ازقلم :فری ناز خان، کراچی
شہر کراچی یا روشنیوں کا شہر ایک مصروف ترین شہر ہے اسے پاکستان کی شہہ رگ
کی حیثیت حاصل ہے۔ اس قدر مصروف ترین شہر کے مسائل بھی اسی قدر بڑھ رہے ہیں۔
ان روز بروز بڑھتے ہوئے مسائل میں سے ایک بڑا مسلۂ فراہمی آب یعنی پانی کی
فراہمی کا بھی ہے۔
پانی اﷲ تعالی کی عطا کردہ نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت ہے۔ جس کے بناء
زندگی کا تصور مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ پانی انسانی زندگی کی سب سے
اولین ضرورت ہے جس کے بنا ضروریات زندگی ادھوری ہیں۔ ہماری روزمرہ زندگی
میں مصروفیات بڑھ گئی ہیں اور لوگ اس بات کو بھی نظرانداز کرتے جا رہے ہیں
کہ جو پانی انھیں مہیا کیا جا رہا ہے وہ کس قدر قابل استعمال ہے۔
پانی کی فراہمی اور اس کے نکاس کسی بھی صوبے اور وفاقی حکومت کی ذمہ داری
ہوتی ہے اور یہ ان کا کام ہے کہ وہ اس کا کس طرح خیال رکھیں۔ حکومتیں اپنی
ذمہ داریوں کو سمجھ ہی نہیں رہی۔ انہیں اس بات کا بالکل بھی احساس نہیں کہ
آیا جو پانی وہ کراچی کے مختلف علاقوں کو فراہم کر رہے ہیں وہ کس قدر قابل
استعمال ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ ڈیمز اور دریاؤں سے فراہم کیا جانے والا پانی اپنی اسی
حالت میں کراچی کے مختلف علاقوں تک پہنچایا جا رہا ہے۔ اکثر علاقوں میں کچھ
واٹر پمپز بھی قائم کیے گئے ہیں اور ان پمپز کے ذریعے کراچی کے اکثر علاقوں
پانی کی فراہمی کی جاتی ہے مگر ان پمپز کی حالت اس قدر ابتر ہے کہ الامان و
الحفیظ۔ اس پر چار چاند ان سیوریج سسٹم نے لگادیا۔ ان کی دیکھ بھال اور
صفائی کا بھی کوئی خاص خیال نہیں رکھا جاتا۔
شہر کے مختلف علاقے پانی کی فراہمی سے اب بھی محروم ہیں اور بعض علاقوں میں
جو پانی فراہم کیا جا رہا ہے وہ اس قدر گندگی کا شکار ہے کہ تصور کیا جاتا
ہے کہ کہیں نکاسی آب کا پانی اس میں شامل نہ ہو۔ وہ نہ صرف مضر صحت ہے بلکہ
بہت سی بیماریوں کا باعث بن رہا ہے اور لوگ اس پانی کو اسی حالت میں
استعمال کر رہے ہیں اس پر ستم ظریفی یہ کہ کوئی بھی پرسان حال نہیں۔ کوئی
کسی کی روداد سننے کو تیار نہیں۔
شہری حکومت کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ علاقے کی صفائی
اور اس کی دیکھ بھال کا خیال کرے مگر لگتا ہے کہ ہماری حکومت اس طرف کوئی
توجہ نہیں دینا چاہتی علاقوں میں بڑھتی ہوئی گندگی کا اثر براہ راست لوگوں
کی صحت پر ہوتا ہے اور ان سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے بچاؤ ناممکن ہوتا
جا رہا ہے جگہ جگہ کچروں کا ڈھیر اور سڑکوں پر سیوریج کے پانی سے بچاو
ناممکن ہوتا جا رہا ہے اور گندگی میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے۔ اس کے علاوہ
جو پانی مہیا کیا جارہا ہے وہ بھی ناقابل استعمال ہے۔اس میں کلورین کی کمی
کی خبریں بھی منظر عام پر آچکی ہیں، جبکہ واٹر کمیشن کی جانب سے باقاعدہ
شہریوں کو مہیا کیے جانے والے پانی کے بارے میں انکشافات ہوچکے ہیں۔
شہریوں کی ذمے داریاں بھی کچھ ہیں کہ انہیں جو میسر پانی ہے اس میں بچت
کریں۔ ضائع ہونے سے حدالامکان بچائیں۔ ٹنکی بھر جانے تک موٹر کے پاس رہیں
نہ کہ چلتا چھوڑ کر سو جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پانی کو ابال کر استعمال
کریں۔ تمام تر صفائی کے اقدامات کریں اپنی ٹنکیاں بھی صاف ستھری رکھیں۔
پانی زندگی ہے اور اس زندگی کو اپنے ہاتھوں صاف ستھرا رکھنا ہماری ہی ذمے
داری ہے۔ پانی کی بچت اور صفائی کا خیال رکھ کر ایک صحت مند زندگی حاصل کی
جاسکتی ہے۔ |