برطانیہ سے تعلق رکھنے والی انگریزی زبان کی ممتاز ادیبہ
،نقاد اورادبی تھیورسٹ کیتھرین بیلسی 13نومبر1940کو پیدا ہوئی۔ عملی زندگی
میں وہ شعبہ تدریس سے وابستہ ہوئی اور انگریزی زبان و ادب کی خدمت میں
مصروف ہو گئی۔وہ سال1883 میں قائم ہونیوالی پبلک سیکٹر جامعہ’’ کارڈیف
یونیورسٹی‘‘ (Cardiff University) ویلز (بر طانیہ)کے مرکز برائے تنقید و
ثقافت کی صدر (1988-2003)رہی۔ سال 1980میں اس کی اہم کتاب ,,Critical
Practice,,شائع ہوئی۔اس کے بعد اس نے سال 1920میں قائم ہونے والی بر طانیہ
کی پبلک سیکٹر یونیورسٹی ’’سوانسی یونیورسٹی‘‘(Swansea University) میں نو
سال تک (2006-2014) تدریسی خدمات انجام دیں اور پروفیسر امریطس کے منصب پر
فائز ہوئی۔اس وقت ( اختتام سال2017)و ہ ڈربی یونیورسٹی(University of
Derby) میں انگریزی زبان کی وزٹنگ پروفیسرہے۔ اس کے علاوہ کیتھرین بیلسی کو
انگلش ایسو سی ایشن (English Association) اورلرنڈ سوسائٹی آ ف ویلز(
Learned Society of Wales) کا فیلو بھی مقرر کیا گیا ہے ۔عالمی شہرت کی
حامل اس فطین مضمون نگار،نفیس تھیورسٹ ،سخت گیر نقاد اور فصیح البیان ادیبہ
نے معاصر ادب میں جو ارفع مقام حاصل کیا ہے وہ اس کی محنت ،لگن اور عمیق
مطالعہ کا ثمر ہے ۔اس کی تحقیق و تنقید اکثرپس ساختیات سے وابستہ مسائل و
مضمرات کے مدار میں گھومتی ہے ۔ پس ساختیاتی فکر کو ثقافت،تاریخ اور تنقید
کے مختلف پہلوؤں سے دیکھتے ہوئے عملی زندگی میں ان کا تخلیق ادب سے انسلاک
ہمیشہ اس ادیبہ کا مطمح نظر ر ہا ہے ۔ اس کا منفرد اسلوب شرافت اور شائستگی
کا آئینہ دار سمجھا جاتاہے جو علم وادب سے وابستہ افراد،فلسفیوں،ماہرین
نفسیات،ادبی ناقدین اور مورخین کے لیے ایک مثال ہے ۔ہوائے جو ر و ستم میں
رخِ وفا کو فروزاں رکھنے والی اس زیرک ،فعال اور مستعد ادیبہ نے ابہام کی
کہر میں دھندلائے نظریات ،ابلق ایام کی گرد سے ڈھکے ہوئے ماضی کے
تصورات،مسلسل شکستِ دِل کے باعث پیدا ہونے والی بے تعلقی ،بے حسی اور
مایوسی کی مسموم کیفیات کے سم کے ثمر سے نجات حاصل کر کے حوصلے اور امید کی
شمع فروزاں رکھنے پر اصرار کیا۔اس نے بے عملی اور بے یقینی کے خلاف کھل کر
لکھا اور سدا عزم و یقین کو زادِ راہ بنانے کا مشورہ دیا ۔موضوعاتی تنوع
اور ندرت تخیل کیتھرین بیلسی کے اسلوب کا امتیازی وصف سمجھا جاتا ہے ۔کیتھرین
بیلسی نے ممتازیونانی فلسفی افلاطون(Plato :427BC-347BC))،ارسطو(Aristotle)،نطشے(Friedrich
Nietzsche)،دریدا (Jacques Derrida)،رولاں بارتھ (Roland Barthes) کے
اسالیب کی توضیح اور ان کے افکار پر تحقیق و تنقید کا حق ادا کر دیا ہے ۔
ماضی کی یادوں کے سحر میں کھو جانے اور ایام گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی
کے رسیا (nostalgia) کے شیدالوگوں کے طرز عمل پر اس نے گرفت کی اور واضح
کیا کہ بیتے لمحات کی یادوں کو سوہانِ روح بنانے اور اس طرح جی کا زیاں
کرنے سے کچھ حاصل نہ ہو گا۔ثقافت میں با لعموم اور ادب میں بالخصوص بد عتوں
اور اختراعات کے موضوع پر اس کی تحریریں حریت فکر کی مظہر ہیں ۔فرائیڈ کی
رد تشکیل اور مونا لیزا کی مسکراہٹ کے پس پردہ کار فرما دلیل بھی فکر و نظر
کے نئے دریچے وا کرتی ہے ۔ ان دنوں کیتھرین بیلسی کا قیام کیمبرج میں ہے ۔اس
کی تحقیق کا نیا موضوع مافوق الفطرت عناصر اور بُھوتوں کی کہانیاں ہیں ۔
کیتھرین بیلسی کی تصانیف:
1.Critical Practice (1980,2002)
2. The Subject of Tragedy :Identity and Difference in Renaissance Drama
(1985)
3. John Milton:Language,Gender,Power (1985)
4.Desire :Lover Stories in Western Culture(1994)
5.Shakespeare and the Loss of Eden (1999)
6.Poststructuralism :A Very Short Introduction (2002)
7.Culture and the Real (2005)
8.Why Shakespeare? (2007)
9.Shakespeare In Theory and Practice (2008)
10.A Fututre for Criticism (2011)
11.Romeo and Juliet : Language and Writing (2014)
12.Criticism (2016)
اپنے ادبی سفر میں کیتھرین بیلسی نے نظریاتی استفسارات کو جس پر جوش انداز
میں زادِ راہ بنایا ہے وہ اس کی تحقیقی، تخلیقی و تنقیدی بصیرت کی دلیل
ہے۔اگر ہر تھوتھا چنا گھنا نہ باجے تو وہ تھوتھا کیسے کہلا سکتا ہے ؟بیسویں
صدی میں ذہنی افلاس اور مبتدیوں کے اناڑی پن نے گمبھیر صورت اختیار کر لی
۔بز اخفش قماش کے مسخروں کے مجنونانہ انداز کے مظہر نا صحانہ انداز نے پیرِ
تسمہ پا کی صورت میں رہ نوردان شوق کو جکڑ لیا اور فکر و خیال کی وادی میں
جہالت کے آسیب کا سایہ مسلط ہو گیا ۔چربہ ساز ،سارق،کفن دُزد اورگندم نما
جو فروش جہلا اور فاتر العقل سفہا کی حرص ،ہوس اور ندید ہ پن نے اہل درد کی
زندگی اجیرن کر دی۔ان حالات میں المیہ یہ ہوا کہ ہو ش و خرد سے تہی ان ننگ
انسانیت مُوذیوں کو لگام ڈال کر مخصوص طرز کے کھونٹے سے جکڑنے یا کسی خاص
عہد کے حصار میں پا بند کرنے کی کوئی صورت پیدا نہ ہو سکی۔ فکری اعتبار سے
ان پر آشوب حالات کے بارے میں کیتھرین بیلسی نے اپنے اشہب قلم کی خوب جو
لانیاں دکھائی ہیں ۔ قدیم اور جدید دور میں جو ادب تخلیق ہوا ،اس کے بارے
اپنے توضیحی مضامین میں اس ادیبہ نے ہر صنف ادب کی جانچ پر کھ میں کمال صبر
و تحمل اور انتھک محنت کا ثبوت دیا ہے ۔ہر صنف ادب کی تحلیل ،تجزیہ اور
توضیح میں اس نے جن مقاصد کا تعین کیا انھیں رفعت کے اعتبار سے ہم دوشِ
ثریا کر دیا ۔اس سلسلے میں اس کا قلم نظم اور نثر کی ہر صنف کی توضیح
،تشریح ،تحلیل و تجزیہ پر بڑے پیمانے پر رواں دواں دکھائی دیتاہے۔اس نے
شیکسپئیر (William Shakespeare) کے ڈراموں، جان ملٹن ( John Milton) اورجان
ڈون(John Donne)کی شاعری، کو نان ڈوئل (Conan Doyle )کے افسانوں ،تھامس
مالوری( Thomas Malory,)، الفرڈ لارڈ ٹینی سن (Alfred Lord Tennyson) اور
چریٹن ڈی ٹروئیز (Chretien de Troyes ) کے رومانس اورجرمن شاعر ،ڈرامہ نگار
اور تھیٹر ڈائریکٹر برٹولڈ بریخت (Bertold Brecht)کے علاوہ بہت سے دوسرے
ادیبوں کے اسلوب پر جو وقیع کام کیا ہے وہ اس کی تنقیدی بصیرت کا منھ بو
لتا ثبوت ہے ۔کلاسیکی ادب کے علاوہ قدیم و جدید تنقید پر بھی اس کے فکر و
خیال کی دنیا نہایت وسیع ہے ۔اس نے افلاطون (Plato)، ارسطو(
Aristotle)،سڈنی(Philip Sidney)،کانٹ (Immanuel Kant)،ہیگل(Georg Wilhelm
Friedrich Hegel)، سگمنڈفرائیڈ(Sigmund Freud)،ژاک لاکاں (Jacques Lacan)،
لوئیزآلتھیوسر ( Louis Althusser)، پئیرماشیرے ( Pierre Macherey)، ایف ۔آر
لیویس (F. R. Leavis)، سٹینلے فش (Stanley Fish) اور سو سئیر( Ferdinand de
Saussure) پر خیال افروز مباحث کو پروان چڑھانے کی سعی کی۔کیتھرین بیلسی نے
حرف صداقت لکھنا اپنا شعار بنا رکھا ہے اور ہمیشہ توازن و اعتدال کی راہ
اپنائی ہے ۔کیتھرین بیلسی کا مضبوط و مستحکم انداز ،پر جوش پیرایۂ اظہار،
پس ساختیات کی شکل میں ادبیات کی مغربی تھیوری کے ساتھ بصیرت کی آ ئینہ دار
قلبی وابستگی اور پر عزم ربط اُسے معاصر ادب میں ممتاز مقام پر فائز کرتا
ہے۔گزشتہ صدی کے ساتویں اور آ ٹھویں عشرے میں جب فکر وخیال کی دنیا میں
ہیجان ،اضمحلال اور محاذ آرائی میں شدت آ نے لگی تو کیتھرین بیلسی بھی اس
صورت حال سے بے نیا ز نہ رہ سکی ۔اس عہد نا پرساں کے اثرات اس کے اسلوب میں
نمایا ں ہیں ۔پس ساختیاتی فکر ،لسانیات اورموضوعیت کو کیتھرین بیلسی کے
افکار کے قصر عالی شان کی بنیاد سمجھنا چاہیے۔
کیتھرین بیلسی کی کتاب ’’ Critical Practice‘‘اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس
میں پس ساختیاتی تھیوری اورادبی تنقید کے بارے میں مدلل گفتگو کی گئی ہے
۔مصنفہ نے متن میں معنی خیزی کے عمل کے بارے میں صراحت کرتے ہوئے اس جانب
متوجہ کیا ہے کہ یہ دیکھنا چاہیے کہ متن میں معنی کس مقام پر نمو پاتے
ہیں؟کیا معنی خیزی کا عمل تخلیق کار کے ذہن کا مرہونِ منت ہے یا مفاہیم کے
سوتے قاری کی بصیرت سے پھوٹتے ہیں ؟یا دوران مطالعہ متن از خود اپنے معانی
منکشف کرنے پر قادر ہے ۔اگر متن میں پنہاں معانی از خود قاری پر اپنی اصلیت
کو آشکار کر دیتے ہیں تو پھر یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ مفاہیم کی ترجمانی کے
اس پورے عمل میں متن کے ساتھ ساتھ ہماری اپنی اقدار کا مجمو عی کردار کیاہے
۔کیتھرین بیلسی نے انسان اور لسان،متن اور قاری،تخلیقات اور ثقافتی سیاسیات
کے باہمی تعلق کا عمیق مطالعہ کیا ہے ۔اس نے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ
پس ساختیات کے سیاق و سباق سے متعلق کوئی بھی پیشگی علم ،یا تنقیدی
عملمعاصر تھیوری کی بھول بھلیوں میں حقائق کی منزل مقصود تک رسائی کے سلسلے
میں قاری کے لیے خضر ِ راہ ثابت نہیں ہوتا ۔کیتھرین بیلسی کے تنقیدی اسلوب
کی تابانیوں کا ہم پہلو یہ ہے کہ اس نے نہایت سادہ ،سلیس اور عام فہم
اندازمیں ممتاز نظریہ ساز ادیبوں کے اسلوب کی تشریح و توضیح پر اپنی توجہ
مرکوز رکھی ہے ۔اس نے دلائل سے ثابت کیا ہے کہ ادبی تھیوری کا زندگی کے
تمام اہم معاملات سے انسلاک ہے ۔یہی وہ پارس ہے جو فکر و خیال کی دنیا میں
سنگ ِ گراں کو گوہر ِ تاباں میں بدل سکتا ہے ۔ہمارے اعمال و افعال ،تحقیق و
تنقید ،مطالعہ اور تخلیق غرض ہر مر حلے پر اس کی موجودگی نا گزیر ہے ۔اسی
کے معجز نما اثر سے ثقافتی تجزیہ اور ادبی تنقید کے نئے امکانات پیدا ہوتے
ہیں۔ رد تشکیل اور تحلیل نفسی کے اشتراک سے پس ساختیات سے ایک اہم اور
بنیادی نوعیت کی تبدیلی کو تحریک ملتی ہے جس کا مطالعہ کی ترجیحات اور
توضیحات کے امکانات سے گہرا تعلق ہوتا ہے ۔ ثقافتی اورادبی تھیوری میں
دلچسپی رکھنے والوں سے یہ حقیقت مخفی نہیں کہ اس موضوع پر جو نا تھن کیولر
(Jonathan Culler)اور کیتھرین بیلسی نے جو کام کیا ہے وہ لائق تحسین ہے ۔
ان مصنفین نے جن نظریات کو پیشِ نظر رکھا ہے ان میں زبان،جنس ،جذبات ،علم
الابدان ، نفسیات اور سیا سیات شامل ہیں ۔ادب و ثقافت کے نظریہ کو زیر بحث
لانے کی سعی کے سلسلے میں جو ناتھن کیولر کی تصنیف’’Literary Theory:A very
Short Introduction‘‘ اپنے موضوع پر ایسی کتاب ہے جسے درجۂ استناد حاصل ہے
۔ سال 1997میں پہلی بار شائع ہونے والی اس کتاب کوعلمی و ادبی حلقوں کی طر
ف سے زبر دست پذیرائی ملی ۔ اس کتاب کے بعد کیتھرین بیلسی کی تصنیف ’’
Critical Practice‘‘نے قارئین کی توجہ حا صل کر لی۔ اس نے قارئین کو اس
جانب متوجہ کیاکہ ادب وثقافت سے وابستہ تھیوری کو ایسی معکوس فعالیت سمجھنا
چاہیے جو افکار کے بارے میں سوچ اور اس کے اظہار کی مختلف اقسام کو اساسی
اہمیت کا حامل قرار دیتی ہے ۔
اپنے توضیحی و تنقید ی مضامین میں کیتھرین بیلسی نے تھیوری کو ایک تجزیاتی
اور قیاسی اقدام سے تعبیر کیا جو جنس ،جذبات،احساس و ادراک ،تخلیقی فعالیت
اور مفاہیم و موضوعات کے بارے میں مثبت شعور و آ گہی پروان چڑھانے کا موثر
وسیلہ ہے۔اپنے وقیع تجزیاتی مضامین میں کیتھرین بیلسی نے جن ممتاز نقادوں
کے اسلوب کا تجزیاتی مطالعہ کیا ہے ان میں لوئز التھسر(Louis
Althusser)،رولاں بارتھ (Roland Barthes)،ژاک لاکاں (Jacques Lacan)اور ژاک
دریدا (Jacques Derrida)کے نام بھی شامل ہیں۔اس نے ان نظریہ ساز ادیبوں کی
پیش کردہ تھیوری کی فعالیت کو اُجاگر کرنے کے لیے مانوس متون کے عمیق
مطالعہ کی راہ دکھائی اور اس امر کی صراحت کر دی کے یہی وہ فعالیت ہے جس کے
معجز نما اثر سے قطرے میں دجلہ اور جز و میں کل کا منظر قاری کو جہانِ تازہ
کی نوید سناتا ہے ۔ ادبی و ثقافتی تھیوری کے بارے میں یہ حقیقت فراموش نہیں
کرنی چاہیے کہ اس کا بین المضامیں ڈسکورس سے گہر ا تعلق ہے ۔یہ تعلق بیرونی
طور پر بھی اصل موضوع اور مضمون میں جلوہ گر دکھائی دیتا ہے۔اپنے مضامین
میں کیتھرین بیلسی نے تخلیقی عمل میں فطرت کے رنگ اور آ ہنگ بھی پیش نظر
رکھے ہیں ۔ اپنی نو عیت کے اعتبار سے تھیوری در اصل عقلِ عام اور ان نظریات
پر تنقیدسے عبارت ہے جنھیں فطری خیال کیا جاتا ہے ۔ پئیر ما شیرے کے اسلوب
کے تجزیاتی مطالعہ کے دوران کیتھرین بیلسی اس نتیجے پر پہنچی کہ رولاں
بارتھ نے مصنف کی موت کے حوالے سے جن خیالات کا اظہار کیا تھا وہ پیر ما
شیرے سے مماثل ہیں۔ رولاں بارتھ کی اہم تصنیف S/Z جو اس کی وفات کے بعد سال
1970 میں شا ئع ہو ئی ، اس کا عمیق مطالعہ کر نے کے بعد کیتھرین بیلسی نے
یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس کتاب کے مو ضو عات اس امر کے شا ہد ہیں کہ رولاں
بارتھ نے پیر ما شیرے سے گہرے اثرات قبول کیے ہیں۔ تخلیق و تحقیق اورنقد و
نظر کی فعالیت کو وسیع تر تناظر میں پیش کر کے اسے نئے امکانات سے آ شنا کر
نے میں کیتھرین بیلسی نے ہمیشہ گہری دلچسپی لی۔ پئیرما شیرے نے بیا نیہ کے
سلسلے میں تضاد کو نا گزیر قرار دیا ۔ جہاں تک متن کی تہہ میں نہاں حقائق
تک رسائی کا تعلق ہے تو یہ ایک ایسا معما ہے جس کی تفہیم اور تو ضیح ممکن
نہیں۔ یہاں گنجینہ معانی کا ایک ایسا طلسم موجود ہے جس کے سامنے عقل محو
تماشارہ جاتی ہے ۔اپنی بو قلمونی اور دھنک ر نگ مناظر کے ساتھ متن ایک ایسے
طلسم ِ ہوش رُبا کی صورت میں سامنے آتا ہے کہ قاری محو حیرت رہ جا تا
ہے۔یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ آغا ز سفر میں ہم جن
صداقتوں کو ٹوٹ کرچا ہتے ہیں سرابوں کے عذاب سہنے کے بعد سفر کے اختتام پر
ان کا سرا غ ملنے کی موہوم تو قع میں وقت گزر تا رہتا ہے۔ اس عالم آب و گل
میں سلسلہ روز و شب کس قد دراز ہے اس کا اندازہ اس امر سے لگا یا جاسکتا ہے
کہ اس آئینہ خانے میں صداقتوں کا منظر دیکھنے کی تمنا میں ہم خو د تماشا بن
کر رہ جاتے ہیں۔ کہیں صداقت نہاں ہے تو کہیں یہ عیاں ہے، یہ دھوپ چھاؤں کا
سلسلہ سرابوں کے سفر کا عجیب مر حلہ ہے۔ کیتھرین بیلسی نے واضح کیا کہ ادبی
و ثقافتی تھیوری ہی وہ کلید ہے جس کے ذریعے افکار و حوادث کے مقفل در کھلنے
لگتے ہیں۔ تخلیق کار کے افکارکے بارے میں غور و خوض اور نوائے سروش کے
مختلف رُوپ اور ادب کی مختلف اقسام کے بارے میں استفسارات،غیر وجدانی افعال
کا احوال پیش کرنا اس کا کمال ہے ۔
سال 1985 میں پہلی بار شائع ہونے والی اپنی کتاب ’’The Subject of
Tragedy‘‘میں کیتھرین بیلسی نے سو لہویں اور سترہویں صدی کے انگریزی ڈرامے
کے ارتقا پر تنقیدی نظرڈالی ہے ۔اس نے اس عہد کے افسانوی اور غیر افسانوی
ادب کی حقیقت پسندانہ مرقع نگاری کی ہے ۔ زبان کے اصل اور حقیقی مآخذ ، خود
ارادیت ،آزاد خیال انسانیت ،ترجیحات ،انتخاب اور افعال کے بارے میں مصنفہ
نے اپنے موقف کو مدلل انداز میں پیش کیا ہے ۔اس کتاب میں خواتین کی زندگی
اور ان کو درپیش مسائل کے احوال میں قارئین نے بہت دلچسپی لی۔انسانیت کے
وقار اور سر بلندی کو اس نے ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا ۔ معاشرتی زندگی
میں افراد کے کردار اور جذبۂ انسانیت نوازی کو تاریخی تناظر میں دیکھتے
ہوئے کیتھرین بیلسی نے اس موضوع پر لکھا ہے :
,,The common feature of liberal humanism ,justifying the use of single
phrase,is a commitment to man,whose essence is freedom.Liberal humanism
proposes that the subject is the free ,unconstrained author of meaning
and action,the origin of history.Unified,knowing and autonomous,the
human being seeks a political system which gurantees freedom of
choice.Western liberal democracy,it claims,freely chosen,and thus
evidently the unconstrained expression of human nature was born in the
seventeenth century with the emergence of the individual and the victory
of constitutionalsim in consecutive English revolutions of the 1640s and
1688.,, (1)
ناول کا تجزیاتی مطالعہ کیتھرین بیلسی کا خاص شعبہ سمجھا جاتا ہے اس کے
علاوہ ادبی تحریکوں کے ارتقا پر کیتھرین بیلسی کی گہری نظر ر ہی ہے ۔اس کے
تجزیات کے مطالعہ کے بعد قاری یہ تاثر لیتا ہے کہ اگر ناول میں تجسس ،ہیجان
،تناؤ اور اضطراب کی کیفیات کو دیکھا جائے تو برطانوی ناول نگار انتھونی
ٹرولوپ (Anthony Trollope ) کو روسی ناول نگار ٹالسٹائی(Leo Tolstoy) کے
مقابلے میں ارفع مقام دینا ہو گا ۔ اگر مواد ،موضوع اور پیرایۂ اظہار کی
ترتیب و تنظیم کے حوالے سے جانچا جائے تو امریکی افسانہ نگار اور ناول نگار
جیمز گولڈکوزنز( James Gould Cozzens) کو جدیدیت کے علم برداربر طانوی شاعر
،افسانہ نگار ،ناول نگار اور ڈرامہ نگار ڈی ۔ایچ لارنس(D. H. Lawrence) سے
بلند منصب پر فائز دیکھیں گے ۔ تنقید ی مراحل میں اگر تخلیقی فن پارے میں
حرف صداقت ہی کو تعریف ،تحسین اور ستائش کا معیار سمجھ لیا جائے تو خامہ
انگشت بہ دنداں اور ناطقہ سر بہ گریباں دکھائی دے گا۔گزشتہ چھے عشروں سے
کیتھرین بیلسی نے جدیدیت ،ما بعد جدیدیت ،ساختیات ،پس ساختیات ،نئی تنقید
،روسی ہئیت پسندی اور رد تشکیل جیسے اہم موضوعات پر نہایت محنت اور
جانفشانی سے تحقیق و تجزیہ کا سلسلہ جاری رکھا ہے ۔گزشتہ صدی کے ساٹھ کے
عشرے میں علم و ادب کے شعبوں میں جو مد و جزر دیکھنے میں آیا وہ تاریخ ادب
کا اہم باب سمجھا جاتا ہے ۔اس موضوع پر کیتھرین بیلسی نے لکھا ہے :
,,By the 1960swell over a century later,expressive realism had been
subjected to a series of theoretical attacks,not only from the Russian
formalists,whose work was then relatively little known in the West,and
the Prague semioticians,who at that time appeared very esoteric
indeed,but also by the New Critics and Nortrop Frye,both powerful
influences within the Anglo-American tradition.,, (2)
پس ساختیات کے حوالے سے کیتھرین بیلسی کا خیال ہے کہ شاعری ،ڈرامہ ،افسانہ
،ناول اور فلم کے رائے عامہ کی تشکیل میں دُور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں مگر
جد ید دور میں ان کا مقام متعین کرنا مشکل کام ہے ۔ان اصنا ف ادب کے ارتقا
میں متعد دسخت مقام آ ئے اور شدید مشکلات کاسامنا کرنا پڑا ۔ کیتھرین بیلسی
نے ان اصناف ادب کو تناقضات سے لبریز سمجھتے ہوئے ان پر توجہ مرکوز رکھی ہے
۔مغربی معاشرے میں تمناؤں میں اُلجھ جانا معمول کی بات ہے ۔ جب کوئی اُمید
بر نہ آئے اور اصلاح احوال کی کوئی صور ت دکھائی نہ دے توہجومِ یاس میں
سینہ و دِل حسرتوں سے چھا جاتا ہے اور انسان بے حد گھبرا جاتا ہے ۔ اس کے
بعد ایک مر حلہ ایسا بھی آ تا ہے کہ مسلسل شکستِ دِل اور مایوسیوں کی تیر
انداز ی کے باعث آ رزوئیں مات کھا کر رہ جاتی ہیں۔دِل بے تاب کی سیکڑوں
اُمنگیں آنسوؤں کے سیل رواں میں بہہ جاتی ہیں۔بہ قول شاعر:
نا اُمیدی بڑھ گئی ہے اس قدر
آرزو کی آ رزو ہونے لگی
سال 1994میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ’’ Desire: Love Stories in Western
Culture‘‘ میں کیتھرین بیلسی نے حقیقی محبت ،بے لوث ایثار اور رومان کے
موضوع پر کئی چشم کشا صداقتوں کی جانب متوجہ کیا ہے ۔ محبت میں شکوک و
شبہات ،ترک و انتخاب اور تنہا تنہا رہنا عجب گُل کھلاتاہے ۔ ناکام محبت میں
اُجڑے ہوئے لوگ تو حالات کے کتبے بن جاتے ہیں،اِن سے گریزاں رہنا ایسی
شقاوت آمیز نا انصافی ہے جسے کوئی بھی پسند نہیں کرتا ۔ کیتھرین بیلسی نے
اس کتاب میں بارہویں صدی کے فرانسیسی شاعر چرٹن ڈی ٹروئس (Chrétien de
Troyes)،تھامس مارلے(Thomas Malory)،ایڈ منڈ سپنسر (Edmund Spenser)، جان
ڈون(John Donne)، جان کیٹس (John Keats)، ایڈگر ایلن پو (Edgar Allan
Poe)،ٹینی سن (Alfred, Lord Tennyson) اور برام سٹوکر (Bram Stoker )کے
اسلوب میں پائی جانے والی ماضی کی یاد ،محبت کی فریاد اورمحبوب کی بے داد
کو دریافت کر کے کیتھرین بیلسی نے ایام گزشتہ کی کتاب کے متعد د اوراق سے
قارئین کو متعارف کرایا ہے ۔ارسطو کی مثالی تحریروں میں پائی جانے والی
محبت بھری تحریروں کا احوال بھی ان میں شامل ہے ۔ اس کتاب میں تھامس مور
(Thomas More)،ولیم مورس (William Morris)کی تحریروں کا تجزیاتی مطالعہ فکر
و خیا ل کے نئے دریچے وا کرتا ہے ۔ایسے مصنفین جن کی تحریروں پر تانیثیت کے
غلبہ کا گمان گزرتا ہے انھیں بھی اس کتاب میں شامل کیا گیا ہے ۔ امریکہ کی
ممتاز فیمینسٹ ماہر عمرانیات چارلٹ پرکن گلماس(Charlotte Perkins Gilman)سے
لے کر امریکی شاعرہ ،ناول نگار ،سماجی کارکن مارج پئیرسی (Marge Piercy)اس
کتاب میں شامل ہیں۔
پس ساختیاتی تھیوری کی تشریح اور اس کے مسائل و مضمرات کی تفہیم پر کیتھرین
بیلسی نے جو کام کیا ہے وہ ہر اعتبار سے قابل قدر ہے ۔ ثقافتی تنقید کو
اپنے اسلوب میں نمایا ں جگہ دے کر اس نے ثابت کر دیا ہے کہ اس کی وسعت اور
جامعیت کا اعتراف نہ کرنا حقائق سے شپرانہ چشم پوشی کے مترادف ہے ۔ اس کا
خیال ہے کہ تنقید خود کو فنون لطیفہ اور اصنا ف ادب (جن میں ناول ،ڈرامہ
اورشاعری شامل ہیں ) کے حصار میں مقید نہیں رکھتی بل کہ اس کا دائرۂ عمل
بہت وسیع ہے ۔اس وسیع کا ئنات کی ہر چیز ایک عظیم ہستی کی تخلیق ہے اور جب
بھی کوئی تخلیق وجود میں آتی ہے اس پر گہری نظر رکھنے والے بھی موجود ہوتے
ہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ صدیوں سے ہماری معاشرتی زندگی میں موسیقی اور فنون
لطیفہ سے وابستہ نقاد موجود رہے ہیں ۔ یہ امر تنقید کی قدامت اور اہمیت کا
ثبوت ہے کہ ہر دور میں اس کے آ ثار ملتے ہیں۔ کیتھرین بیلسی نے پس ساختیاتی
فکر اور اس سے وابستہ اقدار کو ثقافتی تاریخ اور ادبی تنقید سے ہم آ ہنگ
کرنے کی مقدور بھر کوشش کی ہے ۔ وضاحتی قوت سے لبریزاس کی اہم تحریریں دانش
ورانہ تحقیق و تفحص اور ثمر بار تحقیقی جستجو کاحاصل سمجھی جاتی ہیں۔
مآخذ:
1.Catherine Belsey: The Subject of Tragedy,Routledge,London,1985,Page,8.
2.Catherine Belsey: Critical Practice,Routledge,London ,2001,Pge,9. |