آج کے دور کا انسان اور مشینی ایجادات۔۔۔

کہتے ہیں:ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت۔۔۔۔۔۔ احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات پرانے زمانے سے ترقی کرتا ہوا انسان جب سے لوہے کے زمانے میں آ پہنچا ہے تو ضروریاتِ زندگی نے ایجادات کا ایک ایسا تابناک سلسلہ شروع کیا جسے ٹیکنالوجی کاسنہرا دور کہنا غلط نہ ہوگا۔انسانی دل ایک مخصوص رفتار و ردھم کا حامل ہے۔ جدید مشینری سے قبل وہ تمام تر آلات جو انسان استعمال میں لاتا رہا ہے انسانی دل کی رفتار سے مکمل ہم آہنگ تھے لیکن جدید مشینوں کی رفتار اور ردھم کہیں زیادہ تیز تھا جس کی وجہ سے انسان اور مشینوں کے درمیان موجود ہم آہنگی کا خاتمہ ہو گیا اور انسان مشین کی رفتار سے کام کرنے پر مجبور ہو گیا۔ جیسے جیسے وہ مشین کی رفتار سے ہم آہنگ ہوتا گیا ویسے ویسے وہ انسانی خصوصیات سے محروم ہوتا چلا گیا۔ تعلق، محبت، مروت اور اس جیسے جذبے کمزور پڑتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ انسان خود ایک مشین بن کر رہ گیا۔ یہ رفتار کے عذاب کے نقصانات ہیں جو نوعِ انسانی کو بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ آج کے ماحول، سماجی روابط، بیماریوں، دلوں کے ٹوٹنے اور رشتوں میں دراڑیں پڑنے کے تناظر میں دیکھا جائے۔ تو یہ آج کی مہذب دنیا کے انسان کی زندگی کا خلاصہ ہے۔ آپ سب سے پہلے ڈیپ فریزر اور فریج کو لے لیجیے۔ جن میں کئی کئی ہفتوں بلکہ عید قربان کے بعد تو مہینوں تک گوشت کو محفوظ کر کے دل اور شریانوں کے لیے مہلک بنا دیا جاتا ہے۔ حکیم اور ڈاکٹر اس بات پہ متفق ہیں کہ بہت زیادہ دنوں تک مصنوعی طریقے سے کچا گوشت اور پکے پکائے کھانے محفوظ کرنے سے بے شمار بیماریاں جنم لیتی ہیں۔جن میں ہائی بلڈ پریشر، اپھارہ، بدہضمی اور تیزابیت سرفہرست ہیں۔ یہ ایک عام مشاہدہ اور تجربہ ہے کہ کئی کئی دنوں کا فریز کیا ہوا کھانا گرم ہونے کے بعد اپنا اصلی ذائقہ کھو دیتا ہے۔ اب آ جائیے مائیکرو ویو اوون کی طرف، جس کی تیز شعاعیں کھانوں میں جذب ہو کر انسانی معدے میں پہنچتی ہیں اور کینسر کا سبب بن رہی ہیں۔۔۔بھلا ہو اس احساس کمتری اور جہالت کا جس نے خواتین کو احساس ذمہ داری سے دور کر کے صرف بیوٹی پارلر تک محدود کر دیا ہے۔ اب کنواری لڑکیوں اور خواتین کی زندگی کا اصل مسئلہ صرف گورا ہونا ہے۔ اس کے لیے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں ۔ سارا وقت تو اس تلاش اور کوشش میں نکل جاتا ہے کہ رنگ گورا کیسے کیا جائے۔کیمیکل اور تیزاب ملی کریموں سے یا مختلف لوشن اور صابنوں کے استعمال سے؟ اس جانفشانی کے بعد وقت کہاں بچتا ہے کہ کچن میں جایا جائے۔ ویسے بھی کچن کی گرمی میں رنگ جھلسنے کا اندیشہ بھی رہتا ہے۔ اس لیے فریز کیے ہوئے بازار کے تیار کھانوں کو مائیکرو ویو اوون میں گرم کر کے کھانا زیادہ بہتر اور آسان لگتا ہے۔ خواہ اس سے تیزابیت پیدا ہو یا کولیسٹرول کی سطح بلند ہو۔۔اب آ جائیے ایئرکنڈیشن کی طرف۔ مصنوعی ٹھنڈک میں مسلسل بیٹھے رہنے سے جوڑوں کا درد، نزلہ اور دیگر موضی بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں۔ ان مشینوں کے موجد لٹریچر میں ان نقصانات اور بیماریوں کا بھی تفصیلاً ذکر کر دیتے ہیں جو ان کے مسلسل استعمال سے پیدا ہوتی ہیں۔ لیکن ہماری نقال قوم اس لٹریچر کو پڑھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتی۔ اس کے علاوہ وہ ایجادات کے بعد اس کے نقصانات کا بھی جائزہ لیتے اور تجربات کرتے رہتے ہیں۔لیکن ہمارے ہاں ایسا کوئی رواج نہیں۔ جدید ترین تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مائیکرو ویو اوون اور موبائل فونز کا زیادہ استعمال دماغی معذوری کا سبب بھی بن رہا ہے۔ لیکن کسے پرواہ؟ جو قومیں کتاب اور مطالعے سے دور ہوتی جاتی ہیں۔ انھیں ان تباہیوں کا ادراک کیونکر ہو سکتا ہے۔ بڑی اور زندہ قوموں کی ترجیحات مختلف ہوتی ہیں۔ وہ اپنی ہی ایجاد کردہ مصنوعات کو محض ذاتی فائدے کے لیے اشتہار بازی سے فروغ نہیں دیتے بلکہ ان کے لیے ’’انسان‘‘ اہم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پونسٹان (Ponstan) سے لے کر موبائل فون، کمپیوٹر اور مائیکرو ویو اوون کے استعمال سے پیدا ہونے والے منفی اور مضر اثرات سے پوری دنیا کو آگاہ بھی کر رہے ہیں۔اب لے لیجیے کاروں اور موٹر سائیکلوں کے غیر ضروری استعمال کو۔ اور اس تناظر میں تو میری بات سے اتفاق کریں گے کہ بڑھتا ہوا موٹاپا، باہر نکلے ہوئے پیٹ، ہائی بلڈ پریشر اور دل کے بہت سے امراض کی وجہ مسلسل ان گاڑیوں کا استعمال ہے۔ دہی اور آلو بھی قریب کی مارکیٹ سے لینے ہوں گے تو گاڑی کے بغیر نکلنا ممکن نہیں۔ دن بھر دفتروں میں، ٹھنڈے ماحول میں بیٹھے رہیے، اور شام کو اپنی سیٹ سے اٹھ کر بائیک، کار یا بس میں سوار ہو کر گھر پہنچ گئے۔ٹیکسی اور رکشہ تو دروازے پہ اتارنے کے پابند۔ ہم نے خود کو محض تن آسانی، نقالی اور حرص نے فطرت سے اس حد تک دور کر دیا ہے کہ کھانا پکانے کے پروگراموں میں اگر کوئی سمجھدار خاتون، حکیم یا ڈاکٹر مختلف امراض سے بچنے کے لیے گھریلو نسخے بتاتے ہیں تو لوگوں کو تعجب ہوتا ہے کہ بھلا کس طرح سویوں کا پانی پینے سے نزلہ زکام دور ہو جاتا ہے۔ نیبو، تلسی، اجوائن، سونف، انجیر، اور پودینے کا استعمال صحت کے لیے کیوں ضروری ہے۔ایک طرف اگر مشینوں کے ذریعے آکسیجن دے کر تنفس بحال کیا جا رہا ہے، دل کی بند شریانوں کو کھولا جا رہا ہے، تو یہ بھی تو سوچیے کہ ان امراض کی نوبت کیوں آئی؟ گھر کے پکے ہوئے صحت بخش کھانوں کو چھوڑ کر چربی میں پکے ہوئے کھانے، پیزا، برگر، نہاری، چپلی کباب اور اسی قبیل کے دیگر کھانے جن کے مضر صحت ہونے میں کوئی کلام نہیں۔ ہماری زندگی کا حصہ ہیں۔ مغربی اقوام نے بچوں میں بڑھتے ہوئے موٹاپے کا نوٹس لیا اور حکومت نے پیزا، برگر، فرنچ فرائز، اور دیگر ایسے جنک فوڈ پر پابندی لگانے پر غور کرنا شروع کر دیا ہے۔ جن کے بے تحاشا استعمال سے کم عمری میں بچے موٹاپے کا شکار ہو رہے ہیں۔بات مشینوں کے بڑھتے ہوئے استعمال کے مضر اثرات سے شروع ہوئی تو یہ بھی یاد رکھیے کہ مصنوعی مشروبات جن میں کیمیکل کی وافر مقدار ہوتی ہے۔ وہ معدے، حلق اور جگر کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔ مشروبات کا استعمال تو ہمیشہ سے تھا۔ لیکن یہ ڈبوں اور بوتلوں میں بند نہیں بلکہ گھروں میں تیار ہونے والے تازہ شربت اورشکنجین ہوا کرتے تھے۔ آج بھی پڑھے لکھے ان مہذب گھرانوں میں جو تقلید کو احساس کمتری جانتے ہیں وہ نقالی کے بجائے اب بھی صحت کو ترجیح دیتے ہیں۔
کاش اقبالؔ اگر آج زندہ ہوتے تو یہ ضرور کہتے:
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے‘ لب پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی

Allah Ditta
About the Author: Allah Ditta Read More Articles by Allah Ditta: 10 Articles with 10269 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.