سلمان کی آنکھ کھلی تو وہ سرکاری ہسپتال کے بیڈ پر پڑا
ہوا تھا،،،اسلم پریشانی سے
اسے بس گھورے جا رہا تھا،،،سلمان نے ہاتھ اٹھا کر اسے سلام کرنا چاہا،،،بس
اک کراہ
کے ساتھ اس کا ہاتھ وہاں ہی رہ گیا،،،
درد کی شدت نے اسے آنکھیں بند کرنے پر مجبور کر دیا،،،
کیا ملک ہے،،،کیا ظلم ہے،،،غریب کہاں جائے،،،اسلم بڑ بڑانے لگا،،،نہ کوئی
عدالت ہے
نہ کوئی منصف،،،بس طاقت ہے،،،اس کا نشہ ہے،،،
سلمان نے آنکھیں کھول دیں،،،مسکراہٹ اس کے لبوں کو چھو کر گزر گئی،،،یار
کیا ہوا؟؟
زندہ ہوں،،،ٹھیک ہوں،،،مار بھی دیتے تو ہم نے کیا کر لینا تھا،،،یہاں قانون
نہیں،،،،
غریب کی لنگوٹ ہے،،،جو مرضی چاہے،،،کھینچ لے،،،
بس نہ دن اپنا،،،نہ رات اپنی،،،ہم ابھی آزاد کہاں ہوئے ہیں،،،گورا اپنی
لاٹھی ان کتوں کو
دے گیا ہے،،،جو دن رات اس کے تلوے چاٹتے رہے تھے،،،اب یہ خون آشام درندے
ہماری زندگیوں کے فیصلے کرتے ہیں،،،کون عزت والا ہے۔۔کون معصوم۔۔کون گناہ
گار
سب کچھ ان کے ہاتھ میں ہے۔۔
اسلم نے اداسی سے اسے دیکھا،،،بابا جی کے بیٹوں نے بتایا کہ کوئی لڑکا بابا
جی کےساتھ
بند ہے،،،ورنہ ہمیں تو پتا بھی نہ چلتا،،،ہم تو گمشدگی کی رپورٹ لکھوانے
آئے تھے،،،
وہاں کے ڈیوٹی آفیسر نے کہا،،،اوہ اس چور کی رپورٹ تونہیں لکھوانے آئے
ہو،،،جس نے
صاحب کے گھر چوری کی ہے،،،بڑی مشکل سے وکیل صاحب نے بھاگ دوڑ کی،،،
تو یہاں تک لے آئے،،،ورنہ یہ ظالم تو مار ہی دیتے،،،
سلمان نے دکھی لہجے میں کہا،،،یار جسم کے زخم تو بھر ہی جائیں گے،،،مگر جو
روح کے
زخم ہیں،،،ان کاکوئی علاج نہیں،،،مگر یہاں سب کےسب بے قصور ہی تھے،،،اللہ
کا خوف
ہی نہیں ان جیسوں کو،،،یہ کسی کی لیبارٹی میں پیدا ہوئے ہوں جیسے،،،کوئی ان
کوپوچھنے
والا نہ ہو گا،،،ان کوجیسے موت ہی نہیں آنی۔۔۔
چالیس سالہ کمزور سا وکیل سامنے آگیا،،،سلمان بھائی،،،آپ نے زبان بند رکھنی
ہے
ورنہ یہ لوگ پھر کسی الزام میں اٹھالیں گےآپ کو،،،ہم سب نے ضمانت دی ہے کہ
آپ
کوئی بھی کسی بھی وقت اس سب کا ذکر نہیں کریں گے،،،
پلیز آپ بس حوصلےسے کام لیں،،،ان ظالموں سے صرف یہ ظالم ہی پناہ دے سکتے
ہیں
ان کی وردی ہی نہیں دل بھی سیاہ ہے،،،
سلمان نے آنکھوں سے ہامی سی بھری،،،اورآنکھیں بند کرلیں۔۔۔۔۔۔(جاری)
|