لاہو ر نے صوبہ بھر کے چھتیس اضلاع میں 29ویں
پوزیشن حاصل کی ہے، یہ نتیجہ محکمہ تعلیم کی کارکردگی پر مشتمل ہے۔ پنجاب
کے تمام اضلاع کے مقابلے کا یہ سلسلہ کئی برس سے جاری ہے، اس کے لئے بہت سے
اشارات کا تعین کیا جاتا ہے، جن میں میٹرک کے طلبہ کی تعداد، ان کی تعلیمی
بورڈز میں پوزیشنیں، طلبا کی حاضری، افسران کے سکولوں کے دورے، سکولوں میں
نئے داخلوں کی کہانی، اساتذہ کی حاضری اور نتائج وغیرہ کو مد نظر رکھ کر
تمام ضلعوں کی پوزیشن بنائی جاتی ہے۔ راجن پور،مظفر گڑھ اور لودھراں جیسے
اضلاع ٹاپ ٹین میں موجود ہیں، جبکہ لاہور، راولپنڈی اور فیصل آباد جیسے شہر
وں کا شمار آخری دس اضلاع میں ہورہا ہے۔ چکوال، پاکپتن، وہاڑی اور مظفر گڑھ
بالترتیب پہلی چار پوزیشنوں پر موجود ہیں، جبکہ قصور کا نمبر سب سے آخر میں
ہے، تاہم وسطی پنجاب کے تمام اضلاع دس نمبر کے بعد ہیں۔
بھلا اس بات پر کون اعتراض کرسکتا ہے کہ تعلیم حکومت کی اولین ترجیح ہے،
حکومت کا کوئی عہدہ دار یا ذمہ دار میڈیا یا کسی سیمینار وغیرہ سے خطاب
کرتا ہے تو وہ اپنی حکومت کی ترجیحات بتاتا ہے، وہ قوم کو یہ بھی بتاتا ہے
کہ تعلیم کے بغیر ترقی کے امکانات معدوم ہو جاتے ہیں، وہ تعلیم کی اہمیت پر
روشنی ڈالتا ہے اور تعلیم کو انسانی زندگی کا لازمی حصہ قرار دیتا ہے۔ یہ
الگ بات ہے کہ کچھ ہی دیر بعد وہ کسی اور تقریب سے خطاب کے دوران لوگوں کو
بتاتا ہے کہ صحت ہماری حکومت کی پہلی ترجیح ہے، کیونکہ انسان کا جسم صحت
مند ہوگا تو اس کا دماغ درست کام کرے گا اور ملک کی بہتری کے بارے میں سوچے
گا۔ رات کو کسی تقریب سے خطاب فرماتے ہوئے وہی صاحب سیاحت کو بھی اپنی
حکومت کی اولین ترجیح قرار دے سکتے ہیں، خواہ اس کے لئے کوئی مثبت اور
بامعانی قدم اٹھانے کی کبھی زحمت بھی نہ کی ہو۔ اوپر سے نیچے تک تمام
حکومتی کارندے اسی سرگرمی میں مصروف ہوتے ہیں۔
اضلاع کی کیٹگری میں ترتیب سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ حکومت پنجاب کی
اولین ترجیح واقعی تعلیم ہے، بس مجبوری میں درمیان میں کوئی اور کام نکل
آتے ہیں، جن کی وجہ سے توجہ ذرا اس محکمہ سے ہٹ جاتی ہے، ورنہ حکومت نے تو
اس کی ترقی کے لئے دن رات ایک کر رکھا ہوا ہے۔ صوبے میں دانش سکولوں کا جال
بچھ رہا ہے، جس سے نہ صرف شرح خواندگی میں بے حد وحساب اضافہ ہوجائے گا،
بلکہ معیارِ تعلیم بھی عالمی سطح کا ہوگا، بعید نہیں کہ کچھ سالوں کے بعد
ترقی یافتہ ممالک سے بچے ابتدائی (اور بعد ازاں اعلیٰ) تعلیم حاصل کرنے کے
لئے پاکستان کا رخ کریں، جب وہ پاکستان آئیں گے تویہ عجوبہ دیکھ کر حیران
رہ جائیں گے کہ یہاں کے پسماندہ اضلاع کی تعلیمی حالت کس قدر بلند ہو چکی
ہے۔ اسی طرح حکومت اساتذہ پر شکنجہ مزید کس کر انہیں راہِ راست پر لانے کے
لئے مسلسل کوشاں ہے، نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ سکولوں میں حاضری سو فیصد
ہونے لگی ہے، کم بچوں اور کمزور رزلٹ والے اساتذہ کی تنزلی اور معطلی کا
سلسلہ جاری ہے۔ جو اساتذہ بچے اکٹھے نہیں کرسکتے اور ڈراپ آؤٹ کو قابو میں
نہیں لاسکتے انہیں ملازمت کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اسی طرح جن افسران نے اپنے
اپنے ماتحت اساتذہ وغیرہ کو سیدھا نہیں کیا وہ بھی افسری کرنے کے حقدار
نہیں ہیں۔
لاہور اگر انتیس درجے نیچے ہے تو کوئی بات نہیں، دوسرے اضلاع بھی پنجاب کا
حصہ ہیں، کسی نے تو اوپر آنا ہی تھا، بلکہ لاہور کو مزید سات درجے نیچے چلے
جانا چاہیے، تاکہ بڑے بھائی کی حیثیت سے وہ دوسرے پسماندہ اور پسے ہوئے
اضلاع کو آگے آنے کا موقع دے، یہ بڑی قربانی ہے، ویسے بھی لاہور والوں کی
توجہ دوسرے اضلاع کی طرف بھی مبذول ہو جاتی ہے، اس لئے خاطر خواہ توجہ اپنے
ضلع کو نہیں دی جاسکتی۔ گزشتہ دنوں بہاول پور کے محکمہ تعلیم کے سربراہ کو
صوبائی وزیر تعلیم نے ’’لائف ٹائم اچیوومنٹ ایوارڈ‘‘ سے نوازا ہے، یقینا ان
کے اندر ضرور کوئی ایسی پوشیدہ خصوصیات ہوں گی، جو مقامی لوگوں پر تو ظاہر
نہیں ہوئیں، تاہم محکمہ تعلیم کے صوبائی صدر مقام کی دوربین نگاہوں نے
انہیں تلاش کر لیا ہے۔ بہتر ہوتا مقامی لوگوں کو بھی اس ایوارڈ کا جواز بتا
دیا جاتا، کیونکہ ضلع بہاول پور مندرجہ بالا دوڑ میں بھی 27ویں نمبر پر ہے۔
باقی 26افسروں کو ایوارڈ کے حقدار ہونے کے بارے میں محکمہ کا کیا خیال ہے؟
|