاش میں
نکلنے والایہ فاضل سکوت کے صحراسے ملحق سرابوں میں اس طر ح سرگرداں دکھائی
دیتا ہے کہ اُسے کچھ سُجھائی نہیں دیتا۔شاید اسی مقام ِ شوق کے بارے میں
کہا جاتا ہے کہ یہاں انسانی فہم و فراست اور بصیرت محوتماشائے لبِ بام
دکھائی دیتی ہے ۔ فکر انسان کی ساخت اور پر داخت سے متعلق حقائق کا یہ
متلاشی اپنے افکار کے مدار میں اس طرح محصور ہو جاتا ہے کہ قاری کے لیے یہ
سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ کون سے عوامل تھے جن کے باعث وہ ماہرِ علم
بشریات جو انسانی بصیرتوں اور ذہنی صلاحیتوں کا کھوج لگانے کا داعی تھا خود
اپنی حقیقت کا شناسا نہ ہو سکا۔ انسانی فکر و خیال کی اس تہی دامنی کے بارے
میں کلاڈ لیوی سٹراس کچھ کہنے سے قاصر ہے ۔تاہم یہ تمام تجزیاتی عمل اُس
وقت ثمر بار ہوجاتا ہے جب قاری فکر انساں کا دھنک رنگ منظر نامہ دیکھنے کی
جستجو میں انہماک کا مظاہرہ کرتے ہوئے آگے بڑھتا ہے تو اس کا واسطہ کلاڈ
لیوی سٹراس کی سو چ کے مدو جزر سے پڑتا ہے جہاں اس ادیب کی تحقیقی وتنقیدی
بساط کی سیر شدہ کیفیت کے بارے میں کوئی ابہام نہیں رہتا۔
نو آبادیاتی دور کے مسموم ماحول اور پس نو آبادیاتی دور پر اس کے اثرات
کااحوال کلاڈ لیوی سٹراس کی سال 1955میں شائع ہونے والی تصنیف ’’Tristes
Tropiques‘‘ میں مذکور ہے ۔ اس کتاب میں کلاڈ لیوی سٹراس نے اپنی زندگی کے
سفر اور مہم جوئی کی لفظی مرقع نگاری کا حق ادا کر دیا ہے ۔ وہ سفر نامہ
نگاروں کی اس روش کو پسند نہیں کرتا جس میں سفر سے متعلق انتہائی معمولی
اور بے فائدہ معلومات کو شامل کر لیا جاتا ہے ۔عام سفر نامہ نگاروں کے
اسلوب میں جس مبالغہ آرائی اور خود نمائی کا غلبہ دکھائی دیتا ہے اس کے
باعث سفرنامہ نے مسافر نامہ کا رُوپ دھا ر لیا ہے ۔اس میں سفر کی رُوداد کم
اور مسافر کی بے داد زیادہ دکھائی دیتی ہے ۔ اس روش کو کلاڈ لیوی سٹراس
سفرنامہ نگاروں کی خست و خجالت سے تعبیر کرتا ہے ۔ کلاڈ لیوی سٹراس کی نازک
مزاجی کا یہ حال ہے کہ وہ ہر لمحہ خاطر ِ احباب کا خیال رکھتا ہے اور
آبگینوں کے ٹُوٹ جانے کے خوف سے اپنے مشاہدات کے بارے میں کچھ کہنے سے پہلے
کئی بار سوچتا ہے ۔ اپنے سفر اور مہم جوئی پر اسے جوبیزاری اور تاسف ہے ،اس
کی جھلک مصنف کے اسلوب میں دیکھی جا سکتی ہے ۔سفر اور مہم جوئی کے تلخ
تجربات کی بنا پر مصنف اِس صنف ادب سے ناخوش و بیزار دکھائی دیتاہے۔ اپنے
سفر کی تلخ یادوں کا ذکر کرتے ہوئے کلاڈ لیوی سٹراس نے ان مقامات کا حوالہ
دیا ہے جہاں زندگی آج بھی پتھر کے زمانے کا ماحول پیش کرتی ہے ۔پس ماندہ
اور دُورافتادہ علاقوں میں جہاں مواصلات کی مناسب سہولتیں موجود نہیں وہاں
کے مکین جن کٹھن حالات میں سانس گِن گِن کر زندگی کے دِن پُورے کرنے پر
مجبور ہیں اُن کے دِل کی خستگی اور شکستگی اورحالِ زبوں پر روشنی ڈالتے
ہوئے مصنف نے بتایا ہے کہ یہاں کے باشندے بڑے شہروں کے پُر تعیش ماحول سے
لا تعلق سے رہتے ہیں اور گردشِ ایام کے ہاتھوں یہ لوگ حالات کی قبروں کے
کتبے بن چکے ہیں۔اس کے باوجود ان کا نظام ربط باہمی سے چل رہا ہے جس کے
نتیجے میں یہ لوگ نرم خُو اور نرم دِل ہیں ۔ جھگیوں کے یہ مکین ایک دُوسرے
کے ساتھ گہرا میل جول رکھتے ہیں گویا زردوزی سے باہم گُتھے ہوئے ہیں،ایک ہی
چٹائی پر مِل کر بیٹھتے ہیں اور کبھی قصۂ غم ،محرومی کی حکایتیں یاساتھیوں
کی شکایتیں بیان نہیں کرتے ۔مصنف نے بعض جھگیوں کے مکینوں کو اس حال میں
بھی دیکھا کہ اُن کی کُٹیا کی بے سرو سامانی کے عیوب کو ڈھانپنے کے لیے
مخملیں گھاس اور ناریل کے پتوں کی جھالر کے سوا کچھ میسر نہ تھا۔
فطرت کے مظاہر اور ان کے اسرار و رموز کی تہہ تک پہنچنے کی تمنا کلاڈ لیوی
سٹراس کے اسلوب میں نمایا ں ہے ۔روایتی قصے (Myth) جس انداز میں رسوم و
رواج کی تفصیل اپنے دامن میں سمو لیتے ہیں وہ تہذیب و تمدن اور ثقافتی
ارتقا کی مثال ہیں۔کلاڈ لیوی سٹراس نے اس موضوع پر اپنے خیالات کی صراحت
کرتے ہوئے لکھا ہے :
,,Myths andrites are far from being ,as has often been held,the product
of man,s ,myth-making faculty,turning its back on reality.Their
principal value is indeed to preserve until the present time the remains
of methods of observation and reflection which were (and no doubt still
are )precisely adapted to discoveries of a certain type : those which
nature authorised from the starting point of a speculative organization
and exploitation of sensible world in sensible terms .,, (3)
کلاڈ لیوی سٹراس نے تصوراتی قصوں اور فکر انساں کے محسوس سے تصورات تک کے
سفر کا احوال جس باریک بینی سے زیبِ قرطاس کیا ہے وہ فکر و نظر کے نئے
دریچے وا کرتا ہے ۔ اظہار کی ابتدائی سوچ کی تشکیل در اصل طلب کے اظہار اور
تحکم کی ترتیب سے منسلک ہے ۔ تمنا کا دوسر ا قدم کہاں ہے اور سوچ کے مختلف
رُوپ کون سے ہیں یہ وہ سوال ہیں جن کا جواب دشتِ امکاں میں بھی کہیں نہیں
ملتا۔تصوراتی کہانیوں اور روایتی قصوں میں راوی اپنی مرضی اور قیاس کے
مطابق کچھ مواد شامل کر لیتا ہے جو مذکورہ روایتی قصے کے واقعات کے قریب
ہوتے ہیں ۔کلاڈ لیوی سٹراس نے اس امر کی جانب توجہ دلائی کہ دنیا کی ہر
زبان کے صر ف و نحو اور ڈسکورس میں ایسے نا گزیر ذرائع کی جستجو پر زوردیا
جاتا ہے جو اظہار و ابلاغ کے سلسلے میں اس زبان کی محرومی اور ذخیرۂ الفاظ
کی کمی کاضمیمہ بن کر ذوق سلیم کی تسکین کو یقینی بنا سکیں ۔ روایتی قصوں
میں طلسمِ ہوش رُبا کی کیفیت اور سائنسی انداز فکر میں بعد المشرقین ہے
۔جادو کو سائنس کا ایک بزدلانہ اور ہکلاتاہوا چربہ سمجھا جاتا ہے جو ایک
مربوط نظام کی تشکیل کا جتن کرتا ہے ۔جادو ایک ایسی جبریت کی موہوم اصلیت
کو فرض کر لیتا ہے جو سحر نگار کی چرب زبانی کے باعث بالآخرمتاثرہ شخص کے
گلے پڑ جاتا ہے ۔سائنس کا دارو مدار فکر وخیال کی مختلف سطحوں میں امتیاز
اور بُتانِ وہم و گُمان اورزندگی کے حقائق میں امتیاز اور ان کے درمیان حدِ
فاصل کے تعین پر ہے ۔
تمدنی زندگی میں جہاں تک قدر کا تعلق ہے جادو اور سائنس کے نظری اور عملی
نتائج بہت مختلف ہوتے ہیں۔ کلاڈ لیوی سٹراس نے اس جانب توجہ دلائی کہ اگر
قابل اعتبار کا میابی اور ہمہ گیر افادیت کو پیشِ نظر رکھا جائے توجادو کی
نسبت سائنس کا پلہ بھاری دکھائی دیتاہے۔فکر ِ انساں میں سائنس کی مطلق
العنان فرماروائی میں اس کا کوئی شریک و سہیم نہیں ۔یہ حقیقت اپنی جگہ
موجود ہے کہ وہ لوگ جو تخیل کی شادابی کے شیدائی ہیں انھیں یہ گمان گزرتا
ہے کہ بعض مقامات پرجادو اپنی حتمی پیش گوئی اور حیران کن تاثیر سے سائنسی
منظر نامے کو قدرے دُھندلا دیتاہے ۔شاید یہی وجہ ہے کہ سطحیت پر نظر رکھنے
والے سادہ لوح لوگ اسے جادو کی اثر آفرینی پر محمول کرتے ہیں ۔اس حقیقت سے
انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سائنس اور جادو دونوں کو ایک خاص نوعیت کی فعالیت
کی احتیاج ہے ۔جس کے بغیروہ کوئی نتیجہ سامنے لانے سے قاصر ہیں ۔بادی النظر
میں ان دونوں کی فعالیت کی نوعیت میں زیادہ بُعددکھائی نہیں دیتا مگرجس
معاشرت، انداز اور جن مواقع پر انھیں رُو بہ عمل لایا جاتا ہے اس سے ثابت
ہوتا ہے کہ ان دونوں میں واضح فرق موجود ہے ۔سائنس اور جادو کے باہمی تعلق
پر غور کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ تعلق اُن معروضی حالات اورخاص
کیفیات کانتیجہ ہے جن میں جادو اورسائنسی علوم کاظہور اورارتقا ہوا۔ماہرین
علم بشریات کی رائے ہے کہ سائنسی علوم کے ارتقا کی تاریخ زیادہ قدیم نہیں
۔اس کے بر عکس معاشرتی زندگی میں جادو کے چلن کی تاریخ ابلقِ ایام کے سموں
کی گرد میں اس طرح اوجھل ہو گئی ہے کہ کچھ سُجھائی ہی نہیں دیتا ۔ سائنسی
علوم کی ترقی اور افادیت کے بارے میں آ گہی کیتاریخ زیادہ طویل عرصے پر
محیط نہیں ۔اس لیے یہ کہناغلط نہ ہو گا کہ سائنسی ترقی کی مختصر تاریخ
سائنسی ترقی کے بارے میں کسی ٹھوس نتیجے پر پہنچنے کے لیے وافر شواہد فراہم
کرتی ہے جب کہ جادو کی کہانی اور اس کے پھیلاؤ کا معاملہ تاریخ کے طوماروں
میں دب گیا ہے ۔جدید سائنس نے گزشتہ چند صدیوں میں اپنے وجود کا اثبات کیا
ہے تاہم جاد و اور سائنس کی تاریخ کے موضوع پر ماہرین نسلیات نے ابھی تک
کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی۔اس سلسلے میں زمانہ قبل از تاریخ اورپتھر کے
زمانے کا خیال ذہن میں آتاہے ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ تمدنی زندگی
پر صدیوں سے جو جمودمسلط تھا جو پتھر کے زمانے کے ماحول اور جد ید سائنس کے
درمیان حائل سمجھاجاتاہے ،اس میں اس عالمِ آب و گِل کے مکینوں کا سلسلۂ روز
شب کیا ہو گا۔ کلاڈ لیوی سٹراس کا خیال ہے کہ اس زمانے میں بھی فکر و خیال
اور حکمت عملی کی یقیناً دو سطحیں رہی ہوں گی جن کے وسیلے سے فطرت کے مظاہر
اور اُن سے وابستہ جملہ اسرار و رموزتک رسائی کے امکانات کا جائزہ لیا جاتا
ہو گا۔ایک توخیال آرائی اور وہم و گماں ہے اوردوسرا ان کی حدود سے بچ نکلنے
کی جد و جہدسے عبارت ہے ۔یہی جادو اور سائنس کادائرۂ کار سمجھا جاتا ہے
۔جادو کا تعلق اوہام اور غیر محتاط سوچ کے سرابوں اور تشکیک کے عذابوں سے
ہے جب کہ سائنس نے سدامعروضی حقائق ہی کو زادِ راہ بنایا ہے ۔ کلاڈ لیوی
سٹراس نے سائنس اور دیو مالا کے موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے
لکھا ہے :
,,The real gap,the real seapration between science and what we might as
well call mythical thought for the sake of finding a convenient name
,although it is not exactly that-the real separation occurred in the
seventeenth and the eighteenth century.At that time ,with
Bacon,descartes,Newton,and others ,it was necessary for science to
builditself up against old generations of mythical and mythical
thought,and ,it was thought that science couled only exist by turning
its back upon the world of senses ,the world we see,smell,taste,and
perceive; the sensory was a delusive world,whereas the real world was of
mathematical properties which could only be grasped by the intellect and
which was entirely at odds with the false testimony of the senses.,,(4)
ساختیات پر غیر متزلزل یقینکلاڈ لیوی سٹراس کا بہت بڑا اعزازو امتیاز سمجھا
جاتا ہے ۔اس نے بنی نوع انسان کو فطرت کالازمی حصہ اور فطرت کے مقاصد کا
نگہبان اور حقیقی ترجمان قرار دیا۔اس کا خیال تھا کہ فطرت کے مظاہر سے
انسان کو منہا کر نا یا اسے اس عمل سے علاحدہ کرنا تصنع اور فریبِ نظر کے
سوا کچھ بھی نہیں ۔ اس کے بین مضامین تجزیات سے یہ تاثر قوی جاتا ہے کہ اس
نا تما م کائنات میں دما دم صدائے کن فیکوں سنائی دے رہی ہے اورنسل انسانی
کا وجو د اور بقا داخلی تنوع کے بغیر بعید از قیاس ہے ۔ اس نے ثقافتی تنوع
کی ہمہ گیر افادیت اور کلیدی اہمیت پرروشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس عالمِ آب
و گِل کی تمام مخلوق کی نمو اورارتقا ثقافتی تنوع کا ثمر ہے ۔ اس نے یہ
واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ معاصر سائنس اُس خلا کو پُر کرنے کی مساعی جاری
رکھے ہوئے ہے جو سائنسی علوم کے فروغ کے بعد رسوم و رواج ،تہذیب وثقافت اور
تمدن و معاشرت میں رُو نما ہو چکا ہے ۔ سائنسی توضیحات کا سہار ا لے
کرجذبات و احساسات سے متعلق زیادہ سے زیادہ معلومات کو معاشرتی زندگی کے
نظام میں ضم کرنے پر توجہ دی جا رہی ہے ۔وہ دِ ن گئے جب مبالغہ آرائی ،بے
پر کی اُڑانے اور حاشیہ آرائی کو کمالِ فن سمجھا جاتا تھا ۔آج کے دور میں
ہر شخص حرف صداقت پر یقین رکھتاہے ،ایسی صداقت جس کی وضاحت ہو سکے اور جس
کی افادیت مسلمہ ہو ۔مثال کے طور پر رنگ ،خوشبو اور حسن و خوبی کے استعاروں
ہی کو لے لیں جدید دور میں کیمیا دان اس امر کی صراحت کر دیتے ہیں کہ ہر
ذائقہ ،ہر مہک اور ہر عفونت کی ایک خاص کیمیائی ترکیب ہوتی ہے اور وہ ہمیں
اس کے پیدا ہونے کے اسباب اور اس کے اثرات کے بارے تمام معلومات فراہم کر
دیتا ہے ۔ ساختیاتی علم بشریات میں کلاڈ لیوی سٹراس کی دلچسپی نے اسے
بیسویں صدی کے اہم ترین دانش ور کے منصب پر فائز کر دیا ۔اس نے اس ساختیاتی
علم بشریات کے پیچیدہ طریق کار پر غور کیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ ہر قسم
کی ثقافت کی بنیادی ساخت ایک جیسی ہوتی ہے ۔یہی یکساں بنیادثقافتی روّیوں ،
مسلمات ،عقائد اور معائر کی تعریف کی استعدا دعطا کرتی ہے۔ اس نے دلائل سے
ثابت کیا کہ ثقافت کے ہر پہلو کو اس تعلق کی بناپر دیکھا جاسکتا ہے جو فطرت
میں جوڑوں کی شکل میں موجود ہے ۔ مثال کے طور پر زندگی اور موت،نشیب و
فراز،اُجالا اور اندھیرا، بڑا اور چھوٹاوغیرہ۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے
موجودہ دور میں علم بشریات کو انسانی زندگی اور ثقافت کی کلید سمجھا جاتا
ہے ۔ عملی طور پر دیکھا جائے تو مفاخرانہ نسلی تقابل،قوم پرستی،بنیاد
پرستی،کثرتِ وجود ،روشن خیالی ،مابعد جدیدیت ،تعلق داری،انسانیت نوازی،عالم
گیریت ،ساختیات ،رشتہ داری،انسانی ذہن اور روایتی قصوں کے موضوع پر کلاڈ
لیوی سٹراس کی تحریریں فکر و خیال کے اطمینا ن اور استحکام کی ضامن
ہیں۔کلاڈ لیوی سٹراس کو اس کے افکار کی تابانیوں کی بدولت ساختیاتی فکر کا
انتہائی موثر علم بردار سمجھا جاتا ہے جس کے افکا رکی باز گشت صدیوں تک علم
وادب کے ایوانوں میں گونجتی رہے گی ۔
مآخذ
1-Claude Levi Strauss: Structural Anthroplogy,Basic Books ,New
York,1963,Page 56-
2-Edmund Leach:Claude Levi-Strauss, Viking Press,New York,1970,Page 52-
3-Claud Levi Strauss:TheSavage Mind ,Nicolson,London, Page ,16-
4-Claude Levi Strauss: Mythology and Meaning ,Toronto ,1978.Page,6- |