جب زندگی شروع ہوئی۔۔۔۔۔ حصہ ١۵

فرشتے آسمان سے اترتے جاتے اور دائرہ در دائرہ ہاتھ باندھ کر مؤدب انداز میں کھڑ ے ہوتے جاتے ۔ ہر لمحہ ان کی تعداد بڑ ھتی جا رہی تھی۔ اس دوران میں لوگوں کی چیخ و پکار بھی تھم چکی تھی۔ ہر شخص پھٹی آنکھوں سے ٹکٹکی باندھ کر اسی سمت دیکھے جا رہا تھا۔ اب فضا میں بس کچھ سرگوشیوں کی سرسراہٹ ہی باقی رہ گئی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہر شخص اپنے برابر والے سے پوچھ رہا تھا کہ یہ کیا ہورہا ہے ؟
مجھے قدرے اندازہ تھا کہ یہ کیا ہورہا ہے ، لیکن پھر بھی میں نے صالح سے وضاحت چاہی۔ اس نے حسب توقع جواب دیا:

’’حساب کتاب شروع ہورہا ہے ۔ بارگاہِ احدیت کا دربار سجایا جا رہا ہے ۔ یہ اس کا پہلا مرحلہ ہے ۔ فرشتے مسلسل اتر رہے ہیں اور کافی دیر تک اترتے رہیں گے ۔ اس کے بعد سب سے آخر میں حاملین عرش اتریں گے ۔ تم تو ان سے مل چکے ہو۔ وہ اُس وقت چار تھے ۔ اب چار مزید ان میں شامل ہوجائیں گے ۔ کل آٹھ فرشتے عرش الٰہی کے ساتھ نازل ہوں گے۔‘‘

عرش الٰہی‘۔ میں نے زیر لب ان الفاظ کو دہرایا۔ صالح نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا:’’تم تو سمجھ سکتے ہو، اللہ تعالیٰ عرش پر بیٹھتے نہیں ہیں ۔ وہ اس طرح کے تمام انسانی تصورات سے پاک ہیں ۔ یہ عرش اصل میں مخلوق کے رجوع کرنے کی جگہ ہے ۔ جیسے دنیا میں بیت اللہ ہوا کرتا تھا بطور قبلہ۔ اللہ کے گھر کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ وہاں رہتے تھے ۔ لیکن انسان اس کی طرف جب رخ کرتا تھا تو اس کے لیے وہ ایک مقامِ رجوع بن جاتا تھا۔ اسی طرح آج عرش الٰہی کے ذریعے سے لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ مکالمہ کریں گے ۔‘‘
میں نے پوچھا:
’’گویا لوگ اللہ تعالیٰ کی بات سنیں گے ؟‘‘
صالح نے کہا:

’’ہاں ، ویسے ہی جیسے حضرت موسیٰ نے طور کی وادی میں ایک درخت کے اندر سے اللہ تعالیٰ کی آواز آتے ہوئے سنی تھی۔ اور ہاں عبداللہ ایک بہت خاص بات بھی سن لو۔‘‘
میں پوری طرح متوجہ تو تھا ہی لیکن اب یکسوئی سے اسے دیکھنے لگا۔
’’حاملینِ عرش کے نزول کے ساتھ ہی عرش نور الٰہی کی تجلی سے جگمگا اٹھے گا۔ جس کے ساتھ پوری زمین پر اس نور کا اثر پھیل جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ زمین اپنے رب کے نور سے روشن ہوجائے گی اور معاملات اب براہِ راست اللہ تعالیٰ کی اپنی نگرانی میں انجام پانا شروع ہوجائیں گے ۔ یہ مطلب ہے قرآن کریم کی اس بات کا کہ زمین کو خدا اپنی مٹھی میں لے لے گا۔ اس وقت پہلا حکم یہ دیا جائے گا کہ ہر شخص اللہ تعالیٰ کے حضور سجدے میں گرجائے ۔ عبد اللہ! اس وقت بہت عبرت ناک منظر سامنے آئے گا۔ تم دیکھو گے کہ سارے فرشتے سجدے میں ہوں گے ۔ عرش کے داہنے ہاتھ کی طرف عرشِ الٰہی کے مامون سائے میں موجود سارے انبیا، صدیق، شہدا اور صالحین، سب سجدے میں ہوں گے ۔‘‘
میں نے بے اختیار پوچھا:
’’اور یہاں حشر کے میدان میں موجود لوگ؟‘‘
’’اہم اور عبرت ناک بات یہی ہے ۔ یہاں موجود کوئی کافر، منافق، خدا کا نافرمان اور مجرم سجدے میں نہیں جا سکے گا۔ یہ لوگ لاکھ کوشش کریں گے کہ سجدے میں گرجائیں ، مگر ان کی کمر اور گردن تختہ ہوجائے گی۔ زمین انہیں اپنی طرف آنے سے روک دے گی۔‘‘

’’اور باقی لوگ؟‘‘، میں نے پوچھا۔
صالح بولا:

’’وہ لوگ جن کے اعمال ملے جلے اور گناہ کم ہوں گے وہ سجدے میں چلے جائیں گے ۔ اور اسی وجہ سے ان سب کو فوراً حساب کتاب کے لیے بلالیا جائے گا۔ باقی جس کا ایمان جتنا پختہ اور اعمال جتنے اچھے ہوں گے وہ اتنا ہی جھک سکے گا۔ کوئی رکوع میں ہو گا، کوئی آدھا جھکا ہو گا۔ کوئی بس گردن ہی جھکا سکے گا۔ جو جتنا کم جھکے گا وہ اتنا ہی خوار ہو گا۔‘‘
میں بات سمجھتے ہوئے سر ہلا کر بولا:
’’اچھا اس کا مطلب ہے کہ لوگوں کو اس وقت اپنے مستقبل کا کسی قدر اندازہ ہوجائے گا۔‘‘صالح نے کہا:
’’نہیں ، تمھیں یہ باتیں میں بتا رہا ہوں ، انہیں یہ اندازہ نہیں ہو گا۔ البتہ سجدہ نہ کرنے پر ذلت کا احساس اور کرنے پر ایک نوعیت کا اطمینان ہوجائے گا۔ البتہ لوگ یہ اچھی طرح جان لیں گے کہ خدا کون ہے ؟ جس ہستی کو بھلا کر زندگی گزاری تھی وہ کون ہے ؟ آج لوگوں کو معلوم ہوجائے گا کہ بادشا ہوں کا بادشاہ کون ہے ؟ شہنشا ہوں کا شہنشاہ کون ہے؟ کون معبود برحق ہے ؟ کون ہے جس کا اقتدار اس کائنات پر قائم ہے ؟ کون ہے جس کے ہاتھ میں کل بھلائی اور تمام خیر ہے ؟ کون ہے جس کے اشارے سے تقدیر بن اور بگڑ سکتی ہے ؟ کون ہے جو ہر شخص سے ہر عمل کے بارے میں پوچھ سکتا ہے مگر اُس سے اس کے کسی فیصلے کے بارے میں کچھ نہیں پوچھا جا سکتا؟ کون ہے جو ہر حمد، ہر شکر، ہر قیام، ہر رکوع، ہر سجدے ، ہر نیاز، ہر عاجزی، ہر محبت، ہر تسبیح اور ہر ہر تکبیر کا مستحق ہے ؟ تعالیٰ شانہ۔ اللہ اکبر۔ اللہ اکبر۔ اللہ اکبر۔‘‘

یہ الفاظ کہتے ہوئے صالح کے جسم پر ایک لرزہ طاری ہو گیا اور آخری اللہ اکبر کہتے ہوئے وہ سجدے میں گرگیا۔ اسی لمحے مجھے محسوس ہوا کہ زمین پر ایک خاص نوعیت کی روشنی پھیل چکی ہے ۔ ماحول ایک خاص قسم کے نور سے جگمگا اٹھا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی کانوں میں فرشتوں کی تسبیح و تہلیل، حمد و شکر اور تمجید و تکبیر کی صدائیں آنے لگیں ۔

مجھے اندازہ ہو گیا کہ عرش الٰہی کی تجلیات سے ماحول منور ہو چکا ہے ۔ مگر میں اس پورے عمل میں نظر جھکا کر کھڑ ا رہا تھا۔ ڈر کے مارے میں نے عرش کی طرف دیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی۔

کچھ دیر نہ گزری تھی کہ میرے کانوں نے جبریل امین کی مانوس مگر انتہائی بارعب آواز بلند ہوتی سنی:
’’لمن الملک الیوم (آج کے دن بادشاہی کس کی ہے ؟)۔‘‘
جواب میں سارے فرشتے پکار اٹھے :
’’للہ الواحد القہار (تنہا غالب رہنے والے اللہ کی)۔‘‘
جبریل امین یہ سوال بار بار دہراتے اور ہر بار فرشتے باآواز بلند یہی جواب دیتے ۔ اس عمل نے میدان حشر میں ایسا حشر برپا کر دیا کہ دل لرزنے لگے ۔ آخر کار ایک صدا بلند ہوئی: ’’الرحمن کے بندے کہاں ہیں ؟ پروردگار عالم کے غلام کہاں ہیں ؟ اللہ جل جلالہ کو اپنا معبود، اپنا بادشاہ اور اپنا رب ماننے والے کہاں ہیں ؟ وہ جہاں بھی ہیں خداوند سارے جہان کے رب کے حضور سجدہ ریز ہوجائیں ۔۔۔‘‘ یہ سننا تھا کہ میں کچھ دیکھنے کی کوشش کیے بغیر ہی صالح کے برابر میں سجدہ ریز ہو گیا۔

میدان حشر میں یک دم خاموشی چھا گئی۔ ایسا سناٹا تھا کہ سوئی بھی زمین پر گرے تو اس کی آواز بھی سب سن لیں ۔ میں نے سجدے کے عالم میں جتنی عافیت اس لمحے محسوس کی زندگی میں کبھی محسوس نہ کی تھی۔ دوسروں کا تو نہیں معلوم کہ وہ سجدے میں کیا کہہ رہے تھے ، مگر میں اس لمحے زار و قطار اللہ تعالیٰ سے درگزر اور معافی کی درخواست کر رہا تھا۔

نہ جانے کتنی دیر تک ہُو کا یہ عالم طاری رہا۔ اس کے بعد اچانک ایک صدا بلند ہوئی:
’’ھو اللہ لا الہ الا ھو۔‘‘
مجھے پہلے بھی اس کا تجربہ تھا کہ حاملینِ عرش کے اس اعلان کا مطلب مخاطبین کو یہ بتانا ہوتا ہے کہ اب صاحبِ عرش کلام کر رہا ہے ۔ آواز آئی:
’’میں اللہ ہوں ۔ میرے سوا کوئی معبود نہیں ۔‘‘

یہ الفاظ وہی تھے جو میں نے عرش کے قریب سجدے میں پہلی دفعہ سنے تھے ، مگر یہ آواز اُس آواز سے قطعاً مختلف تھی۔ اِس آواز میں جو جلال، تحکم اور سختی تھی وہ اچھے اچھوں کا پتہ پانی کرنے کے لیے بہت تھی۔ لمحہ بھر کے لیے ایک وقفہ آیا جو چار سو پھیلے ہوئے مہیب سناٹے سے لبریز تھا۔ اس کے بعد بادلوں کی کڑ ک جیسی انتہائی سخت اور گرجدار آواز بلند ہوئی:’’انا الملک این الجبارون؟ این المتکبرون؟ این الملوک الارض؟‘‘ ’’میں ہوں بادشاہ۔ کہاں ہیں سرکش؟ کہاں ہیں متکبر؟ کہاں ہیں زمین کے بادشاہ؟‘‘

یہ الفاظ بجلی بن کر کوندے ۔ لوگوں نے اس بات کا جواب تو کیا دینا تھا ہر طرف رونا پیٹنا مچ گیا۔ اس آواز میں جو سختی، رعب اور ہیبت تھی اس کے نتیجے میں مجھ پر لرزہ طاری ہو گیا۔ مجھے زندگی کا ہر وہ لمحہ یاد آ گیا جب میں خود کو طاقتور، بڑ ا اور اپنے گھر ہی میں سہی، خود کو سربراہ سمجھتا تھا۔ اس لمحے میری شدید ترین خواہش تھی کہ زمین پھٹے اور میں اس میں سماجاؤں ۔ میں کسی طرح خدا کے قہر کے سامنے سے ہٹ جاؤں ۔ انتہائی بے بسی کے عالم میں میرے منہ سے یہ الفاظ نکلے :’’کاش میری ماں نے مجھے پیدا ہی نہ کیا ہوتا۔‘‘

اس کے ساتھ ہی میرے دل و دماغ نے میرا ساتھ چھوڑ دیا اور میں بے ہوش ہو کر زمین پر گرگیا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Owais
About the Author: Owais Read More Articles by Owais: 27 Articles with 28520 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.