آج صبح انگریزی اخبار پڑھنے کو بہت جی چاہ رہا تھا گو کہ
یہ معلوم بھی تھا ہمارے انگریزی کے ساتھ تعلقات کس قدر نازک ہیں مگرجی تو
کسی پہ بھی آ سکتا ہےخیر جیسے ہی انگریزی اخبار پرھنے کو جی للچایا تو پہلا
سوال عقل سلیم میں یہ ابھرا کہ میاں اخبار کہاں سی لاؤ گے ہم نےلاری نکالی
اور انگریزی اخبار کی تلاش کو چل دیے تقريبا ڈیڑھ سے دو میل تک چونٹی کی
رفتار سے لاری چلائی مگر کہیں اخبارفروش نہ دکھائی دیا خیر جب تھک ہار کے
واپس گھر کو چلے تومعلوم ہوا کے ہمرے ہی گھر کے قریب ایک چوراہے میں
اخبارفروش دستیاب ہے الله الله کر کے اخبار فروش کی سائیکل دکھائی دی مگر
اخبار فروش کہیں نظر نہیں آیا سائیکل کے عقب میں ایک موچی بیٹھا دکھائی دیا
ہم اس کے پاس گۓ اور پوچھا جناب یہ اخبار فروش کہاں گیا ہے موچی نے بتایا
صاحب شولا وہ سامنےوالے درخت کے سائے میں سویا ہوا ہے شولا صبح صبح سائیکل
کھڑی کر دیتا ہے اور آرام سے درخت کے سائے میں سو جاتا ہے ہم شولے کے پاس
گۓ جو گہری نیند سو رہا تھا ہم نے آواز دی چچا اُٹھیے ..... ہمیں اخبار
خریدنا ہے شولا فوران اٹھا , ٹوپی سر پہ رکھی اور کھڑا ہو گیا .بولا ہاں
بیٹا کون سا اخبار دوں پہلے تو چاچا شولے نے خدا جانے کن اخباروں کے نام
لئےمیں نے وہ تمام نام پہلی مرتبہ سنے تھے میں نے کہا چاچا کیا تم پاکستان
بننے سے پہلے چھپنے والے اخباروں کے نام لے رہے ہو چاچے نے کہا بیٹا یہاں
تو صرف میں دو ہی جگہوں پر اخبارپھینکتا ہوں ایک حجام کی دکان پر اور دوسرا
چاے کے کھوکھےپر اور انھیں صرف کم قیمت والے اخبار سے غرض ہے نہ کے اخبارکے
نام سے اور نہ ہی تاریخ سے اکثر اوقات ایک ہی تاریخکااخبار کئی دن تک
پھینکتا رہتا ہوں مگر کمال کی بات تو یہ ہے کہ آج تک کسی نے شکایت ہی نہیں
کی خیر ہم نے کہا چاچا ہمیں ڈان یا دا نیوز دے دیجئے چاچا شولا مسکرایا اور
کہا میاں یہاں اردو کا اخبار کوئی نہیں خریدتا اور تم انگریزی اخبار کی بات
کرتے ہو فرمائش لکھوا دو اگلے ہفتے تمھارے لئےانگریزی اخبار لے آوں گا اب
میں انگریزی اخبار تو کیا کوئی بھی اخبار پرھنے کی مزید خواہش نہیں کر سکتا
تھا اور میں خاموشی سے گھرآ گیا- |