خیبر پختونخواہ کیوں ڈوبا؟

پاکستان میں حالیہ آنے والے سیلاب نے ملک بھر میں بالعموم اور صوبہ خیبر پختونخواہ میں بالخصوص جو تباہی برپا ہوئی ہے اس سے ہم سب اچھی طرح آگاہ ہیں۔

بشکریہ ہارون رشید صاحب

“صوبہ خیبر پختونخواہ میں مذہبی قدامت پسندی (معذرت کے ساتھ) کو اگر ذہن میں رکھیں تو گلی میں گھومنے والے افراد کا یہ جواب سے کہ یہ سیلاب تو ’اللہ کا عذاب تھا، اللہ رحم کرے‘ حیرت نہیں ہونی چاہیے۔

ہر کسی کا ’خیبر پختونخواہ کیوں ڈوبا‘ کے سوال پر یہی جواب ملے گا۔ لیکن ضمنی سوال کہ حکومت اگر تیار ہوتی ایک منظم انداز میں اس قدرتی آفت سے نمٹنے کو تو ہر کسی کا غصہ ابل پڑتا ہے۔ کوئی مناسب وارننگ نہ ملنے اور کوئی امداد نہ ملنے کی شکایت کرتا ہے۔

نوشہرہ کے ایک امدادی کیمپ میں امداد کے لیے قطار میں کھڑے محمد صفدر سے پوچھا کہ ان کا علاقہ کیوں ڈوبا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ تو ایک قدرتی آفت تھی۔ آشوب چشم سے سرخ آنکھوں والے اس شخص نے کہا کہ اب یہ آفت محض ان کے صوبے تک محدود نہیں بلکہ پورا پاکستان اس سے متاثر ہے۔ ’یہ ایک مصیبت ہے انشاء اللہ لوگوں کی امداد سے گزر جائے گی‘۔

ظاہر شاہ نے بھی سیلاب میں کافی نقصان اٹھایا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ تو اسے اللہ کی جانب سے قہر قرار دیتے ہیں لیکن کچھ لوگ اسے سیاسی رنگ بھی دیتے ہیں اور پارٹی بازی بھی کرتے ہیں۔ ’اسی پارٹی بازی کی وجہ سے کوئی کہتا ہے ڈیم بنا چاہیے کوئی کہتا ہے نہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کیا بہتر ہے۔ مگر اپنی پینتیس چھتیس سالہ زندگی میں اتنا پانی نہیں دیکھا تھا۔’

گلی بازار کے بعد پڑھے لکھے طبقے کے سامنے یہی سوال رکھا کہ صوبہ کیوں ڈوبا تو قدرے مختلف جواب ملے۔ وکیل شاہد برکی حکومت کو اس ساری تباہی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ ’سب لوگوں کو غصہ مقامی ضلعی انتظامیہ پر چڑھا ہوا ہے کہ انہوں نے ہمیں بروقت مطلع نہیں کیا ہے۔’

لیکن زیادہ تباہی کی ایک بڑی وجہ بڑی آبادی کا تنبیہ کے باوجود انخلاء نہ کرنا بھی ہے۔ یہ وارننگ کا واضح نہ ہونا بھی ہوسکتا ہے۔ متاثرین اور ماہرین سے بات ہوئی تو دونوں کا ماننا ہے کہ محمکہ موسمیات کی تنبیہ آئی ضرور تھی لیکن ’غیرمعمولی’ سیلاب کی پیشگوئی کو مناسب انداز سے واضح نہیں کیا گیا تھا کہ اس غیرمعمولی سیلاب سے کیا مراد ہے۔

پشاور، چارسدہ اور نوشہرہ کے اضلاع ’سیلاب پرون’ اضلاع ہیں۔ یہاں ہر سال سیلاب آتے ہیں، نقصانات بھی ہوتے ہیں لیکن چند روز کے بعد معملہ ختم ہو جاتا ہے۔ اس مرتبہ بھی بڑی آبادی نے اسے سالانہ سیلاب کے معمول کا حصہ مانا اور انخلاء میں تاخیر کی۔ درست صورتحال کی بروقت ترسیل نہیں ہوئی۔

شاہد برکی نے بتایا کہ لوگ یہی سمجھ رہے تھے ہر سال کی طرح کا سیلاب آئے گا جس سے خشکی روڈ پر ایک دو فٹ پانی ایک آدھ دن کھڑا رہے گا اور بس۔ ’لوگوں کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ یہ سیلاب انہوں نے اپنی زندگی یا اسی سال میں نہیں دیکھا گیا ہوگا۔ ڈی سی او صاحب نے نہیں بتایا کہ بیس بائیس فٹ پانی آئے گا‘۔

خیر آباد کے مقام پر بھی دریائے کابل کے کنارے کافی بڑی آبادی ہے۔ لیکن یہاں بسنے والوں کو صرف تاکید کی ہے، واضح نہیں کیا تھا۔ یہاں کے رہائشی انوار الحق نے کہا کہ فوج کے لوگ ان سے پھنسے ہوئے لوگوں کے بارے میں دریافت کر رہے تھے انہیں بتانے والوں کوئی ضلعی انتظامیہ کا اہلکار موجود نہیں تھا۔ ’لوگوں نے سب کچھ اپنی مدد آپ کے تحت کیا ہے‘۔

محکمہ موسمیات کی ویب سائٹ پر اٹھائیس جولائی کی صوبہ خیبر پختونخوا میں موسم کی ایک سطر کی رپورٹ میں صوبے میں جگہ جگہ شدید بارش کی پیشگوئی کی گئی ہے اور بس۔ یہ بارش کتنی شدید یا غیرمعمولی ہوسکتی اس بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا ہے۔ عام لوگوں کے لیے یہ معلومات یقیناً ناکافی تھیں۔“
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 532637 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.