آج بھی دنیا کی تا ریخ گوا ہ ہے اوریقینا اِس تاریخ سے
بھی کسی کو انکار نہیں ہے کہ گزرے زما نے میں ایک بار ایک چنگیزخان نا می
ظا لم نے اِنسا نی سرکاٹ کر اِن سروں کا مینار بنا یا تھا جب سے آج تک دنیا
اِس کے ظلم و ستم کی مثالیں دیتی اور اُس پر تُھو تُھو کرتی نہیں تھکی ہے
اورآنے والے وقتوں میں جہاں کہیں بھی ظلم وستم کا تذکرہ ہوگا قیامت تک اِس
پر دنیا لعنت ملامت کرتی رہے گی ۔جبکہ اِس کے برعکس ہما رے یہاں توگزشتہ
ستر سالوں سے ہر تین سے چار سال بعد(یا جب کبھی اِ س سے بھی پہلے ) تُزک و
احتشام کے ساتھ ہو نے والے انتخابات میں جمہوریت کی آبیاری کے خاطر سر گِن
کر عوا می حقوق غضب کرنے اور سر کا ٹنے والوں کا چناؤہوتا ہے ۔یہاں غور طلب
پہلو یہ ہے کہ پھر بھی کو ئی اِس سا نحے کی طرف سنجیدگی سے تو جہ دینے کو
روادار ہی نہیں ہے حا لا نکہ یہ سر کاٹ کر سروں کے مینار بنا نے والے ظالم
سے زیادہ بڑا المیہ ہے یہاں متعدد بار یہی ہوا ہے(آئندہ بھی ہوتارہے گا )کہ
برسرِ اقتدار نے حزبِ اختلاف کے اُچھل کود کرنے والوں سمیت مفلوک الحال
عوام پر ظلم و ستم کے طرح طرح کے پہاڑ ڈھائے اور اِن کی لاشوں پر سیاست کی
ہے۔
اَب اِس منظر اور پس منظر میں راقم الحرف کا قوی خیال یہ ہے کہ ممکنہ طور
پر سا لِ آئندہ 2018ء میں ہونے والے انتخا بات میں بھی مُلکِ پاکستان میں
نام نہاد رائجِ جمہوریت کے لئے مکار و عیار(نوازو زرداری اور دیگر) سیاسی
گھرا نوں سے تعلق رکھنے والے مٹھی بھر سیاستدان اور اِن کے اِدھر اُدھر کے
چالباز و لومڑی کی چالاکی سے زیادہ چالاک سیاسی حواری پھر عوام کا سر گن کر
مسندِ اقتدار پر قا بض ہو جا ئیں گے اوریہ پھر وہی کریں گے جیسی اِن کی ستر
سالہ روا یات ہیں ۔ٹھیک ہے کہ 21ویں صدی کی اقوامِ عالم میں جمہوریت ایک
قابلِ تعریف اور لا ئقِ تحسین و افتخار حقِ حکمرا نی ضرور ہے مگر یہ اُن
اقوام اور ممالک کے لئے اچھا اور معیاری حکمرا نی کا طریقہ ہے جہاں
معیارِتعلیم کے بدولت اِنسا نی شعور اُوجِ ثُریا سے بھی بلند ہے مگر افسوس
کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ پاکستان میں نہ عالمی معیار کی تعلیم ہے اور نہ
عوام میں عالمی سطح کا شعور ہے۔بیشک،دنیا کے جن ممالک اور اقوام میں تعلیم
اور شعورحد درجہ بلند ہے وہاں تو جمہور اور جمہوریت سے بہتر کوئی اور حکمرا
نی کا طریقہ کامیابی او ر کامیابیوں سے ہمکنار نہیں ہوسکتا ہے مگربدقسمتی
سے میرے دیس پاکستان میں جمہورو جمہوری اور جمہوریت کا طرزِ حکمرا نی کسی
بھی طور کامیا بی اور کامیا بیوں سے ہمکنار ہوبھی نہیں ہوسکتا ہے ایسا اِس
لئے بھی ممکن نہیں ہے کہ ہمارے مُلک میں تعلیم اُس درجہ بلند نہیں ہے جیسی
کہ دیگر ممالک اور اقوام میں ہے جب ایسا نہیں ہے تو پھر ہمارے عوام میں
بلند شعور کا ہونا بھی نا ممکن ہے چونکہ پچھلے سترسالوں سے جن لو گوں نے
اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کے حصول کے خاطر جمہوری ڈگڈگی بجا نے کا ٹھیکہ
لے رکھا ہے اُنہوں نے سب سے پہلے تواپنے عوام کو تعلیم کے حصول سے بہت
پیچھے اور دور رکھا ہوا ہے ایسا محض اِس لئے کیا گیاہے کہ آج اگر تعلیم اُس
طرح پاکستا نی عوام الناس تک پہنچ گئی اور اِ ن میں شعور بھی بیدا ر ہوگیا
جس طرح دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک اور اقوام ِ عالم تک تعلیمی ثمرات
پہنچ چکے ہیں اور اُن میں شعورپوری طرح بیدار ہوچکاہے اور دنیا کی یہ قومیں
اپنے حکمرانوں کا چناؤ تعلیم اور شعور کے بل پر کرتی ہیں اور اِسی بنیاد پر
اِن کے حکمران پا بند ہوتے ہیں اور اِسی لئے وہ اپنے سے زیادہ اپنے مُلک
اور اپنے عوام کی ترقی اور خوشحالی کے بھی پابند ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ
حکمران کرپشن اور لوٹ مار اور اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کے حصول سے
دوررہتے ہیں اور صرف اور صرف اپنے سے زیادہ اپنے مُلک اور اپنے عوام کے لئے
بہتر سے بہتر کرنے کے لئے متحرک رہتے ہیں اِنہیں احساس رہتا ہے کہ اِن کا
چناؤ اِن کے پڑھے لکھے اورباشعور عوام اور ووٹرز نے کیا ہے اِس لئے حکمران
اِدھر اُدھر بھٹکنے سے پہلے اپنے احتساب اور محاسبہ سے خوفزدہ رہتے ہیں اور
جب کوئی بحالتِ شیطانی کسی قسم کی کرپشن کربھی بیٹھتا ہے تو وہ اپنی غلطی
کھلے دل و دماغ سے تسلیم کرتے ہوئے عوامی عدالت میں اپنے احتساب اور محا
سبہ کے ڈرسے خود ہی اپنے عہدے سے مستعفیٰ ہوجاتا ہے جیسے آج امریکی وزیرصحت
ٹام پرائس سرکاری دوروں کے لئے مہنگے نجی جہازوں میں سفر کرنے پرقومی خزا
نے سے 10لاکھ سے زائد رقم پا نی کی طرح بہائے جا نے پرمعافی مانگتے ہوئے
مستعفی ہوگئے بلکہ اُنہوں نے قومی خزا نے سے خرچ ہونے والی رقم واپس لوٹانے
کی بھی پیش کش کردی اُنہوں نے اپنے تعین یہ اقدام جب اُٹھایا جب یہ خبر
عوام میں پھیلی اور عوام میں اِن کے خلاف شدیدغم و غصہ پایا گیاتو اِسے کم
اور ٹھنڈاکرنے کے لئے یہ سب کیا۔ وہاں ہما ری طرح محض 18سال کا کو ئی گھوڑا
گدھا اور پاگل مینٹل اور کو ئی نفسیاتی مریض اور جاہل گواراوراَنپڑھ اپنے
حلقے کے اپنی پسند کے انتخا بی اُمید وار کوالیکشن میں ووٹ دے کر
اپناحکمران نہیں چُنتاہے اور وہاں ہماری طرح محض سر وں کی گنتی کرکے
حکمرانی کا حق سپر د نہیں کیا جا تا ہے اور نہ ہی کو ئی اِس طرح اقتدار
لینا چا ہتاہے اور نہ ہی لیناچا ہے گا جبکہ ہمارے یہاں عوام کے سر وں کی
گنتی کرکے مسندِ اقتدار پر قا بض ہونے والوں کی کو شش ہوتی ہے کہ کسی بھی
طرح سے حکمرا نی کی چُڑیا اِن کے ہاتھ لگ جا ئے توپھر یہ جس طرح سے چا ہیں
عوام کا خون نچوڑیں اور قومی خزا نہ اپنی مرضی سے چاہیں جیسے لوٹ کھا ئیں
اور جب پکڑے جا ئیں اورجب کبھی اعلی عدلیہ سے نا اہل قرار دے دیئے جا ئیں
تو پھر اداروں کے خلاف سڑکو ں پر نکل کر چیختے چلاتے اور گریبان چاک کرتے
اور سرو ں پہ دھول مٹی ڈالتے کہتے پھریں ’’ مجھے کیو ں نکالا ‘‘ میرا قصور
کیا تھا؟،پا نا ما پر پھنسا یا اقا مہ پہ نکا لا ‘‘ یوں عوام میں اشتعال
انگیزی پھیلا کر قومی اداروں میں تصادم کی راہ ہموار کریں جیسا کہ اِن
دِنوں آف شور کمپنیوں کے استاد الکرپشن نوازشریف اینڈ فیملی اور ن لیگ کے
حواری عوام کی عدلیہ اور اسٹیپلیمنشٹ کے درمیان لڑا ئی کی سازش تیار کرچکے
ہیں اور انتظار میں ہیں کہ کب عوام اور اداروں کے درمیان گھمسان کا رَن
چھیڑے تو یہ اِس کا فا ئدہ اُٹھا ئیں اور اپنی سازش میں کا میا ب ہو جا ئیں
با لفرض اگر یہ اِس میں پوری طرح کامیا ب ہوگئے تو پھر یہ اِسی سازش اور
عوامی سروں کو اگلے الیکشن کے لئے اپنی کامیابی کا زینہ بنالیں گے اور پھر
خود ہی خود کو حقِ حکمرانی کابھی حقدار قرار دے دیں گے اور مسندِ اقتدار پر
قدم رنجا فرما کر قوم کا سر کا ٹیں گے اور مہنگا ئی و بھوک و افلاس کی چکی
میں پیس کر رکھ دیں گے۔ختم شُد |