عاشقوں کا پوسٹ مارٹم حصہ دوم

ہمیں یہ سمجھ نہیں آرہا کہ لوک رومانی داستانوں کے نام نہاد ہیرو شادی شدہ خواتین کے عشق میں ہی کیوں مبتلا ہوتے ہیں؟ اور شادی شدہ خواتین کو بھی اور کوئی کام نہیں تھا کہ غیر مردوں سے تعلقات بناتی پھریں۔

گزشتہ مضمون میں ہم نے سوہنی ماہیوال اور ہیر رانجھا کی داستانوں کا پوسٹ مارٹم کیا تھا۔ اب ہم ذکر کریںگے شیریں فرہاد اور لیلیٰ مجنوں کا۔ اگر شیریں فرہاد اور لیلیٰ مجنوںکی بات کی جائے تو ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ جب ہم نے اس قصے کی کھوج لگائی تو حیرت انگیز انکشاف یہ ہوا کہ شیریں فرہاد کی داستان تو دراصل شیریں اور خسرو پرویز کے عشق کی طویل داستان کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے، یار لوگوں نے خسرو اور شیریں کی داستان کے اس چھوٹے سے حصے کو ایک الگ ہی رومانی داستان کا درجہ دیدیا۔

ہم شہنشاہِ ایران خسرو پرویز اور شیریں کے قصے کو چھوڑتے ہوئے اپنی توجہ صرف شیریں فرہاد کی طرف ہی رکھیں گے۔داستان کے مطابق شیریں ملک ساسان کی شہزادی جب کہ خسرو پرویز شہنشاہ ایران تھا، خسرو پرویز کی دو بیویاں تھیں، ایک شیریں اور ایک رومی شہنشاہ کی بیٹی مریم۔ گھریلو ناچاقی کے باعث ملکہ شیریں خسرو کا محل چھوڑ کر اپنے ملک ساسان میں جابیٹھتی ہے۔ ملک ساسان میں قیام کے دوران وہ ایک محل تعمیر کراتی ہے۔ اس محل کو تعمیر کرنے کے لیے ماہر ِ فن اور سنگ تراش فرہاد کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ فرہاد صاحب ملکہ شیریں کو دیکھتے ہیں ریشمہ خطمی ہوجاتے ہیں اپنا دل دے بیٹھتے ہیں۔ محل کی تعمیر کے بعد جب ملکہ شیریں فرہاد کو انعام دینا چاہتی ہیں تو وہ انعام لینے سے انکار کرکے ملکہ سے اظہارِ محبت کربیٹھتے ہیں۔ ملکہ شیریں بھی اس کی محبت کا دم بھرنے لگتی ہیں،۔

اب داستان کے مطابق فرہاد گلی محلوں میں شیریں شیریں پکارتے پھرتے ہیں۔ ملکہ شیریں کے مشیر اسے بتاتے ہیں کہ اس طرح تو آپ بدنام ہوجائیں گی، ملکہ فرہاد کو بلا کر اسے اس کام سے باز آنے کی تنبیہ کرتی ہیں، فرہاد کے انکار پر ملکہ اسے پیشکش کرتی ہیں کہ اگر وہ گلیوں محلوں میں ملکہ شیریں کا نام لینا بند کردے تو ملکہ ہفتے میں ایک دن اس سے شہر سے دور ایک ویرانے ( کوہِ بے ستون) میں ملاقات کرنے آجایا کریں گی۔ فرہاد اس پر رضامندی کا اظہار کردیتا ہے۔

اس طرح ملکہ شیریں اور فرہاد کی ہفتہ وار ملاقاتیں شروع ہوتی ہیں، دوسری جانب خسرو کے جاسوس اسے اطلاع دیتے ہیں کہ ملکہ شیریں اس سے بےوفائی کی مرتکب ہورہیں، خسرو سارے معاملے کی تحقیقات کے بعد اپنے مشیر کے مشورے سے ایک بڑھیا کو فرہاد کے پا س بھیج دیتا ہے جو کہ اسے شیریں کی موت کی جھوٹی خبر سناتی ہے، یہ خبر سنتے ہیں فرہاد شدت غم سے نڈھال ہوجاتا ہے اور اپنا تیشہ اپنے ہی سر پر مار کر خود کشی کرلیتا ہے۔( بعض جگہ یہ لکھا ہے کہ وہ کوہِ بے ستون کی چوٹی سے خود کو گرا دیتا ہے۔)

یہ اس داستان کا خلاعصہ ہے۔ اب ہمیں یہ سمجھ نہیں آرہا کہ لوک رومانی داستانوں کے نام نہاد ہیرو شادی شدہ خواتین کے عشق میں ہی کیوں مبتلا ہوتے ہیں؟ اور شادی شدہ خواتین کو بھی اور کوئی کام نہیں تھا کہ غیر مردوں سے تعلقات بناتی پھریں؟؟ فرہاد ، رانجھا اور ماہیوال یہ تینوں بے غیرت انسان دوسروں کی بیگمات سے عشق کی پینگین بڑھاتے ہیں اور ان بے حیا لوگوں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ہم نے جتنا بھی اس معاملے پر غور کیا تو اس نتیجے پر پہنچے کہ دراصل یہ ساری داستانیں جھوٹی اور من گھڑت ہیں کیوں کہ اس گئے گزرے معاشرے میں بھی شادی شدہ خاتون کا غیر مرد سے تعلقات استوار رکھنا اور کسی مرد کا بھی شادی شدہ خاتون سے عشق لڑانا انتہائی معیوب بات سمجھی جاتی ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ قدامت پرست معاشرے میں ایسی فضول روایات پروان چڑھ سکیں۔

تو پھر یہ داستانیں کہاں سے آگئی ہیں؟ ان کے مقاصد کیا ہیں؟ جہاں تک ہمارا مطالعہ ہے ، ہم نے یہ دیکھا ہے کہ ان نام نہاد رومانی داستانوں کو صوفی ازم سے جوڑ دیا جاتا ہے، اگر ان کی مخالفت کی جائے تو فوراً اعتراض جڑ دیا جاتا ہے کہ محبت کوئی بری چیز نہیں ہے، محبت تواللہ نے بھی اپنے رسول سے کی ہے۔( نقل کفر کفر نہ باشد کے مصداق یہ ہمارے خیالات نہیں ہیں بلکہ ان داستانوں کے حمایتیوں کا قول ہے۔)اس کے علاوہ ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ عشقِ حقیقی کے لیے عشقِ مجازی کرنا ضروری ہے۔یہ ساری انتہائی فضول قسم کی باتیں ہیں۔ نہ تو ایسے بے ہودہ عشق کا عشقِ حقیقی سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی صوفیا کرام کبھی ایسے قبیح فعل کے مرتکب ہوئے ہیں اور نہ ہی کبھی انہوںنے ایسے فضول اور بے ہودہ کاموں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ حضرت خواجہ جنید بغدادی ؒ، بابا فرید گنجِ شکرؒ ، سید علی ہجویری ؒ المعروف داتا صاحب، سید احمد حسینی گیسو دراز بندہ نواز ؒ، حضرت خواجہ شمس تبریزی ؒ اور کسی بھی صوفی بزرگ کی سیرت کا مطالعہ کیا جائے تو پتا چلے گا کہ ان کی ساری زندگی شریعت کی پابندی ، پرہیز گاری ، بندگانِ خدا تک دین کی دعوت پہنچانے اور انسانیت کی خدمت میں گزری، مذکورہ بالا کسی بھی بزرگ سے ایسی کوئی بھی داستان یا اس کی حوصلہ افزائی کی کوئی بات نہیں ملتی تو پھر یہ کون سے صوفی ہیں جو عشقِ حقیقی کے لیے اسے بے ہودہ کام کی ترغیب دیتے ہیں؟

جواب ہے کہ جدید جاہلیت ( کمیونزم، سیکولرازم لبرل ازم، روشن خیالی) کے پروردہ لوگ چونکہ نہ تو دینی شعائر کی پاسداری کرسکتے ہیں اور نہ ہی اپنے نفس کی بندگی چھوڑ سکتے ہیں،اسی لیے اس طبقے نے اپنی نفس پرستی کو صوفی ازم کے پردے میں چھپانے کی مذموم کوشش کی ہے ۔ یہ لوگ چونکہ خود دینی شعائر کے پابند نہیں ہیں اور سیرتِ نبوی یا سیرتِ صحابہؓ سے ایسی کوئی مثال نہیں پیش کرسکتے کہ کسی نے دینی شعائر کو چھوڑا ہو، اس لیے پھر وہ صوفی ازم کی بات کرتے ہیں ، ان کے لیے صوفی کا اسلام بہت پرکشش ہوتا ہے کیوں کہ یہ ان کا خود ساختہ ہوتا ہے۔اب یہ طبقہ کیا کرتا ہے کہ اپنی ساری فضولیات و خرافات کو صوفی اسلام کا نام دے کر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔( حالانکہ کسی بھی صوفی بزرگ کے حوالے سے کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ وہ شریعت کے پابند نہ ہوں)

اب آپ کو اس طبقے کی ایک اور منافقت بتاتے چلیں کہ یہی طبقہ جو عشق و محبت کے حوالے سے اللہ رب العزت اور صوفیائے کرام کا نام استعمال کرتا ہے، عشقِ نبی کے حوالے سے انتہائی متعصب واقع ہوا ہے اور عاشقان رسول کی مخالفت میں پیش پیش رہتا ہے۔ یہی طبقہ ہے جو توہین رسالت کا قانون کا مخالف ہے، یہی طبقہ قادیانیوں کا حامی ہے۔ ان معاملات میں جب عشق نبی کی بات کی جائے تو پھر یہ طبقہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگتا ہے۔

عاشقوں کا پوسٹ مارٹم کرنے کا ہمارا مقصد بھی یہی تھا کہ عشق و محبت کی داستانوں کی آڑ میں جو اخلاقی برائیاں پھیلائی جارہی ہیں اس کو سامنے لایا جائے۔ اس بات پر بھی غور کریں کہ ساری داستانوںکے ہیرو ہیروئن شادی شدہ ہیںاور لبرل ازم کے حامی بھی نہ صرف یہ کہ اس بات کے قائل ہیں بلکہ یہ اس طبقے کا عمومی رویہ بھی ہے اور میڈیا پر بھی کافی عرصے سے اسی حوالے سے ڈرامے وغیرہ پیش کیے جارہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان باتوں کو سمجھیں اور لوگوں کو بھی اس حوالے سے آگاہی دیں۔

Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1449005 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More