“ مم مم،،، میری وائف اب کیسی ہے ؟ “ والی نے بمشکل
پوچھا۔
“ انکو بلڈ کی ضرورت ہے۔ فوراً بلڈ کا انتظام کریں انکا پہلے ہی بہت بلڈ
ضائع ہو چکا ہے۔ آپ میں سے اگر کسی کا بلڈ گروپ او نیگیٹیو ہے تو وہ ابھی
میری ساتھ چلے ٹیسٹ کر کے مریض کو فوری چاہیے مریض کی حالت بہت نازک ہے۔“
نرس نے تفصیل سے بتایا۔ والی نے شازمہ کی طرف دیکھا۔
“ میرا بلڈ گروپ میرا بیٹی کا ایک ہی ہے ،،،،، چلیں فوری چلیں میرا جتنا
چاہیے بلڈ نکال لیں، پر میری بیٹی کو کچھ نہیں ہونا چاہئے۔ “ شازمہ نے اگے
بڑھ کر نرس سے کہا۔
“ آئیں میرے ساتھ۔ “ وہ نرس کی ہمراہی میں اسکے پیچھے چل دی والی وہیں سر
پکڑ کے بیٹھ گیا اور نائلہ نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ ہاتھ رکھے جانے پر
والی نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ نائلہ نے اثبات میں سر ہلا کر اسے صبر کی
تلقین کی۔ “ سب ٹھیک ہو جائے گا پریشان نہیں ہوتے اللہ پر بھروسہ رکھو وہ
ہماری حسنہ کو سلامت رکھے گا۔“ نائلہ نے اسے دلاسہ دیا والی نے اثبات میں
سر ہلا دیا۔ خود نائلہ حسنہ کی صحت کے لئے نفل پڑھنے کا کہہ کر اٹھ کر نماز
والے کمرے میں چلی گئی۔ والی کے لئے ایک ایک لمحہ اذیت میں گزر رہا تھا وہ
مسلسل آئی سی یو کے دروازے کو دیکھی جا رہا تھا جہاں سے نرسیں اندر باہر آ
جا رہی تھی۔
کبھی وہ ان سے حسنہ کی خیریت پوچھ لیتا پر ہر بار اسے یہی جواب ملتا ،،،،
ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے مریض کی حالت کافی خراب ہے کبھی تو نرس کچھ کہے
بغیر ہی تیزی سے گزر جاتی۔
اسے ایک دم سے گھبراہٹ ہونے لگی۔ وہ تیز تیز سانسیں لینے لگا اسکے ساتھ کیا
ہو رہا تھا کیوں ہو رہا تھا؟ اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا
اور زور زور سے سانس لینے لگا اسکا دم گھٹ رہا تھا جیسے کسی نے دل مٹھی میں
لے کر مسل دیا ہو یہ کیا تھا؟ کیسی تکلیف تھی اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی
وہ چلنے لگا اسکا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا دل کے ساتھ ساتھ اسکے پاؤں بھی
تیز چلنے لگے پھر اور تیز وہ بھاگنے لگا وہ تیزی سے بھاگنے لگا۔ اسکی
آنکھوں میں آنسو تھے۔ اور وہ بھاگ رہا تھا۔ آس پاس کے لوگ اسے کن اکھیوں سے
دیکھ رہے تھی اسے آج کسی کی پروا نہیں تھی۔ وہ ٹھیک نہیں تھا اسکا دل ٹھیک
نہیں تھا۔ وہ بھاگتا ہوا ہوسپیٹل کے لان میں آگیا۔ وہاں ایک درخت کے پاس
گھنٹنوں پر ہاتھ رکھ کر جھک کر تیز تیز سانسیں لینے لگا۔ آنسو میں تیزی آ
چکی تھی اور دل کو سکون نہیں تھا۔ وہ ایک دم سے سیدھا کھڑا ہو گیا۔
اور،،،،،،،، اللہ اکبر کہتا ہو وہی سجدے میں چلا گیا،،،،
اسکے دل کو سکون آتا جا رہا تھا سکون سکون سکون۔ وہ جانے کتنی دیر سجدے میں
پڑا رہا لوگ آتے جاتے اسے دیکھ رہے تھے اسے کسی کی پڑوا کب تھی آج ،،،، آج
تو اسے بس اپنے محبوب کی پڑی تھی۔ وا حسنہ سے اتنی محبت کرتا اسے پتا نہیں
تھا۔
اسکے دل کو سکون آتا جا رہا تھا، قرار آتا جا رہا تھا جیسے کسی نے دل پر
شبنم کے ٹھنڈے قطرے ڈال دئیے ہو۔ اسے پتا نہیں تھا ایک سجدہ اے خدا کیسے
اسے بے سکونی سے سکون دے گیا اسے یاد نہیں تھا اسنے آخری بار کب اللہ کے
حضور سجدہ دیا تھا شاید تب جب وہ دس سال کا تھا اسکے بعد اسنے بے فکری کی
زندگی گزاری جس میں بس بے سکونی تھی عجیب سی بے سکونی ،،،،، وہ ابھی تک اسی
حالت میں تھا اسکی ٹانگیں شل ہو چکی تھی۔ پر سکون ایسا تھا کہ اٹھنے کا دل
نہیں تھا۔
“ والی ،،، والی بیٹا ،،، والی وہ اتنا مگن تھا کہ کوئی اسے آوازیں دے رہا
پر اسے کچھ سنائی نہیں دے رہاتھا۔ نائلہ نے گھبرا کر زور سے پکارا تب والی
نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔
“ حسنہ کو ہوش آگیا ہے اب وہ خطرے سے باہر ہے۔ “ نائلہ نے مسکرا کر کہا ۔
وہ بنا کچھ کہے ایک بار پھر سجدہ اے شکر ادا کر کے نائلہ کے ساتھ اندر
آگیا،،،،، (جاری ہے ) |