گھر کو آگ لگی ہے گھر کے چراغوں سے!

کرپشن کا درخت اپنے آس پاس سے سارا پانی سینچ لیتا ہے اور باقی زمین کو بنجر کر دیتاہے کوئی بھی فردِ واحد معاشرے کے درخت کا ایک بیج کی مانند ہوتا ہے لیکن جب اسے رشوت کی کھاد ،اقرباء پروری کا پانی اور سیاسی آشیر باد کی مٹی میسر آتی ہے تو وہ آہستہ آہستہ اپنی جڑیں مضبوط کرتا جاتا ہے اور معاشرے کو پھل دینے کی بجائے آب و ہوا کو زہر آلود کرتا ہے جو اس کیلئے وبال جان بن جاتا ہے کرپشن کی جڑیں پاکستان میں اس قدر مضبوط ہیں کہ انہیں اکھاڑنا ناممکن دکھائی دیتا ہے۔پاکستان میں جس قدر وسائل موجود ہیں اور جس قدر جفا کش قوم یہاں بستی ہے اس کی مثال کہیں اور موجود نہیں ۔با اثر طبقات کی طرف سے مالی بد عنوانی ،لوٹ کھسوٹ ،اقرباء پروری اور اپنا پیٹ بھرنے کا سلسلہ ہمالیہ سے بھی بلند ہو چکا ہے پچھلے ستر برسوں میں اگر یہاں کے وسائل یہیں پر خرچ ہوتے تو پاکستان دنیا کے امیر ترین صنعتی ممالک میں سے ایک ہوتا اور یہ ایک دفعہ مستحکم ہو بھی چکا ہے جب پاکستان میں نام نہاد جمہوریت سے قبل ہی جنرل ایوب خان کے دور میں پاکستان میں صنعتوں کا قیام عمل میں لایا گیا خام مال کی جگہ مصنوعات درآمد کی گئیں ملک کی معیشت مستحکم تھی اور ترقی کی راہ صاف دکھائی دیتی تھی لیکن بعد میں کیا ہوا عوامی طاقت پر حکومت بنانے والے نام نہاد جمہوریت کے علمبرداروں نے پاکستان کو آگ میں جھونک دیا ۔صد حیف کہ اقتدا ر میں آنے والے گروہوں اور ان کے دست راس اس تناور درخت پر کلہاڑیاں چلاتے رہے ۔عوام الناس کا رویہ بھی عجیب ہے کہ وہ ملک لوٹنے والوں اور قومی خزانے کو خالی کرنے والوں کو دوبارہ مینڈیٹ دیتے ہیں اور پھر شکایت بھی کرتے ہیں کہ مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے ،علاج مہنگا ہو رہا ہے ،ملازمتیں دستیاب نہیں ہیں اور شہری نفسیاتی مریض بنتے جا رہے ہیں ۔’’گھر کو آ گ لگی ہے گھرکے چراغ سے‘‘حیرت ہے کہ عوام ان سیاست دانوں کو اپنا مسیحا سمجھتے ہیں جنہوں نے اس ملک کو لوٹنے میں دشمنوں سے بڑھ کر کردار ادا کیا۔حال ہی میں منظر عام پر آنے والے چار سو چھتیس افراد جنہوں نے قومی وسائل ،قومی خزانے اور قومی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا اور جن کے بارے میں دن رات ان کے کارناموں کی تفصیلات شائع ہو رہی ہیں کے نام سامنے آئے ہیں ۔حکومتی جماعت کے نااہل شدہ سابقہ وزیر اعظم کے بعد اس کے شریک جرم لوگوں اور ان تمام لوگوں کا بھی کڑا احتساب ہو نا چاہئے جو پاکستان کو لوٹتے چلے آرہے ہیں سابقہ حکومتیں ان کی فہرستیں جاری کر چکی ہیں جنہوں نے کروڑوں روپے قرض لیا اور واپس نہیں کیا،اور ان کو اب تک لگام نہیں ڈالی جا سکی ۔یہی لوگ آپ کو بیوروکریسی میں نظر آئیں گے ،صوبائی و قومی اسمبلیوں میں بھی ، سینیٹ میں بھی اور اربوں روپوں کی ہاؤسنگ سکیمیں بدعنوانی چھپانے کیلئے چلاتے نظر آئیں گے ۔اگر ہم بیورو کریسی کی بات کریں تو بات صرف چار سو چھتیس تک نہیں رہ جاتی ،بنکوں سے قرضہ لے کر بھاگنے والوں کو قرضہ دینے سے پہلے اسی طرح اس کے بارے میں چھان بین کیوں نہیں کی جاتی اور اگر وارنٹی مکمل کی جاتی ہے تو اس کی ریکوری کیوں نہیں لی جاتی اور ملبہ سارا عوام پر ڈال دیا جاتا ہے ؟ ایک واقع مجھے یاد آتا ہے کہ کہ حال ہی میں ایک حلقے کا پٹواری رنگے ہاتھوں دس ہزاروں روپے رشوت لیتے پکڑا گیا ایف آئی آر ہو گئی ،رشوت ثابت ہو گئی اور چلان ہو گیا ،جیل جانے کے بعد ضمانت پر رہا ہوا ،متعلقہ اسسٹنٹ کمشنر نے اپنے ختیار کو استعمال کرتے ہوئے صوابدید پر اسے اسی حلقے میں دوبارہ بحال کر دیا ۔اہل علاقہ ڈپٹی کمشنر کے سامنے عرضی گزار ہوئے تو اس نے اس پٹواری کا تبادلہ کر دیا اور اس کی جگہ ایک نیا پٹواری تعینات کیا، لیکن پٹواری تعینات ہونے کے با وجود وہاں اپنے فرائض کی انجام دہی سے قاصر رہا کیونکہ جس پٹواری کی جگہ ا سے تعینات کیا گیا تھا اس پٹواری نے اسے چارج ہی نہیں سونپا اور رات ہی رات سیاسی آشیر باد سے تبادلہ رکوانے میں کامیاب ہو گیا لیکن چاہے جو بھی ہو رشوت خور پٹواری اس اہلیان حلقہ کیلئے کسی طور بھی قابل قبول نہیں تھا انہوں نے پھر سے درخواست گزاری اور ڈپٹی کمشنر نے دوبارہ احکامات جاری کئے کہ رشوت خور پٹواری کو ہٹایا جائے اور اس کی جگہ نیا پٹواری تعینات کیا جائے ،رشوت خور پٹواری نے پھر سے ہرزہ سرائی اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا اور چارج دینے سے انکاری رہا اس کی جگہ جس پٹواری کو تعینات کیا گیا تھا اس نے ڈپٹی کمشنر کو عرضی دی کہ پٹواری نہ تو چارج دیتا ہے اور نہ ہی ریکارڈ حوالے کرتا ہے ڈپٹی کمشنر نے عرضی کے جواب میں ریکارڈ کی کفن شکنی کے احکامات جاری کئے ۔پولیس اور متعلقہ محکمہ جب وہاں ریکارڈ قبضے میں لینے کو پہنچا تو وہاں ریکارڈ ہی غائب تھا میڈیا نے کوریج دی کہ پٹواری محکمہ مال کا ریکارڈ لے کر فرار ہو گیا ہے اب یہاں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پٹواری پر محکمہ مال کا ریکارڈ چوری کرنے اور حکم نا ماننے پر مقدمہ درج کیا جاتا اور اسے سزا دی جاتی اس کے برعکس دوسرے ہی دن رشوت خور پٹواری پھر سے اسی حلقے میں بحال ہو گیا ۔یہاں ایک بات سمجھ آتی ہے کہ ریکارڈ میں ضرور ہیر پھیر تھا جس کی وجہ سے پٹواری نے ہر صورت کوشش کر کے نا تو تبادلہ ہونے دیا اور نہ ہی ریکارڈ کسی کو دیااور پھر اتنا بڑا کام کسی سیاسی آشیر باد کے بغیر ممکن نہیں ۔یہ تو محض ایک پٹواری کی بات ہے اس بات سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بڑے بڑے وزیر مشیر اور بیوروکریٹس اپنی کرپشن چھپانے کیلئے اور عوام کی لوٹی ہوئی دولت ہضم کرنے کیلئے کیا کیا ہتھکنڈے استعمال کرتے ہونگے؟؟ یہاں تک کہ ملکی سلامتی کو داؤ پہ لگانا بھی ان کیلئے کوئی بڑی بات نہیں ۔جب تک معاشرے سے کرپشن کا خاتمہ نہیں ہو گا اس وقت تک ہمارا ملک مستحکم نہیں ہو سکتا ہم نے دیکھا کہ ایک پٹواری سیاسی آشیر باد سے کس طرح اپنی کرپشن پر پردہ ڈالنے میں کامیاب رہا ہے اسی لئے جب تک عوام اپنے جمہوری شعور میں بدلاؤ نہیں لائے گی اور مینڈیٹ بدعنوانوں اور استحصالیوں کی بجائے پاکباز بندوں کو نہیں دے گی تب تک کرپشن کا خاتمہ ممکن نہیں ۔اگر پاکستان مستحکم نہیں تو جو گیدڑ بھبکیاں بھارت آج پاکستان کیلئے اگل رہا ہے ان کے سچ ہونے میں کوئی شک نہیں رہ جائے گا۔

Malik Shafqat ullah
About the Author: Malik Shafqat ullah Read More Articles by Malik Shafqat ullah : 235 Articles with 190445 views Pharmacist, Columnist, National, International And Political Affairs Analyst, Socialist... View More