ایک وقت تھا کہ صحافت کے شعبے سے بہت کم لوگ وابستہ
ہوتے تھے اور جو لوگ اس شعبے سے وابستہ ہوتے تھے وہ اس شعبے کے تقدس اور
اسکی اہمیت اور معاشرے میں اپنے کردار کی مکمل آگاہی رکھتے تھے یہی وجہ تھی
کہ اس دور میں صحافت کے شعبے سے وابستہ افراد کو معاشرے میں بہت بڑے مقام و
مرتبہ سے دیکھا جاتا تھا ۔ماضی کے کئی صحافیوں نے صحافت کے شعبے میں وہ
کارنامہ ہائے سر انجام دیئے ہیں جنہیں آج بھی یاد کر کے سر فخر سے بلند ہو
جاتا ہے ۔بہت سے ایسے صحافیوں سے ماضی کی تاریخ بھری پڑی ہے جنہوں نے وقت
کے حاکم کے آگے کلمہ حق کہا اور نہ بکے اور جھکے اور طرح طرح کے مظالم سہنے
کے باوجود اس مقدس پیش کے تقدس کی بحالی کو بر قراررکھا یہی وجہ ہے آج سبھی
کو ان پر فخر ہے صرف یہی نہیں بہت سارے صحافیوں نے جانوں کے نذرانے پیش کر
کے ایک نئی تاریخ رقم کی اور آج بھی اُ ن کو اس پر فخر ہے ۔صحافت کے شعبے
کی جو آج اہمیت نظر آتی ہے یہ مفت میں نہیں ملی اس میں ہمارے صحافتی
اکابرین نے بہت جدوجہد کی اور اس مقدس مشن کی حفاظت کیلئے قید وبند کی
صعوبتیں تک برداشت کی اس لئے اگر کوئی یہ کہے یہ عزت مفت میں عنایت کی گئی
تو یہ جھوٹ ہے یہ ہمارے اسلاف کی جدوجہد اور انکی قربانیوں کا نتیجہ ہے ۔مگر
آج دکھ ہوتا ہے جب اس مقدس شعبے کے تقدس کو پامال کرنے کیلئے کچھ نا عاقبت
اندیش نظر آتے ہیں ۔صحافت کی معاشرے میں جہاں اہمیت بڑھ گئی ہے وہاں صحافت
سے وابستہ افراد کی ذمہ داریاں بھی زیادہ اہمیت اختیار کر گئی ہیں ۔آج کے
صحافی کیلئے خود کو پروفیشنل صحافی بنانا انتہائی مشقت آمیز کام لگتا ہے
کیونکہ جس طرح اس ملک میں اشیائے خوردونوش میں ملاوٹ عام
ہے،سیاست،تعلیم،وکالت غرضیکہ ہر شعبے میں ملاوٹ کا عنصر عام ہے ہر شعبہ میں
پروفیشنل اور عطائی دونوں کا وجود دکھائی دیتا ہے اسی طرح شعبہ صحافت میں
بھی آج صحافی کو دو طرح کے حالات کے سامنا ہے ایک پروفیشنل اور دوسرا
عطائیت اب ایک صحافی کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ پروفیشنلزم کو اختیار کرنا
چاہتا ہے یا عطائیت ۔
معاشرے میں صحافت کی اس اہمیت کے باعث بہت سے عطائی صحافی پروفیشنل صحافیوں
کی نسبت معاشرے میں اپنا وقار زیادہ بنائے پھرتے ہیں معاشرے میں اس نئی
تصویر کشی کو دیکھ کر کئی پروفیشنل اور کہنہ مشق صحافی آج اس شعبے سے خود
کو دور رکھتے نظر آتے ہیں خاص کر علاقائی صحافت میں تو بہت سارے سینئر
صحافی آج اس شعبے سے کوسوں دور ہو چکے ہیں ان میں سے کئی ایسے قابل عزت
صحافی ہیں جنہوں نے شعبہ صحافت سے اپنی دوری کی مدلل دلیل بھی پیش کی ہے جو
حقیقت پر مبنی ہے یہاں تک کہ پروفیشنل صحافی کی نسبت عطائی صحافی زیادہ
فعال صحافی دکھائی دیتا ہے کیونکہ وہ حقیقت میں صحافی کم اور نجی اور
حکومتی اداروں کے ملازمین کے ساتھ ایجنٹ مافیا کے طور پر کام کرتا ہے اور
یوں عام آدمی کچھ لو کچھ دو کی بنیادپر ایسے عطائی صحافیوں کو پروفیشنل
صحافیوں پر فوقیت دیتے ہیں کیونکہ انہیں تو اپنے کام سے غرض ہے انہیں
معاشرتی اقتدار سے غرض نہیں کیونکہ جب سارا معاشرہ ہی کرپشن میں ڈوبا ہواور
ہر شخص اپنے جائز ناجائز کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے کرپشن کا
سہارا لیتا ہو تو پھر ایسے میں پروفیشنل صحافی نہیں ایک ایجنٹ کی ضرورت
ہوتی ہے اور اس طرح کے ایجنٹ عطائی صحافی کے روپ میں اس معاشرے کا حصہ ہیں
اور صحافت کے مقدس شعبے کے تقدس کو پامال کرنے میں اپنا کرداراداکرنے میں
مصروف ہے ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ شعبہ صحافت کوجدید طرز پر ضروراپنایا جائے مگر
صحافتی اقدار اور صافتی اصولوں کو پامال نہ کیا جائے ۔صحافی کسی کا ترجمان
نہیں ہوتا بلکہ وہ تو اس معاشرے کا ترجمان ہوتا ہے اس معاشرے کی برائی اور
اچھائی دونوں کا ترجمان ہوتا ہے دونوں کو اس معاشرے کے سامنے رکھتا ہے اور
اس معاشرے کو موقع دیتا ہے کہ وہ اچھائی اور برائی دونوں میں فرق کو محسوس
کرے مگر آج کی صحافت تو صافت کی ترجمانی نہیں کرتی بلکہ یہ تو شخصیات اور
میڈیا ہاؤسز کی ترجمانی کرتی نظر آتی ہے اگر یہ ترجمانی کا انداز نہ بدلا
تو پھر صحافتی اقدار ضروربدل جائیں گیں اور صحافت پر بھی لوگ تھو تھو کریں
گے ۔
میری اپنے سینئر اور کہنہ مشق صحافیوں سے استدعا ہے کہ صحافت کے اندر آنے
والے اس تغیر کو محسوس کریں اور صحافت کی حقیقی اقدار کے تحفظ کیلئے میدان
میں نکلیں اور حقیقی صحافت اورعطائی صحافت کے درمیان فرق واضح کریں ۔
خصوصی طور پر صحافتی تنظیموں پر بھی نگاہ دوڑائیں اور ایسی تمام تنظیموں کے
خلاف بندھ باندھیں جو عطائی صحافیوں کو تحفظ دے رہی ہیں اور ایسے حضرات بھی
اس وقت صحافت کے علمبردار بنے بیٹھے ہیں جنہیں صحافت کی تاریخ اور اسکے
مقام و مرتبہ تک کا پتہ نہیں ۔ایک صحافی ہونے کیلئے کچھ ضابطہ اخلاق تیار
کیا جائے اور نئے آنے والے نوجوان صحافیوں کی تعلیم و تربیت اور
انکوپروفیشنل بنانے کیلئے تمام اضلاع کے پریس کلبوں ،صحافتی تنظیموں کے
دفاتر میں ہمارے قابل قدر اور سینئر صحافی لیکچر دیں اور عطائی صحافیوں کی
مکمل حوصلہ شکنی کی جائے تمام ریاستی اور نجی اداروں میں صحافت کو مضبوط
ہتھیار بنا کر کہیں سفارش کیلئے تو کہیں بلیک میلنگ کیلئے جو استعمال کئے
جانے کا رواج عام ہوتا جا رہا ہے اس پر بھی نگاہ دوڑائی جائے اور اسکو بھی
روکا جائے کوئی ایسا ـضابطہ اخلاق ضرور بنایا جائے جس پر تمام صحافتی
تنظیموں کا اتفاق ہو اور آئندہ جو بھی صحافتی تنظیم معرض وجود میں آئے وہ
اس صحافتی ضابطہ اخلاق کے مطابق اپنے تنظیمی معاملات چلائے۔
وطن عزیز کے طول و عرض میں اس وقت شعبہ صحافت کا کردار اتنا جاندار ہو چکا
ہے کہ اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا مگر صحافت کے اس میدان کارزار میں جن
صحافیوں نے اپنے فرض کی انجام دہی کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اگر
آج ہماری صحافت میں ملاوٹ ہو گئی اور صحافتی کی حقیقی اقدار داغدار ہو گئیں
تو اس مقدس شعبہ کو نا قابل تلافی نقصان ہو گا۔اگر آج ہم نے صحافت کے شعبہ
کے تقدس کو بحال نہ رکھا تو مستقبل میں سوشل میڈیا ہمارے اخبارات ،ٹی وی
چینلز،ریڈیوز اسٹیشنز سب کو ویران کر کے رکھ دے گا اور چوں چوں کامربہ سوشل
میڈیا پر پکتا رہے گا اور ہم قوم سے افراد میں تقسیم ہو جائیں گے اس لئے
ضرورت ہے کہ ایک بار اس اہم شعبہ کی اہمیت و افادیت پر غورو خوض کیا جائے
اور حقیقت کا ادراک کیا جائے ۔
اگرچہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اب میڈیا خاص کر الیکٹرانک میڈیا کو دیکھنے
سے پہلے اسکے سامعین کے دل میں یہ بات واضح رہتی ہے کہ کس پارٹی کے حمایت
یافتہ میڈیا کی نشریات دیکھی جائیں حالانکہ یہ صحافتی اصولوں کے برعکس اور
صحافتی اقدار کے انتہائی خلاف ہے مگر کیا کیا جائے میڈیا مالکان کی اپنی
پالیسی ہے اور ہر میڈیا ہاؤس کے اندر کام کرنے والے ملازمین کوبحالت مجبوری
اپنے میڈیا ہاؤس کی جانب سے بنائے گئے ضابطے پس پردہ اور درپردہ ماننا پڑتے
ہیں یہی وجہ ہے کہ آج اخبار کا قاری اور ٹی وی چینل کو دیکھنے والے سامعین
سبھی کسی میڈیا ہاؤس کو آزاد قرار نہیں دیتے اور یہ انتہائی لمحہ فکریہ ہے
ہماری صحافت کی تاریخ کیلئے کیونکہ تاریخ میں یہ بھی لکھا جائے گا کہ
پاکستان میں ایک ایسا وقت بھی آیا تھا جب میڈیاپارٹی کی شکل اختیار کر گیا
تھا اور ہر میڈیاہاؤس کسی نہ کسی سیاسی پارٹی کا ترجمان زیادہ اور میڈیا
ہاؤس کم لگتا ہے اگر صحافت کی اقدار کو سمجھنے والے ہمارے سینئر صحافی
رہنماؤں اور قائدین نے اس بات کو محسوس نہ کیا اور اپنی راہ متعین نہیں کی
تو پھر میڈیا پر بھی زوال عین قرین ہے اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ صحافت
کو صحافت ہی رہنے دیا جائے اور نو مولود صحافیوں سے اس مقدس شعبے کو پاک
کیا جائے صحافت بھی اب کاروبار بن چکی ہے اور حقیقی صحافت کے نام نہاد
علمبردار اب تعداد میں زیادہ ہیں جبکہ حقیقی صحافت کے حقیقی علمبردار اب پس
پردہ ہوتے نظر آرہے ہیں ۔جس طرح اس ملک میں عطائیوں ڈاکٹرز،عطائی
حکیم،عطائی قصائی،عطائی سیاستدان ،عطائی پروفیسرز و دیگر موجود ہیں اسی طرح
پاکستان میں عطائی صحافیوں کی بھی ایک نسل پروان چڑھتی جا رہی ہے اور وقت
گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ نسل اپنی صحافت اپنی اگلی نسل کو منتقل کر دیں گے
اور یوں یہ موروثی صحافت بن جائے گی اور دو طرح کی صحافت میدان میں نظر آئے
گی اس دو طرح کی صحافت سے صحافت جیسے مقدس شعبے کو جو نقصان ہو گا اسکی
تلافی کسی صورت ممکن نہیں ہو سکتی ۔
اگر چپ کا روزہ توڑ کر کوئی عملی اقدام نہ اٹھایا گیا تو یقینا یہ سبھی
باتیں ہی ثابت ہونگی کیونکہ آخر کسی نہ کسی کو بلی کے گلے میں گھنٹی
باندھنا ہوگی اور جو گھنٹی باندھے گا اسے ہی تاریخ میں ہمیشہ کیلئے یاد
رکھا جائے گا اور یقینا انسان تو مر جاتا ہے مگر اسکا اچھا عمل اسے زندہ
رکھتا ہے ۔
|