یہ کبھی دنیا کے مصروف ترین ریلوے سٹیشنوں میں سے ایک تھا
اور یہ فرانس اور سپین کی سرحد پر سر اٹھائے کھڑا تھا لیکن پھر یہ امتدادِ
زمانہ کی نذر ہو گیا۔ لیکن کرس بوکمین بتاتے ہیں کہ اس میں نئی جان پھونکی
جا رہی ہے۔
جب کینفرینک میں سٹیشن کی تعمیر ہوئی تھی تو پیسے خرچ کرنے میں کوئی کسر
نہیں اٹھا رکھی گئی تھی۔ اسے بڑا اور جدید طرز پر تیار کیا جانا تھا تاکہ
آرکیٹیکٹ کے خوابوں کی تکمیل ہو سکے۔ اسے فولاد اور شیشے سے تیار کیا جانا
تھا جس میں ایک ہسپتال، ریستوران اور فرانس اور سپین کے کسٹم آفیسرز کی
رہائش کے لیے مکانات بھی ہوں۔
|
|
اس وقت اسے 'پہاڑوں کے ٹائٹینک' کا نام دیا گیا تھا۔
اس کی عظمت کا ایک اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ سال کے ہر دن کے حساب سے اس
میں 365 کھڑکیاں، 100 دروازے اور اس کا پلیٹ فارم 200 میٹر طویل تھا۔ اسے
ایک پہاڑی گاؤں میں تعمیر کیا گیا تھا جس کی آبادی 500 لوگوں پر مشتمل تھی۔
20ویں صدی کی آمد پر سپین اور فرانس کے حکام نے پائرینیس سے اپنی سرحد
کھولنے کا منصوبہ بنایا تاکہ زیادہ نقل و حمل اور تجارت ہو۔ یہ ایک بڑا اور
حوصلہ مند پروجیکٹ تھا جس میں درجنوں پل اور پہاڑوں کے درمیان سرنگیں بنانا
شامل تھا۔
ایک وقت ایسا بھی آیا جب اس کام کو روکنا پڑا کیونکہ فرانس کے کام کرنے
والوں کو پہلی جنگ عظیم میں لڑنے کے لیے بھیج دیا گیا اور ان کی جگہ سپین
والوں نے لے لی۔
|
|
اس لیے سٹیشن سپین کی جانب ہی تیار ہو سکا لیکن اس کا ایک پلیٹ فارم ابھی
بھی فرانس کا خطہ سمجھا جاتا ہے جہاں فرانس کا ایک قسم کا سفارت خانہ ہے۔
فرانسیسی پولیس اور کسٹم افسر اپنے بچوں کو فرانسیسی زبان کے سکول میں
بھیجنے لگے جو کہ گاؤں میں قائم کیا گیا تھا۔
لیکن جب سنہ 1928 میں فرانسیسی صدر گیستوں دومرغ اور سپین کے شاہ الفونسو
سیزدہم نے اس کا افتتاح کیا تو اس کی خامیاں فوری طور پر واضح ہونا شروع ہو
گئیں۔
دونوں جانب کی ٹرین کی پٹریوں کی چوڑائی مختلف تھی اس لیے مسافروں کو وہاں
ٹرین بدلنی ہوتی تھی جس کے سبب مال کے نقل و حمل میں بھی سستی تھی۔
سنہ 1929 کی کساد بازاری کا بھی اثر ہوا اور 1930 کی دہائی کے اوائل میں
یورپ کے اس دوسرے سب سے بڑے سٹیشن سے روزانہ صرف 50 مسافر ہی سفر کرتے تھے۔
اس کے بعد حالات مزید خراب ہو گئے۔ سپین کی خانہ جنگی کے دوران سپین کی
جانب کی سرنگوں کو بند کر دیا گيا تاکہ رپبلکن باغی ہتھیار سمگل نہ کرسکیں۔
|
|
بہرحال جب دوسری جنگ عظیم کے دوران یہ راستہ پھر سے کھلا تو ہزاروں یہودیوں
اور اتحادی فوجیوں نے سپین بھاگنے کے لیے اس راستے کو اختیار کیا۔
آج کینفرینک کے میئر فرنینڈو سانچیز ہیں جن کے والد اس سٹیشن پر کسٹم آفیسر
تھے۔
انھوں نے بتایا کہ یہ اتحادیوں کے لیے جاسوسی کا اڈا بن گیا تھا تاہم جرمنی
والے اس راستے کا استعمال یورپ سے چرائے ہوئے سونے کو لانے لے جانے کے لیے
کرتے تھے۔
جنگ کے بعد فرانس کی اس میں دلچسپی کم ہو گئی اور اسے ختم ہونے دیا گیا۔ جب
سنہ 1970 میں ایک ٹرین پٹری سے اتر گئی اس کے بعد سے فرانس نے اس ریل لائن
کو ترک ہی کر دیا۔
|