اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں( سورْۃ الحجٰرات )میں ارشاد
فرمایا’’ اے لوگوجو ایمان لائے ہو ,نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں , ہو
سکتا ہے کہ وہ اِن سے بہتر ہوں,اورنہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں
ہو سکتا ہے کہ وہ اِن سے بہتر ہوں,آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو, اور نہ
ایک دوسرے کو بْرے القاب سے یاد کرو,ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا
کرنا بہت بْری بات ہے,جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہ ظالم ہیں,اے لوگوجو
ایمان لائے ہو , بہت گْمان کرنے سے پرہیز کرو,کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں,
تجْسس نہ کرو ,اور تم میں سے کوئی کسی کی غِیبت نہ کرے,کیا تمہارے اندر
کوئی ایسا ہے,جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟‘‘اﷲ تعالیٰ
کے احکامات کے مطابق حقیقی بھائی ہی نہیں بلکہ سب اہل ایمان آپس میں بھائی
بھائی ہیں لہٰذا کسی مسلمان بھائی کی غیبت کرنامنع کردیاگیاہے،سورۃ الحجرات
کے اندر ہی اﷲ تعالیٰ نے اس بات کوبھی بہت واضع کردیاہے کہ مسلمان آپس میں
بھائی بھائی ہیں۔ترجمہ ’’ مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ تو اپنے دو
بھائیوں میں صلح کرادیا کرو۔ اور خدا سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحمت کی
جائے۔حدیث شریف میں آیاہے ’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے
فرمایا ’’کیا تم جانتے ہو کہ غیبت کیا ہے؟ صحابہ کرام نے عرض کی اﷲ اور اس
کا رسول ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اپنے بھائی کے اس عیب کاذکر
کرے ، کہ جس کے ذکر کو وہ ناپسند کرتا ہو، صحابہ نے آپ ﷺ سے عرض کیا کہ وہ
عیب واقعی اس بھائی میں ہو جو میں بیان کر رہا ہوں ، تو آپﷺ نے فرمایا،وہ
عیب اس میں ہے جو تم کہہ رہے ہو تب ہی تو غیبت ہے، اس میں نہ ہو تو وہ
بہتان ہے‘‘ ( صحیح مسلم شریف)اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ غیبت و بہتان
معاشرے میں ناسور کی صورت اختیار کر چکا ہے ۔غیبت،بہتان اور بدگمانی معاشرے
کودیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں ،تربیت اور کم علمی کا یہ عالم ہے کہ اُولیاء اﷲ
اور علماء حق کے علاوہ معاشرے کا ہرفرد بغیرسوچے سمجھے لمحہ بہ لمحہ غیبت ،بہتان
بازی اور بدگمانی میں اپنا حصہ ڈالتارہتاہے۔مرشد سرکار سید عرفان احمد شاہ
المعروف نانگامست بابامعراج دین کاحکم ہے کہ باجی حضور عام نہیں۔باجی
حضورپر اﷲ تعالیٰ ،رسول اﷲ ﷺ کاخصوصی فضل ہے اوروہ ہماری لاڈلی ہمشیرہ ہیں
لہٰذاان کے حکم کی تعمیل کیاکرو۔ باجی حضور نے فرمایا شاہ جی کاحکم ہے
مخلوق کی بھلائی کواپنی زندگی کا مقصد بنالو۔اﷲ سبحان تعالیٰ کی مخلوق کی
بھلائی کے کاموں میں لگ جاؤ گے تواﷲ تعالیٰ تمہارا،تمہارے بچوں کامقدر اعلیٰ
فرمادے گا۔جب اﷲ تعالیٰ اپنے بندے کوبھلائی کے راستے پرڈالناچاہتاہے تواسے
اولیاء اﷲ کی صحبت عطافرمادیتاہے۔اولیاء اﷲ کی صحبت کی برکت کے حوالے سے
مولانارومی ؒ کاایک نہایت خوبصور ت قول مضمون کے آخر میں پیش کروں
گا۔مرشدسرکارنے فرمایاغیبت ،بہتان،بدگمانی انسانی معاشرے کی بہت بڑی دشمن
ہیں،قلم اُٹھاؤاور اﷲ تعالیٰ کی مخلوق تک ہماراپیغام پہنچاؤ۔آگاہ کرولوگوں
کوکہ کم علمی میں،تصدیق و تحقیق کیے بغیربات کو آگے ہرگزنہ پھیلاؤ۔کسی کی
غیرموجودگی میں اس کے عیبوں کاذکر کرنے سے اﷲ سبحان تعالیٰ ،رسول اﷲ ﷺ
اوراولیاء اﷲ نے منع فرمایاہے۔قارئین محترم آپ جانتے ہیں کہ بغیرتصدیق کئے
دوسروں پرالزام تراشی معاشرے میں عام ہوتی جارہی ہے اس برائی کی روک تھام
کیلئے ہم سب کو اپنا اپناکرداراداکرناہوگا۔عام طورپرلوگ اپنی سوچ اورخیالات
کے آئینے میں دوسروں کودیکھتے ہیں ،اکثر لوگ کہتے ہیں کہ فلاں عالم ،فلاں
پیردوسروں کوبیٹھ کرپانی پینے کادرس دیتاہے ۔ہم نے خود اپنی آنکھوں سے
دیکھاکہ وہ خود کھڑاہوکرپانی پی رہاتھا،باجی حضور نے فرمایاایسی بات کوآگے
پھیلانے سے قبل تصدیق کرلینی چاہئے کہ جس عالم دین یابزرگ ہستی کوکھڑے
ہوکرپانی پیتے دیکھاوہ عام پانی پی رہے تھے یاآب زم زم ؟آب زم زم کے متعلق
کھڑے ہوکرپینے کاحکم ہے۔جلد بازی میں اکثر لوگ دوسروں کے متعلق غلط رائے
قائم کرکے ناصرف خودگناہگارہوتے ہیں بلکہ معاشرے کوجہالت کے اندھیروں کی
طرف دھکیل دیتے ہیں،اکثر لوگ کہتے ہیں کہ دیکھاتم نے فلاں عالم یافلاں
پیردوسروں کو نمازقائم کرنے خاص طور پر نماز تہجد ادا کرنے کادرس دیتاہے
اور ہم نے اکثر اسے سورج طلاع ہونے کے بعد نماز پڑھتے دیکھاہے۔کم علمی میں
ایسے لوگ اﷲ تعالیٰ کے کسی نیک بندے پر بہتان باندھ رہے ہوتے ہیں ،بغیرتصدیق
کیے کہ وہ عالم دین،بزرگ ہستی ،ولی اﷲ سورج طلوع ہونے کے بعد نماز فجر نہیں
بلکہ چاشت کے نفل اداکررہے ہوتے ہیں۔لہٰذاہمیں کسی کے بھی متعلق زندگی کے
کسی بھی پہلوپررائے قائم کرنے سے قبل مکمل طورپرتصدیق وتحقیق کرلینی
چاہیے۔اول توانسان کویہ اختیارحاصل ہی نہیں کہ وہ کسی کے نیک یاگناہگارہونے
کافیصلہ کرے۔دوئم اپنی اور معاشرے کی بھلائی کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی ذات
کی فکرکرناسب سے افضل ہے ۔اپنی اصلاح کے بعد جب اﷲ تعالیٰ کے دین کے متعلق
اتناعلم حاصل ہوجائے کہ دوسروں کی اصلاح کرنے کے قابل ہوجائیں توبھی محتاط
رہتے ہوئے بھلائی کا چرچاکرناافضل ترین عبادت ہے۔ بیشک اہل ایمان کے قول
فعل میں تضاد نہیں ہواکرتا۔اولیاء اﷲ اورعالم دین وہ خاص لوگ ہیں جن پراﷲ
تعالیٰ کی خصوصی مہربانی اورفضل کی برسات ہروقت جاری وساری رہتی ہے۔بعد از
تحقیق کسی انسان کے قول فعل میں تضاد ثابت ہوجائے تب بھی اس کی برائی بیان
کرکے معاشرے میں پھیلاناغیبت ہے جونہ صرف انتہائی نامناسب ہے بلکہ غیبت
کرنے والاکسی دوسرے کی بجائے اپنااعمال نامہ گناہوں سے پرکرتاجاتاہے۔اچھے
اور مخلص دوست رشتہ دار یااپنے کسی عزیزمیں غلطی کی تصدیق کرلینے کے بعداول
توکوشش ہونی چاہئے کہ بندہ اپنے عزیزکوتنہائی میں پیارسے سمجھائے کہ میں نے
تمہارے اندر فلاں غلطی محسوس کی ہے تم غور کرومیراخیال درست ہوتوکوشش کرکے
فلاں غلطی کواپنی ذات سے نکال دو۔ دوئم اسے اﷲ تعالیٰ کے سپرد کرکے خود
برائی سے دورہوجاناچاہئے اورمعاملہ اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ پیش کرکے اپنے
عزیزکیلئے دعاکرتے رہناچاہیے!اب وعدے کے مطابق مضمون کے آخر میں مولانارومی
ؒ کاایک خوبصورت قول اپنے قارئین کے ذوق کی نظر کرکے اجازت چاہوں گا۔اﷲ
والوں کی صحبت کی برکت۔مولانا جلال الدین رومی ؒ فرماتے ہیں۔ایک کانٹا روتے
ہوئے اﷲ تعالی سے عرض کرتا ہے کہ میں نے صلحاء سے سناہے کہ آپ کا نا م
ستارالعیوب (یعنی عیبوں کو چھپانے والا) ہے۔آپ نے مجھے تو کانٹا بنایاہے
میراعیب کون چھپائے گا؟مولانارومی فرماتے ہیں ۔اس کی زبان حال کی دعا پراﷲ
تعالیٰ نے اس کے اوپر پھول کی پنکھڑی پیدافرمادی تاکہ وہ پھول کے دامن اپنا
منہ چھپالے۔باغبان ان کانٹوں کوباغ سے نہیں نکالتا ،باغ سے صرف وہ کانٹے
نکالے جاتے ہیں جنہوں نے کسی پھول کے دامن میں پناہ نہ لی ہو۔اسی طرح جولوگ
اﷲ والوں سے نہیں جڑتے ان کیلئے توخطرہ ہے۔جوگناہگار اﷲ والوں کے دامن سے
جڑجاتے ہیں ان کی برکت سے ایک دن وہ بھی اﷲ والے بن جاتے ہیں۔دنیا کے کانٹے
توپھولوں کے دامن میں بھی کانٹے ہی رہتے ہیں پراﷲ والے ایسے پھول ہیں جن کی
صحبت میں رہنے والے کانٹے بھی پھول بن جاتے ہیں؛محمد جلال الدین رومی 1207ء
میں پیدا ہوئے، مشہور فارسی شاعر ۔ مثنوی، فیہ ما فیہ اور دیوان شمس تبریز
آپ کی معروف کتب ہیں، آپ دنیا بھر میں اپنی لازاول تصنیف مثنوی کی بدولت
جانے جاتے ہیں، آپ کا مزار ترکی میں واقع ہے۔
|