جی میڈیم میں ابھی اسے کھولتا ہوں ۔ کچھ دیر میں تالا اس
کے ہاتھ میں تھا۔ شواف نے اسے جانے کا کہا۔ اس نے مدد کی پیش کش کی ۔ شواف
نے منع کر دیا ۔ وہ اکیلے ہی اندر جانا چاہتی تھی۔ اس نے دل ہی دل میں سوچا
اگر میں سوہاواقعی اگر نانی کے صدمے سے گھر سے نکلی ہے تو اسے یہاں ہی ہونا
چاہیے۔ وہ دھیرے دھیرے صحن سے چلتی ہوئی اندر آئی تو سوہا لاونچ میں بیٹھی
تصاویر دیکھ رہی تھی۔ اس کے سامنے اس کی بچبن کی تصاویر تھیں ۔یہ اس کی
پہلی سالگرہ کی البم تھی۔ جس میں اوصاف اور شواف دونوں اس کے ساتھ ساتھ تھے۔
وہ تصاویر دیکھنے میں اس قدر محو تھی کہ شواف چلتی ہوئی کب اس کے قریب آ
کھڑی ہوئی ، اسے کچھ خبر نہیں تھی۔
شواف اسے دم بخود ہو کر دیکھ رہی تھی۔ اس کا چہرہ آنسووں سے دُھل چکا
تھا۔اس کی ہچکی نے سوہا کو چونکا دیا۔ اس نے گردن موڑ کر دیکھا تو شواف کو
اپنے سر پر کھڑا پایا۔ وہ اچھل کر کھڑی ہو گئی۔ اسے اپنی انکھوں پر یقین
نہیں آ رہا تھا۔ اس نے کانپتے ہاتھوں سے شواف کا چہرہ چھوا تو اس کی خوشی
کا کوئی ٹھکانا نہیں رہا۔ ماما ۔ ماما۔ میری ماما۔
شواف نے اسے گلے لگاتے ہوئے کہا۔ سوہا میری جان ۔ تم یہاں اکیلی کیوں رہ
رہی ہو۔ تم نے گھر کیوں چھوڑا ۔ سوہا نے شواف سے لپٹتے ہوئے کہا۔ اگر مجھے
پتہ ہوتا کہ گھر چھوڑنے پر آپ مجھے مل جاو گی تو میں بہت پہلے گھر چھوڑ
دیتی ۔ ماما۔ آپ مجھے کیوں نہیں اپنے ساتھ لے کر گئی ۔ مجھے کیوں پاپا کے
کیے کی سزادی ۔ کیوں؟
شواف نے سوہا کو چومتے ہوئے کہا۔ پتہ نہیں بیٹا کبھی کبھی ہمارا دل اور
دماغ ہمارے اختیار میں نہیں ہوتا ۔ ہم وہ کر جاتے ہیں جو ہمیں نہیں کرنا
چاہیے۔ میں نے تمہیں کیسے اور کیوں چھوڑ دیا ۔ مجھے خود پتہ نہیں چلا ۔
سوہا ، مجھے معاف کر دو۔ مجھے معاف کر دو۔
سوہا نے اپنی ماں کو پانی لا کر دیا۔ شواف کے قدموں میں بیٹھتے ہوئے ،ہنسنے
کی کوشش کی اور کہا۔ ماما میں آپ کو صرف اسی صورت معاف کروں گی ۔ جب آپ
وعدہ کریں کہ مجھے پھر کبھی چھوڑ کر نہیں جائیں گی۔ میں آپ کے ساتھ رہوں
گی۔ میں شدید نفرت کرتی ہوں اپنے باپ سے جس نے ہمیں جدا کر دیا۔
شواف نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا ۔ یہ تمہیں کس نے کہا کہ اوصاف کی
وجہ سے ہم جدا ہوئے۔ سوہا نے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا۔ مجھے نانی نے سب
بتایا۔ شواف نے حیرت سے پوچھا ، نانی نے تمہیں کیا بتایا ہے؟
نانی نے مجھے بتایا کہ پاپاکومومنہ آنٹی سے محبت ہو گئی تھی۔ شواف نے مذید
حیرت سے پوچھا۔ کون مومنہ آنٹی ۔ سوہا نے نفرت آمیز لہجے میں کہا۔ پاپا
کی بیوی اور کون ۔ آپ تو یوں حیران ہو رہی ہیں کہ جیسے کچھ جانتی ہی نہ
ہوں ۔ شواف نے افسردگی سے کہا میری امی بھی نا۔ پتہ نہیں تمہیں کیا کیا
پٹیاں پڑھاتی رہی ہیں ۔ سچ تو یہ ہے سوہا، میرے گھر چھوڑنے کی وجہ اوصاف
نہیں میں خود تھی۔ میں ۔ میں اور صر ف میں ۔سچ تو یہ ہے کہ میں صرف میں میں
سوچتی تھی۔ میری خوشی ، میرا غم ،میری سوچ یا یوں کہہ لوکہ میں یہ سمجھنے
سے قاصر تھی کہ میں بھی غلط ہو سکتی ہوں ۔ بس یہی سوچتی تھی کہ سب کچھ میرے
ساتھ ہی غلط ہوتا ہے۔ غلط کرنے والے دوسرے ہیں ، میں مظلوم ہوں ۔ سچائی مگر
کچھ اور ہی تھی۔
اپنے گھر چھوڑنے کے فیصلے پر میں دن رات پچھتاتی آئی ہوں۔ میرے جذباتی سے
فیصلے نے مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا ۔اللہ کا شکر ہے کہ تمہارے ساتھ ایسا کچھ
نہیں ہوا ، جو میرے ساتھ ہوا۔ میں نے اپنی بے وقوفی سے اپنی جنت کو چھوڑ
دیا۔ میری جنت ۔ میرا گھر۔ میرا شوہر ۔ سب کچھ ۔ اس نے ایک سرد آہ بھری۔
سوہا نے حیرانی سے کہا۔ ماما آپ جھوٹ بول رہی ہیں ۔ نانی۔
شواف نے سوہا کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ نانی ۔ تمہاری نانی بے شک میری ماں
تھیں ۔ اللہ انہیں جنت نصیب کرئے لیکن وہ انتہائی احمق تھیں ۔ انہوں نے
میرے اندر بھی مایوسی اور محرومی کے سوا کچھ نہیں ڈالا ۔ ہمیشہ منفی خیالات
ہی۔ شواف نے آہ بھرتے ہوئے کہا۔ سوہا۔ تمہاری نانی کو صرف افسوس کرنا ہی
آتا تھا۔ ان کے نزدیک دنیا غموں کا گڑھ تھی ۔ انہوں نے اپنے منفی خیالات
مجھ میں بھی بھر دیے ۔یہاں تک کہ میں رب سے بھی ذیادہ کی امید نہیں کرتی
تھی۔
سوہاتمہیں میں بتاوں کہ میں دُعا کیسے کرتی تھی ۔ شواف نے گرتےہوئے آنسووں
میں کہا۔ میں یوں دُعا مانگتی تھی کہ اے میرے مالک تو اپنے نیک اور مومن
بندو ں کی آخری صف میں جو آخری انسان ہو ، بس وہی مجھے بنا دے۔ بعد میں
مجھے سمجھ آئی کہ میں کیوں اپنی جنت سےنکال دی گئی۔ کیوں کہ میں نے
بدگمانی کی۔
پھر بعد میں مجھے کسی نے دُعا مانگنا سکھائی اور کہاکہ رب سے جب مانگنا ہی
ہے تو پہلی صف کےپہلے مومن بننے کی دُعا کیوں نہیں مانگتی ہو۔ وہ تو بے
نیاز ہے ۔ وہ تو وسعتوں کا مالک ہے۔ وہ سب کچھ دے سکتا ہے۔ سب کچھ ۔ جب
انسان پہاڑ کی چوٹی سر کرنے کی خواہش کرتا ہے تو اس کی کوشش بھی ویسی ہی
ہوتی ہے۔ وہ پھر چھوٹے پتھر نہیں دیکھتا۔ اپنی سوچ اور خواہش کو بلند رکھو۔
تمہاری کاوش خود بخودویسی ہو جائے گی۔
سوہا نے اداسی سے کہا ۔ اگر ایسا تھا توما ما آپ واپس کیوں نہیں آئیں ۔
آپ کہاں تھیں۔ آپ کو میری یاد نہیں آئی ۔ ایسا کیا ہو گیا تھا کہ آپ نے
گھر چھوڑ دیا۔آخر مسلہ کیا تھا۔
شواف نے افسردگی سے کہا۔ میرے جیسی عورتوں کا سب سے بڑا مسلہ یہ ہوتا ہے کہ
انہیں کوئی مسلہ نہیں ہوتااور وہ اپنے دماغ کو مسائل کا گھر بنا لیتی ہیں
۔کسی نے کہا ہے نا خالی دماغ شیطان کا گھر ہوتا ہے ۔میرے دماغ نے بھی مجھے
دھوکا دیا۔ کبھی بھی انسان موت کو سر کرنے کے لیے خود کشی کر لیتا ہے۔میں
نے بھی ایسا ہی کیا۔ سوہا۔سچ تو یہ ہے کہ میں خود اس وقت نہیں جانتی تھی کہ
میں کیا چاہتی ہوں ۔ اوصاف کی محبت چاہنے کے باوجود اس کے سامنے جھکنے اس
سے محبت مانگنے کی روادار نہیں تھی۔ وہ میرا شوہر تھا۔ مگر میری ماں نے
مجھے یہی سکھایا تھا،شوہر سب کچھ ہو سکتا ہے مگر ہم راز اور محبوب نہیں ۔
عجیب بیزاری کے جذبات نے میرے دل و دماغ کو گھیر لیا تھا۔ میں کوئی بھی
اچھی چیز سننے سمجھنے کو تیار نہ تھی۔
بعدمیں جب میں نے خود سے شناسائی حاصل کی تو جانا کہ میں اوصاف میں سب کچھ
بدلنا چاہتی تھی۔ اسے اپنے مطابق بنانا چاہتی تھی۔ مجھ میں کیا کمی تھی
کبھی سوچا ہی نہ تھا۔ سوچتی بھی کیسے ، میری نظر مجھ پر تھی ہی نہیں ۔ میرا
بچبن اپنے ماں ،باپ کی لڑائیاں دیکھتے ہوئے گزرا۔ میری ماں ہمیشہ افسردگی
سے کہتی تھی۔ میں نے تمہاری وجہ سے گھر نہیں چھوڑا ۔ جیسے جیسے میں بڑی
ہوئی ، اپنے ماں باپ سے متنفر ہوتی گئی ۔ اوصاف سے شادی کے کچھ ہی عرصے میں
میں اس سے بھی مایوس ہو گئی ۔ کیوں کہ میرے دل و دماغ میں میری ماں نے یہ
ہی بھرا تھا۔دنیا میں کسی کو خوشی نہیں ملتی۔ مل ہی نہیں سکتی۔
سوہا نے حیرت سے کہا۔ ماما آپ یہ کہہ رہی ہیں کہ آپ کے گھر چھوڑنے میں
پاپا کا کوئی بھی قصور نہیں تھا۔ شواف نے اپنے گرتے ہوئے آنسو صاف کرتے
ہوئے کہا۔ جہنم کے متلاشی کو جنت نہیں ملتی ۔ اسے تو جنت سے نکلنا ہی ہوتا
ہے۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ میں ہمیشہ اوصاف کی ہر بات کو منفی انداز
میں لیتی ۔ وہ ایک اچھا اور سمجھدار انسان تھا۔ مگر میں خود کو عقل کل
سمجھتی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اپنا گھر، اپنی عزت اپنا سب کچھ لٹا
دیا۔ میں جب گھر سے نکلی تھی تو سخت مایوسی میں تھی ۔ سوچا تھا کہ خود کشی
کر کے اوصاف کو سزاد وں گی۔ ہم جو دوسروں کو دینا چاہتے ہیں ،وہی ہمارے پاس
لوٹتا ہے۔ اپنی انا کے خول میں قید رہ کر کبھی محبت نہیں ملتی ،تنہائی ہی
ملتی ہے،کچھ پانے کے لیے دونوں ہاتھ خالی رکھنے پڑتے ہیں ۔ دینا پڑتا ہے
سوہا ۔ جب تک میں نے گھر کی دہلیز پار نہیں کی تھی ،میں نے دینا نہیں سیکھا
تھا۔ اوصاف کے معاملے میں ۔میں نے اپنی مٹھیاں ہی بند رکھی ۔ نہ ہی اس سے
کچھ لے پائی۔ نہ ہی دینے کا حوصلہ کیا۔ دینا مجھے ایک انجان عورت نے
سکھایا۔
جب میں نے گھر چھوڑا تو میں نے کسی کے بارے میں نہیں سوچا۔ میرا خیال
تھااپنی ماں کی طرح میں تمہیں اپنی محرومی کے لیے الزام نہ دوں ۔ میں نے
گھر چھوڑ دیا۔ ایک گاڑی کے ساتھ ایکسیڈنٹ کے بعد بچ گئی ۔ ہوسپٹل میں جب
ہوش آیا تو میری ملاقات مریم مجتبی سے ہوئی۔ بہت اعلی ٰ خیالات کی مالک
عورت تھیں ۔ وہ این جی او چلاتی تھی۔غریب لوگوں اور گھریلو تشدد کا شکار
عورتوں کی مدد کرتی تھی۔جس گاڑی سے میرا ایکسیڈنٹ ہوا وہ ان کے بیٹے سفیر
کی تھی۔ بظاہر وہ خوش اخلاق ہمدر ددل رکھنے والا انسان تھا۔ میں ابھی تک
اپنے جذبات کو سمجھنے سے قاصر تھی۔میں نے گھر کیوں چھوڑا۔ اس کی کوئی بھی
احمقانہ دلیل دینا چاہو تو بنا لوں ۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ اگر میں تھوڑی سی
بھی سمجھدار ہوتی تو اپنے پاوں پر خود کلہاڑی نہ مارتی۔
مریم مجتنی کے ساتھ اس کے گھر جانے کے بعد ،مجھے کچھ کچھ عقل آنا شروع
ہوئی ۔ مریم آنٹی نے مجھے عورتوں سےملوایا جو گھریلو تشدد کا شکار تھیں ۔
انہیں دیکھ کر میرا دل بدل گیا۔آنٹی نے مجھے سمجھایا کہ شوہر اور اولادبہت
بڑی نعمت ہیں۔ کوشش سے سب کچھ مل سکتا ہے ۔ دنیا کو ہم خوشی کی جگہ یا غموں
کا گڑھ خود بناتے ہیں ۔ میں ان کی باتوں سے بہت متاثر ہوئی۔ میں نے واپس
گھر جانے کا ارادہ کر لیا۔ سفیر کو مریم آنٹی نے میرے ساتھ بھیجا ۔ سارے
راستے میں سوچ رہی تھی،کہ اوصاف سے اپنے کیے کی معافی مانگ کر زندگی کو
دوبارہ سے شروع کروں گی۔
سفیر مجھے ایک پارک میں لے گیا۔ مجھے حیرت تھی۔ میں نے اسے گھر کا پتہ پھر
سے سمجھایا تو اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ اتنی جلدی کیوں ہے گھر جانے کی آپ
کو ۔ مجھے کچھ دیکھانا ہے آپ کو ۔ اس نے جو مجھے دیکھایا۔ اس سے میرے ہوش
اُڑ گئے ۔ اس نے گیسٹ روم کے واش روم میں کہیں پر کیمرہ لگایا ہوا تھا۔ غصہ
سے میں نے اس کا موبائل توڑ دیا۔وہ شیطان کی صورت لگ رہا تھا۔ مجھے لگا کہ
وہ ماں بیٹا ملے ہوئے ہیں ۔ ماں بے کار میں اچھائی کا ڈھونگ کرتی ہے۔ بیٹا
اس طرح لڑکیوں کو بلیک میل کرتا ہو گا۔ اس نے صاف صاف لفظوں میں مجھ سے
کہا،اگر میں نے اس کی بات نہ مانی تو وہ میری ویڈیو یو ٹیوب پر اپ لوڈ کر
دے گا۔
اس وقت تو میرا جی چاہ کہ ذمین کھلے اور اس میں دھنس جاوں ۔ لیکن کچھ ایسا
نہیں ہوا۔ کچھ بھی ایسا نہیں ہوا۔ مجبوراً میں اس کے ساتھ واپس آ گئی ۔ اس
نے اپنی ماں سے کہاکہ میرے شوہر نے مجھے قبول نہیں کیااور مجھے طلاق دے دی۔
وہ اپنی ماں سے اس طرح بات کر رہا تھا کہ مجھے لگا کہ اس کی ماں اس کی
حرکتوں سے بے خبر ہیں ۔اس نے اپنی ماں سے افسردہ لہجے میں کہا۔ مجھے لگتا
ہے کہ یہ لڑکی پھر خود کشی کی کوشش کرئے گی۔ آپ اسے سمجھائیں کہ خود کشی
کرنا انسان کے بس میں ہے لیکن مرنا انسان کے بس میں نہیں ۔
اس کی نظروں میں گندگی کو میں اپنے وجود پر بُرے طریقے سے محسوس کررہی
تھی۔میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھاکہ اس عذاب کا کیا کروں۔مجھے اچھے سے
احساس ہوا کہ گھر کی چار دیواری اور شوہر کی ایک عورت کی زندگی میں کیا
اہمیت ہوتی ہے۔ سفیر نے مجھے دھمکی دی کہ اگر میں نے اس کی باتوں کو نہ
مانا تو وہ کسی حد تک بھی جا سکتا ہے۔میں دوبارہ سے وہ راہ ڈھونڈنے لگی ،جو
میری موت کو مجھ سے قریب کر دے۔وقت کی ستم ظریفی نے مجھے کہیں کا نہ
چھوڑا۔شواف نے آہ بھرتے ہوئے سوہا کی طرف دیکھا۔ ہم غلط سوچتے ہیں تو ہمیں
ٹھیک کیسے مل سکتا ہے۔میں اس وقت سوچ رہی تھی کہ مریم مجتبی اچھے ہونے کا
ڈھونگ کر رہی ہے۔ یہ ماں بیٹا ملے ہوئے ہیں ۔میرے دل میں یہ ہی چل رہا تھا۔
مریم آنٹی نے مجھے پریشان پا کر آتے ہی کہا بیٹا کچھ بھی ہو زندگی ختم
نہیں ہوتی ۔ ہر مسلہ کا ایک حل ہوتا ہے۔ ایسا کوئی مسلہ نہیں ہوتا جس کا حل
نہ ہو ۔ بس ہمیں حوصلہ کے ساتھ طریقے بدل بدل کر مسلہ کو حل کرنے کی کوشش
کرنی چاہیے۔ زندگی میں بے شک شوہر سے بڑھ کر کوئی تحفظ نہیں دے سکتا لیکن
عورت اپنے آپ کو خود بھی سنبھال سکتی ہے ۔ وہ خود بہت کچھ کر سکتی ہے۔ میں
ان کی باتیں سن کر رونے لگی ۔ میں انہیں کہنے ہی والی تھی کہ سفیر کو کیسے
منع کروں ۔میں اس کی غلام نہیں ہوں ۔ میں کیا کروں مگر ابھی میں کہہ نہیں
پائی تھی کہ سفیر وہاں آ گیا۔ اس نے اپنی امی سے کہا کہ وہ مجھے ہوسپٹل لے
کر جانا چاہتا ہے تاکہ ڈاکٹر میرے سر کے زخم کا معائنہ کر سکے ۔ مریم آنٹی
نے فوراً ہاں کہہ دیا۔ میں نے منع کرنے کی کوشش کی تو سفیر نے اپنا موبائل
میری طرف کرتے ہوئے کہا۔ شواف کیا آپ واقعی نہیں جانا چاہتی ہیں۔ کیا
واقعی۔ میں نے اس وقت بزدلی دیکھائی اورکہا ۔ میں چلوں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری بزدلی پر میں قابو نہ رکھ سکی۔ سفیر نے اس کا فائدہ اُٹھایا۔ہم جب
واپس گھر آئے تو آنٹی مریم گھر پر نہیں تھیں ۔ سفیر نے مجھے سمجھاتے ہوئے
کہا۔ مجھے تم بہت اچھی لگی ہو۔ ویسے تو یہاں کتنی لڑکیا ں آئیں اور گئیں
لیکن نہ جانے تم میں کیا ہے کہ تمہیں کسی اور کو دینے کا جی نہیں چاہتا۔
مجھے اپنا وجود کسی کٹ پتلی کا سا محسوس ہو رہا تھا۔ مجھے شدت سے اوصاف کی
اور تمہاری یاد آ رہی تھی۔ مگر میں بے بسی سے سفیر کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔
اس نے پاس آ کر میرے دونوں ہاتھوں کو پکڑ کر کہا۔مجھے تم سے محبت ہو گئی
ہے ۔ میں اوصاف کے منہ سے یہ سننا چاہتی تھی۔ ہمیشہ مگر میں کبھی اسے کہہ
نہیں پائی کہ میں اس کے منہ سے ایسا کچھ سننا چاہتی ہوں ۔ رشتوں میں خاموشی
نہیں ہونی چاہیے۔ خواہ کسی ہی خواہشات اور شکایات ہوں بیان کر دینی چاہیں ۔
میں سفیر کی طرف دیکھ رہی تھی مگر اوصاف کو سوچ رہی تھی۔ سفیر کو لگا کہ
میں اس کی محبت کو قبول کر رہی ہوں ۔ کچھ دن گزرے ہی تھی کہ اس نے آنٹی
مریم سے کہا کہ وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔
آنٹی مریم میرے پاس آئیں ۔ انہوں نے سفیر کی خواہش کے متعلق مجھے بتایا۔
میں تو پہلے ہی سفیر کے سامنے ہتھار ڈال چکی تھی۔ بلکل خاموش آنٹی کا چہرہ
دیکھتی رہی ۔ سمجھ میں ہی نہیں آ رہا تھا کہ کیا کہوں ۔ آنٹی مریم نے
کہا۔ دیکھوبیٹا یہ تمہاری زندگی ہے اس کا فیصلہ تو تمہیں ہی کرنا ہے ۔ تم
ہاں کہو تو ہی میں تم لوگوں کی شادی کروا دوں گی۔ اگر تم نہیں کہو گی تو
بھی ۔ یہ تمہاری زندگی ہے ۔
بیٹا زندگی ایک انمول تحفہ ہے ۔ اس کا ہر لمحہ قیمتی ہے ۔انسان کو سوچ سمجھ
کر ہر قدم لینا چاہیے۔ میں ان کے گلے لگ کر رونے لگی۔ انہوں نے مجھے تسلی
دیتے ہوئے کہا۔ بیٹا جو بھی تمہارے دل میں ہے ۔اسے نکال باہر کرو۔میں
تمہاری ہر ممکن مدد کروں گی۔ میں نے روتے ہوئے کہا ۔ میری مدد کوئی نہیں کر
سکتا ۔کوئی بھی نہیں ۔
|