دور ِ جدید کی نت نئی سہولیات نے روز مرہ زندگی کو آسان
اور سہل بنا دیا ہے ،پرانی استعمال شدہ اشیاء کی جگہ ٹیکنالوجی نے لے لی
ہے۔ایک وقت تھا جب گندم پیسنے کے لیے چکی ، پنکھوں اور اے سی کا متبادل
ہاتھ والے پنکھے اور درختوں کی گھنی چھاؤں اور فریج کی جگہ مٹی کے گھڑے
اورنل کی جگہ ہینڈ پمپ استعمال ہوتا تھا کتنا سہانا وقت تھا جب موسم گرما
کی تاثیر کم کرنے کے لیے گھنے درختوں کی چھاؤں میں بزرگ خواتین ،مرداور بچے
بیٹھتے تھے اور پھر وہ وقت بھی ریت کی طرح ہاتھوں سے سرک کر ماضی کا حصہ بن
گیا۔ جب ہمارے گھروں کے صحن اور برآمدوں میں مٹی کے دو تین گھڑے ایک لکڑی
کے میز نما سٹول پر بڑی خوبصورتی سے ٹھنڈے پانی کی سہولت فراہم کرتے تھے
اور آج فریج اور برف کا استعمال ہمارے گھروں میں عام ہے،کہا جاتا ہے نا کہ
ضرورت ایجاد کی ماں ہے تو حضرت انسان روز اول ہی سے اپنی ضرورت کے مطابق
ایجادات کرتا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پتھر کے زمانے سے نکل کر انسان
ترقی یافتہ دور میں داخل ہو چکا ہے ۔جس میں صرف بٹن دبانے سے کام ہو جاتے
ہیں اور انسانی مشقت کم خرچ ہوتی ہے۔اس ساری صورتحال اور آسائشوں کے باوجود
انسان نے بہت کچھ کھو بھی دیا ہے مگر آسائشات اور سہل پن اسے دلدل میں جانے
سے روک نہیں پا رہیں۔ ایک زمانہ تھا جب’ مٹی کے برتن ‘کچن اور دستر خوان کی
زینت تھے مگر آج فیشن اور خوبصورت برتنوں کے شوق نے مٹی کے برتنوں کی روایت
کو ختم کر دیا ہے۔جس کے نتیجے میں خرابی صحت اور بیماریاں عام ہو تی جارہی
ہیں۔
مٹی سے برتن بنانے کے فن کو ’کوزہ گری‘کے نام سے بھی جانا جاتا ہے،کوزہ گری
فارسی زبان کا لفظ ہے اور کوزہ گر اس شخص کو کہا جاتا ہے جو مٹی کے ڈھیلے
کو برتن کی شکل میں ڈھالتا ہے۔پنجاب میں اسے کمھار بھی کہا جاتا ہے۔مٹی کے
برتن بنانے کا فن کم ازکم آٹھ دس ہزار سال پرانا ہے اوراس صنعت کودنیا کی
سب سے قدیم صنعت ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ انسانی سمجھ کی ابتدا ء سے
انسان مٹی کے برتن بناتا اور انھیں آگ میں پکا کر مضبوط کرتا رہا ہے
۔کھدائی کے دوران جہاں کہیں بھی ما قبل تاریخی اشیاء برآمد ہوئیں ان میں
مٹی کے برتن لازمی جز رہے ہیں۔ایشیاء میں سب سے پہلے مٹی سے برتن کا آغاز
’ایران ‘میں ہوا۔چین میں اس فن کو عروج حاصل ہوا ۔ اس فن نے اس جگہ ڈیرے
ڈال لئے جس جگہ انسان سانس لیتا تھا ۔اس حوالے سے کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ
’’اس دھرتی پر جہاں جہاں کھیت ہو ں گے وہاں وہاں مٹی کو ماں دینے والاکمہار
بھی ہوگا۔مسلمانوں نے اس فن میں مزید نفاست کااضافہ کیا۔ مسلمانوں نے رنگ
دار مٹی سے برتن بنانے کی ابتداء کی۔مسلمان ہنرمندوں نے ہی مراکش سے لے کر
اندلس اسپین تک اور برصغیر میں بھی اس ہنر کو رواج دے کر عروج پر پہنچایا
۔پاکستان میں رنگ دارمٹی کے برتن اور اس پر کاشی گری کمال فن کی عروج پر
پہنچی۔ قدیم زمانہ سے لے کر آج کے جدید دور تک برتن انسان کی ضرورت رہے
ہیں۔روئے زمین پر اپنی آمد کے ساتھ ہی حضرت انسان نے جن چیزوں کی ضرورت
محسوس کی ان میں کھانے پینے اور دیگر استعمال کے برتن بھی شامل تھے۔ وقت کے
ساتھ ساتھ برتنوں کی اقسام اور ان کی بناوٹ میں جدت لائی جاتی رہی۔ تین
قدیم تہذیبیں جن میں ایک دریائے دجلہ اور دریائے فرات کے کنارے عراق میں
میسوپوٹامیہ، دوسری دریائے نیل کے کنارے مصر اور تیسری وادی سندھ کی تہذیب
شامل ہے۔وہ رہن سہن،کھانے پینے،اوڑھنے بچھونے کے لحاظ سے مہذب معاشرے سمجھے
جاتے تھے۔ان تینوں میں سے وادی سندھ کی تہذیب کو باقی تہذیبوں سے زیادہ
ترقی یافتہ تہذیب تسلیم کیا گیا جہاں ماضی کا آئینہ صاف دکھائی دیتا ہے اس
دور کے نمایاں خدوخال یہاں گزشتہ سال پانچ ہزار سال پرانے مگر جدیددور کے
انتظام وانصرام کے عین مطابق لگتے ہیں جیسے ڈرینج سسٹم ،خوراک کے ذخیرہ
کرنے کا طریقہ اور ظروف ساز بھٹیاں۔تحقیق کے مطابق یہاں سے بھٹیاں ملی ہیں
یہ بھٹیاں سیاہ رنگ کی چوڑیاں اور مٹی کے چھوٹے برتن پکانے کیلئے استعمال
کی جاتی تھیں۔انہی بھٹیوں کے قریب رہائشی مکانات، غلہ جمع کرنے کے لئے قد
آور مٹی کے بنے ہوئے مٹکے بھی ملے ہیں ۔مٹی کے برتنوں کی تیاری اور ان
کااستعمال روایت اور ثقافت کا حصہ ہیں مگر یہ روایت اور ثقافت اب دم توڑتی
جارہی ہے۔ استعمال ہونے والے قدیمی برتن ناپید ہورہے ہیں اس سے نہ صرف
ہماری ثقافت متاثر ہورہی ہے بلکہ آہستہ آہستہ ہماری نئی نسل ان چیزوں کے
نام تک بھول رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ مٹی کے برتن بنانے کی صنعت کے خاتمے کی
وجہ سے ثقافت متاثرہونے کے ساتھ ہماری معیشت پر بھی برے اثرات پڑ رہے ہیں۔
کبھی یہ شعبہ معروف صنعت کا درجہ رکھتا تھا۔ دنیا کی قدیم ترین صنعت سے
وابستہ ہنرمندوں میں کام کے حوالے سے مایوسی بڑھتی جا رہی ہے۔ماہر کاریگر
یا تووفات پاگئے یا پھر انکے دوسرے شعبوں میں چلے جانے سے اب یہ صنعت ختم
ہوتی جا رہی ہے۔
بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ دلکش و دیدہ زیب نظر آنے والے برتنوں کا استعمال
صحت کے لیے نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے۔اگرپلاسٹک کے برتنوں میں زیادہ گرم
کھانا ڈالا جائے تو وہ ہماری صحت پر مضر اثرات مرتب کرتے ہیں،اس کی مثال آپ
یہیں سے لے لیں جب ہم روز مرہ پلاسٹک کے برتنوں کو مائیکرو ویو میں رکھ
کرکھانا گرم کرتے ہیں تو یہ بہت خطرناک ہو سکتا ہے۔ جب مائیکروویو میں
پلاسٹک کنٹینر میں کھانا رکھا جاتا ہے تو اس پلاسٹک سے کچھ ایسے کیمیکلز
نکلتے ہیں جو عمل انہضام کو نقصان پہنچاتے ہیں۔تحقیق کے مطابق یہ کیمیکلز
بعض اقسام کے کینسر کا بھی خطرہ پیدا کرسکتے ہیں۔اسی طرح پلاسٹک کی بوتلیں
تقریباً ہر گھر میں پانی کے لئے استعمال کی جاتی ہیں۔لیکن اس کے استعمال
میں بھی احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔پلاسٹک کی بوتلوں کو گرم پانی اور براہِ
راست دھوپ سے بچانا بھی اشد ضروری ہے ۔اس کے علاوہ برتنوں کی ایک اور قسم
’نان اسٹک برتن‘ ہے جس کا آج کل استعمال عام ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں
کھانا بنانا اور پھر ان کی صفائی کرنادونوں ہی بہت آسان ہیں۔ یہ برتن
بنیادی طور پر دھات کے بنے ہوئے ہیں اور ان پر ٹیفلون(teflon) نامی پرت
چڑھی ہوئی ہوتی ہے ، جو مختلف کیمیکلز کا مجموعہ ہے۔ جن میں ایک کا نام’
فلورو اوکٹینک ‘یا’ پی ایف او اے ‘ہے۔اس کیمیکل کے باعث جب بھی نان اسٹک
برتنوں کو زیادہ درجہ حرارت پر استعمال کیا جاتا ہے تو ان برتنوں سے
کیمیائی دھواں اٹھتا ہے ، جو ٹیفلون فلو نامی بیماری کا باعث بنتا ہے ، اب
بات کرتے ہیں ’’المونیم کے برتنوں ‘ ‘کی۔المونیم کے برتن ہلکے پھلکے، زنگ
لگنے سے محفوظ سستے اور آسانی سے دستیاب ہوتے ہیں۔ اس لیے کچن میں ان کا
استعما ل بھی کافی ہوتا ہے۔ لیکن ڈاکٹر زکے مطابق ان کا طویل استعمال نقصان
دہ ہے۔ وجہ یہ ہے کہ المونیم ماحول میں موجود آکسیجن کو فوری طور پر جذب
کرکے المونیم آکسائیڈبناتا ہے۔ برتن کے اندر اورارد گرد المونیم آکسائیڈ کی
نظر نہ آنے والی تہہ جمی رہتی ہے۔ جب ہم ان برتنوں میں کھانا پکاتے یا
کھاتے ہیں تو یہ زہریلا مواد کھانے میں شامل ہوکر ہمارے جسم میں چلا جاتا
ہے۔ المونیم آکسائیڈ ہمارے دماغ پر براہِ راست اثر کرتا ہے۔ ساتھ ہی گردوں
کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔المونیم ہمارے جسم کے لیے بہت ہی زیادہ مضر ہے۔ یہ
جسم میں پہنچ جائے توآئرن اور کیلشیم کو جذب کرنے لگتاہے۔ یوں ہماری ہڈیاں
کمزور ہونے لگتی ہیں۔ المونیم برتن ہونے کی وجہ سے کھانے میں موجود وٹامنز
اور دیگر معدنی اجزا ء کم ہوجاتے ہیں۔ہمیں معلوم ہی نہیں کہ نمک، چائے ،
سوڈا ، لیموں، ٹماٹر ،املی ، سرکہ اور دوسری کوئی بھی ترش چیز المونیم کے
برتنوں میں نہیں رکھنی چاہیے ، کیونکہ المونیم نرم دھات ہے ،ترش یاتیزابیت
والی چیز سے یہ گھلنے لگتی ہے۔یہ تو ہیں دورِ جدید کے وہ برتن جو ہماری صحت
کے لیے نہایت نقصان کا باعث بنتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج بیماریاں بہت عام ہو
گئی ہیں۔ماضی میں اگرچہ ان برتنوں کی جگہ مٹی کے برتن استعمال ہوتے تھے جو
ہماری صحت کو نقصان دہ اثرات سے محفوظ رکھنے کے ساتھ ساتھ بے شمار فوائد
فراہم کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ زمینی مٹی سے قدرتی طور پر بے
شمار معدنیات اور وٹامنز حاصل کیے جاتے ہیں اسی طرح مٹی کے برتن کا استعمال
کر کے بھی ہم ان وٹامنز اور منرلز سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ایک وجہ یہ بھی
ہے کہ مٹی الکا لائن حاصل کرنے کا سب سے بہترین ذریعہ ہے مگرمعاشرتی رہن
سہن کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ جدیدیت ناصرف کوزہ گری بلکہ ایسے ان گنت
دستی ہنروں کو نگل گئی ،جن کے ارتقاء اور عروج میں سالہا سال صرف ہوئے تھے۔
دوسرا طرف سائنسی علوم کے بعض ماہرین سمجھتے ہیں کہ مٹی کے برتنوں کا
استعمال خطرناک ہوتا ہے۔مٹی کے برتنوں میں خوردبینی سوراخ لاکھوں کی تعداد
میں ہوتے ہیں جو بیکٹیریاکا آسان مسکن ہو سکتے ہیں ۔دھاتی برتنوں کے برعکس
ان کی اس حد تک صفائی نہیں ہو سکتی کہ تمام جراثیم صاف ہو سکیں۔
مٹی کے برتنوں میں کھانے پینے کے فوائد
مٹی کے برتنوں میں کھانا پکانے میں اپنی ہی لذت ہے۔الکالائین جسم میں’ پی
ایچ ‘لیول کو اعتدال میں رکھتا ہے مٹی میں الکالائین کی فراہمی ہونے کی وجہ
سے یہ پیٹ درد، معدے کی سوزش، تیزابیت اور دیگر اندرونی درد کی شکایات کو
دور رکھتا ہے۔ اس بات کی گواہی ہمارے بزرگ آج بھی دیتے ہیں کہ مٹی کے برتن
میں کھانا بنانے سے کھانوں کی قدرتی افادیت باقی رہتی ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ
وہ اپنے زمانے میں گھر میں مٹی کی ہانڈی استعمال کرتے تھے کیونکہ کھانے کا
جو ذائقہ مٹی کی ہانڈی میں آتا ہے وہ سٹیل کے برتنوں میں مصالحہ جات ڈالنے
کے باوجود نہیں ہوتا۔
ڈاکٹرمحمد ریاض بھٹی کا اس کی افادیت کے حوالے سے کہنا ہے کہ جدید ترقی
یافتہ دور میں لوگ اپنی قدیم اور معاشرتی ثقافتی روایات سے دور ہوتے جا رہے
ہیں۔ جدید ریسرچ کے مطابق مٹی کے برتنوں میں پکا ہوا کھانا سٹیل اور دوسری
دھاتوں میں پکے کھانے کی نسبت زیادہ دیر تک اپنی غذائیت قائم رکھتا
ہے۔پلاسٹک کی بوتلوں کو بنانے کے لئے BPA( Bisphenol A) کیمیکل کا استعمال
کیا جاتا ہے ۔جو پانی کی بوتل کے ساتھ چپک جاتا ہے اور انسانی صحت کو نقصان
پہنچتا ہے۔جبکہ مٹکے کے پانی میں کسی بھی قسم کا کیمیکل شامل نہیں ہوتا ۔اس
لیے یہ صحت کے لیے بے حد مفید بھی ہے ۔مٹکے کا پانی جسم میں ٹیسٹوسٹیرون
متوازن رکھتا ہے نیز مٹی کے برتن میں پانی پینے سے انسانی قوت باہ میں
اضافہ ہوتا ہے جبکہ پلاسٹک کے برتن میں پانی پینے سے ہماری قوت باہ میں کمی
آتی ہے۔فریج کا ٹھنڈا پانی گلے کے غدود کو نقصان پہنچتا ہے جو اکثر کھانسی
اور گلے کے دوسرے مسائل کی وجہ بنتا ہے اس کے برعکس مٹکے کا پانی ایک ہی
درجہ حرارت پر برقرا رہتا ہے اس وجہ سے یہ کسی بھی قسم کے گلے کے مسائل کی
وجہ نہیں بنتا۔گرمی میں مٹکے کا پانی استعمال کرنا جسم میں نیوٹریشن،وٹامن
گلوکوز کو متوازن رکھتا ہے اور ہیٹ اسٹروک کے خدشے سے محفوظ رکھتا ہے۔اس کے
علاہ دن بھر تازگی اور تسکین فراہم کرنے کے ساتھ صحت کو تحفظ دیتا ہے۔یہاں
یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ بہت سے لوگوں کو یہ شکایت ہوتی ہے کہ ان کے بال
جوانی میں ہی سفید ہونا شروع ہو جاتے ہیں تو اس پریشانی کا حل بھی مٹی کت
برتنوں میں ہے ،یہ ایک طرف اگرکھانے کا ذائقہ بڑھاتے ہیں تو دوسری طرف اس
سے بال جلد ی سفید نہیں ہوتے۔
حکیم سلیم اخترکا مٹی کے برتنوں کے استعمال اور ان کے فوائد کے بارے میں
موقف ہے کہ ایک وقت تھا جب گرمی کی شدت کو کم کرنے کے لیے مٹی کے برتنوں کا
استعمال عام تھا مگر موجودہ دور میں صرف تزئین وآرائش کے لیے ان کا استعمال
کیا جاتا ہے۔مگر حقیقت یہ ہے کہ دوسرے برتنوں کی نسبت ان میں تاثیر بھی
زیادہ ہوتی اور بیماریوں سے نمٹنے کی صلاحیت بھی پائی جاتی ہے۔چونکہ مٹی
مسام دار ہوتی ہے اسی وجہ سے مٹی کے برتن بھی مسام دار ہوتے ہیں ۔ جب آپ
پانی کو مٹی کے گھڑے میں رکھتے ہیں تو تبخیر کا عمل شروع ہو جاتا ہے اس عمل
کی وجہ سے پانی ٹھنڈا ہوتا ہے اگر آپ مٹی کے برتن میں مائیکروسکوپ سے
دیکھیں تو آپ کو بہت ہی چھوٹے چھوٹے مسام نظر آئیں گے ۔ان مساموں کی وجہ سے
پانی رس کر باہر آتا ہے۔یہ خاصیت صرف مٹی کے برتنوں میں پائی جاتی ہے ۔آج
کل استعمال ہونے والے پلاسٹک ،سٹیل وغیرہ کے برتنوں میں ایسا نہیں ہوتا۔میں
اپنے مریضوں کو کہتا ہوں کہ وہ مٹی کی ہانڈی میں دال اور کھانا پکائیں تو
ان کی کھانسی اور دیگر بیماریاں ختم ہونے کے ساتھ ساتھ چیزوں کا مزہ بھی
دوبالا ہو جاتاہے۔۔اگر شوگر کے مریض مٹی کے برتن استعمال کرنا شروع کر دیں
تو ان کا شوگر لیول بھی کم ہو گا۔اگر مٹی کے برتن میں ملتانی مٹی اوردودھ
کی بلائی کا ماسک بنا کر چہرے پر لگایا جائے تو چہرہ صاف و شفاف ہو جاتا
ہے۔ جہاں مٹی کے برتن استعمال کرنے کے بے شمار فائدے ہیں وہی ہمیں اس بات
کو ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ برتن کو اچھی طرح دھونا لازم ہے اور خاص طور
مٹی کے گھڑے کا پانی ہر تیسرے دن دھونا چاہیے اور پانی بھی تبدیل کر لینا
چاہیے۔
لاہور کی رہائشی مہوش ناز کامٹی کے برتنوں کی افادیت کے حوالے سے کہنا ہے
کہ مٹی کے برتن ماضی کی نسبت اب کم استعمال ہو رہے ہیں مگر آج بھی ان گھروں
میں ان کا استعمال جاری ہے جو ان کے فوائد سے باخوبی واقف ہیں۔ماضی کی طرح
آج بھی لاہور اور اندرون لاہور میں مٹی کے برتنوں کا استعمال
عام ہے۔وہاں آج بھی دہی،فرنی،کھیر ،رس گلے اور رس ملائی مٹی کے برتنوں میں
فروخت کی جاتی ہیں ،خصوصی طور پر ان کا استعمال محرم الحرام میں بڑھ جاتا
ہے۔محرم الحرام میں نیاز انہی چھوٹے برتنوں میں تقسیم کی جاتی ہے جنہیں ’’
کجیاں ٹھوٹھیاں‘‘ کہا جاتا ہے۔ مٹی کے بنے ان چھوٹے برتنوں میں ایک پلیٹ
نماٹھوٹھی جبکہ دوسری ہانڈی ٹائپ کجی کہلاتی ہے۔مٹی کے ان برتنوں میں واقعہ
کربلا میں بھوک اور پیاس سے بلکنے والے معصوم بچوں کی یاد میں مشروبات اور
کھانا ڈال کر بچے صدا لگا تے ہیں :بالو، کڑیو،چیز ونڈی دی، لئی ی ی ی
جاؤ(مگر اب یہ آواز قصہ ماضی ہو چکی ہے )۔۔۔ نیاز تقسیم کرنے کے لئے کجیوں
ٹھوٹھیوں کے استعمال کی روایت پاکستان بالخصوص پنجاب میں کافی پرانی ہے۔
مٹی کے برتنوں کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان میں جلدی کھانا خراب نہیں
ہوتا اور ٹھنڈا بھی رہتا ہے۔ہمارے گھر میں دالیں اور کھانے خاص طور پر مٹی
کی ہانڈی میں بنتے ہیں اور ان کا ذائقہ پریشر ککر کی نسبت بہت اعلیٰ ہوتا
ہے۔اس
کے علاوہ مٹی کے گلاس اور کولر کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔اس بات کو کوئی
سمجھ نہیں پا رہا کہ پلاسٹک اور المونیم کے برتن استعمال کرنے کی وجہ سے آج
بیماریاں عام ہوتی جا رہی ہیں ۔میرا مشورہ ہے کہ آپ لوگ ایک بار مٹی کی
ہانڈی میں کھانا بنا کر تو دیکھو،میرا دعوی ہے کہ آپ اس کے بعدتمام گھر
والے بار بار مٹی کی ہانڈی میں بنا کھانا پسند کریں گے۔
لاہور کی رہائشی رابعہ ملک کا کہنا ہے کہ میں کبھی مٹی کے برتن میں کھانا
بناتی تھی ،مٹی کے برتنوں میں کھانا بننے میں وقت لگتا ہے لیکن کھانا اچھا
اور ذائقہ دار بنتا ہے ۔اگر مجھے وقت ملے تو میں خصوصی طور پر بازار جا کے
مٹی کے برتنوں کی خریداری کروں۔مٹی کے برتنوں میں کھانا کھانے سے سکون اور
ایک الگ سی لذت محسوس ہوتی ہے۔اکثر مٹی کے برتن لاپرواہی یا انجانے میں ٹوٹ
جاتے ہیں پہلے زمانے میں مٹی کے برتنوں میں پکاتے اور کھاتے تھے مگر اب
سٹیل اور کانچ کے برتن استعمال ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے ان برتنوں میں کھانے سے
ہمارے رویوں میں بھی تبدیلی آئی ہے۔جب لوگ مٹی کے برتن استعما ل کرتے تھے
تو ان لوگوں کو زیادہ غصہ بھی نہیں آتا تھا کیونکہ مٹی کی تاثیرٹھنڈی ہونے
کی وجہ سے مٹی کے برتنوں کی تاثیربھی ٹھنڈی ہوتی ہے۔اس لیے میرا مشورہ ہے
کہ مٹی کے برتن استعمال کریں کیونکہ اس سے ہمارے رویوں میں بھی تبدیلی آئے
گی اور دوسرا یہ سنت رسول ؐ ہے۔
مسز رخسانہ ناہید کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ مٹی کے برتنوں میں کھانا کھانے
کے بے شمار فوائد ہیں جن سے انکار ناممکن ہے،آج کے دور میں زندگی اس قدر
مصروف ہو گئی ہے کہ کسی کے پاس سکون سے کام کرنے کا وقت نہیں ہے ۔چونکہ
میری دونوں بیٹیاں جاب کرتی ہیں تو گھر کی سب ذمہ داریاں مجھ پر ہی ہیں اس
لیے مجھے ہر کام وقت پر کرنا پڑتا ہے،اس لیے میں پریشر ککر میں کھانا بنا
کر جلدی فارغ ہونے کی کوشش کرتی ہوں۔مٹی کے برتن استعمال نہ کرنے کی بہت سی
وجوہات ہیں ایک تو آج کل لوگ اس کو کچن میں دیکھ کر حیران ہوتے ہیں کہ آپ
کس زمانے میں رہتی ہیں جو مٹی کے برتن آج بھی استعمال کر رہی ہیں دوسرا مٹی
کے برتنوں کی حفاظت عام برتنوں کی نسبت زیادہ کرنا پڑتی ہے۔کیونکہ ذرا سی
بے احتیاطی سے یہ جلد ٹوٹ جاتے ہیں اور پھر ایک اور اہم بات یہ کہ جب یہ
زیادہ استعمال ہو جاتے ہیں تو ان میں کھاناپکاتے ہوئے جلنے لگتا ہے جس کی
پیندی کومٹی لگانی پڑتی ہے ،اب ان سب کے لیے وقت نکالنا بہت مشکل ہے۔جس کی
وجہ سے ان کا استعمال کم ہو گیا ہے۔
چند روایتی برتن
مٹی کے مختلف برتن تیار کئے جاتے ہیں۔ جن میں آٹا گوندھنے والی کنالیاں،
جسے سرائیکی وسیب میں ’پاتری ‘بھی کہا جاتا ہے روٹی پکانے کے لیے تندور،
کھانے بنانے والی ہنڈیا، پانی کے لیے گھڑے اورمٹکے ،طہارت خانوں کے لیے
استاوہ یا لوٹا،تیل ڈالنے کے لیے دِیے یا دیوے، لسی بنانے کے لیے
چاٹی،گھروں میں آٹا محفوظ کرنے کے لیے چٹورے، گندم کو محفوط کرنے کے لیے
کلوھٹی، پیاز، سبز مرچ پیسنے کے لیے دَورِی اور دابڑا،حقے کا چِلم اور لسی
پینے کا برتن ڈولا ،پانی پینے کا کٹورا ،سالن کے استعمال کے لیے کٹوری،
پیالی اور پیالیہ ،گھڑے اورمٹکے کے اوپر رکھی جانے والی چھوڑنیں،مٹکے کے
ساتھ رکھی جانے والی ڈولی، اچار ڈالنے والا مرتبان، پرندوں اور جانوروں کا
پانی پلانے کا برتن پھیلی شامل ہیں۔ یہ وہ چند روایتی برتن ہیں جو چاک پر
بنائے جاتے ہیں۔ ان کے علاوہ مٹی کے گملے بھی بنائے جاتے ہیں۔
مٹی کے برتن کن مراحل سے گزر کر بنتے ہیں
چاک پر مٹی کے برتن کی تیاری کا عمل کہنے کو تو بہت سادہ فعل ہے مگر اس کے
لیے بے پناہ انسانی مہارت،انتھک محنت اور مشق درکار ہوتی ہے ،مگر اس کے
باوجود یہ ایک دلچسپ فن کی حیثیت رکھتا ہے ۔مٹی کے برتن تین قسم کے ہوتے
ہیں ایک تو وہ برتن جن سے پانی رستا ہے۔ دوسرے پتھر چینی Stoneware کے برتن
اور تیسرے چینی مٹی کے برتن۔مٹی کے برتن بنانے کے لیے پہلے مرحلے میں
برتنوں کے لیے مٹی تیار کی جاتی ہے اور پھر اسے چاک پر چڑھا دیا جاتا ہے۔
چاک کو پاؤں یا موٹر کی مدد سے گھمایا جاتا ہے۔مٹی کی گیلی نرم حالت،کوزہ
گر کے ہاتھ کا لمس اور چاک کی نا ہمورا حرکت ،ان سب کے امتزاج سے رتن ڈھل
کر چاک پر اترتا ہے،ہر برتن کو الگ صورت میں ڈھالنے کے لیے ہاتھ کے لمس کو
بدلا جانا ضروری ہے،یعنی کہیں سخت ،کہیں ہلکا سا خم،کہیں لمبائی کا رخ دینا
اور کہیں چپٹا کرنا،وغیرہ۔اگر یہ کہا جائے کہ کمہار کے ہاتھ کا لمس ہی مٹی
کے سادہ گولے کو صورت دیتا ہے توغلط نہ ہو گا۔اس سارے عمل میں کمہار یا
کوزہ گر کو بہت محنت اور مشقت درکار ہوتی ہے ،کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
کہ
اس قدر گوندھنا پڑتی ہے لہو سے مٹی
ہاتھ گھل جاتے ہیں پھر کوزہ گری آتی ہے
مٹی کے برتن بنانے کے لیے کمہار ایک خاص مٹی استعمال کرتے ہیں۔ جس مٹی سے
برتن بنتے ہیں وہ عام مٹی نہیں ہوتی، صرف چکنی یا سرخ مٹی سے ہی برتن بنائے
جاتے ہیں، گارا، ریتلی یا سخت مٹی سے برتن نہیں بن سکتے۔جسے سندھ میں
’’چیکی مٹی‘‘ کہتے ہیں۔ یہ مٹی شہر سے تو نہیں ملتی اور ا س مٹی کی خاص بات
یہ ہوتی ہے کہ اس میں نہ ریت ہوتی ہے اور نہ ہی دوسرے فاضل مادے۔ اچھے
برتنوں کے لیے ایسی ہی صاف ستھری مٹی درکار ہوتی ہے۔ کمہار یہ مٹی دریا کے
کناروں سے لاتے ہیں، مٹی کے ڈھیلوں کو سب سے پہلے چھوٹے سے گٹکے سے آٹے کی
طرح گوندھتے ہیں، اس کے بعد مٹی کو چھانتے ہیں، جو مٹی اس سے گزر نہیں سکتی
اسے پانی میں تحلیل کیا جاتا ہے۔اگلے مرحلے میں گوندھی ہوئی مٹی کو ایک
سانچے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ سانچے سے گزارنے کے بعد مٹی کو چاک پر چڑھایا
جاتا ہے۔ جب برتن چاک پر تیار ہوجاتا ہے تو اسے ایک دھاگے سے کاٹا جاتا ہے
جس کو کمہار ’’شنوٹ‘‘ کہتے ہیں۔ اس مرحلے کے مکمل ہونے کے بعد برتن کو زمین
پر مزید سیدھا کیا جاتا ہے۔ کچا برتن تیار ہونے کے بعد اسے دھوپ میں سکھایا
جاتا ہے۔ اس دوران برتن پر پانی کا ہلکا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے۔ یوں مٹی کے
برتن کئی مراحل سے گزر کر لوگوں کے ہاتھوں اور گھروں تک پہنچتے ہیں۔ مٹی کے
برتنوں میں مٹکے اور صراحیاں بہت عام ہیں اور اکثر گھروں میں پانی کے
استعمال میں آتے ہیں۔ مٹی کی صراحی، جسے سندھ میں ’’گھگھی‘‘ کہا جاتا ہے
اپنی بناوٹ اور سجاوٹ کے اعتبار سے بہت خوب صورت برتن ہے۔مٹی کے برتنوں میں
صراحی نما برتن (گھگھی) کو بنانا سب سے زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ کمہار گھگھی کو
تین مراحل میں تیار کرتے ہیں، پہلے اس کا منہ بناتے ہیں، اس کے بعد درمیانی
حصہ اور آخر میں نچلا حصہ بناتے ہیں، پھر سب سے آخر میں تینوں حصوں کو آپس
میں جوڑتے ہیں تو یہ برتن صراحی یا گھگھی بن جاتا ہے۔کمہار ایک سیاہ مصالحہ
استعمال کرتے ہیں، یہ مصالحہ ’’ناب دان‘‘ بنانے میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کے
علاوہ ایک دوسرا مصالحہ’’سہاگہ‘‘ ہوتا ہے۔ سہاگہ بھی ’’ناب دان‘‘ یا ’’بدر
رو‘‘ بنانے کے کام آتا ہے، یہ مصالحہ مصری کی طرح ہوتا ہے۔ مٹی کے برتنوں
پر نقش و نگار یا ڈیزائن بنانے کے لیے کچھ ’’شیمپو‘‘ بھی ہوتے ہیں، جنھیں
کمہار ’’مہر‘‘ کہتے ہیں۔ یہ مہر بھیگے ہوئے یا کچے برتنوں پر لگائی جاتی ہے
تو ان پر نقش ابھر آتے ہیں، جو برتنوں کے پکے ہونے کے بعد بھی ان پر موجود
رہتے ہیں۔ آخری مرحلے پر یہ برتن ایک بھٹی میں، جس کو کمہار ’’آوی‘‘ کہتے
ہیں، پکنے کے لیے رکھ دئیے جاتے ہیں، جہاں وہ پک کر استعمال کے لائق ہوجاتے
ہیں۔ کمہار اس ’’آوی‘‘ کو دو دن قبل بھرلیتے ہیں، تیسرے دن اس کو آگ لگاتے
ہیں، پھر برتنوں کو ایک ہزار درجے سینٹی گریڈ گرمی میں پکایا جاتا ہے۔اسی
طرح یہ برتن اس آگ میں پک کر تیار ہو جاتے ہیں۔’’آوی‘‘ اینٹیں رکھ کر بنائی
جاتی ہے، اس کا دہانہ تنگ ہوتا ہے جو کہ کھلا ہی رہتا ہے۔ اس میں آگ کو تیز
کرنے کے لیے ایندھن ڈالتے ہیں۔ برتن کو پکانے کے لیے ترتیب سے رکھے جاتے
ہیں ان برتنوں کے درمیان اور اوپر مٹی بکھیر دیتے ہیں، برتنوں کو ایک دوسرے
کے اوپر رکھنے کو کمہار ’’گھملا‘‘ کہتے ہیں، برتن ترتیب سے رکھنے پر ان
برتنوں کے درمیان جو جگہ بچتی ہے اس میں مٹی ڈالتے ہیں، مٹی کے برتن آوی یا
بھٹی میں پکنے کے بعد استعمال کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔مٹی کے برتنوں کی چمک
بنانے کے لیے کمہار دریا سے چمک دار ریت لے کر آتے ہیں جو برتنوں کے سانچے
میں لگاتے ہیں۔ اس سے مٹی کے برتن چمک دار ہوجاتے ہیں جو اکثر دیکھنے میں
خوش نما لگتے ہیں۔ اسی طرح لال مٹی کے برتن بھی خوب صورت لگتے ہیں، کمہار
برتنوں کو رنگ نہیں کرتے، بلکہ ان پر مٹی کی طرح ایک چیز ہوتی ہے جسے سندھ
میں ’’میٹ‘‘ کہتے ہیں، لگاتے ہیں جو کہ برتنوں کے پکے ہونے کے بعد سرخ رنگ
اختیار کرلیتا ہے۔ |