(17) علامہ ابو عبد اﷲ محمد بن
خلفہ الوشتانی المالکی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 828 ھ) :-
علامہ ابوعبداللہ محمد بن خلفہ وشتانی مالکی صحیح مسلم کی شرح ’’اکمال
اکمال المعلم‘‘ میں حدیث شریف ’’من سن فی الاسلام سنۃ حسنۃ‘‘ کی شرح کرتے
ہوئے رقمطراز ہیں :
23. التعبير بلفظ السنة في الشر مجاز من مجاز المقابلة کقوله تعالي و مکروا
و مکر اﷲ واﷲ خير الماکرين (آل عمران، 3 : 54) و يدخل في السنة الحسنة
البدع المستحسنة کقيام رمضان والتحضير في المنار أثر فراغ الأذان و عند
أبواب الجامع و عند دخول الإمام وکالتصبيح عند طلوع الفجر کل ذلک من
الإعانة علي العبادة التي يشهد الشرع باعتبارها وقد کان عليّ و عمر رضي اﷲ
عنهما يوقظان الناس لصلاة الصبح بعد طلوع الفجر واتفق أن إمام الجامع
الأعظم بتونس وأظنه البرجيني حين أتي ليدخل الجامع سألته إمرأة أن يدعو
لابنها الأسير و کان المؤذنون حينئذ يحضرون في المنار فقال لها ما أصاب
الناس في هذا يعني التحضير أشد من أمرابنک فکان الشيخ ينکر ذلک عليه و يقول
ليس انکاره بصحيح بل التحضير من البدع المستحسنة التي شهد الشرع باعتبارها
و مصلحتها ظاهرة قال وهو اجماع من الشيوخ اذ لم ينکروه کقيام رمضان
والاجماع علي التلاوة ولاشک أنه لا وجه لإنکاره اِلَّا کونه بدعة ولکنها
مستحسنة و يشهد لاعتبارها الأذان والإقامة فإن الأذان للأعلام بدخول الوقت
والإقامة بحضور الصلاة و کذلک التحضير هو اعلام بقرب حضور الصلاة (قوله ومن
سن في الإسلام سنة سيئه)(1) (قلت) هذه لا يشترط فيها أن ينوي الاقتداء به
بدليل حديث ابن آدم القاتل لأخيه ان عليه کفلا من کل نفس قتلت لأنه أول من
سن القتل. (2)
’’لفظ سنت کی تعبیر کچھ اس طرح ہے کہ سنت کا لفظ جو ’’شرُّ‘‘ کے ساتھ
استعمال ہوا ہے وہ مجازی طور پر استعمال ہوا ہے جو کہ مجاز کے مقابلہ میں
ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’ومکروا و مکر اﷲ واﷲ خیر الما کرین‘‘
(آل عمران، 3 : 54) اور اسی طرح بدعت حسنہ سنت مستحسنہ میں داخل ہے جیسے
رمضان المبارک میں قیام کرنا آذان کے لئے منار اور مساجد کے دروازوں پر
جانا اور امام کے آنے پر کھڑا ہونا اور اسی طرح صبح کے وقت ایک دوسرے کو
سلام کرنا یہ اور اس جیسے دوسرے امور عبادت پر مددگار ہیں اور شرع ان کی
تائید کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ، وعلی رضی اللہ عنہ
طلوع فجر کے بعد لوگوں کو نماز کے لئے اٹھاتے تھے اور اس امر پر اتفاق ہے
کہ تیونس کے عظیم امام (شارع کہتا ہے کہ) میرے گمان میں وہ شیخ البرجینی
تھے جب وہ جامع مسجد کی طرف آئے تو ایک عورت نے ان سے استدعا کی کہ وہ اس
کے قیدی بیٹے کے لئے دعا کریں اس زمانے میں مؤذن مینار میں حاضر ہوکر اذان
دیتے تھے۔ تو انہوں نے کہا کہ اس مسئلہ میں لوگ کتنا عجیب معاملہ کرتے ہیں
یعنی مینار پر حاضر ہونا تیرے بیٹے کے معاملے سے بھی زیادہ عجیب تر ہے شیخ
نے اس چیز کا انکار کر دیا انہوں نے کہا کہ اُن کا انکار کرنا درست نہیں ہے
کیونکہ تحضیر بدعت مستحسنۃ میں سے ہے شرع نے اس کے اعتبار اور ظاہری مصلحت
کی وجہ سے اسے جائز قرار دیا ہے مزید کہا کہ جب انہیں انکار نہیں ہے تو پھر
اس پر شیوخ کا اجماع ہے۔ جیسے قیام رمضان اور تلاوت کے لئے مجتمع ہونا اور
بلاشبہ اس کے انکار کی کوئی وجہ نہیں سوائے اس کے کہ یہ بدعت ہے لیکن یہ
بدعت مستحسنۃ ہے اور اذان و اقامت کا اعتبار اس کے بدعت حسنہ ہونے کی گواہی
ہے کیونکہ اذان دخول وقت کا اعلان ہے اور اقامت نماز میں حاضر ہونے کا
اعلان ہے۔ اسی طرح تحضیر نماز کے قریب آنے کا اعلان ہے حضور صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے فرمان ’’ومن سن فی الاسلام سنۃ سیئۃ‘‘ میں ’’بدعت سیئہ‘‘ کی
اِقتداء شرط نہیں ہے جیسے حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے کا اپنے بھائی کو
قتل کرنا تو اس قاتل پر ہر اس قتل کا بوجھ بھی ہوگا جو بعد میں ہوگا کیونکہ
یہ وہ شخص ہے جس نے قتل کا آغاز کیا۔‘‘
1.
1. مسلم، الصحيح، 2 : 705، کتاب الزکوٰة، باب الحث علي الصدقه، رقم : 1017
2. نسائي، السنن، 5 : 55، 56، کتاب الزکاة، باب التحريض علي الصدقه، رقم :
2554
3. ابن ماجه، السنن، 1 : 74، مقدمة، باب سن سنة حسنة أو سيئة، رقم : 203
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357. 359
5. ابن حبان، الصحيح، 8 : 101، 102، رقم : 3308
2.
وشتاني، إکمال إکمال المعلم، 7 : 109
(18) اِمام ابو الفضل احمدبن علی بن محمد ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ
(المتوفی، 852ھ) :-
علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مشہور و معروف تصنیف ’’فتح
الباری شرح صحیح البخاری‘‘ میں بدعت کی تعریف اور تقسیم پر بحث کرتے ہوئے
لکھا ہے :
24. والبدعة أصلها ما أحدث علي غير مثال سابق، و تطلق في الشرع في مقابل
السنة فتکون مذمومة، والتحقيق أنها إن کانت مما تندرج تحت مستحسن في الشرع
فهي حسنة، و إن کانت مما تندرج مستقبح في الشرع فهي مستقبحة، و إلَّا فهي
من قسم المباح وقد تنقسم إلي الأحکام الخمسة.
’’بدعت سے مراد ایسے نئے امور کا پیدا کیا جانا ہے جن کی مثال سابقہ دور
میں نہ ملے اور ان امور کا اطلاق شریعت میں سنت کے خلاف ہو پس یہ ناپسندیدہ
عمل ہے، اور بالتحقیق اگر وہ بدعت شریعت میں مستحسن ہو تو وہ بدعت حسنہ ہے
اور اگر وہ بدعت شریعت میں ناپسندیدہ ہو تو وہ بدعت مستقبحہ یعنی بری بدعت
کہلائے گی اور اگر ایسی نہ ہو تو اس کا شمار بدعت مباحہ میں ہوگا۔ بدعت کو
شریعت میں پانچ اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے (واجبہ، مندوبہ، محرمہ، مکروہہ
اور مباحہ)۔‘‘
1. عسقلاني، فتح الباري شرح صحيح البخاري، 4 : 253
2. شوکاني، نيل الأوطار، 3 : 63
(19) اِمام ابو محمد بدر الدین محمود العینی الحنفی رحمۃ اللہ علیہ
(المتوفی 855ھ) :-
اِمام بدر الدین عینی بدعت کی تعریف اور اس کی تقسیم بیان کرتے ہوئے ’’عمدۃ
القاری شرح صحیح البخاری‘‘ میں رقمطراز ہیں :
25. البدعة في الأصل احداث أمرلم يکن في زمن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله
وسلم . ثم البدعة علي نوعين اِن کانت مما يندرج تحت مستحسن في الشرع فهي
بدعة حسنة و اِن کانت مما يندرج تحت مستقبح في الشرع فهي بدعة مستقبحة.
’’بدعت اصل میں اُس نئے کام کا بجا لانا ہے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے زمانے میں نہ ہوا ہو پھر بدعت کی دو قسمیں ہیں اگر یہ بدعت
شریعت کے مستحسنات کے تحت آجائے تو یہ ’’بدعتِ حسنہ‘‘ ہے اور اگر یہ شریعت
کے مستقبحات کے تحت آجائے تو یہ ’’بدعتِ مستقبحۃ‘‘ ہے۔‘‘
عيني، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، 11 : 126
(20) اِمام محمد بن عبدالرحمن شمس الدین محمود السخاوی رحمۃ اللہ علیہ
(المتوفی 902ھ) :-
علامہ شمس الدین سخاوی اذان کے بعد صلوۃ و سلام پڑھنے کو بدعت حسنہ قرار
دیتے ہوئے اپنی کتاب ’’القول البدیع فی الصلاۃ علی الحبیب الشفیع‘‘ کے صفحہ
193 پر رقمطراز ہیں :
26. وقد اختلف في ذٰلک هل هو مستحب أو مکروه أو بدعة أو مشروع واستدل للأول
بقوله تعالٰي و افعلوا الخير، و معلوم ان الصلٰوة و السلام من أجل القرب لا
سيما وقد تواردت الاخبار علي الحث علي ذلک مع ماجاء في فصل الدعا عقب
الأذان والثلث الاخير من الليل و قرب الفجر والصواب انه بدعة حسنة يؤجر
فاعله بحسن نية.
’’اذان کے بعد صلوٰۃ و سلام پڑھنے میں اختلاف ہے کیا وہ مستحب ہے، مکروہ
ہے، بدعت ہے یا جائز ہے؟ اس کے اِستحباب پر اللہ تعالیٰ کے اس قول (وافعلوا
الخیر) سے استدلال کیا گیا ہے اور یہ بات واضح ہے کہ صلوٰۃ و سلام قُرب کے
قصد سے پڑھا جاتا ہے خصوصاً جب کہ اس کی ترغیب میں کثیر احادیث وارد ہیں،
علاوہ ازیں اذان کے بعد دعا میں جدائی کرنے اور تہائی رات کے اخیر میں دعا
کرنے کی فضیلت میں بھی احادیث ہیں اور صحیح یہ ہے کہ یہ بدعت حسنہ ہے اور
اس کے فاعل کو حسن نیت کی وجہ سے اجر ملے گا۔‘‘
1. سخاوي، القول البديع في الصلاة علي الحبيب الشفيع : 193
2. سخاوي، فتح المغيث شرح الفية الحديث، 2 : 327
جاری ہے--- |