مس بی بی سی کے کارناموں سے تو آپ واقف ہی ہیں،،،جہاز سے
لے کر سوئی
تک ان کی نگاہ سے بچ کر محلے میں نہ تو انٹری مار سکتا ہے،،،نہ ہی وہ
روانہ ہوسکتا ہے،،،
اک دن جب وہ بہت اچھے موڈ میں تھی،،،کیونکہ دہی والے نے غلطی سے
ذیادہ دہی دے دی تھی،،،وہ دہی مس بی بی سی نے محلے کی خدمت کا
انعام سمجھ کر رکھ لی تھی،،،
ہمارے بے حد اصرار پر انہوں نے محلے کے کئی غیر اہم قسم کے ساس بہو
کے جھگڑے،،،اور دو یا چار غیر اخلاقی قسم کے عشق کی تفصیلات ہم سے
شیئر کی،،،
اور ساتھ میں ہمیں یہ یقین دلانے کی کوشش بھی کی،،،کہ ہمارے دو کان
اس دنیا کے وہ دو خوش قسمت ترین کان ہیں،،،جن کے گوش گزر انہوں نے
اپنی سی۔آئی۔ڈی کی تفصیلات بیان کی،،،
پھر ہماری اس بات پر ان کا وزن چار کلوگرام پھولنے کی وجہ سے بڑھ گیا،،کہ
‘‘ان میں شعلے فلم کی ہیروئن بسنتی،،،یا سی۔آئی۔ڈی انسپکٹر کی خوبیاں
کوٹ کوٹ کر بھری ہیں‘‘،،،،
ایک دفعہ ہم نے انہیں غلطی سے شعلے فلم کی ہیروئن کہہ کر کہا،،،آپ شعلے
کی دھنو ہیں،،،
کوئی ایک ماہ بعد انہوں نے کہیں شعلے دیکھ لی،،،اور ہماری خوب خبر لی،،،
ہم نے انہیں ہیروئن کی گھوڑی بنا دیا،،،
ہم بولے،،،مس بی بی سی وہ گھوڑی کا رول بھی ہیروئن یعنی بسنتی سے کم نہ
تھا،،،
جب آٹھ ڈاکو اپنے گھوڑوں پر بسنتی کا پیچھاکر رہے تھے،،،تو دھنو نے ہی
ہیروئن کی عزت بچائی تھی،،،ورنہ ہیرو تو کسی اور کے چکر میں رام گڑھ کے
چکر لگا رہا تھا،،،
ہماری اس بات کا مس بی بی سی پر ذرا اثر نہ ہوا،،،بولی،،،ارے وہ کم بخت
گھوڑی
نے ہیروئن کو نہیں بچایا تھا،،،بلکہ وہ تو خود آٹھ گھوڑوں سے ڈر کر بھاگ
رہی تھی
خبردار جو آئندہ مجھے اس کا ٹائٹل دیا،،،
آج تو ہم مس بی بی سی کے گھوڑا شناسی کے بھی قائل ہوگئے،،،،اتنی جانور
شناسی
کوئی معمولی بات نہ تھی،،،
ویسے بھی اکثر وہ اپنے سسرالی رشتے داروں کو جانور سے تشبیہ دیتی رہتی
تھیں،،،
میرا دیور تو گھوڑے کے منہ والا ہے،،،ساس اور نندیں کسی ناگن سے کم نہیں،،،
منے کے ابا کا منہ بھی کسی اونٹ سے کیا کم تھا،،،وہ تو بھلا ہو حکومت
کا،،،جس
کی مہنگائی کی وجہ سے چھوٹا سا رہ گیا۔۔۔۔۔۔۔
|