شان وعظمت آبائے رسول کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

اُم ّ ِ ختم ُ الرّسل ، سیدہ آمنہ شان ِ آیۂ قُل ، سیدہ آمنہ
جن کی مرقد نے ابوا ء معلیٰ کیا باعث فخر کُل ، سیدہ آمنہ

آج کے انتہائی ترقی یافتہ دور میں جب کہ علوم و فنون اپنی معراج کو چھو رہے ہیں اور جینیاتی سائنس ، Genetics کمال ارتقا پر ہے کسی ذی ہوش سے ، Genetic codings اور انتقالِ موروثیت، Heriditary characteristics کی اصطلاحات مخفی نہیں ہیں۔ کم سنِ بچہ بھی یہ جانتا ہے کہ نومولود کی شکل و صورت، رنگ روغن، عادات واطوار، خصائل اور گفتاروکردار میں نسب انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ہر انسان نصف خصائل، باپ سے اور نصف ماں سے حاصل کرتا ہے اور ان موروثی خصوصیات کے سائے میں حسبی کمالات اجاگر ہوتے ہیں۔

مادہ پرستی کے سیلاب میں غرق معاشرہ جہاں اپنی کوتاہیوں اور غفلتوں سے حقائق و معارف سے دور ہوتا چلا جا رہا ہے وہیں ہر دور کے شیاطین کو بھی عوام کی سادگی اور جہالت سے کھل کر کھیلنے اور ورغلانے کے مواقع وافر مقدار میں نصیب ہوتے رہے ہیں اور بدبخت لوگ ان کا فائدہ اٹھاکر آتشِ جہنم کا ایندھن تیار کرتے رہے ہیں۔

ُُخدا کی لعنت:
قرآنِ مجید، فرقانِ حمید کی سورہ ء مبارکہ احزاب کی آیت نمبر 57میں اللہ ربُّ العزت کا فرمان ِعالیشان ہے،
۔ "بے شک جو لوگ خدُا اور اس کے رسول کو اذیت دیتے ہیں ان پر خدا نے دنیا اور آخرت دونوں میں لعنت کی ہے اور ان کے لئے رسوائی کا عذاب تیار کر رکھا ہے"۔

محقق و فقیہ حضرت علامہ جلال الدین سیوطی اپنے تحقیقی رسالے "السُبُل الجلیّہ" کے صفحہ نمبر 18 پر لکھتے ہیں کہ رسول اللہ کے لئے اس سے زیادہ ایذا دینے والی کوئی اور چیز نہیں ہو سکتی کہ ان کے اجدادِ اطہار کے متعلق سوئِ ظن رکھا جائے۔ آپ نے عظمت ِآبائے رسول کے موضوع پر چھ گرانقدر رسالے تالیف فرمائے۔ جو حضرات نبی کریم کے آبائے طاہرین کے متعلق کفریہ عقیدہ رکھتے ہیں وہ قرآنِ مجید کی آیتِمبارکہ کی رو سے اللہ رب العزّت کی لعنت کے حقدار ہیں۔

اسلام دشمن عناصر کی ہمیشہ یہ کوشش اور فرضِ اوّلین رہا ہے کہ حضور نبی کریم کی عظمت اور شان و سربلندی کو ہر ممکن ضرب لگائی جائے تاکہ آپ کا پیغامِ صلح و آشتی اور خدا پرستی کی تعلیمات کو مسخ کیا جا سکے ۔ اسی مزموم مقصد کی خاطر خود ساختہ مفروضے ،خانوادئہ باعثِتخلیقِ کائنات سے منسوب کر کے آسمانِ عظمت کی جانب تھوکنے کی سیاہ حرکات صفحاتِ تاریخ میں نقش ہوتی رہی ہیں۔

ظرف و مظروف:
ظرف اور مظروف، لازم و ملزوم ہیں۔ ظرف پاک ہو گا تو مظروف کی پاکی کا اطمینان ہو گا۔ اگر ظرف کو ہی ناپاک کر دیا جائے تو مظروف کیسے پاک کہلائے گا۔ مظروف، ظرف کا آئینہ دار ہے اور ظرف، مظروف کا۔ جیسا ظرف ویسا مظروف۔ اگر مظروف نورِسیّدالمرسلین ہے تو ظرف کیا ہونا چائیے؟ ۔۔۔۔۔۔؟؟۔

اپنے ظروف کی شان بیان کرتے ہوئے سرکار ختمیئِ مرتبت فرماتے ہیں، " اللہ جلِّ شانہ نے مجھے ہمیشہ پاک اصلاب سے ارحام طِاہرہ میں منتقل فرمایا"۔ اوَّلُ مَا خَلَقَ اللہُ نُورِی کا فرمانِ عالیشان، باعثِتخلیقِ کائنات کی ابتدا ہے اور پہلوئے آمنہ سے جلوہ فرمائی اس انتقالِبے مثال کی انتہا ہے۔

اس ابتدا اور انتہا کے درمیان لباسِ بشریت میں نورانی وجود اللہ رب العزّت کی بزرگ ترین مخلوق اور معزز ترین قبیلہ ہے جسے اولادِآدم میں سے آلِ ابراہیم، اولادِ اسمٰعیل، قریش، بنی ہاشم، بنی عبدالمُطّلب اور پھر آلِ محمد کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور ہر نماز میں اِن پر درودو سلام بھیجا جاتا ہے۔

چور مچائے شور:
اِن مقدّس و معطّر، منوّر و مطہّر ہستیوں کے ٹکڑوں پر پلنے والے گداگر جب خلافتِ رسول پر قابض ہوتے ہیں تو اپنے باپ دادا اور ماں نانی کے کارناموں پر پردہ ڈالنے کے لئے شانِ رسالت اور عظمتِ آبائےرسول کے متعلق ہرزہ سرائی شروع ہو جاتی ہے۔ اپنی گداگری چھپانے کے لئے اِن کی غربت کے قصےّ گھڑے جاتے ہیں۔ اپنے کفّار آباء واجداد کو جہنم کا ایندھن بنا دیکھ کر ان کے متعلق بدگفتاریاں کی جاتی ہیں۔ اپنی جہالت چھپانے کے لئے مُعلّمِ کائنات کو ان پڑھ قرار دیا جاتا ہے۔

مفروضئہ افلاس:
اُمَّ القریٰ، مکّہ کو آباد کرنے والے پیغمبرِ اکرم کے آبائے طاہرین عرب کے رئیس اور امیر ترین افراد تھے۔ یہ مقدّس گھرانہ عرب کا مقبول ترین اور رئیس گھرانہ تھا اور ان کے ذاتی تعلقات تاریخِ عالم میں اس وقت کی چار بڑی طاقتوں سے قائم تھے۔ ایک طرف قیصرِ روم تھا، دوسری طرف کسریٰ شاہِ فارس، تیسری طرف تُبعَانِ یمن اور چوتھی طرف حبشہ کے نجاشی۔ ان چار بڑی طاقتوں کے طفیلی بادشاہ بھی سیدنا عبدالمطلب کو وسیلہ بنا کر حکومتیں لیتے تھے جن میں عراق کے منا ذرہ اور عرب و شام کے مشارفہ، حضرت کی خدمتگاری پر فخر کرتے تھے۔ تبُعانِ یمن کی حکومت کے خاتمے کے بعد سیف بن ذی یزان کو یمن کی حکومت دلانے کا سہرا بھی سیدنا عبدالمُطّلِب کے سر ہے۔

سیّدنا سعد، جنہیں تاریخ ہاشم کے نام سے یاد کرتی ہے عرب کے رئیس الرّؤسا تھے۔ جب پورے عرب کو قحط نے بری طرح سے لپیٹ میں لے لیا اور بڑے بڑے رئیس دو وقت کی روٹی کو ترس رہے تھے تو اس کڑے وقت میں روزانہ ہزاروں اُونٹ ذبح کر کے ان کے شوربے میں روٹیاں توڑ کر ڈال دیتے تھے اور لاکھوں قحط ذدہ افراد کو کھانا کھلاتے تھے اور انہیں ایک نئی زندگی عطا فرماتے تھے۔ اسی وقت عربوں نے آپ کو ہاشم کا لقب دیا۔ ہاشم اس سخی کو کہتے ہیں جو اونٹ کے شوربے میں روٹیاں توڑ کر کھلائے۔

اسی طرح یمن، شام اور حجاز میں اس خانوادے کی جائیدادیں اور ان کے متعلق صفحاتِ تاریخ میں نقش وصیتیں وہ اہم دستاویزات ہیں جو دشمنانِ اسلام کا یہ مذموم پروپیگنڈا توڑ ڈالتی ہیں کہ سرورِ کائنات کے آبائے طاہرین مفلس و تنگدست اور غربت کا شکار رہے۔ یہ عظیم ہستیاں تو کائنات کو رزق تقسیم کرنے والی ہیں اور ان ہی کا صدقہ جملہ مخلوقات کو تقسیم کیا جاتا ہے۔

رئیس ِبطحا سیدنا عمران بن عبدالمُطّلب المعروف حضرت ابوطالب کو ان دشمنان ِرسالت نے غربت کا شکار بیان کیا اور اسی غربت کے باعث مولائے کائنات ،اسدُ اللہ الغالب، علی ابن ابی طالب کو آغوشِ رسالت کے سپرد کرنے کا سبب قرار دیا اور "اَنا و عَلیِِِِ منِ نُورِ وَاحد" کی حدیثِ مبارکہ بھلا دی گئی۔ اگر سیدنا ابوطالب غریب تھے تو حضرت جعفر طیاراور بعد ازاں عبداللہ بن جعفر طیار کو منتقل ہونے والی شام ولبنان اور یمن کے باغات کی وراثت کہاں سے آگئی؟۔

عرش سے نور چلا اور حرم تک پہنچنا:
مقدّس جبینوں، پاکیزہ اصلاب، پاک ارحام سے ہوتا نورِ محمدی، "اِنَّکَ لَمِنَ المُرسَلِین" کے مصداق اجدادِ اطہار کو خراجِ عقیدت دیتا، جبینِ عبدالمُطّلب کے بعد دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ نصف نور سیدنا عبداللہ اور نصف سیدنا ابوطالب کو منتقل ہوا۔
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1284676 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.