سا رے گا ما

شادی بیاہ کے موقع پر لوک گیت ڈھولک کی تھاپ پر گائے جاتے ہیں۔ مہندی کی رسم میں ڈھولکی کی تھاپ پر بہت سے جسم و جاں ناچتے ہیں۔۔ پاک و ہند میں اسے بہت بجایا جاتا ہے۔ اس لیے آپ کبھی کسی گورے کو ڈھولک بجاتا نہیں دیکھیں گے۔
اب وقت بدل چکا جو اَلاپ کو استادوں اورڈھولک کو میراثیوں کی میراث جانا جاتا تھا۔ کہتے ہیں ایک دفعہ مہا راجہ رنجیت سنگھ نے کسی میراثی پر خوش ہو کر روپے اور خلعت کے ساتھ اسے ایک ہاتھی بھی بخش دیا۔ مہاراجہ نے تو بڑی فیاضی دکھائی۔ لیکن میراثی بہت گھبرایا کہ اب ہاتھی کو روزانہ چارہ دانہ کہاں سے کھلاوں گا اورخدمت کے لیے نوکر کہاں سے لاؤں گا۔ کچھ سوچنے کے بعد میراثی نے ایک ڈھولک ہاتھی کے گلے میں باندھ کر اسے کھلا چھوڑ دیا۔ ہاتھی جس طرح روز قلعے کی ڈیوڑھی پہ حاضر ہوتا تھا اب بھی سیدھا وہیں جا پہنچا۔ تب لوگوں نے اک نیا تماشا دیکھا کہ ہاتھی کان ہلاتا ہے اور ڈھولک خودبخود بجنے لگتی ہے۔

ہم بھی کتنے معصوم تھے، انجان تھے۔۔!
موسیقی کو صرف چند لوگوں کی جدی پشتی میراث اورشادی بیاہ کے موقع پر دل بہلانے والے لوازمات سمجھتے تھے۔
دل کو اک انجانے سے افسوس کا احساس رہے گا کہ بچپن بغیر کسی خاص سُر اور رنگ و بُو کے گزر گیا صرف لوری سنتے ہوئے اور وہ بھی بنا سُر کی۔۔(گھر والے سستے میں ہی چھوٹ گئے)
پھر اقبال کی وہ پہلی غزل تھی،
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
جو دل کی سرزمین پر بارش کے پہلے قطرے کی صورت گری۔۔!
شاعری کو جَلا دینے کے لیے موسیقی کتنی ضروری ہے اس کا دور دور تک واسطہ نہ تھا۔۔غزل کے ساتھ سات سُروں کا سامان ایسےلگتاجیسے کوئی پتلون کے ساتھ بنیان پہن کر گھوم رہا ہو۔ کوئی فلمی گیت اچھا لگتا تو اس کا سارا کریڈٹ گلوکار لے جاتایا جس اداکار پہ فلمایا جاتا وہ ہماری نظروں میں معزز ہو جاتا لیکن شاعر اور موسیقار۔۔؟ نہ جانے وہ کہاں تھے۔۔!( جو بچارے لکھتے اور بجاتے ہی رہ گئے)
پاکیزہ، وہ پہلی فلم تھی جس کی خوبصورت موسیقی سب کو چھوڑ کر آگے بڑھی ۔کیا خوبصورت بول تھے، شاعری اور مدُھر موسیقی۔۔ جب بھی کانوں میں پڑتی، رس گھولنے لگتی۔ اداکار، گلوکار، شاعر، موسیقار بیک وقت سب گیت سے جڑے نظر آنے لگے۔
یونہی کوئی مل گیا تھا سرِراہ چلتے چلتے۔۔
موسم ہے عاشقانہ اے دل کہیں سے ۔۔
چلو دلدار چلو چاند کے پار چلو۔۔
نیا انداز، موسیقی کی روح کو چھوتے کلاسک سے سُر ۔۔ ورنہ اس سے قبل سُروں کے ماہر استاد بھی ہماری توجہ کھینچ نہ پائے تھے۔ والد صاحب کی پسند بڑی نایاب تھی۔ بیگم اختر، روشن آرا، فریدہ خانم، امانت علی، غلام علی کو سنتے جو ہمیں بالکل متاثر نہ کرتے۔ پکا راگ الاپنے والے پکے پکے لوگ ۔۔ موسیقی ایک خاص سوجھ بوجھ رکھنے والوں اور ماہر استادوں کا کام لگنے لگی۔ ہم شش و پنج میں پڑ جاتے کہ ساز پر دھیان دیں یا آواز پر ۔۔ اور شاعربے چارہ تو کہیں پیچھے ہی دبکا رہتا۔
پاکیزہ فلم کے سازوں میں اتنا دم تھا کہ ہم نے فلم دیکھ کر ہی دم لیا۔ لتا نے اپنی آوازو فن کا پورا نکھار گیتوں میں ڈالا۔
پَر تلاش ابھی جاری تھی۔ ہم کسی اور کو ڈھونڈ رہے تھے۔
دراصل شاعر کے حسین خیال اورموسیقار کی بہترین تال پر ۔۔ ہم انہیں برملا داد دینا چاہتے تھے۔ تبھی پتہ چلا ،
گیت، مجروح سلطان پوری اور کیفی اعظمی نے لکھے ہیں۔
موسیقی غلام محمداور نوشاد نے دی ہے۔
انہیں داد کا نذرانہ دینے کے بعد معلوم ہوا کہ فلم مشہور ڈائریکٹرکمال امروہی نے بنائی ہے۔ واقعی کمال نے کمال کر دکھایاتھا ۔۔ جو لازوال فقرہ فلم میں شامل کیا،"آپ کے پاؤں دیکھے بڑے حسین ہیں انھیں زمین پر مت اتارئیے گا۔ میلے ہو جائیں گے۔۔"
ہم نے دل کھول کر سب کو سراہا۔۔ ابھی تک انڈین فلمیں نہ دیکھنے اور اولڈ از گولڈ موسیقی نہ سننے پراپنی اگلی پچھلی بے اعتنائیوں کو معاف کروایا۔
وہ دن گئے، سو گئے۔۔ ہماری لطیف حِس کروٹ لے کربیدار ہو ئی اور انگڑائی لے کر سارے گا ما پا الاپنے لگی ۔
اب تو جو بھی گیت پسند آتا ہماری نظر اس کے شاعر اور موسیقار پر ضرورپڑتی۔۔ صرف گلوکاراور اداکار کو داد دے کر ہاتھ جھاڑنا اب بالکل پسند نہ رہا تھا۔۔ ہم کسی نا انصافی کا مرتکب نہیں ہونا چاہتے تھے۔ اور شاعر کے حسین بول دل کی زمین اور موسیقی کے سات سُر قوس و قزح بن کر زندگی میں جھلملانے لگے ۔ واہ۔۔ قدرت نے کیا خوبصورت چیز تخلیق کی ہے۔
اب تو فرصت سے گیت سننے کو جی چاہتا۔ آنکھیں بند کر کے دھیان گیان لگایا تو پتہ چلا،
کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا
ان کو یہ شکایت ہے کہ ہم کچھ نہیں کہتے
جیسے گیت خاص وجد کی کیفیت میں لے جانے لگتے ہیں۔
موسیقی ہمارے موڈ پررنگ جمانے لگی تھی۔ اگر ہم خراب موڈ میں اداس نغمہ سن لیتے تو دل بے وجہ اداس، ملول ہونے لگتا۔ اور اچھے موڈ میں ہیپی سونگ سر چڑھ کر ناچنے لگتا۔ بس ابھی تک یہی اس کا منفی اثر سامنے آیا تھا، سو الٹے بانس بریلی کو،ہم نے اس کی چال اسی پر پلٹنی چاہی۔ اور گلوکار کی آواز کے زیر و بہم کی بجائے سازوں پر دھیان دینے لگے تو پتہ چلا ،
سا رے گا ما پا دھا نی سا۔۔ سے واقف ہوئے بغیر کلاسیکل گیت اور اچھی موسیقی کو ادب و آداب سے سننا ممکن نہ ہو گا۔ استادوں کی استادی جاننے کے لیےاردگرد نگاہ کی تو دیکھا خاندان میں صرف ایک کزن کے پاس گٹار تھا۔ بس پورے خاندان میں وہی ایک موسیقی سےآشنا ملا۔ وہ بھی ایسا آشناجو سب سے چھپ کرگٹار بجایا کرتا تھا۔ ورنہ خاندان میں موسیقی اور وہ بھی سازوں والی ۔۔ دور دور تک جائے اماں نہ تھی۔
سُروں پر دھیان دینے کے بعد اگلے سبق میں جانا کہ ستار کے تار، پیانو کی آواز، بانسری کے سُر، اب کانوں میں پہلے سے زیادہ ٹھیک طور پر بجنےلگے ہیں ۔ گٹار گانے کو شوخ کردیتا۔۔ ہم اپنے قدموں کو بمشکل تھرکنے سے بچاتے۔۔ طبلہ کلاسیکل گیت کے لیے مخصوص لگتا۔ بانسری کی سُریلی آواز گیت کو سجا دیتی۔ شہنائی کا ردھم اپنا ہی رنگ جماتا۔۔ اچانک ایک عام سے ساز نے ہماری توجہ اپنی طرف مرکوز کر لی جسے ہم نے کبھی در خور اعتنا سمجھا نہ تھا۔ شادی بیاہ میں لڑکیاں،عورتیں اسے پیٹ پیٹ کر گلا پھاڑ پھاڑ کر اس سے اپنی تال ملاتی تھیں۔
جی ہاں۔۔ اب ہم انجانے میں ہی ڈھولک پر دھیان دینے لگے تھےجو ہر گیت میں ہمیں مختلف انداز سے بجتی محسوس ہونے لگی۔ غور و خوض کے بعد پتہ چلا کہ شوخ گانے کو چنچل بنانے میں ڈھولک کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ اس کی تھاپ کے اتنےاتار چڑھاؤسامنے آئے کہ ہم اپنے دل کو سنبھالتے رہ گئےورنہ وہ بھی ڈھولک کے ساتھ بجنا چاہ رہا تھا۔ اداس گیت کے لیے ڈھولک کچھ پس منظرمیں چلی جاتی۔ شاعر کے لکھے شعروں کے زیر و بم کو اوپر، نیچے کرنے میں ڈھولک کا صداکار سے بھی زیادہ بڑا کردار نظر آیا۔
ڈھولک ویسے تو ایک لوک ساز ہےجس کے طبلہ کی طرح لگے بندھے سر نہیں ہوتے، اس کا استعمال قوالی اور بھنگڑا وغیرہ میں کیا جاتا ہے۔ اسے بجانے کے لیے کسی خاص استاد کی ضرورت ہے نہ میراثی کی۔ پاکستان میں شادی بیاہ کے موقع پر لوک گیت ڈھولک کی تھاپ پر گائے جاتے ہیں۔ مہندی کی رسم میں ڈھولکی کی تھاپ پر بہت سے جسم و جاں ناچتے ہیں۔۔ پاک و ہند میں اسے بہت سنا اور بجایا جاتا ہے۔ اس لیے آپ کبھی کسی گورے کو ڈھولک بجاتا ہوا نہیں دیکھیں گے۔
اب وقت بدل چکا جو اَلاپ کو استادوں اورڈھولک کو میراثیوں کی میراث جانا جاتا تھا۔ کہتے ہیں ایک دفعہ مہا راجہ رنجیت سنگھ نے کسی میراثی پر خوش ہو کر روپے اور خلعت کے ساتھ اسے ایک ہاتھی بھی بخش دیا۔ مہاراجہ نے تو بڑی فیاضی دکھائی۔ لیکن میراثی بہت گھبرایا کہ اب ہاتھی کو روزانہ چارہ دانہ کہاں سے کھلاوں گا اورخدمت کے لیے نوکر کہاں سے لاؤں گا۔ کچھ سوچنے کے بعد میراثی نے ایک ڈھولک ہاتھی کے گلے میں باندھ کر اسے کھلا چھوڑ دیا۔ ہاتھی جس طرح روز قلعے کی ڈیوڑھی پہ حاضر ہوتا تھا اب بھی سیدھا وہیں جا پہنچا۔ تب لوگوں نے اک نیا تماشا دیکھا کہ ہاتھی کان ہلاتا ہے اور ڈھولک خودبخود بجنے لگتی ہے تو اس کے اردگرد بھیڑ لگ گئی۔ غل غپاڑہ سن کر مہاراجہ نے کھڑکی سے سر نکالا اور ہاتھی کو پہچانتے ہی میراثی کو بلا کر پوچھا
: تم نے یہ کیا سوانگ رچا رکھا ہے۔:
میراثی نے عرض کی،
:مہاراج!حضور جانتے ہیں کہ ہم غریب اپنا پیٹ تو پال نہیں سکتے، بھلا ہاتھی کا پیٹ کہاں سے بھریں گے؟ اس لیے جو ہنر خود جانتے تھے
وہی اسے بتا دیا ہے۔ :
یہ سن کر مہاراجہ ہنس پڑا اور ہاتھی کو فیل خانے بھجوا کر میراثی کو خزانے سے اس کی قیمت دلوا دی۔ سو ڈھولک یہاں بھی کام آئی۔
ہماری حیرانی کی انتہا نہ رہی جب ایک شادی کے موقع پر ایک عورت کو بڑی خوبصورتی سے ڈھولک بجاتےدیکھا ۔ اس نے کمال کر دیا تھا اور کمال کرنے کے بعد بھی بے اعتنائی سے کسی معمول کی مانند ڈھولک بجا رہی تھی اور اس کی پوری کوشش تھی کہ وہ ڈھولک بجانے کے ساتھ ساتھ گیت کے بول اٹھاتی عورتوں کا بھی ساتھ دے۔ ادھر ہم سوچ میں گم تھےکہ اگر کوئی سات سُروں کی پہچان رکھنے والابندہ، کوئی موسیقار، پروڈیوسراس کی ڈھولک بجتی سن لے تو فورا اسےکسی ٹی وی پروگرام کی آفر دے ڈالے۔
صد افسوس، موسیقی کے سات سُروں اور سازوں سے پہچان رکھنے والےبہت سے نایاب لوگ منظر عام پر نہیں آ پاتے۔ پردے کے پیچھے رہ جاتے ہیں اور ان کا فن داد سے محروم!
ویسے کہہ دینے میں کیا حرج ہےساے گا ما پا۔۔ پرمردوں کی اجارہ داری رہی ہے۔
خیر اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا سات سُر جس نے بھی لگائے ہوں، الاپے ہوں۔ شائقین موسیقی کا بھلا ہی ہوا کہ ان تک وہ چیز پہنچ گئی۔ اب تو روایتی سُروں اورسازوں سے نکل کر موسیقی بہت آگے بڑھ چکی ہے۔ نئے نئے الیکٹرانک سازوں نے اودھم مچا رکھا ہے۔ اک طوفان سر چڑھ کر ناچنے لگا ہے۔
ویسےاب ہم بھی ڈھولک کی لَے سے آگے بڑھ چکے ہیں۔ اب ہمارا پسندیدہ ساز ہے ساکسفون۔(saxophon) ہمارا من جو کبھی کوئل کی کوہو کوہو، پپیہے کی صدا اور مور کے ناچنے سے بہل جاتا تھا۔۔اب ساکسفون کے ساتھ گانے لگتا ہے، ناچنے لگتا ہے اور من کا باورا پنچھی جھومنے لگتا ہے۔
٭٭کائنات بشیر (جرمنی)٭٭

Kainat Bashir
About the Author: Kainat Bashir Read More Articles by Kainat Bashir: 27 Articles with 53259 views میرا نام کائنات بشیر ہے۔ میں کالم، انشائیہ، آرٹیکل، مزاح نگاری، افسانہ اور ہلکے پھلکے مضامین لکھتی ہوں۔ اس کے علاوہ وجد کے کچھ لمحات شاعری کی نذر کرنا.. View More