ڈسٹرکٹ گجرات کے ادبی ، علمی ، سیاسی ، سماجی اور
صحافتی حلقوں کی جانی پہچانی شخصیت انتہائی سینئر صحافی و سابق ایم پی اے
عامر عثمان عادل نے سوشل میڈیا پر بڑے ویژن کی ایک پوسٹ اپلوڈ کی اس کا متن
ہوبہو نقل کرکے بات کو آگے بڑھاؤں گا
جو قوم رمضان کی مبارک ساعتوں اور قیامت خیز گرمی میں جان لیوا لوڈ شیڈنگ
سہہ کر اُف تک نہ کرے وہ اس سے بھی بدترین سلوک کی مستحق ہے (عامر عثمان
عادل)
اس پوسٹ پر ایک صاحب ٹکا خان کوٹلہ نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا
آپ کے خیال میں عوام کو کیا کرنا چاہئیے؟ ’’ان شاء اﷲ2018 میں بجلی پوری ہو
رہی ہے اور پاکستان مسلم لیگ الیکشن بھی جیت رہی ہے اور اس پر کسی کو حیرت
بھی نہیں جانی چاہئے وہ اسکا حق رکھتے ہیں۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ہمارا سب
سے بڑا مقصد شاید عہدہ لینا ہوتا ہے۔ خدا را انصاف سے کام لیں اور اپنے قلم
کا صحیح استعمال کریں ‘‘ انہوں نے یہیں پر بس نہیں کیا ایک قدم اور آگے
بڑھتے ہوئے قدرے طیش کے عالم میں عامر کے توسل سے پوری قوم کو پیغام دیتے
ہوئے کہتے ہیں کہ ’’آپ سابقین کے بیس سالوں میں اگر ایک میگا واٹ بجلی سسٹم
میں داخل ہوئی ہے تو بتا دیں۔پلیز عوام کو گمراہ کرنے والی پوسٹس نہ کیا
کریں آپ کے اعلی کردار کو زیب نہیں دیتا۔ باقی آپ صاحب شعور ہیں‘‘ اس ساری
گفتگو کے جواب میں عامر عثمان عادل نے کیا کہا ملاحظہ فرمائیں ’’میرے بھائی
مجھے واقعی زیب نہیں دیتا ہاں اور اس وقت میرے لئے ساری دلیلیں بے کار ہو
جاتی ہیں جب معصوم بچے ساری رات بجلی نہ ہونے کے باعث گرمی سے تڑپتے اور
بلکتے ہوئے گزار دیتے ہیں اس وقت مجھے یہ دلیلیں ناگ بن کر ڈسنے لگتی ہیں
رہی بات قلم کے استعمال کی تو میرے اﷲ نے مجھ حقیر پر یہ کرم ضرور کر رکھا
ہے کہ لفظوں کی سدھ بدھ عطا کی تو ان کے بر محل استعمال کا سلیقہ بھی میری
جھولی میں ڈال دیا اگر آپ کو ناگوار گزرتا ہے تو کیا میں اپنے ضمیر کی آواز
پر لبیک کہنا ہی چھوڑ دوں، گلا گھونٹ دوں اپنے جذبات واحساسات کا؟اسی گفتگو
کو آگے بڑہاتے ہوئے ایک اور پوسٹ کے متن میں عامر عثمان عادل ایک ایسی بات
کہتے ہیں جو اس کالم کی وجہ بنی کہ کیا میں سچ لکھنے کی بجائے اپنا قلم
اوزار بند دانی کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دوں
کاش لوگ لکھاری خصوصاََصاحب درد لکھاری کی روحانی اذیت کا ندازہ کر پائیں
جس کے تحت وہ قلم اٹھاتا ہے تو اس وقت وہ قلم محض پچاس ، ساٹھ روپے کا ایک
سستا آلہ نہیں ہوتا بلکہ وہ کیا خوب کہا ہے کسی نے کہ قلم تیز چلتا ہے
تلوار سے
جب کوئی شخص دوران گفتگو اپنی بات میں وزن پیدا کرنا چاہے تو بے اختیار قسم
اٹھاتا ہے وہ کوئی بھی زبان بولنے والا ہو قسم کیلئے ذات احد و لم یلد ولم
یو لد کا سہارا لیتا ہے قرآن مجید میں اﷲ کریم نے بھی مختلف مقامات پر
قسمیں کھائی ہیں اور جن اشیاء کی قسمیں کھا ئیں انہیں معتبر فرما دیا قلم
بھی انہی معتبر اشیاء میں سے ہے۔ارشاد باری تعالٰی ہے
ن والقلم وما یسطرون
ن کی قسم، قلم کی قسم اور جو وہ لکھتے ہیں
وہ قلم جسے اﷲ کریم نے قسم کھا کر شرف بخشا جن احباب کو ودیعت فرما کر
صاحبان قلم بنایا یقیناََ انہیں عزت و شرف کے حوالے سے معتبر بھی کیا اور
ان کے کندھوں پر کچھ بار امانت بھی رکھا کہ ’’کونو مع الصادقین ‘‘ اب یہ
صاحبان قلم کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس شرف کو برقرار رکھیں اور انتہائی
نامساعد حالات میں بھی نہ صرف سچ کا ساتھ دیں بلکہ پوری شرح وبسط کے ساتھ
سچ لکھیں اور حالات کا عادلانہ تجزیہ سپرد قلم کریں اور ہر قسم کے
پراپیگنڈہ پر چڑھی مٹھاس کی تہہ اتار کر سچ کی تلخ کونین سے عوام کو روشناس
کروائیں
ان کا فرض ہے کہ کسی کا بھی فریق بنے بغیر وہ پوری ایمانداری سے سچ لکھیں
اور نہ صرف عوام بلکہ اربابِ اختیار پر بھی حقائق واضح کریں کہ عوامی
ضروریات بجلی ،پانی، صحت کے مسائل ،تعلیم کے میدان میں پیشرفت ، کرپشن کا
خاتمہ اور قومی خزانہ بیرون ملک لے جانے والے طفیلیے ہیں سو یہ لحاظ کیے
بغیر کہ کون اپنا ہے اور کون پرایا ان کا قلع قمع کرنا ضروری ہے نا کہ پیرس
اور لندن جیسے شہر یا موٹر وے اور میٹرو پراجیکٹ کے لالی پاپ دے کر اپنا
الو سیدھا کیا جائے ہر قسم کے وسائل سے مالا مال ان اشراف کے خلاف ایک قلم
بدست ہی تو ہے جو برسر پیکار ہے اگر یہ بھی خاموش ہو جائے تو الامان الحفیظ
کاش عوام ان حقائق کا ادراک کر پائیں کہ اگرانہوں نے ان مخلص صاحبانِ قلم
کی آواز پر کان نہ دھرا بلکہ ان پر آوازے کسے ، انہیں طنز اور سب وشتم کا
نشانہ بنایا اور اپنے حال میں مست رہے تو حالات کا اونٹ جس کروٹ بیٹھتا نظر
آ رہا ہے وہ انتہائی مخدوش اور خطرناک ہے ہم پہلے ہی عالمی برادری میں
اکیلے کئے جانے کی سازش کی زد میں ہیں اب بھی اگر حالات کا درست تجزیہ نہ
کیا گیاتو قوم جسے قوم کہتے ہوئے بھی شرمندگی کا احساس ہوتا ہے نہ صرف بچی
کھچی اجتماعیت سے بھی محروم ہو جائے گی بلکہ ابن الوقت میر جعفروں اور میر
صادقوں کے ہاتھوں ملک و قوم ایسی صورتِ حال سے دوچار ہوگی کہ نہ جائے رفتن
نہ پائے ماندن
ایک طرف کچھ طبقے اقتدار کی ہوس میں قوم کو وہاں تک لے آئے ہیں کہ ایسا
لگتا ہے کسی بھی لمحے خانہ جنگی شروع ہو جائے گی تو دوسری طرف ہماری
اندرونی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کے چکر میں لبرلز اور دیسی لبرلز نے
ہماری نئی نسل پر نام نہادشخصی آزادی و روشن خیالی کے ہتھیاروں سے مسلح ہو
کر یلغار کر رکھی ہے اور ان کا مطمع نظر یہ ہے کہ
وہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روحِ محمدﷺ اس کے بدن سے نکال دو ۔ اقبال رح
صیہونی و سامراجی طاقتیں ، اور ہنود ویہود گٹھ جوڑ نے ہمارے خلاف بیک وقت
کئی محاذ کھول رکھے ہیں ایک طرف در اندازی کے ذریعے ہمیں دہشت گردی کے
آسیبی چنگل میں پھنسا رکھا ہے تو دوسری طرف میڈیا پر ان کے نمک خوار دن رات
اسلام وپیغمبر اسلام کی ذات پر رقیق حملوں کے ذریعے اسلام کا تشخص تباہ
کرنے کے چکر میں ہیں میڈیا کے مائنڈ سیٹر Mind Setter ہماری نوجوان نسل کی
بڑی تعداد کو ورغلانے میں کامیاب ہو چکے ہیں ان کے اذہان خطر ناک تشکیک کا
شکار ہیں اور ان کے مقابل ہمارے مذہبی سکالرز (سوائے چند ایک کے ) خود کو
جدید علوم سے ہم آہنگ کرنے پر آمادہ ہی نہیں خیر بات کہاں سے کہاں جا نکلی
اگر صاحبان قلم درست تجزئیے نہیں کریں گے اور حقائق سے چشم پوشی کریں گے تو
یاد رکھئے یہ لمحاتی خطا صدیوں بھگتنا پڑے گی کیا یہ سچ نہیں کہ ہوس اقتدار
میں سب اچھا کی رپورٹیں قوم کے گوش گزار کر کے اس کی آنکھوں میں دھول
جھونکی جا رہی ہے کیا ئی بھی سچ نہیں کہ توانائی کے بحران کی بنیادی وجہ
ناہل سیاسی قیادت اور کرپشن ہے کیا یہ سچ نہیں کہ وزیر بجلی و پانی اس کو
بنا دیا گیا جس کو کلو واٹ اور میگا واٹ میں فرق ہی معلوم نہیں یہی نہیں
ترقی وبہتری کے سہانے خواب دکھا کر ملکی معیشت کو تنزّلی اور ابتری کا شکار
کیا چکاہے ائر کنڈیشنڈ گاڑیوں میں بیٹھ کر اور خوشامدیوں کے جھرمٹ میں
رمضان بازاروں کے معاینے کرنے والے کیا خاک جان پائیں گے کہ گرمی مسئلہ ہے
کہ نہیں ،بجٹ اعداد کا وہ گورکھ دھندہ ہے جس کا معاملہ لکھے مو سا ، پڑھے
خود آ والا معاملہ ہے پاکستان میں بجلی کی دستیابی پر اتنے لطیفے اور جگتیں
تخلیق ہو چکی ہیں کہ مزاحیہ ادب میں ایک بھرپور باب کا اضافہ موجودہ حکومت
کا ایک گرانقدر کارنامہ سمجھا جانا چاہئیے ایسے میں سچ لکھنے والے جو
معدودے چند احباب موجود ہیں اانہیں غنیمت سمجھا جائے یاد رکھئے جب نصیحت
بری لگنے لگے تو بربادی محض ایک دو قدم ہی دور ہوتی ہے مگر کیا جائے ہم اس
قوم سے ہیں جن کے بارے مورخ لکھے گا کہ ایک ایسی بھی روئے زمین پر تھی جہاں
جوتے شو کیسوں اور ائرکنڈیشنڈ دوکانوں میں سجا کر بیچے جاتے ا ور علم وحکمت
کے خزانے یعنی کتب فٹ پاتھ پر دھوپ میں ایک ایک ، دو ، دو روپے کے عوض زمین
پر رکھ کر بیچی جاتی تھیں
حبس اتنا تھا شجر رونے لگے
آدمی کیا بام و در رونے لگے |