کو ئی بحران سا بحران ہے۔ ہرطرف ٹماٹر ٹماٹر کی صدائیں
ہیں اور ٹماٹر ہے کہ مارکیٹ سے اس طرح غائب ہے جیسے گدھے کے سر سے
سینگ۔کوئی پچیس تیس دن پہلے کی بات ہے منڈی سے پانچ کلو ٹماٹر خریدے اسلئے
کہ تھوک فروش نے ایک سو پچاس روپے قیمت بتائی اور بھاؤ کرنے کے بعد ایک سو
چالیس میں دے دئیے۔میری بیگم بھی خوش تھی۔ کچھ دن بہت عیاشی کی۔ صبح شام
ٹماٹر بہت مزے لے لے کر کھائے۔جانے کس کی نظر لگ گئی۔ ٹماٹر ہی ناپید ہو
گیا۔پچھلے ہفتے ٹماٹر ختم ہوئے تو ملازم کو بھیجا کہ تھوڑے سے بازار سے لے
آؤ۔ بیچارہ منہ لٹکائے واپس آیاکہ ڈھائی سو روپے کلو ہیں ہمت نہیں ہوئی کہ
خرید لاتا۔ہمیں ہدایت ہوئی کہ جیسے بھی ہو ٹماٹر کسی طرح مہیا کرو۔
میں پریشان تھا کہ ایک دوست کا فون آیا۔ بھارت سے بول رہا ہوں کل واپس آرہا
ہوں ۔کچھ منگوانا ہوتو بتاؤ۔ چہرے پر رونق آ گئی ۔ فوراً کہا ، بھائی دو
کلو ٹماٹر لیتے آنا۔ اگلے دن وہ میرے پاس آیا تو ایک آرٹیفیشل جیولری کا
سیٹ لے آیا کہ بھابھی کے لئے لایا ہوں۔ میں نے کہا بھائی ہمیں ٹماٹروں کی
ضرورت تھی ان کا کیا کیا۔ کہنے لگا۔ بھارتی روپیہ پاکستان کے ایک روپے ستر
پیسے کا ہے۔ بھارت میں ٹماٹر چار سو روپے کلو ہے ۔پاکستانی سات سو روپے
بنتے ہیں۔ خوامخواہ دو تین کلو کے دو ہزار خرچ ہو جانے تھے۔ پانچ سو میں یہ
شاندار سیٹ لے آیا۔ ساری عمر چلے گا۔ تم لوگ مجھے یاد تو رکھو گے۔اچھا تو
یہ ٹماٹر بحران بھارت بھی پہنچ گیا، میں نے حیران ہو کر پوچھا۔ جواب ملا،
عالمی بحران ہے ہم اس سے کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں۔پھر بتانے لگا، سنا ہے
بھارت کے وہ بنک جو کنزیومر قرضے دیتے ہیں ، ان بنکوں نے عوام کو گھر اور
گاڑی کے ساتھ ساتھ ٹماٹر لون بھی دینا شروع کر دیا ہے ۔ ٹماٹر کی قیمت ابھی
بلندیوں کی طرف مزید پرواز کرے گی اسلئے بہت منافع کی امید ہے۔ میری اس خبر
کی تصدیق سوشل میڈیا سے کر سکتے ہو۔ نہیں اس کی کوئی ضرورت نہیں، میں نے
کہا۔ مجھے بات سمجھ آ گئی ہے۔ ویسے بھی اس ملک میں جس طرح ہر خواجے کو اپنی
گواہی کے لئے ایک ڈڈو یعنی مینڈک مل جاتا ہے اسی طرح ہر خبر کو اپنی تصدیق
کے لئے شوشل میڈیا مل جاتا ہے۔
ایک سیاسی لیڈر سے اس بحران پر بات ہو رہی تھی ۔ سیاستدانوں کے پاس عقل کچھ
ہی نہیں کافی کم ہوتی ہے اس لئے وہ ہر بات دل سے جذبات سے اور اپنے مفادات
کے حوالے سے کرتے ہیں۔ میرے اس سیاستدان دوست نے اسے ایک اپوزیشن لیڈر کی
سازش قرار دیا۔ کہنے لگا کہ اس لیڈر اور کچھ خفیہ ہاتھوں کی وجہ سے ٹماٹر
ہی نہیں، ٹماٹر نما تمام چیزیں بشمول ٹماٹر نما لوگ سبھی بحران میں ہیں ۔
ترقی کے مخالف ان لوگوں کو ٹماٹر، ٹماٹر نما چیزیں اور ٹماٹر نما لوگ بالکل
پسند نہیں ۔اسی لئے انہوں نے یہ بحران یا طوفان اٹھایا ہے۔ یہ ٹماٹر وں کے
مقابلے میں مقبولیت کے خواہش مند ہیں۔ جب کہ ٹماٹر خوبصورتی کی علامت ہے
اور اس کے مقابلے میں عوام کسی کریلے یا بھنڈی کے خواہاں ہو ہی نہیں
سکتے۔ہاں اگر کوئی آلو ہوتا تو بات بھی تھی۔مجھے اس سے اتفاق نہیں ۔ کیونکہ
میں ٹماٹر کو پھل مانتا ہوں اور اس کا مقابلہ صرف سیب سے ہی ممکن ہے۔
ٹماٹر کے اس بحران نے بہت سی نئی نئی سوچوں کو جنم دیا ہے۔ایسی سوچیں کہ جن
کا کوئی حل نہیں۔ جیسے مرغی پہلے آئی کہ انڈہ۔صدیوں سے معما حل طلب ہے۔
ابھی تک فیصلہ نہیں ہو سکا۔ اب اسی طرحنئی نسل میں اک نئی بحث نے جنم لیا
ہے کہ ٹماٹر پھل ہے کہ سبزی۔ ہم تو یہی سمجھتے تھے کہ ٹماٹر ایک سبزی ہے
اور ایک ایسی سبزی کہ یہ نہ ہو تو سالن میں مزا ہی نہیں ہوتا۔ سلا د لذت سے
محروم رہتی ہے۔انسان کا کھانا بے مزا ہو جاتا ہے۔مگر کیا کیا جائے کہ سارے
سائنسدان اس کو سبزی نہیں مانتے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک پھل ہے۔ دنیا بھر
کی تمام لغات اور کتابیں اسے پھل ہی مانتی ہیں اور الزام لگاتی ہیں کہ اچھے
خاصے مردانہ وجاہت کے حامل اس پھل کو کھانا بنانے والوں نے ہنڈیاکی قید
وبند میں ڈال کر اسے زنانہ قسم کی سبزی قرار دے دیا ہے۔ بیالوجیکل سائنس
والے کہتے ہیں کہ ہر وہ چیز جس میں بیج ہو تا ہے وہ پھل ہے۔ جب کہ سبزی میں
بیج نہیں ہوتے، جیسے آلو، گوبھی، اروی وغیرہ۔
امریکہ کے 1883 کے کسٹم ٹیرف میں سبزیوں پر ٹیکس نافد کیا گیا تھا۔جو بھی
سبزی امپورٹ کرتا اسے یہ ٹیکس دینا پڑتا۔ دس سال بعد ایک امپورٹر نے ہائی
کورٹ میں رٹ کر دی کہ تمام لغات اور سائنس کے مطابق ٹماٹر پھل ہے۔ یہ مجھ
سے غلط ٹیکس لے رہے ہیں۔ ہائی کورٹ نے اس کا موقف مان لیااور ٹماٹر کو پھل
تسلیم کرکے اسے ٹیکس فری قرار دے دیا۔کسٹم والے سپریم کورٹ چلے گئے۔ سادہ
سی دلیل تھی کہ ہم اسے سبزی مانتے ہیں جسے عوام سبزی مانتے ہیں۔ سائنس اور
لغات کو مانیں تودو تین کے علاوہ کوئی بھی سبزی نہیں۔ پھر تو مٹر، بھینگن،
کھیرا اور مرچیں بھی پھل ہی شمار ہوں گے۔ سپریم کورٹ کو ان کی بات پسند آئی
اور انہوں نے بھی سائنس اور لغات کو ماننے سے انکار کر دیا اور عوامی فیصلہ
دیا کہ آج سے امریکہ میں کسٹم سے گزرتے وقت ٹماٹر سبزی ہو گا اس سے پہلے یا
بعد جو مرضی ہو۔
ٹماٹر میکسیکو کی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب گاڑھا پانی ہے۔ جس طرح دنیا کے
لوگ آلو ، گندم اور چاول کو خوراک کی طرح استعمال کرتے ہیں، میکسیکو کے لوگ
اسی طرح ٹماٹر کو خوراک کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔زیادہ تر ٹماٹر سرخ رنگ
کا ہوتا ہے مگر پیلا، سبز، نارنجی اور پنک رنگ میں بھی پایا جاتا ہے۔ ٹماٹر
غذائیت سے بھر پور ہوتا ہے اس میں وٹامن اے، بی ،B6 ، کے، آئرن، پوٹاشیم
اورمیگنیشیم ، کاپر اور پروٹین سے مالا مال ہوتا ہے۔تائیوان کے ماہرین صحت
کہتے ہیں کہ تازہ ٹماٹر کا رس جسمانی چربی کو کم کرنے کے ساتھ انسان کو
کینسر سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔اس کا استعمال ہائی بلڈ پریشر اور خون میں
کولیسٹرول کم کرنے میں مدد گار ہے۔ہڈیوں اور ان کے ٹشوز کی نشوونما میں
انتہائی مفید ہے۔دنیا میں ٹماٹر کی پیداوار ایک سو ستر ملین ٹن سالانہ
ہے۔سب سے زیادہ ٹماٹر چین میں پیدا ہوتا ہے جو دنیا کا 31 فیصدہے۔ ہندستان
کی پیداوار 11 فیصد، امر یکہ کی ساڑھے آٹھ فیصد، ترکی سات فیصد، مصر پانچ
فیصداور پاکستان کی پیداوار کل دنیا کا فقط آدھا (0.5) فیصد ہے۔ بہر حال
ٹماٹر سبزی ہے یا پھل آ ج ہر گھر کی ضرورت ہے۔ |