چائے کے برتن سمیٹ کر جیسے ہی وہ کمرے میں داخل
ہوئی،،،بیڈ پر پڑا اسکا
سیل فون چینچتے چینختے اب پرسکون ہو چکا تھا،،،
اس نے آگے بڑھ کر سیل فون اٹھایا،،،احمر کی تین مسڈ کالز تھیں،،،اپنی
لاپروائی
پر خود کو کوستے ہوئے اس نے کال بیک کی،،،
‘‘ ہیلو احمر! کیسے ہو؟؟‘‘۔۔
کہاں تھیں آپ،،،کب سے کال کر رہا ہو،،،،اس نے پرشکوہ لہجے میں کہا،،،
آئی ایم سوری،،،باہر لاؤنج میں تھی،،،سیل روم میں تھا،،،
تم بتاؤکیسے ہو،،،گھر میں سب کیسے ہیں؟؟،،،،مایا نے تحمل سے پوچھا،،،
سب ٹھیک ہیں،،،اور بھاگ دوڑ میں لگے ہوئے ہیں آج کل،،،میرے ذمے گھر
کی خواتین کو بازار لانا اور لے جانا ہے،،،اس نے بے زاری سے کہا،،،
کیوں گھر میں کوئی فنکشن ہے کیا؟؟،،،مایا نے سرسری انداز میں پوچھا،،،
آپ کو نہیں پتا،،،،شاہ میر بھائی کی شادی ہے اگلے مہینےعنایہ آپی کے
ساتھ،،،
لمحہ بھر کو مایا کے ہاتھ کپکپائے،،،،پھر جلد ہی خود پر قابو پالیا،،،
اچھا میں بعد میں کال کرتا ہوں،،،اللہ حافظ،،،احمر نے جلدی سے کہا،،،پیچھے
سے شاید کسی نے اسے آواز لگائی تھی،،،
مایا کے کان سے لگے فون سے ٹوں ٹوں کی آواز آنے لگی،،،ہاتھ میں پکڑا فون
وہیں کا وہیں رہ گیا،،،،
کچھ دیر تک وہ اپنی فیلنگز کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگی،،، پر سوائے
لمحے بھر کی اداسی کے اور کوئی جذبہ اس کے دل میں نہ ابھر پایاتھا،،،
کبھی بھی شاہ میر کا اس کے ساتھ کوئی جذباتی تعلق نہ رہا تھا،،،جب سے وہ
یہاں آئی تھی،،،اس کی یاداشت میں کوئی اک لمحہ بھی ایسا نہیں آیا،،،کہ
جس میں اسے اس کا خیال بھی آیا ہو،،،
نہ کبھی اسے شاہ میر سےمحبت تھی،،،،
ہمیشہ شاہ میر کے رویے میں اس کے لیے بے زاری رہی تھی،،، اگر شادی ہو بھی
جاتی،،،تو ہمیشہ وہ اس کےسامنے دبی ہی رہتی،،،
کیسے وہ اپنی عزت نفس کو بھلا دیتی،،،جس میں عزت نفس نہ ہو،،،اس کا جینا
یا مرنا ایک ہے،،،اور انسان کو اپنی عزتِ نفس کو مجروع کرنے کا قطعی کوئی
حق
نہیں،،،سیل فون واپس رکھ کر وہ خود باہر نکل گئی،،،،جو نہیں تھے انہیں بھول
کر
جو تھے ان کے پاس۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)
|