سوشل میڈیا پر آئے رجحانات عوام کیلئے پیش ہیں

میری دو تحریریں منظر عام پر اس وقت آئیں جب جمعیت اہلحدیث کے الیکشن کے قریب آتے ہی کچھ شاطر دماغ افراد ساری حدیں پار کر رہے تھے۔ علماء وصلاح کے تمام کارناموں کو ملیا میٹ کئے دے رہے تھے۔ کئی کروڑ کی آبادی والے حضرات خواب غفلت میں اپنے اے سی روم میں کمبل میں سوئے ہوئے ان واہیات الفاظ سے محظوظ ہو رہے تھے۔ ایسی تحریریں دیکھنے کے بعد ہر اس شخص کا خون اس لئے کھول جائے گا کیونکہ وہ بدھی بھونڈی تحریریں جماعت کے تعلق سے منظر عام پر آ رہی تھیں۔ کوئی اپنی عزت وناموس کو پیش کرنے میں راضی تھا تو کوئی اس تحریر میں مرچ مسالا لگاکر بیان کرنے میں لطف اٹھا رہا تھا۔ میں نے جب بھی کچھ لکھا حد ہونے پر لکھا ۔ معاملہ سلمان ندوی کی شر پسندی کا ہو ۔ جس کے بعد سے آج تک انہوں نے جمعیت اہلحدیث کی شان میں گستاخی کرنے کی جرئت نہیں کی۔ یا معاملہ ڈاکٹر ذاکر نائیک پر ظلم اور جبرا الزام تراشی کا معاملہ ہو۔ میری اپیل پر ہندستان بھر سے تحریریں اس طرح آنی شروع ہوئیں جو در اصل تحریری سیلاب تھا۔ ایک بڑے اخبار کے ایڈیٹر کو شکایت لے کر پی ایم او اور وزیر داخلہ کے دروازے تک جانا پڑا۔ جس کے بعد میری تمام تحریروں کا گلا گھونٹ دیا گیا اور تمام طرح کے میرے رجسٹریشن کو منسوخ کرنے کی دھمکی دی گئی۔ ڈاکٹر نوہرہ شیخ سی ای او آف ہیرا گروپ کے خلاف جب سوشل میڈیا پر غلط پروپیگنڈوں کا سیلاب آیا تو لاکھوں کارکنان کو اطمیان دلانے کیلئے تحریر لکھنا پڑا ۔ اب جب جمعیت کی کرسی کیلئے نورا کشتی کا گھناؤنا کھیل چالو ہوا ۔ساتھ میں کسی کی آبرو اچھالی گئی تو کسی کی عصمت سے کھلواڑ کرنا شروع کیا گیا۔ کسی نے عزت کو چوراہے پرنیلام کرنے کی بات کی تو کسی نے الزام تراشیوں کی ساری حدیں پار کرتے ہوئے معاملہ سی بی آئی کے سپرد کرنے کی نادان اور واہیات گوئی کا مظاہرہ کیا گیا۔ ان سب کے درمیان تمام ملک بھر کے امن پسند دوستوں کو میری تحریر پسند آئی جنہوں نے سوشل میڈ یا پر میری تحریر کے تعلق سے ایسی مہم شروع کی کہ شر پسند وں اور نا عاقبت اندیشوں کے ہوش اڑ گئے۔ تین دنوں تک لوگوں نے تحریر کو سر آنکھوں پر رکھا اور ناعاقبت اندیش افراد کی کردار کشی کرتے ہوئے کسی بھی ناپاک سازش کا قلع قمع کیا اور جماعت باطل کے کردار اور ان کی شاطرانہ چالوں کی مذمت کرتے ہوئے سب نے من ہی من میں ایسے تمام لوگوں کو کوسا۔ میرا ماننا یہ ہے کہ جس طرح سے ہندستان کو تقسیم کرکے پاکستان بنادیا گیا اور بعد میں بنگلہ دیش کی بنیاد ڈالی گئی۔ اسی طرح جمعیت جدید ناقابل تلافی نقصان کی بھی بنیاد ڈالی گئی، اور اب کوئی شاطر جمعیت اہلحدیث فرنٹ کے نام سے بھی منظر عام پر آ رہا ہے۔ جس طرح سے پاکستان اور بنگلہ بننے کے بعد وہاں کے باشندے ہندستانی عوام کیلئے کچھ نہیں کر سکتے اسی طرح سے جمعیت جدید اور جمعیت فرنٹ کا بھی مقصد بھی حکمرانی تو ہو سکتی ہے لیکن عوام کے حق میں بھلا بالکل نہیں ہوسکتا ۔ تمام امن پسند ہندستانی اہلحدیثوں سے میرا مطالبہ ہے کہ ایسی کسی بھی شر پسند طاقت کو پسند نہ کرتے ہوئے پہلی فرصت میں پھٹکار لگائیں کیونکہ یہ سب عوام میں بدنامی اور بدعنوانی پھیلانے کا ذریعہ کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہیں۔ جمعیت قوم و جماعت کے غیور بزرگوں کے ہاتھوں میں ہے۔ ہمیں اپنے آباء واجداد پر بھروسہ رکھنا چاہئے ۔ جمعیت اور جماعت کسی نا اہل اور ناعاقبت اندیش کے ہاتھوں میں دینا کسی بھی طرح سے جائز نہیں مانا جا سکتا ہے۔

مندرجہ ذیل ان تمام تحریروں کو میں جوں کا توں پیش کر رہا ہوں ۔ یہاں ایک سنجیدہ شخص اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ لوگوں کے غلط لکھنے اور غلط پیش کرنے سے عوام کی سوچ غلط نہیں ہو سکتی۔ لوگ پڑھے لکھے ہیں۔ اپنے تجربے اور سمجھ بوجھ کو عمل میں لاتے ہوئے کسی طرح کی رائے قائم کرنا ہی ترقی یافتہ دور کا فیشن ہے۔ ہزاروں میسیج ایک آدھ سطروں پر منحصر لوگوں کے دستیاب ہوئے جن کو شمار کا نا ممکن ہے۔ جن میں سے لوگوں نے جمعیت کے غیور افراد پر انتخاب کی ذمہ داری سونپتے ہوئے کسی کی قابلیت اور علمی صلاحیت پر بھی انگلی اٹھاتے ہوئے نہیں ہچکچائے۔ کہ مانا کہ فلاں شخص کے پاس صلاحیت کا انبار ہے لیکن اس کی صلاحیت سے کس کو استفادہ ہوا۔ کسی نے کہا کہ میں قبول کرتا ہوں کہ جمعیت جدید کی بنیاد ڈالی گئی لیکن آج تک وہ اپنا جمعیت جدید کا دفتر تک نہیں بنا سکے۔ دفتر کیوں نہیں بنایا ۔ کیا ان کو حضرات کو یہ ڈر ستا رہا ہے کہ آج جمعیت جدید کا دفتر قائم ہوگا تو وہاں آج نہیں تو کل کوئی اور ناظم بن کر آجائے گا ۔ اس لئے کرائے کے مکان میں دفتر چلنے دو۔ طرح طرح کی باتیں ہیں۔ کہاں تک پیش کروں گا اور کہاں تک سنیں گے۔ کسی کے پاس وقت کہاں ہے۔ بس اشارہ کافی ہے۔ اﷲ سب کو سمجھ عنایت فرمائے۔ آمین۔

ہلال نیپالی کا کمنٹ:مطیع الرحمن بھائی۔تحریر اچھی ہے۔۔لیکن اے کاش تحریر میں مد مقابل کی تنقیص و تذلیل نہ ہوتی۔مولانا اصغر کی خدمات سرآنکھوں پران کے جیسا بہادر اور رعب دار شخصیت جماعت میں نہیں ہے ۔اﷲ ان کی خدمات کو قبول فرمائے۔اے کاش آپ شیخ العرب و العجم صلاح الدین مقبول حفظہ اﷲ کی اہانت نہ کرتے۔ان کے جیسا ذی علم آدمی پوری جماعت میں نہیں ہے۔میں بہت خوش ہوتا اگر تحریر میں صرف مرد مجاہد کی خدمات پر صرف روشنی ڈالی گئی ہوتی۔ ایسے وقت میں ان کی کارکردگی کا ذکر ناگزیر، اس سے ماحول میں پھیلے تعصب کو دور کرنے میں مدد ملتی۔آپ کی تحریر میں تعصب بھی ہے، آپ نے کسی داڑھی پر انگلی اٹھانے کی جرات کیسے کی۔ ایک طرف الزامات کی دھجیاں اڑا رہے اور دوسری طرف خود دوسرے پر الزام تراشی کر رہے ہیں۔

صفی ممتاز کا کمنٹ:جو نفرت کی بنیاد ڈالتا ہے اس سے نفرت ہو ہی جاتی ہے جناب ہلال صاحب...مولانا عبد الوہاب و مولانا عبد الجلیل سامرودی کیا کم بڑے عالم تھے مگر انہوں نے غرباء اہلحدیث کی بنیاد ڈال کر جمعیت کو نفع پہنچایا یا نقصان۔ میں بھی استاد محترم جناب شیخ اصغر کے مجاہدانہ کارنامے کا چشم دید گواہ ہوں. اس وقت میں بھی جامعہ کا طالب علم تھا...واقعی شیخ اصغر جیسا مرد مجاہد جماعت میں مفقود ہے ۔ہمیں ان کی قدر کرنی چاہئے۔اگر کسی کے اعتراض پر پہ عہدہ چھوڑ دیا جائے تو اس عہدہ پر کون سا شخص فائز ہوگا جس پر کسی کو اعتراض نہ ہو؟

صفی ممتاز کا پوسٹ:شیخ صلاح حفظہ اﷲ کی متوازی جماعت نے جماعت کے لئے کچھ کارہائے نمایاں انجام دئے ہوں یا نہ لیکن جماعت کی جگ ہنسائی کا سامان ضرور پیدا کیا ہے. متوازی جماعت ایک عالمی کانفرنس ہی سدھارتھنگر میں کر دی ہوتی تو شاید اس کی افادیت کا کچھ اندازہ ہوتا مگر ان کا سب سے محبوب مشغلہ تو بالمقابل جماعت میں کیڑے نکالنا ہے. اور متوازی جماعت کے ذریعے انتشار کو ہوا دینا ہے. شیخ صلاح اور شیخ عبد المعید صاحبان کا علم اپنی جگہ اور ان کی علمی خدمات اپنی جگہ مگر کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا ہر اقدام درست ہے اور اس بناء پر ان کی تائید ضروری ہے تو مولانا عبد الوہاب اور مولانا عبد الجلیل سامرودی نے غرباء اہلحدیث کی بنیاد ڈال کر کون سا غلط کام کیا۔

جماعت کو ایک اور انتشار سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ متوازی جماعت کا بائیکاٹ کیا جائے۔مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ شیخ عبد المعید صاحب کے نشانے پر ہمیشہ جماعت کا کوئی نہ کوئی بڑا عالم ہی کیوں رہتا ہے ۔ایک زمانے میں دکتور مقتدی حسن ازہری رحمہ اﷲ ان کے سب سے بڑے رقیب تھے. اور شیخ صلاح اکثر مخالف جماعت کے خیمے میں کیوں رہتے ہیں.شیخ اصغر کیسے ہیں ان کے شاگرد اس کو بخوبی جانتے ہیں. ان جیسی فراخ دلی شاید کسی میں ہو..قیادت کے لئے مضبوط ارادوں کا مالک ہونا ضروری ہوتا ہے اور یہ اوصاف ان میں بخوبی موجود ہے. ذی علم اور علمی خدمات کا ہونا ضروری نہیں کہ اس کے لئے قیادت بھی موزوں ہو . اس کے لئے صرف ایک مثال دیکر اپنی بات ختم کرونگا...ابو ذر غفاری رضی اﷲ عنہ سے کون واقف نہیں مگر اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ و سلم نے ان کو کوئی بھی حکومتی عہدہ نہ لینے کی وصیت کی تھی اور وجہ بھی بیان کر دی تھی جو اہل علم سے مخفی نہیں. ..

میں جامعہ سلفیہ بنارس میں چار سال زیر تعلیم رہا ہوں، اس درمیان میں نے شیخ اصغر صاحب کو انتہائی با اخلاق، متحرک و فعال اور جمعیت و جماعت کا درد رکھنے والا پایا... جب شیخ عتیق الرحمن اثر ندوی صاحب ناظم جامعہ اسلامیہ دریاباد بستی جیل میں جماعتی کاز کی بنا پر شک کی بنیاد پر قید تھے تب ہم لوگوں کے ساتھ بنارس سے سفر کرکے بستی جیل میں ملنے کے لیے پہنچے.. محدث رئیس احمد ندوی رحمہ اﷲ علیہ سے ان کے جو تعلقات تھے شاید میں اس کی تشریح نہیں کرسکتا. جامعہ میں ان کے تعلقات سب کے ساتھ اتنے خوشگوار تھے کہ شاید کسی کے رہے ہوں. اکثر لوگ محض ان کے بہاری ہونے کی وجہ سے تنقید کرتے ہیں. لوگ مختار احمد ندوی پر بھی تنقید سے نہیں چوکتے تھے..مگر انہوں نے اور ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے شیخ اصغر سلفی صاحب نے تن تنہا جو کارہائے نمایاں انجام دئے ہیں وہ پوری جماعت پر بھاری ہے. غلطیاں کس سے سرزد نہیں ہوتیں کوئی فرشتہ نہیں مگر جماعت کی قیادت کے لیے ان سے موزوں فی الحال کوئی شخص نظر نہیں آ رہا ہے۔۔صفی الرحمن ممتاز

قاسم راعین کا کمنٹ:واقعی تحریر میں دم ہے لیکن تنقیص بھی کم نہیں۔اﷲ ہم سب کو بزرگوں کا احترام اور ان کے وقار کو بلند کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یارب العالمین وجزاک اﷲ احسن الجزاء۔میں تو جمعیت اہلحہدیث ااور جمعیت اہلحدیث جدید ساروں کے ہی تنقید وتنقیص کے خلاف ہوں ویسے آپ کی ساری تحریر یں پڑھیں صرف لال داڑھی والا جملہ جو بڑے علمی شخصیت کے حامل ہیں ان کے لئے زیب نہیں دیتا۔اﷲ آپ کو اس اختلاف کے حل کرنے میں بہترین کردار اپنانے اور مثبت انداز اپنانے کی توفیق عطا فرمائے آمین یارب العالمین وجزاک اﷲ احسن الجزاء۔

صلاح الدین شہاب الدین کا کمنٹ:مطیع الرحمان بھائی اگلے مضمون میں آپ انھیں فرشتہ لکھ دیں اس میں ہمیں یا کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ یہ اپ کا حق ہے آپ اپنے ممدوح کو لکھ سکتے ہیں لیکن جب جماعتی خدمات کی بات ہو تو کھلے دل سے ہر ایک کا اعتراف بھی ہونا چاہئے۔ پھر چاہے شیخ صلاح ہوں یا شیخ عبد المعید کسی بزرگ کی تذلیل نھیں ہونی چاہئے۔ویسے اب جمعیت کی حمایت اور مخالفت میں لکھی گئی اکثر تحریروں کو لوگ چٹخارے کے لئے پڑھتے ہیں اس لئے کہ اکثر کے تحریروں میں ھذیان یا مدح سرائی کے کچھ ہوتا نہیں ہے۔ اﷲ ہم سب کو صحیح سمجھ دے اور ہمارے بڑوں کو امت کے شیرازے کو متفرق ھونے سے بچانے کی توفیق دے۔اس لئے کہ جمعیت سے کہیں زیادہ اہم جماعت کا اتحاد ہے۔
الف میم فیضی کا کمنٹ :فائدے اور تعلق کی بنیاد پر لکھنے والے انصاف نہیں کرسکتے. عدل کرنے کے لئے نفع نقصان، تعلق، نفرت اور محبت کے جذبات سے پاک ہونا اور خالی الذہن ہونا لازم ہے...یہ ایک قاعدہ ہے بے لاگ اور غیر جانبدار صحافت کے لیے.ممکن ہے نٹورک مارکیٹنگ کے دور میں یہ تحریر میرے ہی خلاف نکلے. لیکن قلم کا حق ادا کرنا ہے تو ایسے ہی لکھنا ہوگا.. باقی میں آپکی ذات پر کوئی گفتگو نہیں کررہا ہوں.. معذرت۔

مجاہد شیخ کا کمنٹ:عبد المعید مدنی صاحب کا کوئی موجودہ کارنامہ بتلا دیں جس سے جماعت کو فائدہ ہوا ہو!!میں نہیں جانتا کہ دوسری جمعیت نے اپنے وجود کے بعد سے کتنا فائدہ پہنچایا ہے جماعت کو،اب لوگ کہتے ہیں کہ اندر اندر کام چالو ھے؟اب کیا چالو ھے پتہ نہیں۔میں اتنا کہہ سکتا ہوں کی صلاح الدین صاحب کا استعمال اچھے طریقے سے اور دبا کے کیا گیا۔صلاح الدین صاحب اور عبد المعید مدنی صاحب کے علمی لیاقت کا اعتراف سب کرتے ہیں۔مگر ان کے اس علم سے امت کا کیا بھلا ہوا وہ بتا دیں؟میں نے سنابل میں طلبہ اور اساتذہ میں بھی یہ چیز شروع میں محسوس کیا تھا لیکن وقت نے جو پلٹی ماری ۔میں یہ بات اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگر اصغر صاحب جمعیت کا غلط استعمال کرتے ہیں تو صلاح الدین صاحب کے لوگ یہ بتائیں کیا ان کی جمعیت میں کھانے والے لوگ موجود نہیں ہیں۔؟
قوم کیا ہے قوموں کی امامت کیا ہے
یہ کیا جانے فقط دو رکعت کے امام

خان سراج کا کمنٹ:جناب آپ ایک عالم کو طنزیہ لال داڑھی والا لکھنے سے پہلے اپنے والد کی طرف دیکھ لئے ہوتے تو شاید ایسے جملے سے گریز کرتے۔

ابو زید شیخ کا جواب خان سراج کے کمنٹ کیلئے:انکے والد نے کسی فتنہ کو جنم نہیں دیا ہے۔ اور نہ ہی جامعہ سلفیہ بنارس سے نکلنے کے بعد کسی طرح کی سازش رچا ہو کہ چند لوگوں کو گمراہ کرکے ساتھ لیکر جامعہ کو دو حصوں میں تقسیم کردیا جائے جیسا کہ غیر مقبول صاحب جمعیت کو دولت کمانے کے لئے تقسیم کر چکے ہیں۔

فرید احمد سلفی کا کمنٹ:صلاح الدین بھائی جماعت اہلحدیث وہ بہادر جماعت ہے جس نے تحریک آزادی چلا کر انگریزوں کی نانی یاد دلا دی تھی ۔کسی موقع پر رومیوں سے اسی جماعت نے یہ بھی کہا تھا کہ رومی کتوں جب تم پر حملہ ہوگا تو اس میں ایک سپاہی میں بھی ہوں گا ۔تو شیخ اصغر صاحب و مطیع الرحمن عزیز کی ذاتی دشمنی میں پوری جماعت کو بزدل کہنے کی حماقت نہ پالیں ۔ہمارے نزدیک شیخ اصغر ہوں یا شیخ صلاح دونوں محترم ہیں اور وہ اس لیے کہ وہ ہمارے اکابرین ہیں ۔جہاں تک اختلافات کے معاملے ہیں تو کوئی بھی تنظیم اس سے پاک نہیں ہے یہ اور بات ہے کہ اسکو ہمارے اپنے ہی لوگ مشتہر کر رہے ہیں ۔میرے سلفی بھائیوں آج صبح میں آپ سبھی لوگوں سے التماس کیا تھا کہ جماعت اور جمعیت کے اختلافات کو سوشل میڈیا پر ہائیلائٹ کرکے بازارو نہ بناؤ ۔مگر آپ لوگ اپنی حرکت سے باز نہیں آ رہے ہیں جس کا نتیجہ سامنے آ رہا ہے کہ ہمیں کاغذی شیر کے لقب سے ملقب کیا جا رہا ہے ۔اس لیے آپ لوگوں سے ایک پھر گزارش ہے کہ اگر یہ جمعیت جماعت کے دستور نہیں چل رہی ہے تو دنیا کے کسی کونے میں ہو آپ سبھی 24 کو دہلی پہنچیں تاکہ ہم جماعت اور جمعیت کو جوڑنے میں کچھ کام آ سکیں ۔اور گیدڑوں کوگیدڑ بھپکی مارنے سے روک سکیں ۔کتنے لوگ متفق ہیں بتائیں تاکہ اصلاح کا پہلو تلاشہ جائے۔

محمد نسیم:ماشاء اﷲ مطیع الرحمن عزیز صاحب. اﷲ آپ کو سلامت رکھے زندہ باد۔آج تک شیخ اصغر صاحب کے خلاف میں نے جتنی تحریریں پڑھیں کسی بھی تحریر میں یہ نہیں کہا گیا کہ جمعیت کو یہ اور وہ کرنا چاہئیے تھا انھوں نے نہیں کیا بلکہ صرف حاسدانہ حاقدانہ باتیں کہہ کر انکے پاس یہ نہیں تھا وہ نہیں تھا اتنی اتنی پراپرٹی بنا لیا لاحول ولا قوۃ الا باﷲ۔اس سلسلہ میں سب کو پہلے اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے جمعیت کو اگر فعال شخص مل گیا ہے تو پندرہ نہیں پچاس سال خدمت کرے کیا فرق پڑتا ہے ۔بجائے اس کے کہ اسکی تحسین ہو لوگوں نے پوری جماعت کو ہی مشکوک ومطعون بناکر رکھ دیا ہے۔اﷲ ہم سب کی اصلاح فرمائے اور جمعیت وجماعت کے لئے مخلص۔آمین

محمد نسیم اختر سلفی: جی! بالکل ہم نے باریک بینی سے مکمل تحریر پڑھی مجھے اس کا اعتراف ہے کہ آپ جیسے ہمت والے اور بے باک صحافی ہی اس طرح کی تحریر پر قدرت رکھتے ہیں۔اﷲ آپ کی حق گوئی میں برکت عطا فرمائے ۔اﷲ آپ کو مزید استقامت سے نوازے۔

عابد جمال الدین سلفی:ذمہ داران جمعیت کا انتخاب مجلس عاملہ کرتی ہے اور اگرکسی کو شیخ اصغر صاحب کی قیادت پر شبہ ہے تو ان کے مقابلے میں ان سے کوئی بہتر امید وار لائے نہ کہ فیس بک پر ایک دوسرے کی غیبت کرے۔رہی بات ذمہ داری سے برآت کے اظہار کرنے کی تو قائددانہ صلاحیت ہونے کے باوجود قیادت یا ذمہ داری ادا کرنے سے راہ فرار اختیار کرنا بھی جرم ہے۔ شیخ اصغر صاحب نے اپنے ذمہ دار ساتھیوں کے ساتھ مل کر جمعیت کیلئے بہت کچھ کیا ہے۔ لہذا ابھی ضرورت کے وقت جمعیت کو کسی نا اہل آدمی کے ہاتھ میں سونپ دینا صحیح نہیں ہوگا۔

ایم ڈی جہانگیر:مطیع الرحمن عزیز نے جو عنوان قائم کیا ہے اصلاح کے نام سے بغاوت کرنے والے میں سے معتبر اہل علم حضرات ایس یعنی مجاد جماعت وجمعیت بلکہ اس سے بڑھ شیر جماعت جیسے القاب سے نوازتے تھے اور واقعتا آج بھی شیخ شیر جماعت ہی ہیں اس کی دسیوں مثال کاتب صاحب کی تحریر میں ہیں آج سے پندرہ سال پہلے جمعیت وجماعت کو دس فیصدی لوگ جانتے تھے اور آج الحمد اﷲ کم از کم نوے فیصد لوگ جمعیت وجماعت سے واقف ہوگئے ہیں یہ بھی شیخ اصغر اور ان کے معاونین کا کارنامہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج چند اکابرین کے ساتھ ساتھ ہزاروں اصاغر نام نہاد علماء بھی اصلاح کے نام سے جمعیت کے ناظم وامیدوار بننے کے لئے ایڈی اونچی کر رہے ہیں اور بڑے بڑے مستقبل کے پروپوزل پیش کر رہے ہیں۔ اﷲ جماعت وجمعیت کو نظر بد سے محفوظ رکھے ۔ آمین۔

محمد اکرم کا کمنٹ:اخلاق سارے کردار پر بھاری ہوتا ہے ۔صرف بہار صوبہ سے تعلق رکھنے کی وجہ سے کارہائے نمایاں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔اکثر لوگ سپرہ چشمی کا شکار ہو رہے ہیں صرف صوبائی عصبیت ، ذاتی مفادات اور ذاتی بغض و عناد کے بنا پر۔

صفی الرحمن سلفی:تحریر میں صداقت غالب ہے، آج کل ایسی تحریر ناپید ہیں۔ صورتحال اس قدر خراب ہے کہ خوبیوں اور سچائیوں کو پردہ خفا میں رکھا جاتا ہے، اور عیب جوئی اور جھوٹ کا سہارا لیا جاتا ہے!
یہ چند آراء جو مجھے تحریری شکل میں موصول ہوئے بقیہ سب اس بات کو مانتے ہیں کہ صرف کسی چیز کی پرچھائیں لوگوں کو دکھائی جا سکتی ہے وجود کو اکٹھا کرنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے۔ اس درمیان مجھے مضمون کی افادیت کے تعلق سے کچھ ایسی شخصیات کے فون کالز دستیاب ہوئے جن کا نام لکھنا ان کیلئے نقصاندہ ہے۔ لیکن اشارہ صرف اس بات کا ہے کہ جمعیت اہلحدیث اور ان کے فیصلے سے تقریبا سو فیصد لوگ مطمئن ہیں۔ بقیہ اگر ان میں سے صفر پوائنٹ ایک لوگ اپنی بدکرداری کا نمونہ پیش کر رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ جمعیت اہلحدیث کی قربانیوں اور اس کے اراکین کے چوبیس گھنٹوں کی محنت ومشقت کو فراموش کر دیا جائے۔ تمام ملک بھر کے جماعتی برادران کا تعاون جمعیت اہلحدیث کے ساتھ ہے اور ان سے پہلے جیسے موثر کاموں کی توقع ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو بہتر سمجھ عنایت فرمائے۔ آمین۔

Mutiur Rahman Aziz
About the Author: Mutiur Rahman Aziz Read More Articles by Mutiur Rahman Aziz: 7 Articles with 6496 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.