پاکستان کو بنے ستر سال ہوگے ہیں اور ان ستر سالوں میں
ہمارے ملک میں فوج اور سیاستدانوں میں آنکھ مچولی چلتی رہی اور ان ستر
سالوں میں نہ تو ہم ترقی کرسکے اور نہ ہی اپنے اداروں کو مضبو ط کرسکے اور
نہ ہی ہم صحیح معنوں میں پاکستانی بن سکے اور ہم سے بعد میں آزاد ہونے والے
کہاں سے کہاں پہنچ گے مگر نہ تو سیاستدان پاکستان اور پاکستانی عوام سے
مخلص ہوسکے اور نہ پاکستانی عوام صحیح معنوں میں اپنے وطن عزیز کی خدمت کر
سکے ہم سے بہتر تو وہ ریاستیں ہیں جن کے حکمران کراے کے مکان سے آتے ہیں
اور کراے کے مکان ہی میں چلے جاتے ہیں ہمارے سیاستدانوں کا مقصد پیسہ بنانا
اور ان کے سیاستدانوں کا مقصد عوام کی خدمت کرنا ہوتا ہے برطانیہ کے
وزیراعظم نے جب استعفی دیا تو سامان اٹھاکر خود گیا اس نے بچوں کو خود
اٹھایا ہوا تھا اس کے علاوہ امریکی صدر اوبامہ آٹھ سال پورے کرکے واپس گیا
تو اسکی بیٹی نے ریسٹورنٹ پر ملازمت کرلی اسکے ہمارے ایک اسلامی ملک ایران
کے سابق صدر احمدی نژاد جب صدر بنے تو اس کے پاس 75ماڈل کرولا تھی اور کراے
کے مکان سے جب واپس گے تو وہ کار بھی نہ رہی اور اب بھی کراے کے مکان میں
رہتے ہیں اور پہاڑوں پر بکریاں چراتے ہیں قومیں ترقی صرف دعووں سے نہیں
کرتیں بلکہ کام کرنے سے کرتی ہیں لیڈر بننے کیلیے بنانا نہیں لوٹانا پڑتا
ہے لیڈر بننے کیلیے خود کو مٹانا پڑتا ہے لیڈر سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ وہ
ایماندار ہو مخلص ہو صادق اور امین ہو اور ایک وژن لیکر آے مگر ہماری
بدقسمتئ رہی کہ ہمیں کوی ایسا لیڈر نہ مل سکا اگر ایک ملا تو اسے پھانسی پر
لٹکا دیا گیا عوام کے خوابوں کا ہمیشہ خون ہوتا رہا یہ تو اب پتہ چلا کہ
پاکستان کے خزانے کی کس طرح بندر بانٹ ہوتئ رہی اور ہمارے لیے جو ترقی ہوی
وہ قرض لیکر ہوی اور اب بھی عوام اچھی تعلیم اچھی صحت کی سہولتوں کیلیے ترس
رہے ہیں عوام کبھی ڈاکٹروں کی ہڑتال کی وجہ سے مر رہے ہیں یا پھر بم
دھماکوں سے یا پھر خودکشی سے وزیراعظم ایسے تھوڑی ہوتے ہیں جیسے ہمارے
وزراے اعظم تھے جو صرف پروٹوکول انجواے کرنے آتے ہیں اور اپنی مستی میں مست
ہوتے ہیں جو اپنے وزیر خزانہ سے یہ بھی پوچھنے کی زحمت نہ کرے کہ بھای
غریبوں کیلیے ایک سو اکیس کھرب رکھے گے تھے پھر بھی غریب کیوں بھوکے مر رہے
ہیں پاکستان میں سب اپنے پیٹ کی پوجا میں لگے ہوے ہیں پاکستان میں شریف وہ
ہے جس کو کچھ ہاتھ نہیں لگتا اور پاکستان کے سرکاری ملازمت میں چپراسی سے
لیکر بڑے آفیسر تک سب کھا رہے بچوں کے سکولوں کی گرانٹوں کو کھایا جا رہا
ہے اور بچے مٹی پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کررہے ہیں بیت المال کے پیسوں کو
نہیں بخشا جا رہا اور کس کس کا رونا رویں یہاں تو آوے کا اوا بگڑا ہوا ہے
ستر سال کوی تھوڑا عرصہ نہیں ہے اگر ہمارے سیاستدان عوام حکمران ایمانداری
سے کام کرتے تو ہمین بھیک مانگنے کی ضرورت نہ پڑتی اب موجودہ حالت کو دیکھ
کر دل خون کے آنسوں روتا ہے کہ کس جزبے سے قربانیوں سے وطن حاصل کیا گیا
اور اب ہمارے وطن کے بارے میں طرح طرح کی باتیں ہورہی ہیں سب کو سوچنا ہوگا
کہ اگر قایداعظم پاکستان نہ بنا جاتے تو اج ہمارا حشر بھی کشمیر و گجرات کی
طرح ہوتا جاگو ہم وطنو اب اسکو آگے لاو جو اپنا نہیں عوام کا سوچے پاکستان
کا سوچے اب وعدے بہت ہوگے اب اسکو لاو جو کھاے نہیں بلکہ وطن کو بناے عوام
کے ستر سالوں کے ترقی کے خوبوں کی تعبیر کرے اللہ پاک ہمارے وطن کو ترقی دے
خوشحالی دے اور اسے وہ مقام دے جو اسکا حق بنتا ہے پاکستان زندہ باد |