سکول کی صفائی کی سزا!

 کسی نے اِس سزا کو ’انوکھا‘ کہا، کسی نے اسے منفرد قرار دیا، کسی نے اسے دلچسپ کا نام دیا، کسی نے تعریف کی اور کسی نے تنقید کا نشانہ بنایا۔ لاڑکانہ میں ایک مقامی جج نے جواء کے ملزموں کو جرم ثابت ہونے پر سزا سنا دی، سزا کی نوعیت کے مطابق یار لوگوں نے ا س پر تبصرے کئے ، سزا واقعی دلچسپ تھی۔ جواء کا جرم ثابت ہونے پر جج نے فیصلہ دیا کہ تمام ملزمان ایک سال تک مختلف سکولوں میں صفائی کریں گے۔ اس سزا کو منفی کا مزاحیہ تبصروں سے بالا تر ہو کر سوچا جائے تو یہ بہت قابلِ عمل اور قابلِ تحسین فیصلہ ہے۔ جواء اپنے ہاں بہت نچلی سطح سے شروع ہوتا ہے اور بہت اوپر تک جاتا ہے، اپنی پوزیشن کے حساب سے جوئے کی قسمیں بھی بہت سی ہیں۔ جوئے کے بارے میں ایک اہم تصور یہ پایا جاتا ہے کہ یہ پولیس کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں ہوتا، گویا جواری حضرات پولیس کی جیب گرم کرتے ہیں تو انہیں اپنا کاروبار چلانے کا موقع ملتا ہے۔ ورنہ بہت سے جرائم ایسے بھی ہیں جنہیں پولیس کی سرپرستی حاصل نہیں ہوتی۔ مذکورہ خبر یقینا نچلے درجے کے جواریوں کی لگتی ہے، تاہم یہ فیصلہ دورس اثرات کا حامل ہے۔

اس فیصلے کے بعد بہت سے مزید راستے بھی کھلتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں۔ بہت سے سرکاری سکول ایسے ہیں جہاں ملازمین کی کمی پائی جاتی ہے، لہٰذا ایسے سکولوں کے لئے مفت ملازم دستیاب ہو جائیں گے، صرف قید کی صورت میں تو قیدی فارغ پڑے رہتے ہیں، سوائے اس کے کہ ان سے کچھ ہنر مندی کا کام لیا جائے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان پڑھ جواری قیدیوں کے لئے صفائی کی سزا ہو او ر اگر ا ن میں سے کچھ پڑھے لکھے ہیں(حتیٰ کہ میٹرک تعلیم بھی چلے گی) انہیں چھوٹی کلاسوں کے بچوں کو تعلیم دینے پر بھی لگایا جاسکتا ہے۔ اگر ان میں سے کچھ اچھی کارکردگی کامظاہرہ کریں تو انہیں پہلے کنٹریکٹ پر اور بعد ازاں مستقل بھی کیا جاسکتا ہے۔ یہ فارمولا آنے والے فیصلوں میں تو جو ہوگا سو ہوگا، بہت سے ایسے قیدی جو جیلوں میں معمولی جرائم میں ملوث ہونے کی وجہ سے کچھ سزا کاٹ رہے ہیں، انہیں مختلف کاموں پر لگایا جاسکتا ہے۔ تعلیم یافتہ قیدیوں کو اگر بچوں کو پڑھانے کا فریضہ سونپا جائے اور ان کی باقی قید اسی سرگرمی میں پوری ہو جائے تو اس سے ماحول میں بہت بڑی تبدیلی رونما ہونے کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس سے ایک تو سکولوں میں اساتذہ کی بے حد کمی کا مسئلہ آسان ہو جائے گا، دوسرے یہ کہ کسی بھی چھوٹے جرم کی پاداش میں سزا ہو کر جیل کاٹنے والوں کو جب مختلف ماحول ملے گا تو ان کے ذہن میں بھی تبدیلی آسکتی ہے، یوں وہ اپنی سابقہ سرگرمیوں کو مکمل خیر باد بھی کہہ سکتا ہے۔

یہ تو طے شدہ ہے کہ جیلوں کا نظام سزا یافتہ لوگوں کی تربیت کرکے انہیں بہتر اور کار آمد شہری نہیں بناتا ،بلکہ بہت سے لوگ سزا بھگتنے کے بعد مزید بڑے اور تجربہ کار مجرم بن کر جیل سے نکلتے ہیں، اور معاشرے کے لئے پہلے سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ مگر سکولوں کی طرف لانے سے ان کے مزاج میں مثبت تبدیلی کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔ یہ خطرہ بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ اگر سکولوں میں صفائی کرتے کرتے انہوں نے اپنی چپڑی باتوں سے وہاں کے دیگر افراد کو بھی متاثر کرنا شروع کردیا اور جوئے کے فوائد سے انہیں آگاہ کرنا شروع کردیا، تو کہانی نیا رخ اختیار کر جائے گی، کیا جانئے کہ جب ان کی سزا کا سال پورا ہونے کو آئے تو سکول کا ’صفایا‘ ہو چکا ہو اور بہت سے لوگ جوئے کے عادی ہو چکے ہوں۔ یہ سزا یافتگان اپنی مخصوص عادات کی بنا پر کام آگے بڑھانے کے مشن پر کاربند رہیں گے، کیونکہ جواء بھی ایک نشہ ہے، نشہ کے بارے میں ایک عام خیا ل یہی ہے کہ عادت کی طرح وہ بھی سر کے ساتھ ہی جاتا ہے۔ یوں ان لوگوں پر خصوصی نگاہ رکھنے کی بھی ضرورت ہے۔ ان کے فرار کے راستے روکنے کا تو ظاہر ہے عدالت نے بندوبست کیا ہی ہوگا، ان کے اثراتِ بد روکنے اور انہیں بہتر راستہ پر لانے کے لئے کیا اقدامات کئے جائیں گے یہ وقت کے ساتھ معلوم ہوگا۔ایسے چھوٹے جرائم میں ملوث افراد کے لئے اس قسم کی سزائیں آنے والے فیصلوں کے لئے مشعلِ راہ ہیں، سزا بھی مل جائے گی، تعمیری کام بھی ہوتا رہے گا۔

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472462 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.