پنجاب کے ایک گاؤں کی مسجد کا ایک مؤذن ،مؤزن سے
مسجد کا امام اور امام سے جعلی پیر و مر شد بن کر ہر قسم کی عیش و عشرت
حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا ۔ موصوف جھاڑ پھونک کے ماہر بغیر کسی علمی
قابلیت کے ہو چکے تھے۔ گاؤں کی بھولی بھالی عورتیں اس شاطر مولوی کے پاس
مختلف مسائل کے حوالے سے تعویزات لیجاتیں ،مگر ان تعویزوں پر کسی تحریر کے
بجائے الٹی سیدھی لکیریں کھینچی ہوتی تھیں ۔مولوی کی قسمت سے بعض لوگوں کے
مسائل بھی حل ہوتے نظر آتے۔موصوف نے گاؤں میں اپنی جعلی کرامات کا ایسا
ڈھونگ رچایا ہوا تھا کہ ہر ایک اس اسسے خوف زدہ رہتا،اوراس کے دروازے پرآتا
اور اپنی غربت کے باوجود مراد کے حصول کے لئے بڑی سے بڑی رقم اس جعلی مرشد
کے حوالے کر دیتا۔چنانچہ یہ مسجد کامولوی اور جعلی مرشددنوں میں گاؤں کا سب
سے بڑا سرمایہ دار اور امیربن گیا۔کسی بھی قسم کی تعلیم کے نا ہونے کے
باوجود موصوف تھا بڑا عیار وچلاک تھا۔اپنی کرامات کے ڈنکے بجوانے کے لئے اس
نے ہر جانب اپنے ہرکارے اور کارندے پھیلا دیئے تھے ۔جب مولوی پیرمشہور
ہوگیا تو گاؤں کے چوہدری کی بیٹی پر ڈورے ڈال کر بڑے گھر میں شادی بھی رچا
لی۔جس کے نتیجے میں ایک سال بعد مولوی صاحب کے ہاں ایک وارث نے بھی جنم لے
لیا ۔گاؤں کا جو فرد بھی مولوی جی کو مبارک باد دینے آتا تو بچے کی شکل
دیکھ کر خوف زدہ ہوجاتا ۔مولوی کی شکل و شباہت تو خیر سے کچھ مناسب ہی تھی
مگر بیٹے کی شکل نہایت بھدی تھی،بھالو جیسا موٹا ،ہاتھ پاؤں کی لمبائی غیر
مناسب ہونٹ موٹے موٹے البتہ رنگ سیاہ سپید کا آمیزہ تھا۔مگر مولوی صاحب کی
خوشی صرف یہ تھی کہ ان کا جاں نشین تو پیدا ہوا ۔
مولوی اپنی کمائی میں مصروف رہتا۔دوسری جانب لاڈ پیار کی وجہ سے نہ تو بیٹے
کی تربیت کر سکا اور نہ ہی اخلاقیات کا درس دے سکا۔اب گاؤں میں ہر جانب
مولوی پیر کے بیٹے کی بد اخلاقیوں اور بد تمیزی کے چرچے عام ہونے لگے تھے
۔کبھی کسی لڑکی کو چھیڑ دیتا اور کبھی کسی کا دوپٹہ کھینچ لیتا کبھی کسی کا
دودھ یا پانی کا برتن گرا دیتا۔پورا گاؤں اس پیر زادے کی حرکتوں سے پریشان
تھا جب اس کے باپ سے مسجد میں جا کر شکائت کی جاتی تو موصوف اس کو بچوں سے
حسنِ سلوک کا ایسا سبق پڑھاتے کہ وہ اپنے سر کو دھننے لگتا ۔
جب یہ مولوی صاحب موذن تھے تو ہر نماز میں اپنے امامِ مسجدکے لئے دعا کیا
کرتے کہ یا اﷲ مسجد کے امام کو توُجلد ازجلد اس دنیا سے اٹھا لے۔جو میری
راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔اﷲ کا کرنا کچھ ایسا ہواکہ مولوی صاحب شدید
بیماری کے حملے کی وجہ سے جانبر نہ ہو سکے۔ اب تو گویا گاؤں کی مسجد کے مؤ
ذن کی لاٹری نکل آئی تھی اور مسجد کی امامت کا کام اس کے سپرد کر دیا
گیاْ۔اس کے ہرکارے گاؤ کے ہر گھر سے کھانا اکٹھا کرتے جو بہترین کھانا ہوتا
وہ مولوی صاحب کا باقی ہرکاروں کا ہوتا تھا-
مولوی کا بھدی شکل و شباہت کا مالک بیٹا آوارا گردی میں اتنا آگے جا چکا
تھا کہ گاؤں کے کسی فرد کی بھی عزت محفوظ نہ تھی۔ گاؤں کے لوگوں کی مسلسل
شکائتوں سے تنگ آکر جعلی پیر نے بیٹے کو اسکول میں داخل کرا دیا وہاں بھی
اس نے اساتذہ اور بچوں کا جینا دوبھر کر دیا تھا۔ہر امتحان میں انتہائی کم
نمبر آتے۔مولوی جی کے حجرے کے ساتھ کے گھر میں ایک بلا کی حسین عورت اپنے
کسان شوہر کے ساتھ مقیم تھی۔پیر جی کا بیٹا بھی اب جوان ہونے کو تھا۔ اس نے
حجرے کی دیوار میں ایک روزن کھول کر برابر کے گھر میں تاک جھانک شروع کردی
اور پڑوسن سے اپنے تعلقات بھی استوار کر لئے اور روزانہ اس کے گھر میں اس
وقت جاکر بیٹھ جاتا جب اس کا شوہر کام دھندے کی غرض سے گھر سے چلا جاتا
۔مولوی کے بیٹے نے چند ہی دنوں میں اس شریف عورت کو اپنے جا ل میں پھنسا
لیا ۔اب اس کے گھر میں نا چاقی شروع ہوئی تو جعلی پیر کے بیٹے نے کہا کہ
میرے ابے کے پاس جا وہ تجھے ایسا تعویز دے گا کہ ہماری سب مشکلیں آسان ہو
جائیں گی۔ اس کے اکسانے پر وہ مولوی کے گھر پہنچی اور اپنے شوہر سے چھٹکارے
کا تعویذ مانگا مولوی نے فیس بتائی اور مولوی کے بیٹے نے فیس کا بھی خود ہی
انتظام باپ کے پیسے چوری کر کے کر دیا۔مولوی نے اس عورت کو ایک وظیفہ بتایا
کہ جب تیرا گھر والا گھر سے چلاجائے تو قبرستان میں میرے باپ کی قبر ہے جو
مجھ سے بھی بڑا پیر تھا۔اس کی قبر پر جا کر چالس دن تک یہ وظیفہ پڑھنا’’روز
کی تو روٹی دوں گی ، جمعرات کی کھیر جی، میرے میاں کو اندھا کر دے، تب
سمجھوں گی پیر جی‘‘یہ عوروت روزانہ جعلی پیر کے باپ کی قبر پر یہ پڑھتی۔اسی
دوران اس کے شوہر کو احساس ہوا کی اس کی بیوی اکثر قبرستان کیوں جاتی
ہے۔پیچھا کیا تو پتہ چلا کہ اس سے پیچھا چھڑانے کی تدبیریں کر رہی ہے تو اس
کے شوہر نے تنگ آکر اس کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیا اور گاؤں کے لوگوں کو جعلی
پیر کے بیٹے کی حرکتوں سے آگاہ کیا تو گاؤں میں پنچائت بلائی گئی۔پیر کے
بیٹے کی حرکتوں پر اسے اور کسان کی بیوی کوگاؤں بدری کی سزاسنائی گئی تو وہ
اس خوبرو عورت کو لے کر شہر میں لے آیا۔ مگر باپ سے اس کا مسلسل رابطہ تھا
۔باپ نے کوشش کرکے اسے شہر میں سرکاری ملازمت دی توپیر پُتر نے اس عورت سے
شادی کر لی اور اپنے د فتر میں لوگوں کو اپنے باپ کی کرامات کا اسیر بنا
لیا۔شہر میں بھی اس پیر زادے کا چلن گاؤں جیسا ہی تھا۔اس کے ہاں بھی ایک
پُتر نے جنم لے لیا ۔موصوف کی کوشش تھی کہ کسی طرح اپنے جیسے نا اہل بیٹے
کو ڈاکٹر بنادے مگر وہ کہتے ہیں نا کہ’’باپ پر پوت پٹا پر گھوڑا بہتا نہیں
تو تھوڑا ہی تھوڑا‘‘پیر کا پوتا بھی باپ کی طرح نا اہل تھا۔مگر یہ نا لائق
داکٹر تو نہ بن سکا مولوی صاحب کی دوستیوں کے نتیجے میں اعلیٰ سرکاری ملازم
رکھوا دیا گیا۔
باپ نے اس کو بتا دیا تھا کہ تم اُس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک تم
خوشامدیوں کے امام نہ بن جاؤ۔اس کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ جہاں میں کام
کرتا ہوں تم بھی وہاں پر لوگوں کی ہجو لکھنے کا ہنر سیکھ کر اپنے راستے کے
تمام مخالفین کی جڑیں اپنی بے ڈھنگی تحریروں سے کاٹ ڈالو باقی تمہاری پشت
پر تو میں ہوں نا! اس کے بعد دونوں باپ بیٹا ’’ من تُررا حاجی بگو تو مُرا
حاجی بگو‘‘ دنیا کی دولت دونوں ہاتھوں سے اپنی نا اہلی کے باوجود لُوٹتے
دیکھے جاتے رہے۔ |