مسز مجید نے تمام تر عیاری کے ساتھ بہن کو جھٹ سے گلے لگا
لیا،،،مگر
مسز کریم کی سوچ پر لگی سیاہ میل اترنا شروع ہوگئی تھی،،،اسے اپنی بہن
میں اک ظالم ساس نظر آنے لگی تھی،،،جس کے لیے سب کچھ اس کا اپنا
لختِ جگرہی تھا،،،کسی اور کی اولاد کے لیے وہ بے رحم طوفانی موج کی طرح
تھی،،،جو ساحل سے یہ سوچے بنا ٹکراتی ہے،،،کہ ساحل تباہ ہو جائے گا،،،
مسز کریم نے مصنوعی مسکراہٹ چہرے پر سجا لی تھی،،،مگر مسز مجید کی
عقابی عیار نگاہ نے بھانپ لیا تھا،،کہ سب کچھ ویسا نہیں ہے جیسا وہ چاہتی
ہے،،،
میں خالی ہاتھ نہیں جاؤں گی،،،ورنہ آگ لگا کر سب راکھ کردوں گی،،،یہ وہ
آخری جملہ تھا جو اس کے پاگل لالچی دماغ کسی مندر کی گھنٹی کی طرح
بج رہا تھا،،،
سلمان بھائی خوش آمدید!! چھوٹو نے کرسی آگے کھسکا کر سلمان کو سہارا
دینے کی کوشش کی،،،
سلمان نے بڑی ہمت کرکے خود کو ہوٹل تک پہنچایا تھا،،،چھوٹو کی خوشی
دیدنی تھی،،،سلمان نے جھک کر چھوٹو کے گالوں کو چھیڑا،،،
میں تو صرف اپنے دوست سے ہی ملنے آیا ہوں،،،سلمان کی بات سن کر چھوٹو
کی آنکھوں میں جگنو سے چمکنے لگے،،،،
سلمان بھائی لگتا ہے کسی ہیروئن کے چکر میں آپ ہیرو بنے،،،اور کسی نے آپکی
ٹھکائی کردی،،،پھر ہنس کر بولا،،،ہوں گے دس یا بارہ،،،ورنہ سلمان بھائی دو
چار
کے بس کے نہیں،،،
سلمان نے زور سے قہقہہ مارا،،،یار چھوٹو! بات تیری صحیح ہے،،،لڑکی کے چکر
میں ہی پٹا ہوں،،،مگر نہ اس لڑکی کو پتا ہے،،،نہ مجھے پتا چلا،،،
چھوٹو نے حیرت سے سلمان کو دیکھا،،،سرجھکا کر بولا،،،بھائی آپ میری سمجھ
میں نہیں آتے،،،
اچھا چل چائے پلا،،،سلمان کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی چھوٹو اک دو تین
ہو گیا،،،
اس کی خوشی اسے ہوا میں پتنگ بنا رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری)
|