احمد علی تیارشیار ہو کر گھر سے نکلا، اگرچہ رات کے پہلے
پہر تک اس نے واپس آجانا تھا، کہ تین گھنٹے لاہور جانے کا، اور شام کو تین
گھنٹے واپسی کا سفر تھا، مگر پھر بھی آخر سفر درپیش تھا، یہ کاروباری سلسلہ
کا دورہ تھا، دکان کے لئے سامان خریدنا تھا۔ وہ معمول کے مطابق ہی دکان پر
گیا، تاکہ کاروبار کو رواں دواں کرکے سفر کا آغاز کرے۔ اس نے دکان کھولی ،
روشنیاں آن کیں تو اُس کا دل زور سے دھڑکا، دکان میں بچھے قالین پر سنہری
رنگ کے کرنسی نوٹوں کے باریک ٹکڑے دیکھ کر وہ بے حد پریشان ہوا، کیونکہ وہ
پانچ ہزار والے نوٹوں کے ٹکڑے تھے، اس نے باقی کام چھوڑ کر پہلے اپنا دراز
کھولا، جس میں وہ گزشتہ شام پانچ ہزار والے پچیس نوٹ رکھ گیا تھا، تاکہ سفر
میں روپوں کے وزن کی وجہ سے اسے کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ دراز کی
حالت دیکھ کر وہ اپنے حواس پر قابو نہ رکھ سکا، اور بے ہوش ہو کر گر پڑا،
کیونکہ دراز میں پڑے ہوئے تمام نوٹوں کو چوہے نے کَتر کر ریزہ ریزہ کردیا
تھا۔ گویا وہ ایک لاکھ پچیس ہزار روپے سے محروم ہو چکا تھا۔ احمدعلی کو یہ
نقصان ہمیشہ یاد رہے گا، اسے پیسوں کے ضائع ہونے کا غم الگ ہوگا اور اس بات
کا صدمہ الگ ہو گا کہ اس کا نقصان چوہا کر گیا، جب کسی معمولی چیز یا وجہ
سے انسان کو نقصان پہنچتا ہے، تو اس کے صدمے میں اضافہ ہو جاتا ہے، اگر یہی
رقم کو ڈاکو بندوق کے زور پر چھین لیتا تو احمد کے پا س اس کا جواز تھا،
اسلحہ کی طاقت کے سامنے وہ خود کو بے بس پاتا ، صدمہ تو نہ بھولتا البتہ اس
کی شدت میں کمی ضرور ہو جاتی۔
احمد علی کو مذکورہ چوہے نے یقینا پہلی مرتبہ صدمے سے دو چار کیا ، ورنہ
کاروباری لوگوں کے سرمائے کو کون کون سے چوہے نہیں کترتے؟ نہ ان کی حفاظت
کوئی سیف کرسکتا ہے، نہ گارڈ اس کو بچا سکتے ہیں، نہ سکیورٹی کے کچھ اہتمام
کام آسکتے ہیں، نہ بھرے بازار میں دوسرے دکان دار ، حتیٰ کہ انجمن تاجران
کے عہدیدار بھی بے بسی سے خاموشی اختیار کرکے اپنے گھر کی راہ لیتے ہیں۔ یہ
سچ ہے کہ کاروبار کرنے والوں کوآئین و قانون کی پاسداری کا خیال رکھنا ہوتا
ہے، وہ قواعد وضوابط کی پابندی پر بھی مجبور ہوتا ہے، اسے ٹیکس یا دیگر
معاملات کا خیال بھی رکھنا ہوتا ہے، مگر چوہوں سے بچنا ممکن نہیں۔ بعض
اوقات اس کے حاشیہ خیال میں بھی یہ بات نہیں آئی ہوتی کہ اس کو اگر کاروبار
میں نقصان کا جھٹکا لگ گیا ہے تو اس کی ذمہ داری کس پر عاید ہوتی ہے۔ اپنے
ہاں حکومتوں کے اخراجات اور مراعات یا تو غیر ملکی امداد سے چلتے ہیں، یا
پھر عوام کے ٹیکسوں سے۔ حکومتیں دونوں مدّات میں پیسہ جمع کرنے کی بھر پوری
کوشش کرتے ہیں، بے جا قرضے لیں، یا عوام پر ٹیکس کا ناروا بوجھ ڈالیں،
انہوں نے اپنی عیاشی کا سامان کرنا ہوتا ہے۔ درازوں میں رکھے نوٹوں پر جہاں
حکومتوں کی نگاہ ہوتی ہے، وہیں بیوروکریسی اور حکومتی اہلکار بھی اسی پر
تکیہ کئے ہوئے ہوتے ہیں، کہیں رشوت کے چوہے درازوں میں رکھے نوٹوں کو کتر
رہے ہیں تو کہیں کمیشن کے نام پر نوٹ کترے جارہے ہیں۔ کہیں تنخواہیں حد سے
زیادہ ہیں تو کہیں مراعات کے نام پر بے حد و حساب عیاشیاں جاری ہیں، کہیں
بندوق کے زور پر ڈاکے ڈالے جاتے ہیں، اور عوام کا خون پسینے کا کمایا ہوا
سرمایہ لوٹ لیا جاتا ہے، اور کہیں غلام گردش میں لوگوں کو اس انداز میں
الجھا دیا جاتا ہے کہ وہ بے بس ہو کر رہ جاتا ہے۔ مراعات یافتہ اور
اختیارات کے حامل چوہے اپنی طاقت کے بل بوتے پر پورے نظام کو یرغمال بنائے
ہوئے ہیں۔
یہ چوہے دکانوں اور گھروں کے درازوں میں پڑے نوٹ ہی نہیں کَترتے، بلکہ ان
کی پہنچ ایوانوں تک بھی ہے، آئے روز معزز ممبران اسمبلی کی سرکاری رہائش
گاہوں پر بھی چوہوں کے حملوں کی خبریں پڑھنے اور سننے کو ملتی ہیں، ممکن ہے
سپیکر اس ضمن میں ایکشن لیتے ہوں، مگر جس آب وتاب سے خبر آتی ہے، اتنی
گرمجوشی سے ان کے سدِ باب کی باز گشت سنائی نہیں دیتی، جس سے ایک طرف چوہوں
کی طاقت کا اندازہ ہوتا ہے اور دوسری طرف حکومتی بندوبست کی ناکامی نظر آتی
ہے۔ چونکہ حکومتِ وقت اس وقت مشکل صورت حال سے گزر رہی ہے، ورنہ ڈینگی اور
آوارہ کتوں کے خلاف مہمات کی طرز پر چوہوں کے خلاف مہم چلانے کی بھی سخت
ضرور ت ہے۔ |