پاکستانی سیاست میں مورثی سیاست بادشاہانہ انداز سے شروع
ہوئی تو پھر لاکھ کوششوں اور بعض سیاسی حلقوں کی جانب سے تحفظات کے اظہار
کے باوجود انتہائی تیزی سے اس کی رگ و پے میں سرائیت کرتی چلی جارہی ہے ،
گو کہ یہ زہر قاتل ہے لیکن ہمارے مخصوص سیاست دان جو کہ باقائدہ خاندان کی
صورت میں ملک کے سیاسی عمل پر مسلط ہوچکے ہیں اسے امرت سمجھ کر پئے جارہے
ہیں اور اپنے ہمنواؤں کو بھر بھر جام پلائے جارہے ہیں جبکہ کئی معروف سیاست
دان جو ہم نوالہ ہم پیالہ ہیں وہ اس کے نظریاتی سطح پر خلاف ہیں البتہ
پارٹی کی شہرت اور قائد کی فرمانبرداری کے باعث اس کڑوے گھونٹ کو پینے ہی
میں عافیت محسوس کرتے ہیں ۔ یہ ہمارے موجودہ نظام میں خرابی بھی ہے اور
ہمارے ملک کا المیہ بھی ہے تاہم گما ن کچھ غالب کا کرکے پئے جاتے ہیں ، جئے
جاتے ہیں ۔
ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد ضیاء الحق نے ایک دھائی کے لگ بھگ ملک
میں سیاسی نظام معطل رکھا البتہ سیاسی سطح پر آنے والے وقتوں کیلئے ایک
سندھ اور دوسری ملکی سطح پر سیاست کرنے والی جماعتوں کو پال پوس کر جوان
کیا کیونکہ ایک آزاد ریاست میں ممکن نہیں کہ ہمیشہ ہی سیاسی عمل معطل رکھا
جاسکتا ہے ۔ ضیاء الحق کے طیارہ حادثہ میں دنیا سے رخصت ہونے پر ملک س بھی
جزو وقتی آمریت دفن کردی گئی لیکن یہیں سے وراثتی سیاست کو پروان چڑھانے کی
بھر پور کوشش کی گئی ۔ ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی کو معصوم اور مظلوم
بناکر قوم کے سامنے پیش کیا گیا، یہ پیپلز پارٹی کی سیاسی چال تھی وگرنہ یہ
کیسے ممکن ہوسکتا تھا کہ جسے پاکستان کی سیاست ، اس کے حالات اور لوگوں سے
واقفیت سمیت ان کے حالات کا علم ہی نہ ہو وہ ملکی سطح پر سیاست کرسکتی ہے ،
اس با ت یہ اخذ کرلینا درست نہیں کہ پی پی پی میں سیاسی بصیرت کے حامل
لوگوں کی اس وقت کمی تھی یا وہ عوم کے قریب نہیں تھے بلکہ خیال یہ کیا
جارہا تھا کہ جو مقبولیت بھٹو صاحب نے اپنے دور میں حاصل کی تھی اور پھر ان
کی پھانسی اور جیالوں کے جیل جانے سے مقبولیت ملی تھی یہ وقت اس سے فائدہ
اٹھانے کا تھا تاہم عجلت میں عوامی رابطے ممکن نہ تھے لہٰذا پی پی پی نے اس
کارڈ کو کھیلنے کا سوچا ، کامیابی بھی میسر آئی لیکن ا س کے بعد عقل کل نہ
ہونے کے باعث بے نظیر بھٹو دو بار سب کچھ ہونے کے باوجود وزیر اعظم کے عہدے
سے برطرف کردی گئیں ۔بے نظیر جس طرھ کی سیاست سے واقف تھیں اس میں چور
بازاری ، بدعنوانی اور کرپشن کا کوئی لینا دینا نہیں تھا ، انہیں یہ بھی
اندازہ نہ ہوا کہ وہ ملک کی وزیراعظم اچانک سے کیسے بن سکتی ہیں ، وہ مظلوم
بناکر پیش کردی گئیں ، شہید کی بیٹی کے روپ میں عوام کے سامنے آئیں اور پھر
وہیں سے ملکی سیاست سیکھے بغیر کرنے لگیں ۔بی بی کی تقرریوں میں والد کا
تذکرہ سنا گیا ، شہداء اور سیاسی اسیروں کی فریاد کی بازگشت سنائی دی ،
عوام کے مسائل کا ذکر ہونے سے زیادہ اپنی مظلومیت اور باپ کی شفقت سے
محرومی کی نوحہ خوانی کی گئی تاکہ عوام کا دل پسیجے اور وہ پی پی پی کو
کامیاب کریں ۔ پارٹی کے مفاد پرستوں میں ان کے شوہر نامدار بھی مال سمیٹتے
رہے یہاں تک کہ وہ اپنی پارٹی کی جانب سے ملک کے صدر سے بدعنوان قرار پائیں
۔ ملک کے حالات سے مایوس ہوکر وہ از خود جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور
ہوئیں ، مشرف کے دور کے اختتام سے قبل وہ وطن لوٹیں لیکن قتل کردی گئیں ،
یہ پی پی پی کیلئے جہاں سانحہ تھا وہیں اگلی حکومت کے قیام کی نودی بھی تھی
۔ ہمارے ملک میں جذبات پر سیاست کرنے کا چلن ہے ، بی بی کے قتل کو شہادت سے
منسوب کرکے انتخابات میں کامیابی حاصل کی گئی او رملک میں صدارتی انداز میں
جمہورت کا حسن بحال کردیا گیا۔آصف علی زرداری ملک کے صدر بن گئے ۔ بے نظیر
کے قتل کے بعد بھی پارٹی میں یہ تاثر دیا گیا کہ پارٹی کی صدارت بھٹو کے
خانوادے کے پاس رہے گی ، بی بی کی وصیت منظر ِ عام نہ کی گئی البتہ فرمان
جاری ہو ا کہ بلاول مستقبل کے چیئرمین ہونگے اور جب تک وہ اس قابل نہیں
ہوجاتے، تعلیم مکمل نہیں کرلیتے ابا جان انکی سیاسی تربیت کرتے رہیں گے او
رپارٹی کو چلانے میں معاونت کرتے رہیں گے۔بلاول کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد
وطن آمد پر شہید ماں کے بیٹے کا والہانہ استقبال ہوا ، مظلوم ماں کا مظلوم
بیٹا ملکی سیاست میں وارد ہوگیا، سیاست نہیں آتی تھی ، والد اور دیگر رفقاء
نے تربیت کا بیڑا اٹھالیا تاکہ وہ ملکی سیاست کو سمجھ سکیں ۔ بلاول چند
برسوں سے مکمل طور پر ملکی سیاست میں موجود ہیں لیکن حیرت انگیز امر یہ ہے
کہ انہوں نے اب تک کوئی ایسا کمال نہیں کیا کہ وہ سیاست دان کہلائے جائیں ۔
وہی فرسودہ انداز کی گفتگو ، بے معنی تقاریر اور ذاتیات پر حملہ کرنے کی
سیاست جسے سیکھنے کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی کررہے ہیں ۔بلاول آج بھی والدہ
اور نانا کی سیاست ، ان کی قربانیوں اورپارٹی کارکنوں کی شہادت کو موضوع
بنا کر بات کرتے ہیں ، ان میں بھی وہی انداز موجود ہے جو شاہی خاندان میں
ہوا کرتا تھا۔2013میں پی پی پی کا پنجاب سے وجود ختم ہوا ، پارٹی نے تہیہ
کرلیا کہ اس وجود کو سامنے لا یا جائے گا ، بلاول اپنے والد کے ساتھ سندھ
چھوڑ کر پنجاب کے سیاسی میدان میں دنگل کھیلنے کو موجود ہیں ، NA-120کے
نتائج نے واضح کردیا ہے کہ پی پی پی میں پنجاب کی سیاست میں کوئی کردار
نہیں اور نہ ہی اس بات پر اتفاق کیا جارہا ہے کہ بلاول کسی معجزے کا باعث
بنیں گے کیونکہ وہ ابھی تک والدین کی محبت، ان کی چاہت اور ان کی
فرمانبرداری سے باہر ہی نہیں نکل سکے ۔
میاں نواز شریف کو پاناما کیس کے فیصلے میں نااہل قرار دے کر ملک کے اعلیٰ
ترین منصب سے بے دخل کردیا گیا ، وہ ایوان ِ وزیر اعظم سے نکالے گئے ،
پارٹی صدارت کے حصول کیلئے انہوں آئین میں ترمیم کراڈالی تاکہ اپنا شاہانہ
مزاج برقرار رکھ جاسکے۔آئین کی اس ترمیم لانے میں ان کی بیٹی مریم نواز کا
عمل دخل بہت زیادہ کہا جارہا ہے کیونکہ ان کے نذدیک ان کے والد ِ محترم
قابل ِ احترام اور مظلوم و معصوم ہیں جو تیسری بار خصوصی طور پر ان کی محبت
کے باعث نااہل قرار دئے گئے ہیں۔2013کے انتخابات میں کامیابی کے بعد نواز
شریف ملک کے پھر سے وزیراعظم بنے تو انہوں نے اپنے جانشین کے طور پر اپنی
بیٹی کو ہر ایک پر فوقیت دی ۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ، نوجوانوں کے
امور کی ذمہ داریوں سمیت وزیر اعظم ہاؤس کے میڈیا سیل کی انچارج بنی رہیں
جو ڈان لیکس کے بعد غیر جانبدار دکھائی دیں ۔یہ وقتی غیر جانبدار تھی ،
NA-120کے ضمنی انتخاب میں اپنے کزن حمزہ شہباز شریف کے سامنے ڈٹ گئیں جو
اختلافات کا باعث رہا، حمزہ الیکشن مہم چھوڑ کر ملک سے باہر چلے گئے اور
مریم بی بی نے محاذ سنبھال لیا، کامیابی تو حاصل کی لیکن یہ بھی طے ہوگیا
کہ یہ ان کی کامیابی نہیں بلکہ مخالفین کی کامیابی ہے کیونکہ جس قدر ووٹ
نواز شریف کے حصے میں آیا کرتے تھے ، مخالفین نے بڑا حصہ ان ے چھین لیا ہے
۔ بیگم کلثوم نواز کی کامیابی کا مطلب شریف خاندان کی کامیابی یعنی مریم بی
بی والدہ کی کامیابی ہے اس میں آپ کو نون لیگ کا سیاسی کردار پس منظر ہوتا
دکھائی دے گا۔ پنجاب کے اس حلقہ میں کامیابی والد کی مظلومیت اور ماں سے
والہانہ محبت کا نتیجہ تصور کیاجانا غلط گمان نہیں ہوسکتا ۔ مریم بی بی
والدین کے زیر کفالت ہیں یہی اس بات سے ثابت ہوجاتا ہے ۔ کیوں نکالا میں
مریم بی بی اور ان کے بھائیوں کا بہت اہم کردار ہے جس کی انجام دہی کیلئے
نواز شریف ، ان کے سمدہی اسحاق ڈار ، مریم ، حسن اور حسین نواز پیشیاں بگھت
رہے ہیں ۔ عدالتی عمل میں صرف شریف خاندان پر جرح ہورہی ہے ، نون لیگ کے
کسی رہنماء یا کارکن کو طلب کیا گیا اور ن وہ اس عمل کا حصہ ہیں ۔یہ والد
کی اولاد کے ساتھ محبت کا اعلیٰ سیاسی نمونہ ہوسکتا ہے جسے دنیا یاد رکھے
گی۔مریم بی بی جہاں ایک بیٹی کے روپ میں والد کی حمایت میں بولتی ہیں وہیں
کچھ عرصہ سے ان کی مشیر خاص ہونے کی اہم ترین ذمہ داری بھی نبھارہی ہیں ۔یہ
بھی نواز شریف کی طرح انتہائی خطرناک قسم کے خوشمادیوں کے نرغ میں ہیں
۔والد کو جس طرح سے ان پر تنقید کرنے والے برے لگتے ہیں انہیں بھی اس قسم
کے لوگ زہر محسوس ہوتے ہیں ۔یہ والد کے طرز سیاست کی حامی ہیں اور انہی
اصولوں پر کابند نظر آتی ہیں حالانکہ اس طرح کے مزاج کے باعث نواز شریف نے
سوائے نقصان اٹھانے کے کچھ حاصل نہیں کیا ۔ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بچے
والدین کے اچھے مشیر نہیں ہوسکتے بالخصوص سیاست کے میدان میں تو ذاتیات پر
سیاست کا تو سوا ہی پیدا نہیں ہوتا۔
میاں نواز شریف کے پاس گزرے وقتوں میں کئی باشعور ، دانشور اور باصلاحیت
مشیر ساتھ رہے رہے لیکن ان کی طبعیت کے عین مطابق وہ ان سے دھیرے دھیرے
دوری اختیار کرنے پر ایسے مجبور ہوئے کہ پھر مڑ کر دیکھنا بھی اچھا محسو س
نہ کیا جس سے نواز شریف کو محسوس ہونے کے باوجود بھی احساس نہ ہوا کہ اب وہ
اچھے دوستوں سے دور ہوچکے ہیں البتہ انہیں اطمینان رہا کہ فی زمانہ ان کے
مشیر جو ان کے درباری ہیں وہ ان کے مددگار اور برے وقت کے ساتھی اور مشیر
ہیں ، یہ ان کی سیاسی غلطی رہی ہے ، یہاں تک کہ ان کے بھائی اور پنجاب کے
وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف اور نون لیگ کے بانی ساتھی سابق وفاقی وزیر
چوہدری نثار احمد جنہوں نے ہر حال میں ان سے تعلق رکھا اور کسی عہدے کی
کبھی بھی فرمائش کی اور نہ ہی کسی لحاظ سے کوئی ایسی خواہش کا اظہار کیا جس
سے پارٹی میں اختلافی نوٹ آسکے ، چوہدری نثار اب بھی ان کے سیاسی معاملات
میں ہونے والی خرابیوں اور خامیوں کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ بہتری کے مشورے
دیتے ہین جبکہ شہباز شریف نے ہاتھ کھینچ لیا ہے ، جس کا انہیں ادراک ہونے
کے باوجود احساس نہیں ۔ نوا زشریف کا ان دنوں بس یہی استفسار ہے کہ انہیں
کیوں نکالا گیااور اس کے پیچھے ان کے بچوں کا بہت بڑا کردار ہے ۔ ہم جانتے
ہیں کہ والدین اور بچوں کے مابین جذبات کا رشتہ ہر رشتے اور عقل کی کسوٹی
پر غالب رہتا ہے اور یہ بات بھی طے ہے کہ جذبات اور عقل کی ابتداء سے نہیں
بنتی ، یہ سمندر کے دو الگ الگ کنارے ہیں جنہیں کبھی نہیں ملنا جبکہ میاں
نواز شریف انہیں ملانے کے درپے ہیں، جس کی وجہ سے وہ ہر دور میں بالخصوص
موجودہ حالات میں مسائل سے دوچار ہیں۔ وہ اولاد کی محبت اور اقتدار کی
خواہش میں اس قدر غلطاں ہیں کہ عدالتوں سمیت اداروں سے ٹکر انے سے بھی گریز
نہیں کررہے ، چوہدری نثار کے حالیہ بیانات سے محسوس ہورہا ہے نون لیگ کسی
بڑے خطرے دوچار ہونے والی ہے ، وہ میاں صاحب کو اس باز رہنے اور بچوں سے
مشورے کی سیاست سے باز رہنے کی تلقین کررہے ہیں تاکہ سیاسی موت مرنے سے
پارٹی کو بچایا جاسکے ۔موجودہ وزیر داخلہ اور وزیر خارجہ سمیت خوشامدی
وزراء بشمول مریم بی بی ان کی کشتی ڈوبونے کیلئے سب اچھا ہے کا سگنل دے رہے
ہیں ۔ مریم بی بی کو سیاست کا اتا پتا نہیں جبکہ دیگر نون لیگی رہنماء اپنی
کارکردگی واضح کرنے سے عاجز ہیں ایسے میں خبر ہے کہ کئی پارٹی رہنما جن میں
بڑی تعداد پنجاب کے وزراء کی ہے مستعفی ہونے کا سوچ رہے ہیں ، کیونکہ فوج
اور عدلیہ سے محاذ آرائی کی وجہ سے انہیں خدشہ ہے کہ شاید وہ اگلے عام
انتخابات میں موثر کامیابی حاصل نہ کرسکیں ۔ فرض کیا کہ ایسا ہوجاتا ہے تو
اس میں سب سے زیادہ کردار نواز شریف کے بچوں بالخصوص مریم بی بی کا ہوگا جو
ملکی سیاست کے اسرار و رموز سے ناواقف ہیں ، وہ جو بھی مشورے والد کو دی
رہی ہیں فی زمانہ کارگر ثابت نہیں ہورہے ہیں اور نہ ان مشوروں سے پارٹی میں
کوئی بہتری آتی نظر آرہی ہے ۔
2013 میں نوجوانوں کو ملکی سیاست میں لانے کا خوشنما نعرہ لگایا گیا، تحریک
ِ انصاف اس میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوئی ، پی پی پی نے اپنا نوجوان
چیئر میں متعارف کرواکر پارٹی کے سینئر ترین لوگوں کی بے توقیری کی جبکہ
نون لیگ نے بھی شاہانہ انداز اختیار کرتے ہوئے ہر بات کو نوز شریف کے بچوں
سے جوڑ دی گوکہ اسے منظور کرلیا گیا تاہم پارٹی اختلافات کی بڑی وجہ اور
میاں صاحب کی نااہلی کی اہم وجہ بھی یہی بات بنی ہے ۔خاندانی نظام کسی
کاروبار میں رائج کرلیا جائے یہ بات درست ہے لیکن سیاست میں خاندان پارٹی
فیصلوں میں شامل کرنا غیر جموری عمل ہے ۔ اگر بچو ں کی ذہنی صلاحیت اس قابل
ہے کہ وہ سیاسی عمل کا حصہ بن سکتے ہیں تو لازم ہے کہ وہ وپروسیجر کے تحت
اس دھارے میں شامل ہو ں تاکہ کسی کی حق تلفی ہو اور نہ پارٹی میں گڑبڑ
ہوساتھ ہی ملک میں بہتر جمہوری ماحول پروان چڑھ سکے۔ |