سابق صدر آصف علی زرداری نے ایک بار پھرمفاہمت کی سیاست
کے تحت پارٹی کے ناراض کارکنوں اور عہدے داروں سے رابطہ کرکے انہیں متحد
ہونے کی نوید سنائی ہے تاکہ متوقع آمدہ انتخابات کے لیے پارٹی کو ازسر
نومربوط طریقے سے کھڑا کیا جاسکے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آصف علی
زرداری سیاست کی بساط کے وہ مہرے ہیں جو کسی بھی مشکل میں بازی پلٹنے کی
مہارت رکھتے ہیں۔واقفان حال ان کے اس وصف کی برملا تعریف کرتے ہیں کہ وہ
نواب زادہ نصر اﷲ خان مرحوم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سیاسی جوڑتوڑ کے ماہر
سمجھے جاتے ہیں جو اپنے مخالفین کو بھی منا کر ٹیبل سے اْٹھتے ہیں چاہے ان
کی کوئی بھی قیمت کیوں نہ ہو۔انکی مثال اس شاطر گھوڑے جیسی ہے جس تک پہنچنا
کسی سطحی سیاست دان کے بس کی با ت نہیں ہے۔
مجھے یاد ہے وہ وقت جب سابق صدر آصف علی زرداری اٹک قلعے میں قید تھے اور
انکی ہر پیشی پر پیپلز پارٹی کے عہدے دار، قریبی رفقاء اور صحافیوں کی ایک
کثیر تعداد دیکھی جا تی تھی۔جبکہ پیشی کے بعد آصف علی زرداری کے وکیل سابق
چیرمین سینٹ فاروق ایچ نائیک صحافیوں اور عہدے داروں کو کیس سے متعلق
بریفنگ دیا کرتے تھے۔آصف علی زرداری ہر پیشی پر آنے والے پیپلزپارٹی کے
عہدے داروں اور صحافیوں کی خیریت دریافت کیا کرتے تھے۔ دو پیشیوں پر ملک
حاکمین خان دیکھائی نہ دیئے تو آصف علی زرداری نے استفسارکیا کہ ملک حاکمین
خان کیوں نہیں آ رہے۔ پیغام بھجوایا کہ ملک حاکمین خان سے کہیں کہ اگلی
پیشی پرضرور آئیں۔میں بھی اْن دنوں صحافتی فرائض کی انجام دہی کے لیے اٹک
قلعے جایا کرتا تھا۔جب ملک حاکمین خان اگلی پیشی پر پہنچے تو عدالتی
کارروائی کے بعد غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے آصف علی زرداری نے ملک حاکمین
خان کو مخاطب کرکے استسفارکیا تو ملک حاکمین خان نے کوئی عذر پیش کیا جس پر
آصف علی زرداری نے تاریخی جملہ کہا کہ’’حاکمین خان میں نے یہاں صدا نہیں
رہنا۔ جو آج میرے ساتھ قدم سے قدم ملا کر کھڑے ہونگے کل وہی میرے ساتھ
اقتدار میں بھی شریک ہونگے‘‘۔
تاریخ شاہد ہے کہ آصف علی زرداری جب صدر بن کر ایوان صدر آئے اور پانچ سال
ایوان صدر میں سیاسی جوڑ توڑ میں متحرک رہے لیکن انہوں نے ملک حاکمین خان
کو اپنے نزدیک نہیں آنے دیا۔ ملک حاکمین خان نے سرتوڑ کوشش کی کہ بے نظیر
دور والی اہمیت اور مرتبہ دوبارہ عطا ہو جائے لیکن بے سود ! جبکہ آصف علی
زرداری نے اپنے جیل کے رفقا اور مددگاروں کو اقتدار میں آنے کے بعد خوب
نوازا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک حاکمین خان پیپلز پارٹی کے نظریاتی کارکن اور
نہ بکنے والے وفادار ساتھی ہیں جنہوں نے ہر دباؤ اور آفر کو ٹھکرا کر لوٹا
بننے سے انکار کیا اور یہی وہ سب سے بڑا کریڈٹ ہے جو ملک حاکمین خان کے
ماتھے کا جھومر ہے۔ مارشل لاء کے دوران بحالی ء جمہوریت کی طویل سیاسی
جدوجہد اورجیلیں بھی ملک حاکمین خان کا ارادہ متزلزل نہ کر سکیں۔ملک حاکمین
خان کا اپنی سیاسی جد وجہد کو ایک کتاب کی شکل میں محفوظ بنا دیناملکی
تاریخ اور سیاست کے طالب علموں کے لیے ایک بہت قیمتی اثا ثہ ہے۔ملک حاکمین
خان اپنی کتاب’’خار زار سیاست کے شب و روز‘‘میں ذوالفقارعلی بھٹو کے حوالے
سے رقمطراز ہیں کہ ذوالفقا ر علی بھٹوسے انکی پہلی ملاقات 1970ء کے
انتخابات میں ایم پی اے منتخب ہونے کے بعد انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل راولپنڈی
میں اپنی پہلی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’بھٹو صاحب سے
ملاقات کے بعدجب میں واپس جانے کے لیے ہوٹل کی لابی میں ڈرائیور کا انتظار
کر رہا تھاکہ اس دوران بھٹو صاحب کا ملازم خاص نور محمد عرف نورا مغل دوڑتا
ہوا آیا اور مسکراتے ہوئے مجھے مبارکبادد ی اور بتایا کہ بھٹو صاحب نے غلام
مصطفی کھر سے کہا کہ دنیا کا ہر انسان بے وفا ہو سکتا ہے لیکن یہ نوجوان
کبھی بے وفائی نہیں کرے گا۔ میں اس نوجوان کی آنکھوں میں وفا دیکھ رہا ہوں۔
یہ بات وقت اور تاریخ ثابت کرے گی"۔یہ بات بعدازاں فوٹو گرافر اور مصطفی
کھر نے بھی بتائی۔
سینٹر ملک حاکمین خان پیپلز پارٹی کی ایک قد آور شخصیت ہیں۔اگرچہ وہ اپنی
جوانی کی طرح اب متحرک نہیں ہیں۔ملک صاحب نے اپنے بیٹے ملک شاہان حاکمین کو
بھی سیاست میں لانے کی سعی کی تھی لیکن ایک بار ایم پی اے رہنے کے بعد وہ
بھی عملی سیاست کو خیر آباد کہہ گئے کیونکہ وہ ان اوصاف کے مالک شاید نہیں
تھے جنکی کسی سیاسی جماعت کو ضرور ہوتی ہے۔یوں شہر کی حد تک پیپلز پارٹی کا
گراف خطر ناک حد تک گر گیا ہے۔
ملک حاکمین خان اگرچہ ایوان اقتدار کی راہداریوں میں کم کم ہی دیکھائی دیتے
ہیں البتہ اسلام آباد کی نجی محفلوں میں ان کا آناجانا اکثر لگا رہتا
ہے۔ہفتے کے دن کراچی جانے سے پہلے سابق صدر آصف علی زرداری نے ایک طویل
تعطل کے بعدملک حاکمین خان سے اسلام آباد میں ملاقات کی اور تجدید تعلقات
کی نشانی کے طور پر اعلیٰ نسل کا ایک گھوڑا تحفے میں عطا کیا جو اس بات کا
عندیہ ہے کہ آصف علی زرداری ملک حاکمین خان کو ایک بار پھرضلع اٹک کی سیاست
میں متحرک کرنا چاہتے ہیں تاکہ آمدہ متوقع انتخابات میں پیپلز پارٹی ضلع
اٹک سے اپنی ضمانت ضبط کروانے سے بچ سکے۔ |