واقعہ اصحاب فیل

(17محرم،یوم اصحاب فیل کے موقع پر خاص مضمون)

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسمئیل علیہ السلام کے ساتھ مل کر خانہ خدا،کعبۃ اﷲ کی تعمیر کی۔یہ ایک کمرہ نماچوکورعمارت دنیاکی تاریخ میں مرکزتوحیدبنی۔اس کے ساتھ ہی پھوٹنے والا شیریں چشمہ زم زم،اس جگہ کی آبادکاری کی بہت بڑی وجہ بن گیا۔ایک ماں اور بیٹے سے شروع ہونے والابے آب و گیاہ علاقہ بہت جلد ایک بہت بڑے شہر بلکہ ایک بہت بڑی تہذیب کی آماجگاہ بن گیا۔کعبۃ اﷲمیں کی جانے والی عبادت کئی لحاظ سے تاریخ انسانیت اور مذاہب عالم میں یکتاو تنہاہے۔دنیامیں واحد خانہ کعبہ ایسی عمارت ہے جس کاطواف کیاجاتاہے۔دنیامیں طواف کی مانند کسی دوسری عبادت کاوجود نہیں ہے۔گزشتہ چارہزارسالوں سے جاری اس عبادت کاکوئی تاریخی ثانی نہیں ہے کہ تاسیس کعبہ سے آج تک ایک حج بھی قضا نہیں ہوا۔دنیاکا ایسا شہر جس میں ایک سبزپتہ بھی نہیں اگتالیکن مشرق و مغرب کی کل نعمتیں یہاں میسر ہیں،یہ اعزازبھی صرف جوار کعبہ کو ہی حاصل ہے۔اس کے علاوہ کتنے ہی انبیاء علیھم السلام اور مقدس ہستیاں ہیں جن کے جسم ہائے اطہر اس حرم محترم کی حدود میں مدفون ہیں۔آسمان سے نازل ہونے والی کل رحمتیں سب سے پہلے خانہ کعبہ پر نازل ہوتی ہیں اور پھر ہر ہرعلاقے کی مساجد کی طرف ارسال کر دی جاتی ہیں اور تب وہاں سے گھروں تک پہنچتی ہیں اور افراد دنیاان رحمتوں نے فیضیاب ہوتے ہیں۔

ابرہہ،جو یمن کاگورنرتھااس نے خانہ کعبہ و مسجدحرام کے مقابلے میں ایک شاندارعمارت بنائی،بلندوبالا عمارت کوسونے اور چاندی سے مرصع کیااور اس کے درودیوار اور اہم مقامات پر ہیرے جواہرات پیوست کیے۔ایک عام آدمی جب عمارت کے قریب جاتاتواسے گردن اونچی کرکے اس کی بلندی مشاہدہ کرنی پڑتی تھی اور جب اندرداخل ہوتاتواس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتیں۔ابرہہ نے اعلان کردیاکہ کہ یمن کے عرب قبائل آئندہ سے خانہ کعبہ کاسفرکرنے کی بجائے اس عمارت کاحج کیاکریں۔اہل عرب کوخانہ کعبہ اوردین ابراہیمی و شعائرمذہبی سے محبت وعقیدت ماں کے دودھ میں گھول کر پلائی جاتی تھی۔یمن میں موجود ایک عربی قریشی نوجوان نے جب سناکہ اس عمارت کوخانہ کعبہ کے مقابلے میں لانے کے لیے تعمیرکیاگیاہے اور بادشاہ نے یمن کے باسیوں کو خانہ خدا کی بجائے اس عمارت کے حج کاحکم دے دیاہے تویہ بات اس کے لیے ناقابل برداشت ہوگئی۔اس نے فرط نفرت میں اس نوتعمیرشدہ نہایت خوبصورت عمارت میں اجابت جیسی ناپسندیدہ حرکت کرکے اسے آلودہ وبدبودارکردیا۔ابرہہ نے اس نوجوان کوتو فوری طورپر قتل کردیااور پھراس نے قسم کھائی کی خانہ کعبہ کی اینٹ سے اینٹ بجادے گااور اس نے اپنے بادشاہ شاہ نجاشی سے اجازت بھی لے لی۔

قرآن مجید میں اصحاب الاخدودکاواقعہ سورہ بروج میں ذکرہواہے۔یہ اصحاب الاخدودیمن کے رہنے والے مسیحی تھی اور شرک کی مخالفت کرتے تھے۔یہ مسیحی صرف ایک خداکے عبادت گزار تھے اور وقت کے مشرک بادشاہ نے ان موحدمسیحیوں کوآگ کی خندقوں میں ڈال کرزندہ جلادیاتھا۔ان میں سے دومسیحی جوخوش قسمتی سے کسی طرح بچ گئے تھے انہوں نے قیصرروم سے اس واقعہ کی شکایت کی اور زندہ جلنے والے کم و بیش بیس ہزارمسیحی اہل مذہب کے انتقام کا مطالبہ کیا۔قیصرروم جومذہباََمسیحی عقیدہ کامالک تھااس نے شاہ حبشہ اور ابرہہ کو اس ظالم بادشاہ سے بدلہ لینے کاحکم صادر کیا۔یمن پر زوردارحملے میں ظالم بادشاہ اپنے انجام کو پہنچااور شاہ نجاشی نے ابرہہ کو یمن کاگونر تعینات کردیا۔فتح کانشہ دنیاکے سب نشوں پر غالب ہے۔ابرہہ، جسے بہت بڑی فتح ملی تھی اپنی اس کامیابی کے پیش منظر میں اپنی حیثیت بھول بیٹھاتھا۔انبیاء علیھم السلام کے طبقہ کامقام کل انسانیت میں بلندہے۔کوئی فاتح،کوئی مفکر،کوئی فلسفی یاکوئی حکمران یاکسی بھی سطح کاکوئی اعلی ترین انسان کسی بھی نبی کے برابر نہیں ہوسکتا۔ان بزرگ ہستیوں کاانتخاب اﷲتعالی کے ہاں سے براہ راست ہواہے۔یہ مطاع ہیں اور باقی کل انسان ان کے مطیع ہیں۔ابرہہ نے اپنی حیثیت سے بڑھ کر فیصلہ کرلیاتھا۔

خانہ کعبہ کی عمارت محض پتھروں اور گارے کی عمارت نہیں ہے۔اس عمارت کی تاسیس ایک مقدس و محترم ہستی کے ہاتھوں سے ہوئی۔یہ انسانی زندگی کی حسین حقیقتیں ہیں۔بچپن کی گلیاں اورآج کی گلیاں ایک ہی طرح کی مٹی گارے سے بنی ہوتی ہیں لیکن ان دونوں کی کشش میں بعد الشرقین ہوتاہے۔استادکاہاتھ اور تھانیدارکاہاتھ ایک ہی جیسے گوشت پوست سے جڑے ہیں لیکن ان کے درمیان کبھی نہ سمٹنے والا فاصلہ ہوتاہے۔لڑکپن کے دوست اور مطلب کے دوست سب ایک ہی آدم کی اولادہوتے ہیں لیکن لڑکپن کی یادیں زندگی بخشنے والی ہواکی مانندہوتی ہیں جب کہ مطلب پرستی میں انسان کادم گھٹتاہے۔اپنے بچے اور دوسروں کے بچے اکٹھے کھیلتے ہیں لیکن اپنے بچوں کولگنے والی چوٹ قلب و جگرکی اتھاہ گہرائیوں میں چبھتی ہے۔سالگرہ کے دن کاسورج بھی عام دنوں کی طرح طلوع ہوتاہے لیکن غلامی زدہ سیکولرطبقے کے لیے اس دن کاسورج ایک سال کے نقصان پر بھی خوشیوں کاانبوہ کثیرلے کر ابھرتاہے۔زندگی کی یہ خوش کن حقیقتیں ان لوگوں کو بھی سمجھ آتی ہیں جنہیں قربانی میں پیسے کاضیاع اور ماحول کی آلودگی نظرآتی ہے،جنہیں حج جیسی عبادت زرمبادلہ کی بے مقصدترسیل دکھتی ہے اورنبیوں میں اور عام انسانوں میں انہیں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا۔بس فرق صرف اتناہے کہ ان لبرل لوگوں کے ہاتھوں میں قوم شعیب کے پیمانے ہیں جہاں لینے کے اوزان اور دینے کے اوزان یکسر مختلف ہیں۔

خانہ کعبہ اگرکسی زیدبکروہماشماکے ہاتھوں بنی عمارت ہوتی تودنیامیں ستاروں سے بھی کئی گنازیادہ عمارتیں بنیں اور تباہ ہوگئیں۔لیکن اﷲتعالی کو جس طرح اپنے برگزیدہ بندے عزیزہیں اسی طرح ان کی باقیات بھی محبوب تر ہیں۔ابرہہ نے ہاتھیوں پرلدی ایک فوج تیارکی اور حرم مکہ پر حملہ کرنے چل کھڑاہوا۔عربوں کے بعض قبائل نے ہاتھیوں والی فوج کاراستہ روکنے کی کوشش کی لیکن اتنی بڑی فوج کے سامنے ان کی کچھ نہ چل سکی اورہاتھیوں پربھری ہوئی فوجیوں کاٹڈی دل پوری شان و شوکت اورآن بان کے ساتھ کوئے کعبہ رواں دواں رہا۔اہل مکہ بھی اس لشکرسے خوفزدہ ہوئے اور خانہ کعبہ کے متولی و نگران حضرت عبدالملطلب نے سرداران قریش کے جلو میں خانہ خداکے دروازے کی کنڈی پکڑی اور اﷲتعالی سے مخاطب ہوکر عرض کیا کہ اے بارالہ ہم تواتنی بڑی فوج کامقابلہ کرنے سے قاصرومعذورہیں اب توہی اپنے گھرکی حفاظت فرما،یہ کہ کر اہل مکہ پہاڑوں پر سدھارگئے اور وادی خالی ہوگئی۔مکہ کے قرب میں جب اس لشکر نے پڑاؤ کیاتوحضرت عبدالمطلب نے ابرہہ سے ملنے کی خواہش ظاہرکی۔ابرہہ کرسی پر بیٹھاتھا،حضرت کی وجاہت و نورانیت سے مرعوب ہوااورنیچے ہی براجمان ہوگیا۔چونکہ ابرہہ خود بھی مسیحی عقیدے کاحامل تھااورحضرت ابراہیم علیہ السلام کاپیروکارتھااس لیے اس کے دل میں خانہ کعبہ کی بابت خوف تھا۔اس کاخیال تھاکہ حضرت صاحب میرے سے خانہ کعبہ بچانے کی درخواست کریں گے توایک سال بیت اﷲکاحج اور ایک سال اس کی بنائی عمارت کے حج کرنے پر بات طے ہوجائے گی۔استفسارپر حضرت عبدالمطلب نے کہاکہ آپ کے سپاہیوں میں میرے اونٹ پکڑ رکھے ہیں،مجھے میرے اونٹ واگزارکرادیجئے۔ابرہہ سخت طیش میں آگیااورگرج کربولامیں آپ کی عبادت گاہ ڈھانے آیاہوں اور آپ کو اپنے اونٹوں کی فکرہے۔حضرت نے فرمایا میں اونٹوں کامالک ہوں اور ان کی فکرکرتاہوں،اس گھرکامالک اپنے گھرکی خود فکرکرے گا۔حضرت کو اونٹ واپس مل گئے۔

یہ لشکر جیسے بھی مکہ ،بلدالامن کی طرف بڑھاتو پرندوں کے غول کے غول آگئے۔یہ کبوتر کچھ چھوٹے پرندے تھے جن کے پنجے سرخ تھے۔انہوں نے اس لشکرپر کنکریاں پھینکیں جوانہوں نے اپنی چونچ اور پنجوں میں تھامی تھیں۔کنکریوں کے گرتے ہی لشکرمیں خارش کی وباپھوٹ پڑی اور کل لشکری اتنی شدت سے خارش کرنے لگے کہ ان کی ہڈیوں سے گوشت اترنے لگا۔کچھ ہی دیرمیں ہاتھیوں پر سوارہونے والے نخوت زدہ فوجی بڑی ہی کسمپرسی کی حالت میں موت کاشکارہونے لگے۔جوجتنی دورتک بھاک سکابھاگ گیالیکن عذاب خداوندی کی سخت گیرپکڑمیں جکڑاگیااورموت کے آسیب نے اسے نگل لیا ۔ہاتھیوں نے اپنی ہی فوج کوروندناشروع کر دیا۔ابرہہ کاجوڑ جوڑ گلنے لگا۔یہ بادشاہ اپنے وطن یمن کے دارالحکومت ’’صنعا‘‘پہنچ توگیالیکن وہاں اس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے اور رہتی دنیاتک عبرت یہ نشان بھی اپنے بدترین انجام کو پہنچ گیا۔اہل عرب میں یہ سال ’’عام الفیل‘‘کے نام سے مشہور ہوااور اسی سال محسن انسانیتﷺکی ولادت مبارکہ بھی ہوئی۔بعد از اعلان نبوت اﷲتعالی نے سورہ فیل میں قریش مکہ کوباورکرایا کہ جس طرح اﷲتعالی نے اپنے گھر کی حفاظت کی تھی اسی طرح اپنے نبی کی حفاظت پر بھی اﷲتعالی مکمل قدرت رکھتاہے۔دین اسلام کے دشمن ناکام و نامراد ہوئے اور اﷲتعالی کاگھر،اﷲتعالی کا نبیﷺ اور اﷲتعالی کادین صحیح سالم وسلامت وباحفاظت رہے۔آج بھی سیکولرازم اپنے ہاتھیوں جیسے ٹینکوں اورہوائی جہازوں کے ساتھ دین اسلام و امت مسلمہ پر حملہ آورہے۔اس دین اسلام نے قیامت تک زندہ رہناہے اور اس کتاب قرآن مجید کی حفاظت خوداﷲتعالی کی ذمہ داری ہے۔اﷲتعالی نے چاہاتو امت مسلمہ کے فرزندان توحیدکی یلغارسے یہ سیکولرازم اسی طرح مات کھاجائے گاجس طرح خدائی پرندوں نے ابرہہ کے لشکر کونیست و نابود کر دیاتھا،انشااﷲتعالی۔بسم اﷲ الرحمن الرحیم

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسمئیل علیہ السلام کے ساتھ مل کر خانہ خدا،کعبۃ اﷲ کی تعمیر کی۔یہ ایک کمرہ نماچوکورعمارت دنیاکی تاریخ میں مرکزتوحیدبنی۔اس کے ساتھ ہی پھوٹنے والا شیریں چشمہ زم زم،اس جگہ کی آبادکاری کی بہت بڑی وجہ بن گیا۔ایک ماں اور بیٹے سے شروع ہونے والابے آب و گیاہ علاقہ بہت جلد ایک بہت بڑے شہر بلکہ ایک بہت بڑی تہذیب کی آماجگاہ بن گیا۔کعبۃ اﷲمیں کی جانے والی عبادت کئی لحاظ سے تاریخ انسانیت اور مذاہب عالم میں یکتاو تنہاہے۔دنیامیں واحد خانہ کعبہ ایسی عمارت ہے جس کاطواف کیاجاتاہے۔دنیامیں طواف کی مانند کسی دوسری عبادت کاوجود نہیں ہے۔گزشتہ چارہزارسالوں سے جاری اس عبادت کاکوئی تاریخی ثانی نہیں ہے کہ تاسیس کعبہ سے آج تک ایک حج بھی قضا نہیں ہوا۔دنیاکا ایسا شہر جس میں ایک سبزپتہ بھی نہیں اگتالیکن مشرق و مغرب کی کل نعمتیں یہاں میسر ہیں،یہ اعزازبھی صرف جوار کعبہ کو ہی حاصل ہے۔اس کے علاوہ کتنے ہی انبیاء علیھم السلام اور مقدس ہستیاں ہیں جن کے جسم ہائے اطہر اس حرم محترم کی حدود میں مدفون ہیں۔آسمان سے نازل ہونے والی کل رحمتیں سب سے پہلے خانہ کعبہ پر نازل ہوتی ہیں اور پھر ہر ہرعلاقے کی مساجد کی طرف ارسال کر دی جاتی ہیں اور تب وہاں سے گھروں تک پہنچتی ہیں اور افراد دنیاان رحمتوں نے فیضیاب ہوتے ہیں۔

ابرہہ،جو یمن کاگورنرتھااس نے خانہ کعبہ و مسجدحرام کے مقابلے میں ایک شاندارعمارت بنائی،بلندوبالا عمارت کوسونے اور چاندی سے مرصع کیااور اس کے درودیوار اور اہم مقامات پر ہیرے جواہرات پیوست کیے۔ایک عام آدمی جب عمارت کے قریب جاتاتواسے گردن اونچی کرکے اس کی بلندی مشاہدہ کرنی پڑتی تھی اور جب اندرداخل ہوتاتواس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتیں۔ابرہہ نے اعلان کردیاکہ کہ یمن کے عرب قبائل آئندہ سے خانہ کعبہ کاسفرکرنے کی بجائے اس عمارت کاحج کیاکریں۔اہل عرب کوخانہ کعبہ اوردین ابراہیمی و شعائرمذہبی سے محبت وعقیدت ماں کے دودھ میں گھول کر پلائی جاتی تھی۔یمن میں موجود ایک عربی قریشی نوجوان نے جب سناکہ اس عمارت کوخانہ کعبہ کے مقابلے میں لانے کے لیے تعمیرکیاگیاہے اور بادشاہ نے یمن کے باسیوں کو خانہ خدا کی بجائے اس عمارت کے حج کاحکم دے دیاہے تویہ بات اس کے لیے ناقابل برداشت ہوگئی۔اس نے فرط نفرت میں اس نوتعمیرشدہ نہایت خوبصورت عمارت میں اجابت جیسی ناپسندیدہ حرکت کرکے اسے آلودہ وبدبودارکردیا۔ابرہہ نے اس نوجوان کوتو فوری طورپر قتل کردیااور پھراس نے قسم کھائی کی خانہ کعبہ کی اینٹ سے اینٹ بجادے گااور اس نے اپنے بادشاہ شاہ نجاشی سے اجازت بھی لے لی۔

قرآن مجید میں اصحاب الاخدودکاواقعہ سورہ بروج میں ذکرہواہے۔یہ اصحاب الاخدودیمن کے رہنے والے مسیحی تھی اور شرک کی مخالفت کرتے تھے۔یہ مسیحی صرف ایک خداکے عبادت گزار تھے اور وقت کے مشرک بادشاہ نے ان موحدمسیحیوں کوآگ کی خندقوں میں ڈال کرزندہ جلادیاتھا۔ان میں سے دومسیحی جوخوش قسمتی سے کسی طرح بچ گئے تھے انہوں نے قیصرروم سے اس واقعہ کی شکایت کی اور زندہ جلنے والے کم و بیش بیس ہزارمسیحی اہل مذہب کے انتقام کا مطالبہ کیا۔قیصرروم جومذہباََمسیحی عقیدہ کامالک تھااس نے شاہ حبشہ اور ابرہہ کو اس ظالم بادشاہ سے بدلہ لینے کاحکم صادر کیا۔یمن پر زوردارحملے میں ظالم بادشاہ اپنے انجام کو پہنچااور شاہ نجاشی نے ابرہہ کو یمن کاگونر تعینات کردیا۔فتح کانشہ دنیاکے سب نشوں پر غالب ہے۔ابرہہ، جسے بہت بڑی فتح ملی تھی اپنی اس کامیابی کے پیش منظر میں اپنی حیثیت بھول بیٹھاتھا۔انبیاء علیھم السلام کے طبقہ کامقام کل انسانیت میں بلندہے۔کوئی فاتح،کوئی مفکر،کوئی فلسفی یاکوئی حکمران یاکسی بھی سطح کاکوئی اعلی ترین انسان کسی بھی نبی کے برابر نہیں ہوسکتا۔ان بزرگ ہستیوں کاانتخاب اﷲتعالی کے ہاں سے براہ راست ہواہے۔یہ مطاع ہیں اور باقی کل انسان ان کے مطیع ہیں۔ابرہہ نے اپنی حیثیت سے بڑھ کر فیصلہ کرلیاتھا۔

خانہ کعبہ کی عمارت محض پتھروں اور گارے کی عمارت نہیں ہے۔اس عمارت کی تاسیس ایک مقدس و محترم ہستی کے ہاتھوں سے ہوئی۔یہ انسانی زندگی کی حسین حقیقتیں ہیں۔بچپن کی گلیاں اورآج کی گلیاں ایک ہی طرح کی مٹی گارے سے بنی ہوتی ہیں لیکن ان دونوں کی کشش میں بعد الشرقین ہوتاہے۔استادکاہاتھ اور تھانیدارکاہاتھ ایک ہی جیسے گوشت پوست سے جڑے ہیں لیکن ان کے درمیان کبھی نہ سمٹنے والا فاصلہ ہوتاہے۔لڑکپن کے دوست اور مطلب کے دوست سب ایک ہی آدم کی اولادہوتے ہیں لیکن لڑکپن کی یادیں زندگی بخشنے والی ہواکی مانندہوتی ہیں جب کہ مطلب پرستی میں انسان کادم گھٹتاہے۔اپنے بچے اور دوسروں کے بچے اکٹھے کھیلتے ہیں لیکن اپنے بچوں کولگنے والی چوٹ قلب و جگرکی اتھاہ گہرائیوں میں چبھتی ہے۔سالگرہ کے دن کاسورج بھی عام دنوں کی طرح طلوع ہوتاہے لیکن غلامی زدہ سیکولرطبقے کے لیے اس دن کاسورج ایک سال کے نقصان پر بھی خوشیوں کاانبوہ کثیرلے کر ابھرتاہے۔زندگی کی یہ خوش کن حقیقتیں ان لوگوں کو بھی سمجھ آتی ہیں جنہیں قربانی میں پیسے کاضیاع اور ماحول کی آلودگی نظرآتی ہے،جنہیں حج جیسی عبادت زرمبادلہ کی بے مقصدترسیل دکھتی ہے اورنبیوں میں اور عام انسانوں میں انہیں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا۔بس فرق صرف اتناہے کہ ان لبرل لوگوں کے ہاتھوں میں قوم شعیب کے پیمانے ہیں جہاں لینے کے اوزان اور دینے کے اوزان یکسر مختلف ہیں۔

خانہ کعبہ اگرکسی زیدبکروہماشماکے ہاتھوں بنی عمارت ہوتی تودنیامیں ستاروں سے بھی کئی گنازیادہ عمارتیں بنیں اور تباہ ہوگئیں۔لیکن اﷲتعالی کو جس طرح اپنے برگزیدہ بندے عزیزہیں اسی طرح ان کی باقیات بھی محبوب تر ہیں۔ابرہہ نے ہاتھیوں پرلدی ایک فوج تیارکی اور حرم مکہ پر حملہ کرنے چل کھڑاہوا۔عربوں کے بعض قبائل نے ہاتھیوں والی فوج کاراستہ روکنے کی کوشش کی لیکن اتنی بڑی فوج کے سامنے ان کی کچھ نہ چل سکی اورہاتھیوں پربھری ہوئی فوجیوں کاٹڈی دل پوری شان و شوکت اورآن بان کے ساتھ کوئے کعبہ رواں دواں رہا۔اہل مکہ بھی اس لشکرسے خوفزدہ ہوئے اور خانہ کعبہ کے متولی و نگران حضرت عبدالملطلب نے سرداران قریش کے جلو میں خانہ خداکے دروازے کی کنڈی پکڑی اور اﷲتعالی سے مخاطب ہوکر عرض کیا کہ اے بارالہ ہم تواتنی بڑی فوج کامقابلہ کرنے سے قاصرومعذورہیں اب توہی اپنے گھرکی حفاظت فرما،یہ کہ کر اہل مکہ پہاڑوں پر سدھارگئے اور وادی خالی ہوگئی۔مکہ کے قرب میں جب اس لشکر نے پڑاؤ کیاتوحضرت عبدالمطلب نے ابرہہ سے ملنے کی خواہش ظاہرکی۔ابرہہ کرسی پر بیٹھاتھا،حضرت کی وجاہت و نورانیت سے مرعوب ہوااورنیچے ہی براجمان ہوگیا۔چونکہ ابرہہ خود بھی مسیحی عقیدے کاحامل تھااورحضرت ابراہیم علیہ السلام کاپیروکارتھااس لیے اس کے دل میں خانہ کعبہ کی بابت خوف تھا۔اس کاخیال تھاکہ حضرت صاحب میرے سے خانہ کعبہ بچانے کی درخواست کریں گے توایک سال بیت اﷲکاحج اور ایک سال اس کی بنائی عمارت کے حج کرنے پر بات طے ہوجائے گی۔استفسارپر حضرت عبدالمطلب نے کہاکہ آپ کے سپاہیوں میں میرے اونٹ پکڑ رکھے ہیں،مجھے میرے اونٹ واگزارکرادیجئے۔ابرہہ سخت طیش میں آگیااورگرج کربولامیں آپ کی عبادت گاہ ڈھانے آیاہوں اور آپ کو اپنے اونٹوں کی فکرہے۔حضرت نے فرمایا میں اونٹوں کامالک ہوں اور ان کی فکرکرتاہوں،اس گھرکامالک اپنے گھرکی خود فکرکرے گا۔حضرت کو اونٹ واپس مل گئے۔

یہ لشکر جیسے بھی مکہ ،بلدالامن کی طرف بڑھاتو پرندوں کے غول کے غول آگئے۔یہ کبوتر کچھ چھوٹے پرندے تھے جن کے پنجے سرخ تھے۔انہوں نے اس لشکرپر کنکریاں پھینکیں جوانہوں نے اپنی چونچ اور پنجوں میں تھامی تھیں۔کنکریوں کے گرتے ہی لشکرمیں خارش کی وباپھوٹ پڑی اور کل لشکری اتنی شدت سے خارش کرنے لگے کہ ان کی ہڈیوں سے گوشت اترنے لگا۔کچھ ہی دیرمیں ہاتھیوں پر سوارہونے والے نخوت زدہ فوجی بڑی ہی کسمپرسی کی حالت میں موت کاشکارہونے لگے۔جوجتنی دورتک بھاک سکابھاگ گیالیکن عذاب خداوندی کی سخت گیرپکڑمیں جکڑاگیااورموت کے آسیب نے اسے نگل لیا ۔ہاتھیوں نے اپنی ہی فوج کوروندناشروع کر دیا۔ابرہہ کاجوڑ جوڑ گلنے لگا۔یہ بادشاہ اپنے وطن یمن کے دارالحکومت ’’صنعا‘‘پہنچ توگیالیکن وہاں اس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے اور رہتی دنیاتک عبرت یہ نشان بھی اپنے بدترین انجام کو پہنچ گیا۔اہل عرب میں یہ سال ’’عام الفیل‘‘کے نام سے مشہور ہوااور اسی سال محسن انسانیتﷺکی ولادت مبارکہ بھی ہوئی۔بعد از اعلان نبوت اﷲتعالی نے سورہ فیل میں قریش مکہ کوباورکرایا کہ جس طرح اﷲتعالی نے اپنے گھر کی حفاظت کی تھی اسی طرح اپنے نبی کی حفاظت پر بھی اﷲتعالی مکمل قدرت رکھتاہے۔دین اسلام کے دشمن ناکام و نامراد ہوئے اور اﷲتعالی کاگھر،اﷲتعالی کا نبیﷺ اور اﷲتعالی کادین صحیح سالم وسلامت وباحفاظت رہے۔آج بھی سیکولرازم اپنے ہاتھیوں جیسے ٹینکوں اورہوائی جہازوں کے ساتھ دین اسلام و امت مسلمہ پر حملہ آورہے۔اس دین اسلام نے قیامت تک زندہ رہناہے اور اس کتاب قرآن مجید کی حفاظت خوداﷲتعالی کی ذمہ داری ہے۔اﷲتعالی نے چاہاتو امت مسلمہ کے فرزندان توحیدکی یلغارسے یہ سیکولرازم اسی طرح مات کھاجائے گاجس طرح خدائی پرندوں نے ابرہہ کے لشکر کونیست و نابود کر دیاتھا،انشااﷲتعالی۔

Dr Sajid Khakwani
About the Author: Dr Sajid Khakwani Read More Articles by Dr Sajid Khakwani: 470 Articles with 572716 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.