’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے کہ ایک آدمی نے آپ کے ساتھ کسی معاملہ میں جھگڑا کیا تو آپ رضی
اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرے اور تیرے درمیان یہ بیٹھا ہوا آدمی فیصلہ کرے
گا۔ ۔ ۔ ۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کیا۔ ۔ ۔ تو اس آدمی نے
کہا : یہ بڑے پیٹ والا (ہمارے درمیان فیصلہ کرے گا)! حضرت عمر رضی اللہ عنہ
اپنی جگہ سے اٹھے، اسے گریبان سے پکڑا یہاں تک کہ اسے زمین سے اوپر اٹھا
لیا، پھر فرمایا : کیا تو جانتا ہے کہ تو جسے حقیر گردانتا ہے وہ میرے اور
ہر مسلمان کے مولیٰ ہیں۔أخرجه محب الدين الطبری في الرياض النضره فی مناقب
العشره، 3 / 128.
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے پاس دو بدّو جھگڑا کرتے ہوئے
آئے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : اے ابوالحسن!
ان دونوں کے درمیان فیصلہ فرما دیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اُن کے درمیان
فیصلہ کر دیا۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ (کیا) یہی ہمارے درمیان فیصلہ کرنے
کے لئے رہ گیا ہے؟ (اس پر) حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کی طرف بڑھے اور اس کا
گریبان پکڑ کر فرمایا : تو ہلاک ہو! کیا تو جانتا ہے کہ یہ کون ہیں؟ یہ
میرے اور ہر مومن کے مولا ہیں (اور) جو اِن کو اپنا مولا نہ مانے وہ مومن
نہیں۔ أخرجه محب الدين أحمد الطبری في الرياض النضره فی مناقب العشره، 3 /
128، و محب الدين احمد الطبری في ذخائر العقبی فی مناقب ذوی القربی، : 126.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس نے اٹھارہ ذی الحج کو روزہ
رکھا اس کے لئے ساٹھ (60) مہینوں کے روزوں کا ثواب لکھا جائے گا، اور یہ
غدیر خم کا دن تھا جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی
رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : کیا میں مومنین کا ولی نہیں ہوں؟
انہوں نے عرض کیا : کیوں نہیں، یا رسول اﷲ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا : جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے۔ اس پر حضرت عمر بن خطاب
رضی اللہ عنہ نے فرمایا : مبارک ہو! اے ابنِ ابی طالب! آپ میرے اور ہر
مسلمان کے مولا ٹھہرے۔ (اس موقع پر) اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :
’’ آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا۔ أخرجه الطبرانی في المعجم
الأوسط، 3 / 324، و خطيب البغدادی في تاريخ بغداد، 8 / 290، و ابن عساکر في
تاريخ الدمشق الکبير، 45 / 176، 177، و ابن کثير في البدايه والنهايه، 5 /
464، و رازی في التفسير الکبير، 11 / 139.
’’حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سفر پر تھے، (راستے میں) ہم نے وادی غدیر خم میں
قیام کیا۔ وہاں نماز کے لیے اذان دی گئی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے لئے دو درختوں کے نیچے صفائی کی گئی، پس آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے نمازِ ظہر ادا کی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر
فرمایا : کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں کل مومنوں کی جانوں سے بھی قریب تر
ہوں؟ انہوں نے عرض کیا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
: کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں ہر مومن کی جان سے بھی قریب تر ہوں؟ انہوں
نے عرض کیا : کیوں نہیں! راوی کہتا ہے کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں
اُس کا علی مولا ہے۔ اے اللہ! اُسے تو دوست رکھ جو اِسے (علی کو) دوست رکھے
اور اُس سے عداوت رکھ جو اِس سے عداوت رکھے۔‘‘ راوی کہتا ہے کہ اس کے بعد
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی اور اُن سے
کہا : ’’اے ابن ابی طالب! مبارک ہو، آپ صبح و شام (یعنی ہمیشہ کے لئے) ہر
مومن اور مومنہ کے مولا بن گئے ہیں۔ أخرجه أحمد بن حنبل فی المسند، 4 /
281، وابن أبی شيبة فی المصنف، 12 / 78، الحديث رقم : 12167.
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم جس کے مولا ہیں علی رضی اللہ عنہ اس کے مولا ہیں۔ أخرجه محب الدين
أحمد الطبری في الرياض النضره فی مناقب العشره، 3 / 128، و ابن عساکر في
تاريخ دمشق الکبير، 45 / 178
’’حضرت سعد رضی اللہ عنہ بیا ن کرتے ہیں جب حضرت ابوبکر صدیق اور عمر بن
خطاب رضی اﷲ عنہما نے حدیث ولایت سنی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے
: اے ابن ابی طالب! آپ ہر مومن اور مومنہ کے مولا بن گئے ہیں۔ المناوی فی
فيض القدير، 6 / 218
’’حضرت سالم سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا : ( کیا
وجہ ہے کہ ) آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایسا (امتیازی) برتاؤ کرتے
ہیں جو آپ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے (عموماً) نہیں کرتے؟ (اس پر)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے (جواباً) فرمایا : وہ (علی) تو میرے مولا (آقا)
ہیں۔ محب الدين أحمد الطبری في الرياض النضره فی مناقب العشره، 3 / 128، و
ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 178 |