حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ
تعالیٰ عنہ اور حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فضائل پر
احادیث تحریر کی جا رہی ہیں، پڑھیے اور اپنے دل میں اہلبیت اطہار خصوصاً
نوجوانانِ جنت کے سرداروں کی محبت کی شمع فروزاں کیجیے۔
حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا کہ نبی
کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالی عنہ کو
اپنے مبارک کندھے پر اٹھایا ہوا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما
رہے تھے، ''اے اﷲ! میں اس سے محبت کرتا ہوں پس تو بھی اس سے محبت فرما''۔ (بخاری،
مسلم)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں دن کے ایک حصہ میں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نکلا ،آپ حضرت فاطمہ رضی اللہ
عنہا کی رہائش گاہ پر تشریف فرما ہوئے اور فرمایا، کیا بچہ یہاں ہے؟ یعنی
حسن رضی اللہ تعالی عنہ ۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ دوڑتے ہوئے آگئے یہاں تک کہ
دونوں ایک دوسرے کے گلے سے لپٹ گئے۔ آقا ومولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے فرمایا، ''اے اﷲ! میں اس سے محبت رکھتا ہوں تو بھی اس سے محبت رکھ اور
اس سے بھی محبت رکھ جو اس سے محبت رکھے''۔ (بخاری، مسلم)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کا ارشاد ہے ،جس نے ان دونوں یعنی حسن وحسین سے محبت کی اس نے
مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔ (فضائل
الصحابۃ للنسائی)
حضرت ایاس رضی اللہ تعالی عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں اس سفید
خچر کی لگام پکڑ کر چلا ہوں جس پر میرے آقا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم اور حضرت حسن و حضرت حسین سوار تھے یہانتک کہ وہ نبی کریم کے حجرہ
مبارکہ میں داخل ہو گئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آگے سوار تھے
اور حسنین کریمین آپ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔(مسلم)
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جب حسن پیدا ہوا تو میں نے اس
کا نام حمزہ رکھا اور جب حسین پیدا ہوا تو اس کا نام جعفر رکھا۔ مجھے آقا
ومولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بلا کر فرمایا، مجھے انکے نام تبدیل
کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ میں نے عرض کی، اللہ اور اسکا رسول بہتر جانتے ہیں۔
تو حضور نے ان کے نام حسن اور حسین رکھے۔ (مسند احمد، حاکم)
حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا کہ رسول اﷲ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جلوہ افروز تھے اور حسن رضی اللہ تعالی
عنہ آپ کے پہلو میں تھے کبھی آپ لوگوں کی جانب متوجہ ہوتے اور کبھی ان کی
طرف ،پھر آپ نے ارشاد فرمایا،'' میرا یہ بیٹا حقیقی سردار ہے اور اس کے
ذریعے اﷲ تعالیٰ مسلمانوں کے دو بہت بڑے گروہوں میں صلح کروادے گا''۔
(بخاری، ترمذی)
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا،کیا میں تمہیں ان کے بارے میں نہ بتاؤں جو اپنے نانا
نانی کے لحاظ سے سب لوگوں سے بہتر ہیں؟ کیا میں تمہیں ان کے بارے میں نہ
بتاؤں جو اپنے چچا اور پھوپھی کے لحاظ سے سب لوگوں سے بہتر ہیں؟ کیا میں
تمہیں ان کے بارے میں نہ بتاؤں جو اپنے ماموں اور خالہ کے لحاظ سے سب لوگوں
سے بہتر ہیں؟ کیا میں تمہیں ان کے بارے میں نہ بتاؤں جو اپنے ماں باپ کے
اعتبار سے سب لوگوں سے بہتر ہیں؟ وہ حسن اور حسین ہیں۔ان کے نانا اللہ
تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، انکی نانی خدیجہ بنت خویلد،ان کی
والدہ فاطمہ بنت رسولُ اللہ، انکے والد علی بن ابی طالب، انکے چچا جعفر بن
ابی طالب، انکی پھوپھی ام ہانی بنت ابی طالب، انکے ماموں قاسم بن رسولُ
اللہ اور انکی خالہ اللہ کے رسول کی بیٹیاں زینب، رقیہ اور ام کلثوم ہیں
رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین۔ ان کے نانا، نانی، والد، والدہ،چچا،
پھوپھی، ماموں، خالہ سب جنت میں ہونگے اور وہ دونوں یعنی حسن و حسین بھی
جنت میں ہونگے۔ (طبرانی فی الکبیر،مجمع الزوائد)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے حسن اور حسین کی پیدائش کے ساتویں دن اُن کی طرف دو دو بکریاں
عقیقہ میں ذبح کیں۔ (مصنف عبدالرزاق،ابن حبان)
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کے ساتھ حسن رضی اللہ تعالی عنہ سے زیادہ مشابہت رکھنے والا کوئی نہیں
تھا اور حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق بھی فرمایا کہ وہ رسول اﷲ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہت مشابہت رکھتے تھے۔ (بخاری، ترمذی)
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت حسن سینے سے سر تک رسول اﷲ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشابہت رکھتے ہیں اور حضرت حسین سینہ سے نیچے
(پاؤں تک)نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سب سے زیادہ مشابہت رکھتے
ہیں۔(ترمذی)
اعلیٰ حضرت مجددِ دین وملت امام احمد رضا مجدد بریلوی رحمہ اللہ نے خوب
فرمایا،
معدوم نہ تھا سایہئ شاہِ ثقلین
اس نور کی جلوہ گہ تھی ذاتِ حسنین
تمثیل نے اس سائے کے دو حصے کیے
آدھے سے حسن بنے آدھے سے حسین
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ حضرت حسن اور حضرت حسین رضی
اللہ عنہما کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرضُ الوصال کے دوران
آپ کی خدمت میں لائیں اور عرض کی، یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
انہیں اپنی وراثت میں سے کچھ عطا فرمائیں۔ آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے فرمایا، حسن میری ہیبت اور سرداری کا وارث ہے اور حسین میری جرأت
اور سخاوت کا وارث ہے۔ (طبرانی فی الکبیر، مجمع الزوائد)
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے مجھے اور حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ کو پکڑا اور
فرمایا، اے اﷲ ! میں ان دونوں سے محبت رکھتا ہوں تو بھی ان دونوں سے محبت
رکھ۔ دوسری روایت میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں پکڑ
کر اپنی ایک ران پر بٹھالیتے اور حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالی عنہ کو
دوسری رانِ مبارک پر۔ پھر یہ کہتے، اے اﷲ! ان دونوں پر رحم فرما کیونکہ میں
بھی ان پر مہربانی کرتا ہوں۔ (بخاری)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آقا و مولیٰ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، جو مجھ سے محبت کرتا ہے اس پر لازم ہے کہ
وہ اِن دونوں یعنی حسن وحسین سے بھی محبت کرے۔ (فضائل الصحابۃ للنسائی،
صحیح ابن خزیمہ، مجمع الزوائد)
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آقا ومولیٰ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے حسن بن علی رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنے کندھے پر اٹھایا ہوا
تھا تو ایک آدمی نے کہا ،اے لڑکے ! کیا خوب سواری پر سوار ہو۔ نبی کریم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ سوار بھی تو بہت خوب ہے۔ (ترمذی)
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حسن و حسین کو آقا
ومولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک کندھوں پر سوار دیکھا تو اُن سے
کہا، آپ کی سواری کتنی اچھی ہے!نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد
فرمایا، یہ بھی تو دیکھو کہ سوار کتنے اچھے ہیں۔ (مسند بزار،مجمع الزوائد)
حضرت عقبہ بن حارث رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ
تعالی عنہ نے نماز عصر پڑھی پھر باہر نکلے اور ان کے ساتھ حضرت علی رضی
اللہ تعالی عنہ تھے ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت حسن رضی اللہ
تعالی عنہ کو بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا تو اسے اپنے کندھے پر اٹھالیا
اور فرمایا ، میرا باپ قربان ! تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے
مشابہت رکھتے ہو اور علی سے مشابہت نہیں رکھتے جبکہ حضرت علی رضی اللہ
تعالی عنہ ہنس رہے تھے ۔(بخاری)
حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا ، حسن اور حسین دونوں جنتی جوانوں کے سردار ہیں
۔(ترمذی،مسند احمد، صحیح ابن حبان)
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا، حسن اور حسین دونوں دنیا میں سے میرے دو پھول ہیں ۔
(ترمذی،مسند احمد، صحیح ابن حبان)
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک رات میں کسی کام
سے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا۔آقا
ومولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لائے۔ آپ نے چادر میں کوئی چیز
لی ہوئی تھی اور مجھے معلوم نہ ہو سکا کہ وہ چیز کیا ہے ۔جب میں اپنے کام
سے فارغ ہوگیا تو عرض گزار ہوا،میرے آقا!آپ نے کس چیز پر چادر لپیٹی ہوئی
ہے؟ آپ نے چادر ہٹائی تو دیکھا کہ آپ کی دونوں رانوں پر حسن اور حسین موجود
ہیں۔ فرمایا، یہ دونوں میرے بیٹے اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں ۔ اے اﷲ ! میں
ان دونوں سے محبت رکھتا ہوں پس تو بھی اِن سے محبت رکھ اور اُن سے بھی محبت
رکھ جو ِان دونوں سے محبت رکھیں۔ (ترمذی، صحیح ابن حبان)
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم سے پوچھا گیا کہ اپنے اہل بیت سے آپ کو سب سے پیا را کون ہے؟ فرمایا ،
حسن اور حسین۔ آپ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کرتے ، میرے دونوں
بیٹوں کو میرے پاس بلاؤ۔ پھرآپ دونوں کو سونگھا کرتے اور انہیں اپنے ساتھ
لپٹا لیا کرتے ۔ (ترمذی،مسند ابویعلیٰ)
حضرت بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم خطبہ دے رہے تھے کہ اس دوران حسن اور حسین آگئے۔ ان کے اوپر سرخ
قمیضیں تھیں اور وہ گرتے پڑتے چلے آرہے تھے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم منبر سے اترے، دونوں کو اٹھایا اور سامنے بٹھالیا ۔ پھر فرمایا،
اﷲ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے،انما اموالکم واولادکم فتنۃ۔'' بیشک تمہارے مال
اور تمہاری اولاد آزمائش ہیں''۔ (٨:٢٨) میں نے ان دونوں بچوں کو دیکھا کہ
گرتے پڑتے آرہے ہیں تو میں صبر نہ کرسکا اور اپنی بات چھوڑ کر ان دونوں کو
اٹھالیا۔ (ترمذی، ابو داؤد، نسائی)
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آقا ومولیٰ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم حضرت حسن اور حضرت حسین کے لیے (خاص طور پر ) کلماتِ تعوذ کے
ساتھ دَم فرماتے۔ آپ نے یہ ارشاد فرمایا، تمہارے جدِ امجد یعنی ابراہیم
علیہ السلام بھی اپنے صاحبزادوں اسماعیلں و اسحاق علیہم السلام کے لیے اِن
کلمات کے ساتھ دَم کرتے تھے۔
اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّۃِ مِنْ کُلِّ شَیْطٰنٍ
وَّھَّامَّۃٍ وَّمِنْ کُلِّ عَیْنٍ لاَّمَّۃٍ۔ ''میں اللہ تعالیٰ کے کامل
کلمات کے ذریعے ہر شیطان اور بلا سے اور ہر نظرِ بد سے پناہ مانگتا ہوں''۔
(بخاری، ابن ماجہ)
حضرت یعلیٰ بن مرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں ۔اﷲ اس سے
محبت کرے جو حسین سے محبت کرتا ہے۔ حسین میری اولاد میں سے ایک فرزند ہے۔
(ترمذی،ابن ماجہ)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آقا ومولیٰ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا، جس نے حسن اور حسین سے محبت کی، اس نے درحقیقت مجھ
ہی سے محبت کی۔اورجس نے حسن اور حسین سے بغض رکھا، اس نے درحقیقت مجھ ہی سے
بغض رکھا۔ (ابن ماجہ،فضائل الصحابۃ للنسائی، طبرانی فی الکبیر)
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے آقا ومولیٰ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ، جس نے حسن اور حسین سے محبت
کی،اُس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی،اُس سے اللہ تعالیٰ نے
محبت کی اور جس سے اللہ نے محبت کی ،اُس نے اسے جنت میں داخل کردیا۔ اورجس
نے حسن اور حسین سے بغض رکھا،اُس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے مجھ سے بغض
رکھا،وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبغوض ہو گیا اور جو اللہ کے نزدیک مبغوض ہوا
، اللہ تعالیٰ نے اسے آگ میں داخل کردیا۔ (المستدرک للحاکم)
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک بار رسول کریم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے حسن اور حسین کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا،جس نے مجھ سے اور
اِن دونوں سے محبت کی اور اِن کے والد اور اِنکی والدہ سے محبت کی، وہ
قیامت میں میرے ساتھ ہو گا۔ (مسند احمد، طبرانی فی الکبیر)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آقا ومولیٰ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین کی طرف دیکھا
اور ارشاد فرمایا،جو تم سے لڑے گا میں اُس سے لڑوں گا اور جو تم سے صلح کرے
گا میں اس سے صلح کروں گا یعنی جو تمہارا دوست ہے وہ میرا بھی دوست
ہے۔(مسند احمد، المستدرک للحاکم، طبرانی فی الکبیر)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ہم آقا ومولیٰ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز عشاء ادا کر رہے تھے۔ جب آپ سجدے میں گئے تو
حسن اور حسین آپ کی پشت مبارک پر سوار ہو گئے۔ جب آپ نے سجدے سے سر اٹھایا
تو دونوں شہزادوں کو اپنے پیچھے سے نرمی کے ساتھ پکڑ کر نیچے بٹھا دیا۔ جب
آپ دوبارہ سجدے میں گئے تو وہ پھر کمر مبارک پر سوار ہو گئے۔ یہانتک کہ آپ
نے نماز مکمل کر لی۔پھر آپ نے دونوں کو اپنے مبارک زانوؤں پر بٹھا لیا۔
(مسند احمد، المستدرک للحاکم، طبرانی فی الکبیر)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز ادا فرما رہے تھے کہ اس دوران حضرت حسن اور حضرت
حسین آپ کی کمر مبارک پر سوار ہو گئے۔ لوگوں نے ان کو منع کیا تو آقا کریم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، اِن کو چھوڑ دو، اِن پر میرے ماں باپ
قربان ہوں۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، صحیح ابن حبان، طبرانی فی الکبیر)
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آقا ومولیٰ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نماز کے سجدے میں ہوتے تو حسن یا حسین آکر آپ کی کمر مبارک پر
سوار ہو جاتے اوراس وجہ سے آپ سجدوں کو طویل کر دیتے۔ ایک مرتبہ آپ کی خدمت
میں عرض کی گئی، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! کیاآپ نے سجدے
طویل کر دیے ہیں؟ ارشاد فرمایا، مجھ پر میرا بیٹا سوار تھا اس لیے مجھے
اچھا نہ لگا کہ میں سجدوں سے اٹھنے میں جلدی کروں۔ (مسند ابویعلیٰ، مجمع
الزوائد)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آقا ومولیٰ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے تو آپ کے مبارک شانوں پر حضرت حسن اور
حضرت حسین سوار تھے۔ آپ دونوں شہزادوں کو باری باری چومنے لگے۔(مسند احمد،
المستدرک للحاکم)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آقا ومولیٰ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے سامنے حسنین کریمین کشتی لڑ رہے تھے اور آپ فرما رہے تھے،
حسن! جلدی کرو۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہانے عرض کی، یا رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم! آپ صرف حسن ہی کو ایسے کیوں فرما رہے ہیں؟ حضور صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، کیونکہ جبریل امین، حسین کو ایسا کہہ کر حوصلہ
دلا رہے ہیں۔ (اسدُ الغابہ، الاصابہ)
حضرت ابوہریرہ ص فرماتے ہیں کہ ہم آقا ومولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے
ساتھ سفر پر نکلے۔ راستے میں آپ نے حسنین کریمین کے رونے کی آواز سنی تو آپ
انکے پاس تشریف لے گئے اور رونے کا سبب پوچھا۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہانے
بتایا کہ انہیں سخت پیاس لگی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پانی کے
لیے مشکیزے کی طرف بڑھے تو پانی ختم ہو چکا تھا۔ آپ نے لوگوں سے دریافت کیا
مگر (گرمی کی وجہ سے زیادہ استعمال کے باعث) کسی کے پاس پانی موجود نہ تھا۔
آپ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا، ایک صاحبزادہ مجھے دیدو۔ انہوں
نے پردے کے نیچے سے ایک شہزادہ دے دیا۔ آپ نے اسے سینے سے لگا لیا لیکن وہ
سخت پیاس کی وجہ سے مسلسل رو رہا تھا۔ پس آپ نے اُس کے منہ میں اپنی مبارک
زبان ڈال دی۔ وہ اسے چوسنے لگا یہانتک کہ سیراب ہو گیا۔ پھر میں اسکے
دوبارہ رونے کی آواز نہ سنی جبکہ دوسرا ابھی تک رو رہا تھا۔ حضور نے سیدہ
فاطمہ رضی اللہ عنہا سے دوسرا صاحبزادہ لے کر اس کے منہ میں بھی اسی طرح
اپنی مبارک زبان ڈال دی تو وہ بھی سیراب ہو کر خاموش ہو گیا۔ (طبرانی فی
الکبیر،مجمع الزوائد، خصائص کبرٰی)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آقا ومولیٰ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا،الہٰی ! میں اِن دونوں (یعنی حسن وحسین)سے محبت
کرتا ہوں، تو بھی اِن سے محبت فرما۔ (مسند احمد، طبرانی فی الکبیر، مجمع
الزوائد)
حضرت ام الفضل بنت حارث رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ رسول ُاﷲ کی خدمت
میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئیں ،یا رسول اﷲ! آج رات میں نے برا خواب دیکھا
ہے۔ فرمایا، وہ کیا ہے؟ عرض کیا، آپ کے جسم انور کا ایک ٹکڑا کاٹ کر میری
گود میں رکھا گیا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ، تم
نے اچھا خواب دیکھا ہے ۔ انشاء اﷲ فاطمہ کے ہاں بیٹے کی ولادت ہو گی جو
تمہاری گود میں ہوگا ۔ پس حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں حسین رضی اللہ
تعالی عنہ پیدا ہوئے اور وہ میری گود میں تھے جیسے کہ رسول اﷲ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا۔ ایک روز میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ میں عرض گزار ہوئی، یا رسول اﷲ! میرے ماں باپ آپ
پر قربان! کیا بات ہے؟ فرمایا، جبرئیل میرے پاس آئے تھے اور مجھے بتایا کہ
عنقریب میری امت میرے اس بیٹے کو قتل کرے گی۔ میں نے کہا، اِنہیں (یعنی
حسین کو)؟ فرمایا، ہاں! اور وہ میرے پاس اس جگہ کی مٹی لائے جو سرخ ہے۔
(دلائل النبوۃ للبیہقی، مشکوٰۃ)
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ عبیداﷲ بن زیاد کے پاس حضرت
حسین رضی اللہ تعالی عنہ کا سرِ اقدس لاکر طشت میں رکھا گیا تو وہ اسے
چھیڑنے لگا اوراُس نے آپ کے حسن وجمال پر نکتہ چینی کی ۔ حضرت انس رضی اللہ
تعالی عنہ فرماتے ہیں، میں نے کہا ،'' خدا کی قسم !یہ رسول ُاﷲ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہت رکھنے والے ہیں''۔ امامِ عالی
مقام نے وسمہ کا خضاب کیا ہوا تھا ۔ (بخاری)
دوسری روایت میں ہے کہ میں ابن زیاد کے پاس تھا جب امام حسین رضی اللہ
تعالی عنہ کا سرمبارک لایاگیا تو وہ ایک چھڑی ان کی ناک پر مارنے لگا
اورطنزاً بولا، میں نے ایسا حسن والا نہیں دیکھا تو پھر انکا ذکر کیوں ہوتا
ہے۔ میں نے کہا، تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ یہ رسول ُاﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہت رکھتے ہیں۔ (ترمذی)
عبدالرحمٰن بن ابو نعم رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے حضرت
عبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے احرام کے متعلق مسئلہ پوچھا۔ شعبہ نے
کہا ، میرے خیال میں مکھی مارنے کے متعلق پوچھا تھا۔ حضرت ابن عمر نے
فرمایا،یہ عراق والے مجھ سے مکھی مارنے کے متعلق مسئلہ پوچھتے ہیں حالانکہ
انہوں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے کو شہید کردیا تھا
جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادہے کہ یہ دونوں دنیا میں میرے
دو پھول ہیں۔ (بخاری)
حضرت سلمیٰ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا
کی خدمت میں حاضر ہوئی اور وہ رو رہی تھیں ۔میں نے عرض کی، آپ کیوں روتی
ہیں ؟ فرمایا، میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خواب میں دیکھا
کہ سرِ اقدس اور داڑھی مبارک گرد آلود ہے۔ میں عرض گزار ہوئی ،یارسول اﷲ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ کو کیا ہوا؟ تو آپ نے فرمایا، میں ابھی حسین
کی شہادت گاہ میں گیا تھا۔(ترمذی)
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن دوپہر کے وقت میں
نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ گیسوئے مبارک
بکھرے ہوئے ہیں اور دست مبارک میں ایک شیشی ہے جس میں خون تھا۔ میں عرض
گذارہوا، میرے ماں باپ آپ پر قربان! یہ کیا ہے؟ فرمایا ،یہ حسین اور اس کے
ساتھیوں کا خون ہے۔ میں دن بھر اسے جمع کرتا رہا ہوں ۔ میں نے وہ وقت یاد
رکھا تو معلوم ہوا کہ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ اسی وقت شہید کیے گئے
تھے۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی، مسند احمد ) |