خوش خلقی اور بدخلقی ایک سکہ کے دو رخ ہیں۔ایک نیک نامی
اور کامیابی کا ضامن تو دوسرا بدنامی اور ناکامی کا سبب۔انسان کے جملہ شعبہ
حیات کی طرح اس باب میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی ہمارے لیے
بہترین رہنما ہے۔جس کی شہادت اللہ کےکلام میں موجود ہے،جس کا کوئی بھی
ایمان والا منکر نہیں ہوسکتا۔چناں چہ اللہ تعالی اس بات کی ترغیب دلاتے
ہوئے فرماتے ہیں:((لقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة))(الأحزاب:21)
تمہارے لیےرسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔
دوسری جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں اللہ تعالی فرمایا:((إنك
لعلى خلق عظيم))(القلم/٤)
اس آيت کی تفسیر میں امام جریر طبری،امام ابن کثیر اور دیگر مفسرین رحمہم
اللہ نے عائشہ رضی اللہ عنہ کے اس جواب کو نقل کیا ہے :”فَإِنَّ خُلُقَ
نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ كَانَ القُرآنَ “بے شک
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق قرآن تھا۔اس کا پس منظر یہ ہے کہ
جب سعد بن ھشام بن عامر مدینہ آئے تو عائشہ رضی اللہ عنہا سے آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کے اخلاق طیبہ کے بارے میں سوال کیا۔آپ رضی اللہ عنہا نے
استفسارا کہا کیا تم قرآن کی تلاوت نہیں کرتے؟پھر فرمایا:آپ کے اخلاق کا
آئینہ دار قرآن ہے۔
تفسير طبري وابن كثير
رواه مسلم (746)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی بلند اخلاق کی تعلیم دیتے ہوئے
فرمایا:”إنمابعثت لأتمم مكارم الأخلاق"۔میں مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے
مبعوث کیا گیا۔(أبوهريرة/علامہ البانی رحمہ اللہ نے سلسلة الأحاديث الصحيحة
میں ذکر کیا ہے،حدیث نمبر:45)
دوسري جگہ بیان کیا:”أَكْمَلُ الْمُؤْمِنِينَ إِيمَانًا أَحْسَنُهُمْ
خُلُقًا ”ایمان کے اعتبار سے کامل مومن وہ ہے جو اخلاقی طور پر اچھا ہے(ابو
ھریرة/الترمذي/حديث نمبر:1162/حديث حسن)اس کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم
کی زندگی میں اعلی اخلاق کی بہت ساری مثالیں موجود ہیں۔اہل طائف کے ظلم و
تشدد کو ان کی ناسمجھی سے تعبیر کرنا۔مسجد میں پیشاب کرنے والے دیہاتی سے
اچھا برتاؤ کرنا۔سر مبارک پر کورا کرکٹ انڈیلنے والی کی خبر گیری کرنا۔۱۰
سال آپ کے زیر سایہ رہنے والے بچے سے کبھی یہ نہ کہنا کہ تم نے ایسا کیوں
کیا۔فتح مکہ پر عام معافی کا اعلان کرنا۔اس طرح کی بے شمار مثالیں کتب
احادیث وسیر میں موجود ہے جس کا احاطہ ممکن نہیں۔لیکن آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کی زندگی سے یہ چند نمونے لفظ “اخلاق” اور اس کے مشمولات کی اہمیت کو
بیان کرنے کے لیے کافی ہیں۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بلند وبالا اخلاق
ہی تھا جس کے دشمنان بھی معترف ہوئے اور ہر لحاظ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم
دنیا کے اوّل نمبر کے انسان قرار پائے۔
※※اس امر کو منطقی طور پر بھی سمجھا جاسکتا ہے۔گرچہ کتاب وسنت کے ماخوذات
کے بعد عقلی و منطقی بحث کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔تاہم بسااوقات منطقی
دلائل بھی فائدے سے خالی نہیں رہتے۔چناں چہ اس موضوع کو سمجھنے کے لیے آپ
دو قسم کے پھل کو تصور میں لیں۔ایک کڑوا ہو اور دوسرا میٹھا اور لذیذ۔کڑوے
کے اندر چوں کہ ترشی کی ایسی صفت ہے جسے انسان حتی کہ حیوان کی طبیعت بھی
قبول نہیں کرتی۔اس کے برعکس میٹھے پھل کا ذائقہ اور اس کی خوشبو دل و دماغ
کو تازگی بخشتی ہے اور طبیعت کا میلان باقی رہتا ہے۔اس مثال سے یہ بات تو
بالکل واضح ہوچکی کہ لوگوں کے ساتھ آپ کا برتاؤ “کڑوے اور میٹھے پھل” جیسا
ہے۔اور آپ اپنی ذات کو اور اپنے سماج کو وہی کچھ دے سکتے ہیں جو آپ کے اندر
“کڑواہٹ یا مٹھاس کی شکل میں موجود ہے۔اور آپ کی خوش خلقی اور بدخلقی،خوش
مزاجی اور بدمزاجی دونوں کا یکساں اثر آپ کی ذاتی زندگی پر بھی پایا جاتا
ہے،گرچہ اس کا شعور آپ کو نہ ہو۔اور قوم و سماج تو دونوں اثرات کو قبول
کرتے ہی ہیں۔یہی معیار انسانی قول و فعل کے قبول اور رد کا ہے۔
※※ذیل میں دی گئی تحلیل کے ذریعے آپ اپنی سلوکیات میں کامیاب ہونے اور
ناکام ہونے کا حساب لگا سکتے ہیں:
بدخلق+بدخلق=ناکام
بدخلق+خوش خلق=ناکام
خوش خلق+خوش خلق=صفر
خوش خلق+بدخلق=کامیاب
پہلے دوحساب میں ہم خود کو ناکام پاتے ہیں۔تیسرے میں نتیجہ صفر رہا۔اور
آخری حساب میں کامیابی کا رزلٹ آیا۔
※پہلے نتیجہ میں آپ نے “جیسے کو تیسا”کے اصول پر برابری کا گھٹیا اخلاق پیش
کیا۔اور یہ انسان کی بطور شخصیت بہت بڑی ناکامی ہے۔
※دوسرے نتیجہ میں آپ انسانیت سے بھی گئے اور اچھا اخلاق پیش کرنے والے کے
ساتھ بدسلوکی کی۔اور یہ غایت درجے کی ناکامی ہے۔
※تیسرے نتیجہ میں آپ کی خوش خلقی کا رزلٹ صفر رہا۔اس لیے کہ آپ کا برتاؤ
اپنے مدمقابل سے کچھ ایسا نہیں رہا جس کو سراہا جائے۔گویا آپ ان کا تحفہ
انہیں لوٹا رہے ہیں۔
※آخری نتیجہ میں کامیابی نظر آرہی ہے۔اور اس کامیابی نے جدوجہد کے ساتھ کئی
مراحل طے کیے ہیں۔اور وہ مراحل ہیں صبر کے،ثبات کے، عزیمت کے،انتظار کے۔پھر
آپ اس قابل ہوئے کہ آپ نے ترش روئی،بدسلوکی،تنک مزاجی،غصہ،پھٹکار اور
بدخلقی کا جواب خوش مزاجی،خوش اخلاقی اور خوش اسلوبی سے دیا۔اور یقیناً یہی
مکمل کامیابی ہے۔اور کسی بھی انسان کے اچھا بننے کی ضمانت اس کی خوش خلقی
میں ہے۔اور بطور انسان آپ متنوع صلاحیتوں کے مالک ہوں لیکن اخلاقیات کے باب
میں آپ کا رزلٹ اچھا نہیں رہا،پھر آپ کو نہ تو سماج ومعاشرہ قبول کرے گا
اور نہ ہی آپ ان کے لیے مفید بن سکتے ہیں۔
اللہ رب العزت ہم سبھوں کو حسن عمل کی توفیق دے۔ |