کتب خانوں کا تصور بہت قدیم ہے اور زمانہ قدیم سے ہی
کتب خانے معاشرے کی فکر اور علمی ترقی میں مددگار رہے ہیں۔ کسی بھی عہد کی
مجموعی ترقی میں علم اور فکر کا ہی دخل رہا ہے۔ کتابیں علم وحکمت کا خزانہ
ہوتی ہیں اور شعور و ادراک کی دولت قوموں کو اسی خزانے سے حاصل ہوتی ہے۔
کسی بھی قومی معاشرے میں کتب خانوں سے ایک طرف تو امن اور دوستی کی فضا
پیدا ہوتی ہے جو قوموں کے افراد کے ذہنوں کو تخلیقی اور تعمیری رجحانات
دیتی ہے اور وہ تہذیب وتمدن سے آشنا ہو کر اتحاد و اتفاق سے زندگی گزارنے
کا فن سیکھتے ہیں۔ہونا تو یہ چاہیے کہ کتابوں کی حفاظت کی جائے جو ہمارا
سرمایہ ہیں بلکہ جدید دور کے تقاضوں کو پورا کرنے، سائنس اور ٹیکنالوجی کو
سکھانے والی کتابوں کا اپنی زبان میں ترجمہ کرکے انہیں کتب خانوں کی زینت
بنایا جائے تاکہ ہر خاص و عام کی جدید علوم تک رسائی ہو اور ملک کی ترقی کے
لئے نئی راہیں کھل سکیں۔
کتاب کے ساتھ ہم مسلمانوں کو ایک خاص نسبت ہے۔ ہمارے نبی اکرم صل اﷲ علیہ
وسلم پر جو پہلا اِرشاد ِ خداوندی اْترا وہ یہی تھا کہ "پڑھ" اور یہ اﷲ
تعالٰی کی نوازشات کی انتہا تھی کہ غارِ حرا کے اْس نورانی لمحے نے حضور
صلی اﷲ علیہ وسلم کو "علم کا شہر" بنا دیا اور اْنہیں ایک عظیم کتاب کا
حامل اور مبلغ قرار دیا۔ وہ کتاب جو سعادتوں اور برکتوں کا خزانہ ہے۔ گویا
مسلمان دینی نقطہِ نظر سے اور وراثت کے اعتبار سے صاحبِ کتاب بھی ہے اور
کتاب دوست بھی۔قوموں کی تعمیر وترقی میں تحقیق و مطالعہ بنیادی کردار کا
حامل ہے انٹرنیٹ کی ترقی کے باوجود لائبریری کی اہمیت موجود ہے اساتذہ کو
نہ صرف اپنے مطالعے کو فروغ دینا چاہیے بلکہ طلبہ میں بھی مطالعہ کتب کا
ذوق پروان چڑھانا چاہیے۔
مہنگائی کے اِس دور میں نئی کتابیں خریدنا، اکثریت کے لئے مْشکِل ہو گیا
ہے، انسان کے لئے ذاتی لائبریری بنانا بھی روز بروز نامْمکِن ہوتا جا رہا
ہے، اِس اعتبار سے کتب خانوں کی اہمیت کہیں بڑھ جاتی ہے، انسان آسانی کے
ساتھ جدید تصانیف سے فائدہ اْٹھا سکتا ہے اور پھِر ایک انسان نہیں بلکہ
سینکڑوں انسان، سالہا سال اْن علمی سر چشموں سے اپنی فکری پیاس بجھا سکتے
ہیں۔ اِس لئے لوگ اپنے ذاتی کتب خانوں کو قومی سطح کے کتب خانوں میں بْطور
عطیہ مْنتَقِل کرتے ہیں تا کہ اْ ن کی موت کے بعد یہ کتابیں اپنا نوْر
بِکھیرتی اور فِکرو خیال کی راہوں کو اُجالتی رہیں۔ کتاب علم کے نور اور
قلم کی عظمت کا ایک خوبصورت اظہار ہے اور جو لوگ علم اور قلم کے اِس سرچشمے
سے خود کو وابستہ کر لیتے ہیں وہ کبھی گمراہ نہیں ہوتے۔ الغرض کتب خانے ایک
قومی ضرورت ہیں، تنہائی کی نعمت ہیں، ادب اور فن کے خزانے ہیں، علم کا ایک
سمندر ہیں کہ موجیں مار رہا ہوتا ہیاور ہر ایک کو دعوت دیتا ہے کہ وہ اپنی
ضرورت اور اپنے ظرف کے مطابق اپنی پیاس بجھاتا چلا جائے۔
کسی بھی درس گاہ میں ایک معیاری لائبریری کا ہونا ایک لازمی امر ہے۔اس کے
بغیر تعلیم کا مقصد اور تدریس کا نظا م ادھورا اور نا مکمل رہتا ہے۔کتب
خانہ اساتذہ کے لیے اہم اورنا گزیر ہے یہاں اساتذہ علم میں نئی نئی تحقیقات
سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔اور طلبہ بھی اپنی نصابی اور غیر نصابی معلو مات میں
اضافہ کرتے ہیں۔چنانچہ ہر سکول و کالج میں معیاری کتب خا نے کا ہو نا ضرو ر
ی ہے اس کے بغیردرس گاہ ایسے ہے جیسا نخلستا ن چشمے کے بغیر یا ایک گھر پا
نی کے بغیر۔لا ئبریری گو یا ا یک علمی چشمہ ہے جس سے تشنگا ن علم اپنی پیاس
بجھاتے ہیں۔
گذشتہ دنوں پروفیسر نصرت بخاری کی دعوت پر گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج اٹک
جانے کا اتفاق ہوا۔ اپنے زمانہ طالب علمی کو یاد کرتے ہوئے لائیبریر ی جانے
کا قصد کیا۔ جونہی ہم لائیبریر ی پہنچے، لائیبریری کسی پرانے بھوت بنگلے کا
منظر پیش کر رہی تھی۔نامناسب روشنی،پھٹے پردے، چھتوں سے چونا گر رہاتھا،
کھڑکیوں کے آگے الماریاں دھری تھیں، جبکہ سوائے دویا تین کرسیوں کے
لائیبریری میں کوئی کرسی یا میز موجود نہ تھا۔اعلیٰ اور نادر کتب دیمک کی
نذر تھیں۔کسی الماری پرکوئی معلوماتی ٹیگ نہ تھا۔لائیبریری ایک لاوارث لاش
کی طرح میرے سامنے خود اپنی تباہی و بربادی کی کہانی لیے بیٹھی تھی۔گورنمنٹ
پوسٹ گریجویٹ کالج اٹک کا قیام 1924 میں عمل میں آیا۔ اور یقینا انگریز دور
میں ہی اس لائیبریری کا قیام عمل میں آیا ہو گا۔ نادر کتب اس کتاب گھر میں
موجود ہیں لیکن وہ کسی تشنگانِ کتب تک پہنچ ہی نہیں پاتیں۔ مجھے 1991-92 کا
زمانہ یاد آگیا جب مرحوم نذر صابری اس لائیبریری کے انچارج ہوا کرتے تھے۔
وہ اپنے دور کے ایم اے فارسی تھے لیکن انہوں نے کتاب دار بننا پسند کیا تھا
۔ وہ بلاشبہ ایک روحانی شخصیت اور کتاب دوست تھے۔ ان کے زمانے میں یہ
لائیبریری روشن، ہوا دار اوکتاب دوستی کی مثال تھی ۔ ان کے ریٹائر ہونے کے
بعد اس لائیبریری کا زوال شروع ہوا۔ اب حالت یہ ہے کہ لائبریری کا کوئی
پرسان حال نہیں، کوئی انچارج نہیں۔صرف ایک کلرک اور ایک لیبارٹری اٹنیڈنٹ
کے سر پر یہ لائیبریری چل رہی ہے۔یہ اس بیوہ عورت کی مانند ہے جس کا خاوند
انتقال کر گیا ہو۔ہماری موجودگی میں شعبہ اردو کے سربراہ پروفیسر اظہر علی
وہاں آئے تو ان سے بھی اس حوالے سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ کل وقتی
کتاب دار کی تعیناتی اشد ضروری ہے جو پنجاب حکومت کی صوابدید ہے۔ اسی حوالے
سے جب ڈپٹی ڈائریکڑ کالجز اٹک پروفیسر عثمان صدیقی سے بات ہوئی تو ان کا
کہنا تھا کہ اس وقت ضلع اٹک کے سترہ کالجر میں سے صرف دو میں کتاب دار
تعینات ہیں جبکہ دیگر اداروں میں کسی پروفسیر کو اضافی چارج دے کر کام
چلایا جا رہا ہے۔میں ذاتی طور پر اس لاپرواہی ، غفلت اور کتاب دشمنی کا ذمہ
دار کالج کے پرنسپل پروفیسر غلام مصطفی کیانی کو سمجھتا ہوں کیونکہ اگر
انسان کے اندر قائدانہ صلاحیتیں ہوں تو نظم کا مظاہر ہ کر سکتا ہے۔ اگرچہ
اس لاپرواہی کی ذمہ دار محکمہ تعلیم حکومت پنجاب بھی ہے لیکن سوال یہ کہ
کیا اسے اس معاملے سے آگاہ کیا گیا؟یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ انسان جس چیز
سے پیارکرتا ہے اس کے ناز نخرے ہر قیمت پر برادشت کرتا ہے۔ اگر مجھے اس
لائیبریری کی حالت زار دیکھ کر تشویش ہوئی ہے تو اس لائیبریری سے محبت کرنے
والے اس کالج کے منتظمین کو کیوں نہیں۔ |