جمعرات 26نومبر 2017کو این اے چار کا ضمنی الیکشن ہونے
والا ہے،اس الیکشن کے نتیجہ میں صوبہ بھر سمیت ملک کی تمام چھوٹی بڑی سیاسی
جماعتوں کی پوزیشن واضح ہوجائے گی۔اب تک کی خبروں میں حلقہ میں مقابلہ
پاکستان تحریک انصاف ،پاکستان مسلم لیگ(ن) ،عوامی نیشنل پارٹی،جماعت اسلامی
اور پاکستان پیپلزپارٹی کے مابین ہے۔ان کے علاوہ تحریک لبیک اور آزاد
امیدوار بھی میدان میں ہیں۔اس لئے یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ جمعرات 26کی
شام کس کے نام ہوگی یعنی کون بنے گا ایم این اے ۔بہرحال اس بات میں بھی
کوئی شک نہیں کہ حلقہ این اے 4پشاورکا مضافاتی علاقہ ہے ،جس میں زیادہ تر
دیہات آتے ہیں۔تاہم اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ اندرون شہر کے مقابلے
میں تعلیم کی شرح پشاور کے مضافاتی علاقوں میں زیادہ ہے۔اس لئے این اے
4بارے کسی بھی قسم رائے قائم کرنا قبل از وقت ہوگا۔پورے حلقہ میں تمام
چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں کے بھرپوراجتماعات جاری ہیں۔پاکستان مسلم لیگ(ن)
کے امیدوار جوکہ عام انتخابات میں رنررہے کو جمعیت علمائے اسلام (ف)وغیرہ
کی بھرپورحمایت حاصل ہے۔نہ صرف یہ بلکہ ناصر موسی زئی حلقہ این اے 4میں
اپنا ذاتی اثر ورسوخ بھی کرتے ہیں جو ان کی کامیابی میں ان کی معاون
ومددگارثابت ہوگی۔حالانکہ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار ارباب عامر کو
بھی چھوٹی سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے مگر اس بات میں بھی کوئی شک نہیں
کہ پاکستان تحریک اپنے چارسالہ دوراقتدار میں اپنی ہی غلطیوں کا خمیازہ
بھگت رہی ہے کہ جس کی وجہ سے اسے این اے 4میں بھی ناکامی کا سامنا رہے
گا۔ایک طرف پاکستان تحریک قبل از جیت کو یقینی سمجھ بیٹھی ہے تو دوسری جانب
اسی جماعت کے ناراض امیدوار ارباب عامر کے مقابلے میں ہیں جس سے یقینا
پاکستان تحریک انصاف کے ووٹرز شدیدبے چینی کا شکا ر ہیں۔ان کے مطابق قیادت
نے نظریاتی کارکنوں کو نظراندازکرتے ہوئے نئے چہرے کو ٹکٹ دیا جس سے
پاکستان تحریک انصاف کاووٹ تقسیم ہوچکاہے۔اور جس کا براہ راست دیگر سیاسی
جماعتوں کے امیدواروں کوہوگا۔ایک طرف پاکستان تحریک انصاف اپنی جیت کے
سنہرے خواب دیکھ رہی ہے تو دوسری جانب اپنے ہی پارٹی کے ناراض کارکنان کو
اب تک منانے میں دلچسپی ظاہر نہیں کی۔شاید صوبائی قیادت نے اس بات کو نظر
انداز کردیا ہو کہ خان صاحب کی بڑھتی ہوئی عوامی مقبولیت انہیں ضرور
بالضرور جیت دلائے گی تاہم اس بات کو بھی مدنظر رکھناہوگا کہ 2013کے عام
انتخابات میں این اے ون کی سیٹ چھوڑنے پر ضمنی انتخابات میں پاکستان تحریک
کو شکست کا سامنا کرناپڑاتھا۔اسی طرح این اے چا ر پر پاکستان تحریک انصاف
کے امیدوار کی رحلت پر ان کے بیٹے نے پاکستان پیپلزپارٹی نے ناطہ جوڑلیا
،یوں پاکستان تحریک انصاف کے سابقہ امیدوار کا ووٹ بھی پاکستان پیپلز پارٹی
کو پڑے گا۔ پاکستان مسلم لیگ(ن) کے ناصر موسی زئی کی موجودگی کوبھی
نظراندازنہیں کیا جاسکتاہے،حالانکہ پانامہ جیسے مسائل سے پاکستان مسلم
لیگ(ن) کی ساخت کو دھچکا ضرور لگا تاہم اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ
صوبہ میں حکمران جماعت سے عوام یکسر نالاں ہیں۔اب تک صوبہ اور خاص طورسے
پشاورکو کسی بھی قسم کا میگا پراجیکٹ نہیں دیا گیا ۔البتہ RBTیعنی ریپڈ بس
ٹرانزنٹ سے این اے 4کے ووٹرز کو ضرور بے وقوف بنایا گیا۔لیکن حکمران جماعت
کو اب یہ ضرو رسمجھ لینا چاہیے کہ ان کا واسطہ اکیسویں صدی کی پڑھی لکھی
پاکستانی قوم سے ہے۔جو اپنے نظریات اورتجربات کی بدولت معاشرہ کے
بگاڑاورسنوار سکنے کی بھرپور طاقت رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان مسلم
لیگ(ن) کے ملک بھر میں جاری میگا پراجیکٹس اور سی پیک جیسے منصوبہ جات بھی
پاکستان کی تقدیر بدل دیں گے۔بہرحال عوام اب یہ بات جان چکے ہیں کہ پاکستان
تحریک انصاف براہ راست نہ سہی تو بلاواسطہ پاکستان مسلم لیگ(ن)کے ترقیاتی
کاموں کی ضرور حامی ہے ،جہاں گزشتہ سالوں میں میٹروبس منصوبوں کو جنگلا بس
منصوبہ کا نام دیا گیا وہاں صوبہ خیبرپختونخوا میں RBTسمجھ میں
آجاتاہے۔پاکستان تحریک انصاف اب تمام عالمی رپورٹس اور تجزیوں کوماننے پر
مجبور ہے کہ جس کی بدولت 2018کے عا م انتخابات میں بھی پاکستان مسلم لیگ(ن)
واضح اکثریت سے جیت جائے گی۔کیونکہ یہ باتیں اذکاررفتہ ہوچکی کہ پاکستان
تحریک انصاف تبدیلی چاہتی ہے۔ |