فٹ پاتھ

قیا مت کے دن تم سے اپنی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ پرور دگار ہم سے پوچھے گا کہ تم نے میری دی ہوئی آنکھوں سے میرے بندوں کو بے بسی کی حالت میں دیکھا ۔ مگر پھر ان سے منہ پھیر لیا ۔ حالانکہ میں نے تمہیں ہر وہ چیز عطا کی تھی جس سے تم میرے ان بے بس بندوں کی مدد کر سکتے تھے ۔

’’ اس کو رشوت کی پیشکش کی گئی۔ وہ اس رشوت کے اس انعام پر بہت خوش تھا ۔ مگر جب اس نے اپنی بیوی کو بتایا کہ کیس سے ہٹ جانے کے بدلے میں اُسے اتنے پیسے مل رہے ہیں ۔وہ سمجھا تھا کہ اس کی بیوی اتنے پیسے یک مشت دیکھ کر خوش ہو جائے گی ۔ مگر یہ اس کی خوش فہمی تھی۔ وہ در اصل ایک کیس لڑ رہا تھا ۔ ایک غریب خاندان کا کیس لڑ رہا تھا۔ مگر دوسری پارٹی بہت امیر تھی۔ انہوں نے اسے آفر کی کہ ایک گاڑی اور کچھ بھاری رقم لے اور کیس ہار جائے ۔ وہ رقم اس سلسلے میں پہلی ادائیگی تھی۔ یہ کیس، یہ غریب کے لیے لڑنا سب ایک مذاق تھا؟ میڈیا میں مشہور ہونا اور بس دو چار تصویریں کھنچوانا ، بس یہی مقصد تھا آپ کا ؟بیوی نے وکیل سے سوال کیا۔دیکھو میں نے یہ سب ہماری خوشی کے لیے کیاہے۔ وکیل نے اپنی صفائی دی ۔’’ مگر غریب کو انصاف دلانے کا دھوکا دے کر ہم کون سی خوشی حاصل کر پائے گے؟ میں نے کبھی کہا ہے تم میرے لیے کسی کے جذبات سے کھیل کر پیسے کماؤ؟ نہیں چاہیے مجھے ایسے پیسے‘‘۔ بیوی نے دوٹوک بات کی ۔ وکیل دل ہی دل پیشمان ہوا ۔ گھر سے باہر چلا گیا۔ وہ ایک ہِٹ اینڈ رن کیس کی پیروی کر رہا تھا ۔یہ کیس حقیقت میں ایک مرڈر کیس تھا ۔ایک بگڑا نواب نشے سے دھت لینڈ کروزر ڈرائیو کر رہا تھا۔ نشے کی زیادتی کی وجہ سے اس سے لینڈ کروزر قابو میں نہ رہی اور فٹ پاتھ پر چڑھ گئی۔
صاحب ، ادھر ہمارا پریوار سوتا ہے ، آپ کہیں اور چلیں جائیںآپ کی مہربانی ہو گی ۔ وکیل فٹ پاتھ کے ایک کنارے پر پیشاب کرنے والا تھا کہ ایک بزرگ آدمی نے اس سے التجا کی ۔ اسے وکیلِ صفائی کی بات یاد آ گئی کہ ’’فٹ پاتھ سونے کے لیے نہیں ہوتے ‘‘۔

فٹ پاتھ کے اوپر بستر بچھائے ایک غریب خاندان سو رہا تھا ۔ جن پر اس بگڑے نواب نے لینڈ کروزر چڑھا دی تھی۔ نواب کی لینڈ کروزر نے سوئے خاندان کو ابدی نیند سلا دیا تھا ۔ نواب نے جب یہ منظر دیکھا تونشے کی وجہ سے بد حواس ہو گیا اور اس نے بجائے مدد کرنے کے ریورس گیئر لگا یا اور ایک دفعہ پھر گاڑی غریبوں کے اوپر سے گزار دی تھی۔

اس مرڈر کیس کو ہٹ اینڈ رن کیس قرار دے کر اس کی فائل بند کر دی گئی تھی۔ مگر جب وکیل صاحب نے یہ خبر پڑھی تو انہوں نے غریبوں کو انصاف دلانے کا فیصلہ کیا۔ مگر رشوت کے جھانسے میں آکر سب کچھ بھول چلے تھے مگر اس کی بیوی نے اسے اس کا فرض یا د دلایا۔ ‘‘پھر ہوا یوں کہ جرح کے دوران اس نے وکیلِ صفائی کو بر جستہ جواب دیا کہ ’’فٹ پاتھ گاڑیاں چلانے کے لیے بھی نہیں ہوتے‘‘۔ یہ تو بس ایک واقعہ کی روداد ہے ۔ نا جانے کتنے لوگ ان حادثات کا شکار ہوتے ہو گے۔

فٹ پاتھ واقعی ہی سونے کے لیے نہیں ہوتے ۔ مگر اس پر وہ مخلوق سوتی ہے جس کے ہر انسان کی دو ہاتھ، ایک ناک، منہ ، دو آنکھیں ، سر ، بال ، دو ٹانگیں ، دو پاؤں ہوتے ہیں ۔ خیر ہم لوگ انہیں شائد مریخ سے آئی مخلوق سمجھتے ہیں ۔ نہیں تو کوئی گھٹیا درجے کی مخلوق سمجھتے ہیں ۔جن کے لیے کوئی قانون نہیں ہے ۔ جس کا دل آئے ، ان کے گاڑی چڑھا دے ، جس کا دل آئے اس کوسوتے ہوئے گولی مار کر چلا جائے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ صرف ہم انسان ہیں ۔ بلکہ ہم نہیں بلکہ ہر شخص کہتا ہے کہ میں انسان ہو ۔ ساری انسانیت مجھ سے شروع ہو کر مجھ پر ختم ہو جاتی ہے ۔ اگر مظلوم کی بات کریں تو میں دنیا کا سب سے زیادہ مظلوم ہوں۔ اگر غریب کی بات کریں تو دنیا کا سب سے غریب میں ہوں ۔مگر جب بات سخاوت کی ہو جائے تو سب سے اللہ کا شکر میں ادا کروں گا۔ ہاں جی ! ما شا اللہ ! اوپر والے کا دیا سب کچھ ہے ۔آپا کجھ دن پہلے ہی فلاں مسجد نو ہزار روپے چندہ دے کے آندا اے ۔ پان چباتے ہوئے ہماری’’میں‘‘اپنی سخاوت بیان کرتی ہے ۔ اگر مصنف کی بات کریں تو سب سے زیادہ منصف بھی میں ہی نظر آؤ ں گا۔ کیو ں نہیں ، بالکل غریبوں کو ان کے حقوق ملنے چاہییں ۔ میں خود غریب ہو اور کوئی غریب کے حقوق غضب نہیں کر سکتا ۔ مگر جب کوئی میرے پاس غریب آئے گا تو پھر وہی ’’میں ‘‘اسے ایسے دھتکار دے گا ، جیسے وہ صرف غریب ہی نہیں بلکہ انسان نہیں ہے ۔ پتا نہیں کہا کہا سے منہ اٹھا کے آ جاتے ہیں ۔ یہ ہمارے ’’میں ‘‘ کے ریمارکس اس غریب کے بارے ہوتے ہیں جو قسمت کا مارا ہماری ’’میں ‘‘کا شکار ہو جاتا ہے ۔ ہم میں سے ہر شخص حکومت کو ہر نقصان کا ذمہ دار ٹھہرا کر خود کو ہر غلطی سے مبرا سمجھتا ہے ۔ نہیں جی نہیں ، اے حکومت دا کم اے ۔ساڈے ورگے غریب آودا پیٹ پالن گے یا فیر اینا سڑک سے رلن والیا دی مدد کرن گے۔ معذرت کے ساتھ ہم سب کی سوچ کا منبہ یہی ہوتا ہے ۔ لیکن ہم سب نے اسلام کو صرف بڑی بڑی فلیکسز میں قید کرکے رکھ دیا ۔ فلاں مولانا صاحب فلاں مسجد میں تشریف لائے گیں ۔ ما شااللہ پچھلی دفعہ ان کی 20ہزار روپے خدمت ہوئی تھی ۔ اپنے حاجی صاحب نئی ، انہوں نے تو اپنی جیب سے اکٹھا 15ہزار روپے مولانا صاحب کے اوپر وار دیا تھا۔بس عید میلا د النبی ، رمضان المبارک ، نو، دس محرم اورکچھ اس طرح کے مذہبی فرائض ادا کرکے ہم اپنے آپ پر جنت واجب کر لیتے ہیں ۔لیکن اسلام ایک مکمل اور بہترین نظام حیات کا نام ہے ۔ جو نہ صرف چند مذہبی رسومات بلکہ پوری زندگی گزارنے کا طریقہ بتاتا ہے ۔ میں واپس فٹ پاتھ کی طرف آتا ہو ں ۔ میں نے اپنی گناہگار آنکھوں سے اس منظر کو دیکھا کہ اشرف المخلوقات کہلانے والے انسان اپنے کاموں میں مصروف ہیں ۔ صبح کا وقت ہے ۔ ضلع ساہیوال کی بات کر رہا ہوں ۔ موسم بدل رہا ہے ۔ رات کو کافی سردی ہو جاتی ہے ۔ سورج کی کرنیں ایک نئے دن کے طلوع ہونے کی اطلاع دے رہی ہیں ۔ ہم سب رات کو اپنے نرم گرم بستر پر مزے سے نیند پوری کرتے ہیں ۔ گرمیوں میں پنکھے ، Ac، ائیر کولر حسب توفیق اپنے آپ کو مکمل سہولت دیتے ہیں ۔ ایک پر سکون رات گزارتے ہیں ۔ صبح اٹھ کر اپنے کاموں کو روانہ ہو جاتے ہیں ۔ مگرہم نے کبھی یہ سوچنا گوارا نہیں کیا کہ وہ بھی انسان ہیں جوساہیوال کے فٹ پاتھ پر بغیر کسی بستر کے آنکھیں بند کیے رات گزارنے بلکہ رات کاٹنے پر مجبور ہیں یا ہم ان کو انسان نہیں سمجھتے جو ساہیوال اڈے کے سامنے نہر کے ساتھ نیچے ادھر پھٹی چادر اور اوپر ایک پھٹا کھیس لیے رات کاٹ رہے ہیں ۔ یہ حالات صرف ساہیوال نہیں بلکہ پورے پاکستان میں ہوں گے۔ ملکِ پاکستان کے علاوہ زیادہ دور نہیں جاتے برما میں مسلمانوں کے حالات دیکھ لیجیے ۔ ہماری آنکھیں دیکھنے کا کام کرتی ہیں مگر حقیقت میں ہم اندھے ہو چکے ہیں ۔ مسلمان ہونے کے ناتے ہمارے اوپر یہ اصول لا گو ہو جاتا ہے کہ ’’تم میں سے ہر شخص رعایا ہے اور ہر شخص مسؤل ہے ‘‘۔ قیا مت کے دن تم سے اپنی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ پرور دگار ہم سے پوچھے گا کہ تم نے میری دی ہوئی آنکھوں سے میرے بندوں کو بے بسی کی حالت میں دیکھا ۔ مگر پھر ان سے منہ پھیر لیا ۔ حالانکہ میں نے تمہیں ہر وہ چیز عطا کی تھی جس سے تم میرے ان بے بس بندوں کی مدد کر سکتے تھے ۔ ہم کیا جواب دیں گے اس دن ؟ ذرا سوچیے !!!’’میں نوکر صحابہ ؓ دا‘‘ کا صرف نعرہ لگانے سے بات نہیں بنے گی ۔’’دریائے فرات (جو سعودی عرب سے سینکڑوں میل دور ہے) وہاں پر ایک کتا بھی پیاس سے مر گیا تو اس کا حسا ب بھی میرا رب مجھ سے لے گا ‘‘۔ یہ حضرت عمر فاروق ؓ نے فرمایا تھا ۔ جن کو اللہ پاک نے دنیا میں ہی جنت کی خوش خبری سنا دی تھی۔ میرا مقصد صرف تنقید نہیں کرنا ہے بلکہ اصلاح کرنا ہے ۔ عبدا لستار ایدھی ؒ نے جب خدمت خلق کا آغاز کیا تو ان کے پاس صرف چند ایک دوائیاں تھی۔ مگر انہوں نے جب حرکت کی تو اللہ نے برکت ڈال دی ۔ آج ان کی انسانیت کی خدمات کا اعتراف سارا جہاں کرتا ہے ۔ ہمیں بھی ضرورت ہے آج انسانیت کے لیے کچھ کر دکھانے کی ۔ بجائے ایک دوسرے کو دیکھنے کے کہ وہ پہلے اگر کوئی نیکی کرے گا تو پھر میں بھی کروں گا۔ برائی کرتے وقت یہ بات تو ہم نہیں سوچتے۔ تب ہم کہتے ہیں ’’جو ہندا اے ویکھی جائے گی‘‘۔ حالات بدلنے میں دیر نہیں لگتی ۔ اللہ نہ کرے کل ہم میں سے کسی کا فٹ پاتھ مقدر بنے ، اس سے پہلے اللہ کے بندوں کی مدد کیجیے ۔ قطرے قطرے سے دریا بنتا ہے ۔ پھر ایدھی ؒ نے فرمایا تھا کہ میں نے پوری دنیا گھومی ہے لیکن جتنی محبت ، ایثار اور مدد پاکستانی کرتے ہیں اس کی مثال کہیں نہیں ملتی ۔ ذرا نم تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی !
تم رحم کرو اہل زمیں پر
خدا مہرباں ہو گا عرشِ بریں پر
 

Abdul Kabeer
About the Author: Abdul Kabeer Read More Articles by Abdul Kabeer: 25 Articles with 40685 views I'm Abdul Kabir. I'm like to write my personal life moments as well social issues... View More