بظاہر شر نظر آنے والے معاملے کو قدرت چاہے تو خیر
میں ایسے بدل دیتی ہے جیسے ختم نبوت حلف نامہ والی حالیہ ترمیم۔ ترمیم والے
اس واقعے نے لبرل برادران وطن کے خواب اک دفعہ پھر چکنا چور کر دیئے۔ وہ
سارے خواب جو یہ لوگ وطن عزیز کو سیکولر اسٹیٹ بنانے کے متعلق دیکھا کرتے
تھے۔ ریاست کی نظریاتی سمت اور قانون ناموس رسالت میں تبدیلی تو درکنار،
حلف نامہ کو اقرار نامہ میں بدلنے کی ’’یک لفظی‘‘ تبدیلی بھی قوم کے
اجتماعی شعور نے مسترد کر دی۔
نیت جو بھی ہو مگر سچ تو یہ ہے کہ شیخ رشید کی پکار نے ہلچل مچادی۔ سماجی
ذرائع ابلاغ پر قوم کا اضطراب طوفاں کی صورت امڈ آیا۔ پی پی پی ، پی ٹی آئی
اور ایم کیو ایم ایسی وہ تمام جماعتیں جو اس ترمیم کی پورزور حامی تھیں، ان
کی حمایت کے جزبے کو خاک و خاشاک کی طرح بہا کر لے گیا۔ شیخ رشید کی طرف سے
مولانا فضل الرحمن کو پکارے جانے پر کچھ دینی کارکن مضطرب بھی دکھائی دیئے۔
حال آنکہ ان کو تو خوش ہونا چاہیے تھا ،کہ ان کے قائد مولانا فضل الرحمن کے
سخت ترین مخالف کے نزدیک بھی مولانا کی حثیت ختم نبوت کے متفقہ پہرے دار کی
ہے۔ پھر مولانا نے ختم نبوت کے پہرے دار ہونے کا حق بھی ادا کیا، اگرچہ
مولانا کی ٹیم کا کردار اس قدر حوصلہ افزا نہیں رہا۔
اس ترمیم کی منظوری کے وقت مولانا مکہ مکرمہ میں تھے۔ مولانا کو خبر ملی تو
انوں نے وہی سے اپنی جماعت کو اجلاس بلا کر اس ترمیم کا قانونی پہلووں سے
جائزہ لینے کو کہا اور رپوٹ آنے پر حکمراں جماعت کے قائد میاں نواز شریف سے
ٹیلی فونک رابطہ کیا اور انہیں ترمیم واپس لینے پر قائل کیا۔ میاں صاحب نے
ترمیم واپس لینے کی حامی بھری تو مولانا نے اپنی جماعت کے وفد کو وزیر اعظم
شاہد خاقان عباسی اور سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے پاس حکمراں جماعت کے
قائد کا پیغام دے کر بھیجا۔ ایاز صادق نے اسی دن دیگر جماعتوں کے پارلیمانی
لیڈروں کو بلا کر قائل کیا اور جے یو آئی کے وفد کو ترمیم کی واپسی کی یقین
دہانی کروائی۔
اگر غیر جانب دارانہ تجزیہ کیا جائے تو حلف نامہ کی دوبارہ بحالی کئی سارے
اسباب کے باعث ممکن ہو ئی۔فوری اور شدید غم و غصہ جو سماجی ذرائع ابلاغ پر
دیکھنے میں آیا، ملک میں پہلے سے موجود کشیدہ سیاسی حالات اور ان حالات میں
دینی قوتوں خصوصاً جے یو آئی کاحلف نامہ سابق پوزیش پر بحال نہ ہونے کی
صورت میں آخری حد تک جانے کا عندیہ۔ چناچہ ایسے ماحول میں حکومت متحمل ہی
نہ تھی کہ وہ اک نئی ’’تحریک نظام مصطفی‘‘ کا سامنا کر سکے۔
ترمیم کی واپسی کا معاملہ تو خوش اسلوبی سے حل ہو چکا۔ مگر حلف نامہ کو
اقرار نامہ میں بدلنا ممکن کیسے ہو پایا ۔ اس پر بہت سارے سوالات ایسے ہیں
جن کے جواب آنا تاحال باقی ہیں، کیونکہ ان سوالات کی وجہ سے اب بھی قوم میں
اک اضطراب پایا جاتا ہے۔ پی پی پی ، پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم ترمیم کی
حامی تھیں اور ان جماعتوں نے ترمیم کے حق میں ووٹ بھی دیا۔ مگر ترمیم کا
محرک کون تھا؟ جیسا کہ مولانا عبدلغفور حیدری کہتے ہیں کہ ن لیگ کے وفاقی
وزیر قانون زاہد حامد اس ترمیم کے ممکنہ محرک ہو سکتے ہیں ۔ اگر یہ بات
درست ہے تو ایسے سیاسی ماحول میں جب پہلے ہی سے نادیدہ قوتوں کا ندیدہ پن
پوری طرح آشکار ہو چکا ہو، حکمراں جماعت کے اس اقدام کو خود کشی کی کوشش ہی
قرار دیا جاسکتا ہے۔ لیکن سینٹ میں حکمراں جماعت کا جے یوآئی کے سینٹر حافظ
حمدﷲ کے کہنے پر اس ترمیم کی مخالفت میں ووٹ دینا ثابت کرتا ہے کہ یہ اقدام
جماعت سے بالا بالا ہی کیا جارہا تھا۔ مگر یہاں پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ
اگر یہ ا قدام جماعتی مشاورت کے بغیر ہوا ہے تو کیا حکمراں جماعت اس غیر
معمولی اقدام پر وزیر قانون کے خلاف کارروائی کرے گی؟
انتخابی اصلاحات کمیٹی کے 126 اجلاس ہوئے۔ اس قدر کثیر و طویل اجلاسات کے
باوجودیہ ترمیم پوشیدہ کیونکر رہی؟ کہا جاتا ہے کہ کمیٹی میں جے یو آئی کی
طرف سے نمائندگی کرنے والے مولانا عبدالغفور حیدری اور محترمہ نعیمہ کشور
کی کمیٹی اجلاسات میں حاضری نہ ہونے کے برابر رہی ۔ کیوں؟ اگر یہ بات درست
ہے تو کیا جے یو آئی اپنے ان نمائندوں کے خلاف کارروائی کرے گی؟ جے یو آئی
کی رکن قومی اسمبلی محترمہ نعیمہ کشور نجی ٹی وی کے اک پروگرام میں کہتی
ہیں کہ ارکان کو دیئے گے مسودے میں اقرار نامہ کے بجائے حلف نامہ شامل تھا
جسے منظوری کے وقت بدل دیا گیا۔ اگر ایسا ہی ہے تو نعیمہ کشور صاحبہ کو یہ
بات اسمبلی فلور پر کرنی چاہیے تھی۔ اور دیگر ارکان کو بھی نہ صرف اس کے
خلاف بولنا چاہیے تھا، بلکہ اس کھلے دھوکہ پر وزارت قانون کے خلاف قرارداد
بھی پیش کرنی چاہیے تھی۔ جب کہ ایسا کچھ نہیں ہوا ۔ کیوں ؟
حافظ حمدﷲ نے سینٹ اجلاس میں حلف نامہ کو اقرار نامہ میں بدلنے والی ترمیم
کے خلاف ن لیگ تک کو قائل کر لیااور ن لیگ نے حافظ حمدﷲ کے کہنے پر ووٹ بھی
ترمیم کے خلاف دیا۔ لیکن پی پی پی، پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کی حمایت کی
وجہ سے یہ ترمیم دو ووٹوں کی برتی سے منظور ہو گئی۔ حافظ حمدﷲ کی یہ کوشش
قابل ستائش ہے، مگرکیا حافظ حمدﷲ نے اپنی ہی جماعت کے دیگر ارکان سینٹ کو
اس ترمیم کے متعلق نہیں بتایا؟ اگر بتایا تو جو ارکان اجلاس میں نہیں آئے
وہ کیوں نہیں آئے؟ جماعت اسلامی کے امیر اور اکلوتے رکن سینٹ سراج الحق بھی
اجلاس میں موجود نہیں تھے۔ صرف جے یو آئی ہی نہیں پارلیمنٹ میں موجود اکثر
دینی قیادت اس ترمیم سے بے خبر کیسے رہی؟ یہاں تک کہ پروفیسر ساجد میر سمیت
جے یو آئی کے وفاقی وزیر مولانا امیر زمان، مولانا عطاء الرحمن ، محترمہ
نعیمہ کشور اور مولانا امجد خان جیسے مرکزی قائدین اس ترمیم کے قانون بننے
تک سرے سے اس ترمیم ہی کی تردید کررہے تھے؟
کیا دینی قیادت اپنی اس غفلت کو تسلیم کرنے کا حوصلہ رکھتی ہے؟
|