چاچا غفور چارپائی پر بیٹھا ہوا کسی گہری سوچ میں گم
تھاکبھی اپنے کھردرے ہاتھوں کی تیل کے ساتھ مالش کرتا اور کبھی آسمان کی
طرف نگاہ ڈال کر ــاﷲ اکبر کا نعرہ بلند کرتا اسی اثنا میں ساتھ والا مستری
سکندر دروازے سے اندر داخل ہوا ، دروازہ زور سے کھلنے کی وجہ سے چرچرا اٹھا
اندر داخل ہوتے ہی اس نے پہلے تو صحن میں ارد گرد نظریں دوڑایئں پھر چاچا
غفور کی طرف بڑھ گیا اور زور دار آواز سے سلام کیا اچانک اپنے بچپن کے دوست
کی آواز سن کر چا چا ہڑبڑا اٹھا اور گہری سوچ سے باہر نکل آیا، چا چا سکندر
سمجھ گیا کہ اس کے دوست کی طبیعت خراب ہے یا پھر کوئی پریشانی ہے اس نے
بیٹھتے ہی چاچا سے تفتیش شروع کر دی کہ کیا پریشانی ہے؟ طبیعت تو نہیں خراب؟
کچھ گم تو نہیں ہو گیا؟ چا چا اتنے سوالوں کے کیا جواب دیتا ٹھنڈی آہ بھر
کر بات کو اِدھر ادھر کرنے کی کوشش کی لیکن سکندر کے آگے اس کی ایک نہ چلی
او رچاچا غفورکو مجبوراََ اپنی داستان سنانا پڑھی اور مستری سکندر کو بے
تکلفی سے مخاطب کرتے ہوئے بولا کہ سکندرے تو تو میرا بچپن کا دوست ہے تیرے
سے کیا چھپا ہے پھر بھی میرے منہ ہی سے سننا چاہتا ہے تو سن شائد میرے دل
کا بوجھ بھی ہلکا ہو جائے۔ بات در اصل یہ ہے کہ بیوی سات سال سے چارپائی پہ
لگی ہوئی ہے سانس کا مسئلہ اکثر رہتا تھا لیکن پیسے نہ ہونے کی وجہ سے کسی
ہسپتال نہ لے جا سکا کہ پتا نہیں کتنے پیسے مانگ لیں گئے تو گھر میں فاقہ
ہو جائے گا کچھ دن پہلے بے نظیر سپورٹ فنڈ کے چند ہزار ملے تو ہسپتال لے
گیا، ڈاکٹر نے چیک اپ کے بعد بتایا کہ دمے کا مرض ہے لاپرواہی کی وجہ سے
بگڑ گیا ہے پانچ سو الگ رکھ کر باقی پیسے ڈاکٹر کے حوالے کر دیے، گھر پہنچے
تو تیمارداروں کی لائنیں لگ گئی اور باقی پانچ سو لوگوں کی چائے پانی میں
لگ گیا اب دو دن کی دوائی باقی ہے مزدوری اتنی کرتا ہوں جس سے دو ٹائم کا
کھانا کھا سکوں ، اب تو ہی بتا کہ اس حالت میں مجھے ہنسنا چاہیے یا رونا
چاہیے ؟ ماحول افسردہ دیکھ کر چا چا نے سکندر سے پوچھاکہ اور کچھ بھی
پوچھنا ہے یا جان چھوڑنے کے بھی پیسے لے گا؟ سکندر کے ہونٹوں پر پھیکی سی
مسکراہٹ آکر غائب ہو گئی کیوں کہ اس کے پاس اب پوچھنے کے لیے کچھ نہیں تھا۔
قارئین یہ تو ایک گھر کی کہانی ہے ہمارے ارد گرد ایسی بہت سی کہانیاں بکھری
پڑی ہیں، در اصل یہ مسائل ہمارے اپنے پیدا کیے ہوئے ہیں ، معاشرتی طور پر
ہم اتنی اخلاقی گراوٹ کا شکار ہو چکے ہیں کہ ساتھ پڑوس میں بچے بھوک سے رو
رہے ہوتے ہیں اور ہم ان کو کوستے ہیں کہ وہ ہمارے آرام و سکون میں خلل ڈا ل
رہے ہیں، معاشرتی تفریق اور طبقاتی نظام نے ہمارے دلوں کو پتھر بنا دیا ہے
زکوٰۃ ادا نہ کرنے کی وجہ سے امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جا رہا
ہے، یہاں پر بہت سی جگہوں پر میں نے دیکھا ہے کہ ایک گھر سے میت اٹھ رہی ہے
اور اسی گلی میں شادی کے پروگرام میں فل آواز میں گانوں پر رقص ہو رہا ہے
کیا ہم اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ ان کے دو تین دن کے سوگ میں میں ان کے
ساتھ تعاون نہیں کر سکتے تو ان کے دکھ اور غم میں مزید اضافہ کریں گئے؟ اور
ایسا ماحول زیادہ تر شہروں میں ہے جہاں نفسا نفسی کا عالم ہے لوگوں کو اپنی
ذات کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ۔ میں ذریعہ معاش کے لیے گزشتہ کئی سالوں سے
یہاں پر اکیلا مقیم ہوں بہت دفعہ دل میں خیال آیا کہ فیملی کو بھی ساتھ لے
آؤں تھوڑی سہولت ہو جائے گی۔ لیکن ماحول ، رہن سہن اور نفسا نفسی کو دیکھ
کر ارادہ کمزور پڑھ جاتا ہے کیونکہ گاؤں کے ماحول آج بھی بہت اچھے ہیں وہاں
پر لوگ ایک دوسرے کی خوشی غمی میں شریک ہوتے ہیں جس کی وجہ سے تکلیفیں کم
ہو جاتی ہیں فوتگی والے گھر میں کئی کئی دن تک کھانا نہیں پکنے دیتے، شادی
کے کاموں میں چپکے سے ایک دوسرے کی مدد کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے بچیاں
والدین پر بوجھ نہیں بنتیں، اکثر آپ نے دیکھا ہو گا کہ شادی میں جب ہم لوگ
جاتے ہیں تو پیسوں کا ایک لفافہ ضرور جیب میں رکھتے ہیں جس کو سلامی یا
نیندرہ بھی کہا جاتا ہے یہ بھی ایک اچھی بات ہے اس سے بھی والدین پر شادی
کے اخراجات پورے کرنے میں مدد ملتی ہے لیکن کیا کبھی ہم نے سوچا کہ کسی
عزیز ، رشتہ دار یا غریب کی بیمار پرسی کے لیے ہسپتال یا اس کے گھر جانے سے
پہلے اپنی جیب میں ایک ویسا ہی لفافہ رکھیں کیوکہ اس وقت کوئی ہسپتال میں
زندگی اور موت سے لڑ رہا ہوتا ہے اور پیسوں کی کمی کی وجہ سے کئی چا چا
غفور کی بیویاں اور بیٹیاں مر جاتی ہیں یا معذور ہو جاتی ہیں، حالانکہ اس
وقت مریض کے گھر والوں کو پیسوں کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے اور ہماری تھوڑی سی
مدد سے کئی زندگیاں بچ سکتی ہیں ۔ خدارا اگر اﷲ نے آپ کو توفیق دی ہے تو
اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں اور دیکھیں کوئی غریب کا بیٹا بھوکا تو نہین سو
رہا؟ ہسپتال یا مریض کے گھر جاتے ہوئے پیسوں کا ایک لفافہ ضرور رکھیں ، اور
ان کی عزت نفس کا بھی خیال رکھیں۔اﷲ تعالیٰ اس کے بدلے میں کئی گناّ دیتا
ہے۔
|