عربی زبان عالم اسلام کی مشترکہ علمی و ادبی اور ثقافتی
زبان ہونے کے ساتھ فی زمانہ ابلاغی و سفارتی زبان کا درجہ بھی پاچکی ہے۔اگر
کسی زبان کے اندر عالمی زبان بننے کی صلاحیت ہے تو وہ فقط عربی زبان ہی
ہے۔اسلامی دنیا کا سب سے زیادہ علمی ورثہ اور بنیادی مراجع و مصادر بھی
عربی زبان میں ہی ہیں۔عربی زبان کی تدریسی و تحقیقی اہمیت اور موجودہ دور
میں اس کی ابلاغی و سفارتی اہمیت سے بھی انکار کرنا محال ہے۔علمی، تحقیقی،
ادبی، سفارتی، ابلاغی اور صحافتی و قانونی، تجارتی اور عوامی اعتبار سے
دنیا بھر کی زبانوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو اس حقیقت کا اعتراف کرنے کے
علاوہ چارہ نہیں کہ سوائے عربی زبان کے کسی زبان کو یہ مرکزیت حاصل نہیں کہ
وہ ''ام الالسنہ'' بن جائے۔
عربی زبان ہی ہے جو علوم کے خزائن کی مرکزی کنجی ہے۔عربی زبان ہی کے ذریعے
تمام انبیاء و حکماء اور صالحین کے علوم وفنون اور ان کے احکام و تعلیمات
تک درست طریقے سے رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔قرآن جو آئینِ اسلامی کی حیثیت
رکھتا ہے جبکہ حدیث اس اسلامی آئین کی سب سے بہترین اور غیرمبہم شرح ہے اور
فقہاء کا اجتہادی کام اس متن و شرح کی مزید توضیح و تشریح ہے اور پھر کرڈوں
کتابوں کے اندر علم و حکمت کی جو موتیاں ہیں وہ سب کی سب عربی زبان میں
ہیں۔ اور آج کے دور میں دنیا کی آبادی کا ایک بڑا حصہ اہل عرب پر مشتمل ہے۔
اور غیر عرب ممالک بالخصوص مغربی ممالک میں بھی عربیت اور اس کے علوم کو
سنجیدگی سے پڑھایا جاتا ہے۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ عربی زبان ہماری دنیاوی اور
اُخروی مجبور ی ہے۔اس کے لیے مملکت عزیز میں اس کے فروغ اور اس کے ترویج کے
لیے بہترین محنت کی ضرورت ہے۔ آئین پاکستان کا بھی تقاضہ ہے کہ عربی زبان
کی تعلیم و فروغ کو یقینی بنایا جائے۔اور اس کے لیے ترجیحی بنیادوں پر
اقدامات کیے جائیں۔
گزشتہ دنوں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ٹیچر کلب میں
''جمیعة عشاق العربیہ ''کے زیر اہتمام ایک ادبی نشست کا انعقاد کیا گیاجس
میں مجھے بھی مدعو کیا گیا تھا۔عشاق العربیہ کی یہ چھٹی نشست تھی۔ جس کے
مہمان خصوصی پروفیسر ڈاکٹر محمد منیروائس پریزیڈنٹ بین الاقوامی اسلامی
یونیورسٹی اسلام آباد تھے جبکہ صدر مجلس ،ڈاکٹر محمد بشیر ڈین عربک فیکلٹی
تھے۔اس مختصر سی محفل میں عربی زبان کے نامور اساتذہ و پروفیسروں نے شرکت
کی اور اپنے خطبات سے سامعین کو محظوظ کیا۔جن حضرات نے خصوصیت کے ساتھ عربی
زبان کی ترویج و تنفیذ اور مملکت خدادا پاکستان کے تمام دینی و عصری تعلیمی
اداروں کے لیے عربی کی ضرورت و اہمیت پر جو گفتگو کی بہت ہی اہمیت کے حامل
تھی۔اسلام آباد میں قائم سعودی سکول کے پرنسپل ڈاکٹر مبارک، میرے پیارے
استاد محتر م ڈاکٹر لشیخ ولی خان المظفر نے بھی عربی زبان کے متعلق اپنی
ٹکسالی عربی میں ایک شاندار خطبہ دیا۔نمل یونیورسٹی میں برونائی دارالسلام
کے یونیورسٹی سے تشریف لانے والے ڈاکٹر مصطفی السواحلی بھی اس نشست میں
خصوصی دعوت پر تشریف لائے اور اپنے خطبے سے اہل علم وادب کو نوازا۔اسلامک
یونیورسٹی کے عربک فیکلٹی کے اساتذہ، مصری اساتذہ، شعرا ء دیگر عربی ادب
اور عربی زبان کے دلدادے اس محفل میں شریک تھے۔ برادرم جنید انوار نے لاہور
سے اس محفل کو جوائن کیا تھا جبکہ راقم الحروف کو بھی اس محفل سے گفتگو
کرنی تھی لیکن گفتگو سے معذرت کیا۔ البتہ جمعیة عشاق العربیہ کے منتظمین نے
ہماری عربی سے محبت و مودت کی وجہ سے ہمیں ایک شیلڈ بھی عنایت کیا جو کہ ہم
نے ڈاکٹر منیر، ڈاکٹرمحمد بشیر اور ڈاکٹر مبارک کے ہاتھوں وصول
کیا۔الحمدللہ میرے لیے یہ اعزاز کی بات ہے کہ سال٢٠١٧ ء کو گلگت بلتستان کی
تاریخ میں پہلی مرتبہ جامعہ نصرة الاسلام میں مدارس واسکول کے طلبہ کے لیے
''یک ماہی عربی کورس'' کا اہتمام کیا جس سے طلبہ کو بہت فائدہ ہوا۔اس کورس
میں خصوصیت کے ساتھ الطریقة العصریہ، العربیة بین یدیک اور الناشین پڑھایا۔
سب سے زیادہ تکلم پر زور دیا۔آڈیو اور ویڈیو کے ذریعے بھی جدید عربی سے
متعارف کروایا۔
عشاق العربیہ کی اس پروقار ادبی محفل سے اہل علم حضرات نے عربی زبان کی
اہمیت وفضیلت اور اس کے ایک جاندار علمی و تحقیقی اور عوامی و صحافتی زبان
ہونے کے حوالے سے نہایت مفید گفتگو فرمائیں۔بین الاقوامی یونیورسٹی کے نائب
صدر پروفیسر ڈاکٹر منیر صاحب نے پاکستانی آئین میں عربی زبان کے حوالے سے
جو شقیں موجود ہیں ان کی نشاندہی کی اور کہا کہ عربی زبان کی حفاظت و ترویج
ریاست پاکستان کی ذمہ داری ہے۔استاد محترم الدکتور الشیخ ولی خان المظفرنے
اپنے مفصل خطبے میں کہا کہ حکومت پاکستان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عرب
ممالک بالخصوص سعودی عرب جانے والے تمام احباب کے لیے عربی زبان سیکھانے کے
مختصر کورسز کا اہتمام کریں۔ جو بھی عربی ممالک میں جائے گا ان کے لیے یہ
قانون بنایا جائے کہ وہ وہاں ملازمت کے لیے جانے سے پہلے عربی شارٹ کورسز
کے ذریعے عربی سکھیں جیسا کہ انگریزی ممالک میں جانے سے پہلے ان کی زبانیں
سکھائی جاتی ہیں۔ چین اور اسٹریلیا وغیرہ میں ان کو ویزہ دیا جاتا ہے جو ان
کی زبانیں سیکھ چکے ہیں، تو عرب سفارت خانوں کو بھی اس چیز کا خصوصیت کے
ساتھ اہتمام کرنا چاہیے۔دیگر مقررین نے بھی موضوع '' اللغة العربیہ
والتقنیات الحدیثہ'' یعنی عربی زبان اور جدید ٹیکنالوجی ، پربڑے مفصل و
زبردست خطبات ارشاد کیے۔انہوں نے جدید دور میں ٹیکنالوجی کی اہمیت اور اس
کے ذریعے عربی کیسے سیکھی جاسکتی ہے۔ موبائل ، آئی فون، لیپ ٹاپ اور
کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے ذریعے عربی سیکھنے اور اس کو رواج دینے کی بھی بات
کی اور اس کی سہولتوں اور پھر آج کے دور میں عربی علوم کے حوالے سے تیار
کیے جانے والے سوفٹ ویئرز، عربی چینل، ویب سائٹ اور مجلات پر بھی گفتگو
کی۔اور واٹس آپ ، ٹیوٹر اور مسینجر، فیس بک اور سوشل میڈیا کے ذرائع وغیرہ
پر ہونے والے مباحثات، مناقشات، مناظرات اور مکالمات پر بھی گفتگو کی اور
افادیت کو اجاگر کیا۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ مدارس اسلامیہ میں درس نظامی کی تمام کتب عربی میں
ہے لیکن مدارس کے فضلاء عرابک گرائمر جاننے کے باوجود بھی عربی زبان بولنے
اور لکھنے سے قاصر ہیں۔ مدارس کا اسلوب تدریس ہی کچھ ایسا ہے کہ طالب علم
عربی جانتے ہوئے بھی عربی لکھنے اور بولنے سے قاصر ہیں۔ ایک وجہ یہ بھی ہے
کہ سیلیبس سالوں پرانا ہے۔ اس کی نئی تشکیل نہیں کی گئی ہے جس کی وجہ سے
زبان عربی کے تکلم و تحریر میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور جو لوگ
یونیورسٹیوں میں عربی پڑھتے یا یا سیکھتے ہیں ان کے لیے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ
ان کی بنیادی گرائمر بہت کمزور ہوتی ہے اس لیے بھی یونیورسٹی کے طلبہ عربی
زبان کے بیان و تحریر سے نابلد ہوتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دور جدید
میں مرتب کی جانے والے عربی کتب کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔ بالخصوص میٹرک
تک عربی زبان کو ملک بھر میں لازمی قرار دے کر اس کی تدریس کے لیے عربی
جانے والے ماہرین اساتذہ کو بھرتی کیا جائے اور اس سے بھی بڑی اہم بات یہ
ہے کہ پہلی کلاس سے لے کر میٹرک تک عربی نصاب کی بہترین کتابیں ماہرین سے
تیارکروائی جائیں اس کی ایک مثال پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتابوں کی ہے۔
پنجاب ٹیسکٹ بک بورڈ نے انٹرمیڈیٹ تک انگلش اور دیگر اہم مضامین کی شاندار
کتابیں تیار کی ہے بالخصوص میٹرک تک انگلش ، اردو، جنرل سائنس اور ریاضی کی
جو کتابیں اس بورڈ نے آج کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر تیار کی ہے اس طرح آج
کی جدید تجارتی، صحافتی ، ابلاغی اور سفارتی ضروریات کو ملحوظ خاطر رکھتے
ہوئے وفاقی حکومت کے زیراہتمام ملک بھر کے لیے میٹرک تک عربی نصابی کتب
تیار کیا جانا چاہیے تاکہ ایک مسلمان بچہ بنیادی عربیت سے آگاہی حاصل
کریں۔جمیعة عشاق العربیہ کا قیام2010میں لایا گیا۔ابتدائی طور پر صرف دس
طلبہ اس جمیعت کے ہم سفر تھے مگر کام پھیلتا گیا اور آج ہزاروں لوگ عشاق
العربیہ کے کام سے مستفید ہورہے ہیں۔ میرے دوست اور عربی کے مایہ ناز
لکھاری برادرم زاہدعبدالشاہد اس کے بانی چیئرمین ہے۔ جمیعة عشاق العربیہ نے
ملک بھر میں کئی ادبی نشستیںکروائی ہیں جن میں اہل علم نے خطبات ارشاد کیے
ہیں۔ مختلف مدارس و اسکولوں میں عربی سیکھانے کے ورکشاپس کروائے ہیں۔ملک
بھر کے مدارس و یونیورسٹیوں کے عربی اساتذہ و طلبہ کو ایک ساتھ بٹھایا ہے
اور ان کی خدمات سے استفادہ بھی کیا ہے۔ کئی دینی جامعات کے اساتذہ اور
یونیورسٹیوں کے پروفیسروں کو مل بیٹھ کر عربی کی ترویج و تنفیذ اور تعلیم و
تعلم پر گفتگو کرنے اور سوچ و بچار کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ گزشتہ چار
سے سال عشاق العربیہ پاکستان میں عربی زبان کا عالمی دن(اٹھارہ دسمبر)
منانے کا اہتمام کرتی ہے ۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے صدر ڈاکٹر
احمد یوسف درویش کو عربی زبان کی بہترین خدمت کرنے پر عشاق العربیہ نے سال
٢٠١٧ کو تمغہ دیا۔عشا ق العربیہ نے سوشل میڈیا کے ذریعے بھی عربی کی تدریس
و تعلم کا کام بڑے خوبصورت انداز میں کیا ہے۔ سوشل میڈیا میں مکالموں
،مباحثوں اور مسابقوں کا انعقاد کیا ان میں ملک اور بیرون ملک سے شرکت کی
گئی اور جیتنے والوں کو انعامات دیے گئے۔جمیعة عشاق العربیہ کے چیئرمین
برادرم زاہد شاہد نے ''جمیعة عشاق العربیہ '' کے نام سے واٹس آپ کا ایک
گروپ بھی تشکیل دیا ہے جس میں دنیا بھر سے عربی زبان کے شائقین کو شامل کیا
گیا ہے۔ عربی زبان کے یہ دلدادے عربی کی افادیت و اہمیت اور اس کی ترویج و
تنفیذ پر ہر وقت گفتگو کرتے ہیں اور میرے جیسے طالب علم ان کی علمی و ادبی
مناقشات اور مکالمات سے مستفید ہوتے ہیں۔ اس گروپ میں بڑے بڑے کبار عربی
دان بھی ہیں۔ نوآموز طلبہ کو سیکھنے کے لیے بہت کچھ مل رہا ہے۔خوش قسمتی کی
بات یہ ہے کہ جمیعة عشاق العربیہ کا بانی چیئرمین بھی گلگت بلتستان سے تعلق
رکھتے ہیں اور ان کے ساتھ گلگت بلتستان کے کئی اساتذہ و طلبہ بھی ہیں۔ میری
ان سے گزارش ہوگی کہ جمعیة عشاق العربیہ کو گلگت تک پھیلایا جائے اور گلگت
میں سیمینارز، ورکشاپس اور عربی زبان سیکھانے کے پروگرام منعقد کریں۔ میری
ذاتی کوشش ہوگی کہ عشاق العربیہ کے ذمہ داروں کی ہر ممکن مدد کروں عربی
زبان و ادب کے حوالے سے کی منعقد کیے جانے والے سیمنارز، ورکشاپس اور
ٹریننگ کے لیے۔امید ہے کہ عشاق العربیہ کا نیٹ ورک اپنی خدمات کو گلگت تک
پھیلایا گا۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ |