تحریر : چوہدری عرفان اعجاز اوکاڑہ
ایک امریکی دانشور،ماہر لسانیات ،مورخ اور دانشور نوم چومسیکی نے ایک
انٹرویومیں کہا "میں پاکستان میں ایک اور بھارت میں تین ہفتے رہا . میرا
ایک دوست، (جو لندن میں تھا جب اس نے انٹرویو دیا تو اس نے کہا۔اقبال احمد،
نے مجھ سے کہا کہ کہ میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ پاکستان میں میڈیا زیادہ
آزاد ہے، بہ نسبت بھارت کے۔اگر نوم چومسیکی کی اس بات کا ہم خود بغور
مشاہدہ کریں تو سو فیصد درست ثابت ہوتی ہے اگر پاکستان میں آزادی صحافت کے
آغاز پر نظر دوڑائی جائے تو پاکستان میں تو صحافت اسی روز ہی آزاد ہوگی تھی
جب قائداعظم محمد علی جناح نے 1941میں پہلا اخبار"ڈان"شائع کروایا تھا اور
یہ وہ اخبار ہے جس نے آزادی پاکستان کے لیے مسلمانوں کو یکجا کرنے کے لیے
اہم کردار ادا کیا۔1947کی آزادی کے بعد کا ذکر کیا جائے تو پاکستان کے حصے
میں بمشکل ایک ہی پریس آیا جس کی حالت انتہائی مخدوش تھی اس زمانہ میں صوبہ
سرحد سے صرف دو اخبار روزنامہ آزاد اور ڈیلی مارننگ نکلتے تھے ڈیلی مارننگ
بعدازاں ڈھاکہ منتقل ہو گیا تھا کیونکہ آزادی کے بعد پاکستان کے حصے میں
انگریزی کا کوئی اچھا اخبار نا آیا لیکن اردو کے بہت اعلیٰ پائے کے اخبار
جن میں روزنامہ انجام،نوائے وقت اور جنگ جیسے اخبارات شامل ہیں پاکستان میں
صحافت کو پروان چڑھانے میں ہر شخص نے اپنا اپنا کردار ادا کیا 1947کے
دورمیں پاکستان کے پاس صرف تین ریڈیو اسٹیشن پشاور لاہور اور ڈھاکہ ریڈیو
اسٹیشن تھے لیکن آزادی پاکستان کی خبر ریڈیو پاکستان نے جاری کی تھی آزدی
کے بعد پاکستان میں نئے ریڈیو اسٹیشن قائم ہونے لگے جن میں
راولپنڈی،کراچی،کوئٹہ،حیدرآبادلاہور جوکہ 1948سے 1960کی دہائی کے دوران
قائم ہوئے کیونکہ اب وطن عزیز بھی جدید دور کی جانب گامزن ہو رہا تھا 90کی
دہائی میں ایف ایم اسٹیشن کا قیام عمل میں آنے لگا پاکستان میں آزادی صحافت
کو مزید تقویت پہنچی ایف ایم ریڈیو کے بعد ملک بھر میں مختلف اخبارات جن
میں ماہنامہ ہفتہ روزہ اور روزنامہ اخبارات کی کثیر تعداد شامل ہوئی اور
عوام کو ملکی اور غیر ملکی خبروں تک رسائی یقینی بنائی جانے لگی اکثر
اخبارات کو علاقائی زبان میں پرنٹ کیا جاتا ہے تاکہ لوگ اپنی زبان میں
باآسانی خبر پڑھ سکیں اگر یہاں سابق صدر پاکستان پرویز مشرف کا ذکر کیا
جائے کہ پاکستان میں میڈیا کو مکمل آزادی انہی کے دور صدارت میں ملی تو غلط
نہ ہوگا اخبارات ایف ایم اور ریڈیو کے بعد ملک میں صحافتی خدمات کو مزید
ترقی کی جانب لے جانے کو سوچا گیا ، ویسے تو پاکستان میں پہلا ٹیلی ویژن ا
سٹیشن 26 نومبر 1964 کو لاہور میں قائم ہوا. 1990 میں ٹیلی ویثرن نے حکومت
کے خصوصی کنٹرول کے دوران جب شمالیمار ٹیلی ویژن نیٹ ورک (ایس ٹی این) اور
نیٹ ورک ٹیلی ویژن مارکیٹنگ (این ٹی ایم) نے پاکستان کا پہلا نجی ٹی وی
چینل شروع کیا. پی ٹی وی بیوروکریٹ سازشیوں کی طرف سے جلد ہی ان کوبند کر
دیا گیا . 1990 کے دوران سیٹلائٹ ٹی وی چینلز شامل کیے گئے پاکستان ٹیلی
وژن (PTV)کو حکومت کنٹرول کرتی ہے جوکہ ایک طرح سے حکومتی یا سرکاری چینل
بھی کہلاتا ہے ٹیلی وژن چینلز کو مزید وسعت دینے کے لیے پرائیوٹ چینلز نے
شعبہ صحافت میں قدم جمانا شروع کیے پہلا پرائیوٹ نیوز چینل جیو نیوز بنا
چینل نے تھوڑے ہی عرصے میں عوام کو اپنی طرف مائل کر لیا کچھ عرصے بعد ہی
پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کا ایک جال بچھنا شروع ہوا جس میں اے آر
وائے،آج نیوز،کے ٹی این ،سندھ ٹی وی جیسے اولین چینلز ہیں ان چینلز کے بعد
دور حاضر میں بے شمار نیوز چینلز نے صحافت کے میدان میں قدم رکھ لیا ہے اور
ان چینلز کی تعداد کو معلوم کرنا بہت مشکل ہوگا-
بلاشبہ پاکستان میں آزادی صحافت ہے لیکن ہمیں اس بات کو سوچنا ہو گا کہ کیا
اتنی آزادی ہمارے لیے بہتر ہے یہ سوال میرے ذہن میں اس لیے آیا کہ اکثر
نیوز چینلز اور اخبارات پاکستان کی حکومت کے بہتر اقدامات کو اجاگر کرنے کی
بجائے ان کے منفی اثرات کو اجاگر کرتے ہیں یہ عمل ہمارے اپنے لیے بُرا ہے
اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ غیر ملکی میڈیا اور عوام پر ان
منفی خبروں کا کیا اثر پڑتا ہو گا پاکستانی براڈکاسٹر زاورمیڈیا مالکان کو
ہی اس عمل کے بارے سوچنا ہوگا کہ اگر ہم صرف منفی خبروں کو اجاگر کریں گے
تو ہمارے وطن عزیز کے وقار میں کمی پیدا ہوسکتی ہے اور اگر انہی منفی
پہلوؤں کو پس پردہ ڈال کر مثبت اقدامات کو اجاگر کریں گے تو ہم اپنے ملک کی
عزت اور وقار میں اضافہ کر سکتے ہیں کیونکہ ملک کی عزت اور وقار ہی ہمارے
حق میں بہتر ہے اسی طرح اگر پیمرا کی بات کی جائے تو مجھے معتبر ادارے پر
فخر ہے کہ اس ادارے نے ہمیشہ الیکٹرانک میڈیا کو ایک دائرہ کار میں رکھا
اور جب بھی کسی نے اس دائرہ کار سے نکلنے کی کوشش کی تو پیمرا نے اس ادارے
کو بھاری جرمانہ یا بندش جیسی سزا دی اسی طرح APNS CPNE جو کہ پرنٹ میڈیا
کی مانٹرینگ کرتے ہیں انہوں نے بھی ہر اخبار کے دائرہ کار بنائے ہوئے ہیں
میری کسی ادارے سے کوئی ذاتی لگاؤ یا کوئی دشمنی نہیں میری آج کی تحریر کا
بنیادی مقصد صرف اتنا سا ہے کہ آجکل چند ایسے میڈیا ہاؤسز شعبہ صحافت میں
آگئے ہیں جو حکومتی یا سرکاری خبر کو اپنے چینلز پر شائع یا پرنٹ کرنا شائد
گناہ سمجھتے ہیں لیکن ان کے منفی کام یا غلطی کو فوری طور پر بریک کرنا
اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں اِن کو یہ بات سوچنا ہوگی کہ غیر ممالک میں ایک
چھوٹی سی منفی خبر ہمارے لیے کئی مسائل پیدا کر سکتی ہے ایک معروف غیر ملکی
خاتون صحافی" کریستیان امان پور"کے ایک مشہور قول کے ساتھ اپنی تحریر کا
اختتام کروں گا امان پور کہتی ہیں کہ میں یقین کرتی ہوں کہ اچھی صحافت،
اچھا ٹیلی ویثرن، ہماری دنیا کو ایک بہتر جگہ بنا سکتے ۔ہمیں بھی اس قول پر
یقین کرنا چاہیے اور آپس کے لڑائی جھگڑوں کو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر
لانے کی بجائے خود ہی سلجھائیں٭٭٭ |