تحریر: سیدہ ہاشمی شاہ،چکوال
رفعت بیٹی بات سننا؟ مجھے پانی تو لادے۔پیاس سے بری حالت ہو رہی ہے۔ ساجدہ
بیگم نے اپنی بہو کو آواز دیتے ہوئے کہا۔ کہاں ہو بیٹی کب سے آوازیں دے رہی
ہوں،ایک گھونٹ پانی ہی لادو، حلق میں کانٹے چبھ رہے ہیں۔ کچھ دیر انتظار کے
بعد انہوں نے ایک بار پھر بہو کو آواز لگائی۔ ٹی وی لاؤنج میں بیٹھی رفعت
نے سنی ان سنی کرتے ہوئے، مارننگ شو پر نظر جما دیں اور ریموٹ پکڑ کر ٹی وی
کا والیوم مزید بڑھا دیا ۔
تجھے پتا ہے نا سورج سوا نیزے پہ ہے ، ایک گلاس پانی لاکر دینے میں کتنا
وقت لگتا ہے۔ ساجدہ بیگم نے کاپنتے ہاتھوں کے ساتھ گلاس پکڑے ہوئے رفعت کو
احساس دلانے کی کوشش کی۔ لجاجت اس کے لہجے میں موجود تھی۔ دوسری جانب مجال
ہو کہ رفعت کے کانوں پہ جوں تک رینگتی۔ ساجدہ بیگم بہو کے پاس بیٹھ کر اسے
سمجھانے کے لیے لب کھولے ہی تھے کہ رفعت نے غصے سے ریموٹ پٹخا اور اٹھ کر
وہاں سے چلی گئی۔
یہ لے پانی، اس نے گلاس آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔ پورا دن تو بستر توڑتی رہتی
ہے۔ کام نہ کاج، نہ مجھے کوئی کام کرنے دیتی ہے۔ سارا دن تیری بک بک سنتے
گزر جاتا ہے۔ اس کے بعد مجھ سے پانی مت مانگنا۔ اس نے انگلی اٹھا کر وارننگ
دینے والے انداز میں کہا۔ ایک گھونٹ بھی نہیں دوں گی ، سمجھ گئی نہ بڑھیا ۔ستیاناس
کر دیا میرے شو کا ، سارا غصہ ما رننگ شو کے ختم ہونے کا تھا جو بیچاری
ساجدہ بیگم پر نکل گیا ۔
ساجدہ بیگم پچھلے 3سالوں سے فالج کی مریضہ تھیں۔ رفعت کا وجود ان کے لیے
غنیمت تھا۔ شادی کے کچھ سال رفعت کا رویہ ان کے ساتھ ٹھیک ہی تھا لیکن جب
سے وہ اس پر منحصر ہوئیں اس کا رویہ خراب سے خراب ہوتا چلا گیا ۔ اکلوتی
اور لاڈلی بہو ہونے کے ناطے وہ گھر کی مالکن کے خواب دیکھ رہی تھی ۔ساجدہ
بیگم کا وجود اب اس کے لیے کوئی حیثیت نہیں رکھتا تھا ۔ماں جی یا امی جان
کہہ کر بلانا تو دور کی بات بڑھیا، بڈھی نہ جانے کون کون سے القابات سے
بلاتی تھی۔
جب وہ اسے پکارتیں تو حسرت بھری نگاہوں سے آسمان پہ دیکھتے ہوئے کہتی کاش
اس بڑھیا کی زبان پر فالج پڑتا۔ ہر وقت کان کھاتی رہتی ہے، سارا دن دماغ
چاٹتی رہتی ہے۔ رفعت نے ماتھے پہ ہاتھ مارتے ہوے کہا۔ارشد گھر آیا تو رفعت
نے شوہر پر اپنا غصہ نکالنا شروع کردیا تھا۔ رفعت امی جان کے ساتھ اچھے
طریقے سے بات کیا کرو۔ ارشد نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔ تو کیسے بات کروں
آپ کی والدہ ماجدہ سے ، وہ طنز یا انداز میں بولیں۔ صبح سے شام تک تو میں
ساجدہ بیگم کی خدمت کرتی رہتی ہوں وہ تو نہ نظر آتی میرا انداز ضرور نظر
آجاتا ہے آپ کو۔ رفعت کا غصہ مزید بڑھ گیا تھا۔
ساجدہ بیگم نہیں، امی جان کہا کرو۔ ارشد نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔نہیں
ہیں یہ میری ماں ۔ میری ایک ہی ماں تھی جو کب کی مر کھپ گئیں۔ ویسے بھی ساس
کبھی ماں نہیں ہوتی ۔ رفعت بے نیازی بولی۔
تم بہو کے بجائے بیٹی بنو، ارشد کے انداز میں نرمی تھی۔ ہاں تم تو اپنی ماں
کی ہی طرفداری کرو گے۔ رفعت نے بات کاٹتے ہوئے کہا۔ طرفداری کی بات نہیں
میں سچ کہہ رہا ہوں اور ایک اور بات ، تم امی جان کے ساتھ اپنا رویہ درست
کرو ،ورنہ بہت برا ہوگا۔ارشد غصے سے کہتے ہوئے کمرے سے نکل گیا۔ ہونہہ!
ہوگیا برا میرے ساتھ اس بڑھیا کی وجہ سے۔ رفعت نے نخوت سے سر جھٹکے ہوئے
کہا ۔
نیلہ ( نائلہ) مجھے بھک ( بھوک) لگی ہے ، روٹی تو لا دے پتر۔ جی دادی ابھی
لائی ،نائلہ نے پیار سے کہا ۔ 8 سالہ نائلہ جو فرش پر اپنی گڑیوں سے کھیل
رہی تھی،فورا اٹھ کر چلی گئی۔ جیسے ہی رفعت کو پتا چلا اس نے نائلہ کو آواز
دے کر واپس بلالیا۔ جی امی کوئی کام، نائلہ نے نہایت ادب سے کہا۔تجھے کتنی
مرتبہ سمجھایا ہے کہ دادی کے پاس مت جایا کر تو بیمار ہو جائے گی ۔ یہ عجیب
و غریب بیماریاں تجھے چمٹ جائیں گی ۔کوئی ضرورت نہیں تجھے اس بڈھی کا کام
کرنے کی ۔امی میری ٹیچر کہتی ہیں، بڑوں کا کام کرنا چاہیے اور بیمار کی
خدمت کرنے سے اﷲ خوش ہوتا ہے۔زیادہ بکواس کرنے کی ضرورت نہیں۔ بڑی آئی
بھاشن دینے والی۔ دفع ہو اور جا کر ہوم ورک کر اپنا۔ رفعت نے بڑی بے دردی
سے اسے ڈانٹ دیا۔وہ روہانسی ہوکر وہاں سے چلی گئی ۔
ساجدہ بیگم کی طبیعت کچھ دنوں سے زیادہ ہی خراب ہو گئی تھی۔ اسے اسپتال
منتقل کیا جاچکا تھا۔ بول چال سب بند ہوچکی تھی۔ کچھ گھنٹوں بعد وہ اس دار
فانی سے کوچ کر گئیں۔ رفعت لوگوں کو دکھانے کے لیے جھوٹ موٹ کا روتی رہی
لیکن دل ہی دل میں شکر ادا کر رہی تھی کہ چلو اس بڑھیا سے جان چھوٹ
گئی۔ساجدہ بیگم کی وفات کے کچھ دنوں بعد ارشد نے ایک فائل رفعت کو دیتے
ہوئے اسے سنبھال کر رکھنے کا کہا۔ یہ کیا ہے؟ رفعت نے حیرانی سے پوچھا ۔
گھر اور دکان کے کاغذات ہیں۔ امی نے تمہارے نام کر دیے ہیں۔ تم ان کی مالکن
ہو۔مالکن کا لفظ سن کرخوشی کے مارے اس کی چیخ نکل گئی۔ کیا امی جان یہ سب
میرے نام کر گئیں ہیں! جی۔ ارشد نے مختصر سا جواب دیا۔ رفعت کو ایک پل میں
اپنا وجود بوجھ سا محسوس ہونے لگا تھا۔ کیوں کہ وہ ایک ماں کے سامنے بہو
ثابت ہوئی تھی۔ کاش وہ ماں کو بہو کے بجائے بیٹی کا حق دیتی۔ آنکھوں سے
آنسو کا قطرہ ندامت کا اظہار کرگیا۔ |