ابھی تک آیا نہیں انمول۔۔‘‘رضیہ بیگم کی نگاہیں بس دروازے
پر ہی ٹکٹکی باندھے ہوئے تھی
’’ امی! آپ بے فکر رہیں۔۔ آجا ئے گا ۔۔ ابو اور حجاب ہیں ناں اس کے
ساتھ۔۔‘‘وجیہہ نے ان کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا۔رضیہ بیگم کبھی ٹی وی لاؤنج
میں ٹہلتی تو کبھی دروازے کے پاس جا کر کھڑی ہوجاتیں۔ آج انمول گھر آرہا
تھا۔ اس کے زخم تقریبا مندمل ہونا شروع ہوچکے تھے۔اسی لئے ڈاکٹر نے اسے گھر
لے جانے کی اجازت دے دی۔ سب گھر والے بہت خوش تھے۔علی عظمت تو خود اسے لینے
گئے تھے اور رضیہ بیگم اُن کی تو خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہیں تھا،انہوں نے
بھی ساتھ جانے کی ضد کی تھی مگر تبھی وجیہہ آگئی اس لئے انہیں گھر پر رکنا
پڑا۔
’’لگتا ہے آگئے۔۔!!‘‘ باہر سے کار کے رکنے کی آواز آئی تھی۔ وجیہہ اور رضیہ
بیگم دروازے کے پاس آکر کھڑی ہوگئیں۔
’’السلام علیکم!۔۔۔‘‘حجاب نے آتے ہی سلام کیا۔ وجیہہ اور رضیہ بیگم نے جواب
دیا اور انمول کو دیکھنے لگیں ۔
’’انمول؟‘‘ انمول کو سامنے نہ پا کر رضیہ بیگم کے چہرے پر مایوسی چھاگئی
’’ السلام علیکم ! امی۔۔۔‘ ‘ علی عظمت وہیل چئیر کو پکڑے اندر آرہے تھے۔
انمول کی س حالت کو دیکھ کر رضیہ بیگم کو ایک دھچکا سا لگا تھا
’’ انمول؟ یہ۔۔۔!!‘‘ استفہامیہ انداز میں پوچھا تھا
’’ امی آپ فکر مت کریں۔۔ انمول بالکل ٹھیک ہے و ہ بس پاؤں ذرا سے جھلسے
ہوئے ہیں جیسے ہی ٹھیک ہوجائے گیں ۔ انمول پہلے کی طرح چلنے پھرنے لگے
گیں۔۔‘‘حجاب کے منہ سے یہ الفاظ سنے تو رضیہ بیگم کے دل کو ذرا تسلی ہوئی
’’ٹھیک تو ہے ناں میرا بیٹا۔۔!!‘‘ اس کی طرف بڑھ کر اس کے ماتھے کو چوما۔اس
کو پیار کیا۔ اس کے بالوں کو پیار سے سہلایا۔وہ خامو ش نگاہوں سے مسکراتا
جا رہا تھا۔اس کی مسکراہٹ میں پہلے جیسی چاشنی تھی اور نہ ہی دلکشی۔لیکن
پھر بھی وہ مسکرا رہا تھا۔شاید یہ بات وہ بھی اچھی طرح جانتا تھا اس لئے
بناوٹی مسکراہٹ سجائے ہوئے تھا۔
’’ اب طبیعت کیسی ہے؟‘‘ وجیہہ نے آگے بڑھ کر پوچھا تو اس کی آنکھوں میں
آنسوآگئے
’’ارے! یہ کیاآنسو؟ یہ آنسو بہت قیمتی ہوتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر
انہیں بہا کر ضائع نہیں کرتے۔۔۔‘‘ وجیہہ نے اس کے چہرے سے آنسوؤں کو اپنے
انگوٹھوں سے پونچھا
’’مم معاف کردیں مجھے آپی!‘‘جو لفظ سننے کواس کے کان ترس گئے تھے آج جب ادا
ہوئے تو آنسو بہے بغیر نہ رک سکے۔زندگی میں پہلی بار انمول کے لبوں سے لفظ
آپی کا سننا جیسے اس کی کانوں کی تشنگی کو مٹا گیا تھا۔ آنکھوں کی راعنائی
کو ایک نیا موڑ دے گیا۔ وہ روتے ہوئے وجیہہ کے سامنے ہاتھ جوڑ
رہاتھا۔آنکھوں سے آنسو جاری تھی۔ لفظوں میں کرب نمایاں تھا۔وجیہہ نے لپک کر
اس کے ہاتھوں کو چوما اور اس کو اپنے گلے سے لگا لیا
’’ ایک بار پھر کہنا۔۔۔‘‘وہ یہ لفظ پھر سننا چاہتی تھی
’’ آپی!‘‘ ایک پل کے لئے اسے علیحدہ کیا اور دوبارہ اپنے گلے لگا لیا۔جذبات
اپنی حدوں کو پارکر رہے تھے۔ رضیہ بیگم نے بھی حسرت کے ساتھ علی عظمت کی
طرف دیکھا۔ ان کی آنکھیں بھی بھرآئی تھیں
’’تم۔۔ تم جانتے نہیں ہو یہ لفظ سننے کے لئے میرے کان ترس گئے تھے۔۔‘‘جذبات
میں اس کے الفاظ لرز رہے تھے مگر پھر وہ وہ بول رہی تھی
’’میں نے آپ کے ساتھ بہت برا کیا۔مجھے معاف کردو۔۔ ‘‘ وہ روتے ہوئے اپنی
غلطیوں کی معافی مانگ رہا تھا
’’ نہیں۔۔۔‘‘ وہ مسلسل نفی میں گردن ہلا رہی تھی
’’میں نے ہمیشہ آپ کے ساتھ برا سلوک کیا۔ کبھی آپ کا کہا نہ مانا۔۔ آپ نے
ہمیشہ میرا بھلاچاہا مگر میں ہمیشہ آپ کو غلط سمجھتا رہا ۔ آپ کو اپنی
باتوں کے ذریعے تکلیف پہنچاتا رہا۔ آپ نے ہمیشہ اپنا بڑی بہن ہونے کے ناطر
فرض ادا کیا مگر میں ۔۔ ایک اچھا بھائی نہیں بن سکا۔ نہیں سکا ایک اچھا
بھائی۔۔‘‘ جذبات میں بہکتے ہوئے آج وہ الفاظ کہہ رہا تھا جو شاید آج سے
پہلے کبھی نہیں کہے تھے۔ علی عظمت کی آنکھوں سے بھی آنسو آگئے مگر چہرے پر
ایک مسکراہٹ نمایاں تھی
’’نہیں۔۔ تم تو سب سے اچھے بھائی ہو۔۔‘‘اس کے جھلسے ہوئے چہرے پر اپنے نرم
و ملائم ہاتھ پھیرے اور اس کی پیشانی کو ایک بار پھر بوسہ دیا
’’نہیں۔۔۔ نہیں ہوں میں ایک اچھا بھائی۔۔۔ اگر اچھا ہوتا تو آپ کا کہا
مانتا۔۔ آپ کو کبھی آپ کے نام سے نہیں پکارتا۔۔ معاف کردیں۔۔ پلز مجھے معاف
کردیں آپی۔۔‘‘ وہ ہاتھ جوڑ رہا تھا
’’ نہیں ۔۔ اب ایک آنسو بھی نہیں بہانا۔۔ایک آنسو بھی نہیں ۔۔
سمجھے۔۔‘‘پیار سے اس کے آنسو صاف کئے اور کھڑے ہو کر اس کی چئیر کو اندر لے
گئی۔حجاب ، رضیہ بیگم اور علی عظمت بھی اندر چلے آئے۔
’’ آپ جانتے ہیں ! آج آپ کی پسند کے کھانے بنائے ہیں پھپو نے۔۔‘‘سب انمول
کا بچوں کی طرح خیال رکھ رہے تھے۔اس کو اس بات کا احساس ہی نہیں ہونے دے
رہے تھے کہ وہ اتنے بڑی مشکل سے نکل کر آیا ہے یا اس کا جسم جھلس چکا ہے
اور اب وہ پہلے جتنا حسین نہیں رہا۔ اس نے ٹیبل کی طرف نگاہ دوڑائی تو اپنے
آپ کو دیکھا۔نہیں وہ یہ نہیں تھا وہ تو کوئی اور ہی تھا۔وہ قریب ہوا تو عکس
مزید واضح ہو۔ ادھر ایک جھلسا ہوا عکس تھا۔چہرہ مرجھایا ہوا تھا۔ شام
تنہائی کے زیر اثر ساری رونقیں ماتم میں تبدیل ہوچکی تھیں۔ شوخ نین آج
افسردہ تھیں۔ سیاہ بھنویں جل کر بھوری ہوچکی تھیں۔لہراتی زلفیں اب سکوت کا
شکار تھیں۔ایک نظر ہاتھوں کی طرف گئی۔ جن ہاتھوں میں کل شوخیاں تھی۔ مذاق
تھا۔ ایک زندگی تھی آج صرف موت طاری تھی۔ سرخ و سفید رنگ مزیدسفید ہوکر
جھلس چکا تھا۔سیاہی کے نشانات آویزاں تھے۔ جس شکل و صورت پر کل تک وہ غرور
کرتا تھا۔ جس کے آگے وہ دوسروں کو نیچا تصور کرتا تھا۔ آج وہی غرور اس کا
خاک میں مل چکا تھا۔عاجزی و انکساری طبعیت میں پیدا ہوچکی تھی۔کہتے ہیں ناں
انسان جب تک ٹھوکر کھا کر نہیں گرتا ۔نہیں سنبھلتا۔ شاید ٹھیک ہی کہتے ہیں۔
دنیا میں موجود ہرشے ٹھوکر لگنے سے ٹوٹ جاتی ہے مگر انسان واحد شے ہے جو
ٹھوکر لگنے سے ہی جڑتا ہے۔ انسان کی انسانیت ٹھوکر کھا کر ہی باہر آتی
ہے۔اس کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔ اس نے ایک نظر حجاب پر ڈالی جو اس کے لئے
جوس لے کر آئی تھی
’’ یہ لیجیے ۔۔ ٹھنڈا ٹھنڈا جوس۔۔ ااپ کو پسند ہے ناں۔۔ انار کا جوس ؟؟
ابھی ابھی خود اپنے ہاتھوں سے بنا کرلائی ہوں۔‘‘اس کے چہرے پر ایک عجیب سا
تاثر تھا۔ایسا لگتا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ اس کے رویے میں ذرا بھی
تبدیلی نہیں آئی تھی۔وہ سمجھتا تھا کہ لوگ اس کے حسن کی وجہ سے اس سے میل
جول رکھتے ہیں مگر وہ غلط تھا۔ جن کے لئے وہ اپنا تھا اُن کے نزدیک اس کی
ظاہری شکل و صورت کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھی۔وہ اس سے اب بھی پہلے کی طرح
پیار کرتے تھے۔ اس کا خیال رکھتے تھے۔مگر شاید یہ ہی اس کے قابل نہ تھا
’’مجھ معاف کر دو۔۔‘‘ جیسے ہی وہ جوس کا گلاس پکڑانے کے لئے جھکی تھی۔
انمول نے اس کے ہاتھوں کو پکڑ لیا۔وہ یکدم پکڑنے سے ایک پل کے لئے ٹھٹک کر
رہ گئی تھی۔ اس نے اوپر اٹھنے کی کوشش کی مگر اس کی ہمت جواب دے گئی اور وہ
ایک ثانیے کے لئے اس کے چہرے کو ٹکٹکی باندھے دیکھتی رہی
’’میں نے تمہارے ساتھ بھی بہت غلط کیا ہے ۔ تمہیں ہمیشہ نیچا دیکھانے کی
کوشش کی۔ ہمیشہ تم پر ظلم کیا۔تمہارے ساتھ ناانصافی کی ۔تمہارا حق غضب کیا۔
مجھے معاف کردو۔۔‘‘وہ اشک بہاتے ہوئے حجاب سے بھی اپنے گناہوں کی معافی
مانگ رہا تھا۔
’’تم نے ہمیشہ میرا خیال رکھا اور میں نے تمہیں صرف دکھ دیا صرف دکھ۔ میری
وجہ سے تمہاری آنکھوں سے ہمیشہ آنسو بہے ۔۔۔ ہمیشہ آنسو بہے۔۔۔‘‘حجاب کے
دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں مضبوطی سے پکڑے ہوئے وہ انہیں آنکھوں سے
لگائے ہوئے تھا۔ حجاب کی آنکھوں سے بھی آنسو بہنے لگے۔ وجیہہ نے انمو ل کو
جب حجاب سے معافی مانگتے دیکھا تو اس کا بھی دل بھر آیا
’’نہیں انمول۔۔ آپ کو معافی مانگنے کی کوئی ضرورت تھی۔۔‘‘پیار سے اس کے
ہاتھوں کو سہلاتے ہوئے کہا تھا
’’ نہیں۔۔میں نے تمہارے ساتھ بہت ناانصافیاں کیں۔ ہمیشہ تمہارے رنگ کا مذاق
اڑایا ۔ تمہیں تمہارے رنگ کا طعنہ دیا ۔ ہمیشہ تمہیں بدصورت کہا اور آج اس
کی سزا مجھے مل گئی۔۔ آج میں تم سے بھی زیادہ۔۔‘‘ اس کا دل بھر آیا
تھا۔ہاتھوں کی گرفت کمزور ہوگئی۔حجاب مسلسل نفی میں سرہلاتی جا رہی تھی
’’نہیں۔۔۔ ایسا سوچیے گا بھی مت۔۔ سنا آپ نے۔۔ میرے لئے آپ کل بھی حسین تھے
اور آج بھی ۔۔۔‘‘ گلوگیر لہجے میں انمول کے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہہ
رہی تھی
’’لو بھئی۔۔ آج تو حجاب کو بھی مان مل گیا۔۔‘ ‘ ڈائنگ ٹیبل سے وجیہہ ٹی وی
لاؤنج کی طرف بڑھی اور ایک پھلجڑی چھوڑی تو حجاب کے چہرے پر ہلکی سی
مسکراہٹ پھیل گئی۔ سیدھے ہوتے ہوئے اپنے رخسار سے آنسو صاف کئے
’’آج کا دن تو خوشی ہے اور دونوں رو رہے ہو۔۔ ایسا نہیں چلتا۔۔ او کے۔۔چلو
اب دونوں اپنا موڈ جلدی سے ٹھیک کرو۔۔ چلو۔۔‘‘ وجیہہ نے انمول کے چہرے سے
آنسو ؤں کو صاف کرتے ہوئے کہا تھا
’’اور حجاب تم ۔۔۔ تم نے کیا میرے بھائی کو بھوکا رکھ کر مارنا ہے ؟ چلو
اسے جلدی سے کمرے میں لے جاؤ اور فریش کر کے لاؤ۔۔‘‘وجیہہ کے کہنے کے بعد
اس نے ایک نظر اوپر سیڑھیو ں کی طرف دیکھا تو اس کے چہرے پر ہلکا سا تاسف
چھا گیا
’’ ار ے۔۔ اس طرح کیا دیکھ رہی ہو؟‘‘ استفہامیہ انداز میں وجیہہ نے کہا تھا
’’ وہ سیڑھیاں۔۔۔‘‘ وہ ہچکچائی تھی
’’ تو کیا ہوا؟ تمہارا کمرہ تو نیچے ہے ناں۔۔ تم اپنے کمرے میں لے جاؤ۔۔‘‘
’’ لیکن۔۔۔‘‘
’’ ارے لیکن ویکن کیا؟ ابھی تو خوشی خوشی ایک دوسرے سے معافی مانگی ہے اور
ابھی سے سوچ میں پڑ گئی کہ کیسے سنبھالوں گی اپنے شوہر کو‘‘ ہنستے ہوئے کہا
’’ نہیں آپی۔۔ ایسی بات نہیں ہے۔‘‘
’’ ایسی ہی بات ہے ورنہ بنا سوچے سمجھے انمول کو اپنے کمرے میں لے کر
جاتی۔۔‘‘ حجاب نے انمول کی طرف دیکھا تو اس نے اثبات میں سرہلادیاتو وہ
خوشی خوشی اس کی چئیر کو اپنے کمرے کی طر ف لے کر چلی گئی اور پندرہ منٹ
میں سے فریش کرنے کے بعد واپس ٹی وی لاؤنج میں آگئی
’’واہ۔۔ بیوی کے ہاتھوں سے تیار ہوکر تو اور بھی اجلے اجلے لگ رہے
ہو۔۔‘‘معنی خیز لہجے میں وجیہہ نے کہا تھا
’’ہاں اجلے اجلے تو لگے گا ہی آخر جلے پر نیا ماسک تو چڑھا دیا
ہے۔۔‘‘عندلیب ابھی ابھی گھر میں داخل ہوئی تھی اورآتے ہی طنز کے تیر چلانے
لگی
’’کہا ں تھی تم؟‘‘ وجیہہ اس کے سامنے سینہ تان کے کھڑی ہوگئی
’’ تم سے مطلب؟‘‘حقارت آمیز لہجے میں جوا ب دیا
’’ عندلیب۔۔ ایسے بات کرتے ہیں آپی سے۔۔‘‘انمول نے اس کی سرزنش کی
’’ اوہ۔۔ کچھ مہینے ہسپتال میں کیا رہ کر آئے ، ان کے نام کی مالا ہی لاپنے
لگ گئے۔۔‘‘ عندلیب نے تمسخرانہ کہا تھا
’’اپنی زبان کو لگام دو۔۔‘‘انمول نے کہا تھا
’’ چلو۔۔ اب جھگڑا بند کرو۔۔۔آج تو خوشی کا دن ہے کہ انمول اتنے دنوں بعد
گھر لوٹ کر آیا ہے اور تم نے آتے ہی جھگڑا شروع کر دیا‘‘رضیہ بیگم نے پاس
آکر صلح صفائی کرانے کی کوشش کی
’’ کیا کہا خوشی کا؟۔۔۔ ہنہ ۔۔ کہاں سے خوشی کا ہے دن اور اتنے دن بعد بھی
لوٹ کر آنے کا کیا فائدہ ؟ چہرہ تو ویسے ہی جھلسا ہوا ہے۔‘‘ بے رخی سے وہ
بڑبڑائی تھی
’’ عندلیب۔۔‘‘ اب کی بار حجاب چلائی تھی
’’چلاؤ مت۔۔۔چلانا مجھے بھی آتا ہے۔‘‘عندلیب غرائی تھی
’’حجاب سے ایسے بات کرنے کا تمہیں کوئی حق نہیں ہے۔۔‘‘ انمو ل نے کہا تھا
’’دو دن اس نے تمہاری دیکھ بھال کیا کر لی ۔۔۔ اس کے شیدائی ہی ہوگئے۔۔‘‘
اس نے طنزیہ کہا تھا
’’دیکھو۔۔۔ اب اپنی لمٹ کراس مت کرو۔۔‘‘ انمول نے لہجے کو کنٹرو ل کرتے
ہوئے کہا تھا
’’اگر اتنی ہی لمٹ کراس کر رہی ہوں تو چھوڑ کیوں نہیں دیتے مجھے۔۔۔کم سے کم
ایک جلے ہوئے انسان کے ساتھ رہنے کو تو نہیں پڑے گا۔۔‘‘
’’ عندلیب۔۔۔‘‘ حجاب نے ایک طماچہ اس کے دائیں رخسار پر رسید کیا تھا
’’آئندہ کبھی یہ الفاظ کہے ناں تو مجھ سے برا کچھ نہیں ہوگا۔۔ آئی بات سمجھ
میں۔۔۔‘‘عقابی نظروں سے اس پر جھپٹی تھی
’’تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے تھپڑ مارنے کی۔۔‘‘دہکتی آنکھوں سے الٹا وار
کیا
’’اور تمہاری ہمت کیسے ہوئی انمول کے خلاف ایسے لفظ بولنے کی۔۔۔ یہ مت
بھولو کہ وہ اب بھی تمہارا شوہر ہے اور ایک بیوی کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ
وہ اس کے نقص کو اس پر عیاں کر ے اور اس کا مذاق اڑائے۔۔‘‘
’’ بڑا ہی پیار آرہا ہے تو تم ہی کیوں نہیں رکھ لیتی اس کو۔۔۔ کم سے کم
میری جان تو چھوٹ جائے گی۔۔۔‘‘گردن جھٹکتے ہوئے کہا
’’رکھ لوں۔۔۔ اور مجھے بہت خوشی ہوگی۔ابھی تو انمول کا صرف جسم کا کچھ حصہ
جلا ہے اگر ان کا پورا وجود بھی جھلس جاتا ناں تب بھی میں انہیں اکیلا نہیں
چھوڑتی۔ ان کے پاس رہتی۔ ان کا خیال رکھتی۔ تمہاری طرح ان سے گھن نہ
کھاتی۔۔۔‘‘
’’ تو پھر رکھو اس کو بد صورت کو اپنے پاس۔۔۔مجھے اس کے ساتھ رہ کر اپنا
وقار خراب نہیں کرتا ۔۔۔‘‘ منہ چڑھا کر وہ اپنے کمرے میں گئی اور آناً
فاناً اپنے کپڑے سوٹ کیس میں پیک کر کے باہر آگئی
’’عندلیب۔۔ یہ کیا بچپنا ہے۔؟‘‘ وجیہہ نے سمجھانے کی کوشش کی
’’ میں بچپنا کر رہی ہوں میں؟‘‘ طنزیہ کہا
’’ضد چھوڑو۔۔۔عندلیب۔۔ میاں بیوی کے درمیاں تو چھوٹی موٹی باتیں ہوتی رہتی
ہیں،اس طرح کوئی گھر چھوڑ کر تھوڑی جاتا ہے۔۔!!؟‘‘رضیہ بیگم نے آگے بڑھ کر
عندلیب کو سمجھانے کی کوشش کی مگر جن کی عقلوں پر پردہ پر جائے ، ان کے آگے
نصیحت کرنا بے کار ہوتا ہے
’’یہ آپ کے لئے چھوتی موٹی بات ہوگی مگر میرے لئے نہیں۔۔ آپ انمول کو اس
حالت میں قبول کر سکتے ہیں مگر میں نہیں۔۔۔!!‘‘ اس نے کراخت لہجے میں کہا
تھا
’’ایک بات یار رکھنا کہ اگر آج تم گئی ناں تو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس تعلق
کو بھول جانا۔۔‘‘ انمول نے بنا دیکھے کہا تھا
’’ مجھے کوئی شوق بھی نہیں ہے اس رشتے کو نبھانے کا۔۔ دو دن بعد خلع کے
پیپرز میں خود ہی بھجوا دونگی۔۔‘‘ یہ کہہ کر وہ تیز قدموں کے ساتھ باہر
دروازے کی طرف چل دی
’’انمول۔۔ روکو اسے۔۔ رشتے مذاق نہیں ہوتے کہ جب چاہا نبھالیا اور جب چاہا
دل چرا لیا۔ روکو اسے۔۔‘‘رضیہ بیگم انمول کو سمجھا رہی تھی
’’ امی جانے دیں اسے۔۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں اسے یہ کبھی نہیں رکنے
والی۔۔ جو بات اس کے دل میں آجائے وہ کر کے ہی گزرتی ہے۔ پہلے مجھ سے شادی
کرنا اس کی ضد تھی۔ میں نے سمجھایا کہ کچھ وقت انتظار کیا جائے مگر یہ نہیں
مانی اور اب اگر اس کا دل مجھ سے اکتا گیا ہے تو یہ کبھی نہیں رکنے والی۔
آپ جتنا سمجھائیں گے یہ اتنا ہی سر پر چڑھے گی۔۔کسی کی نہیں ماننے والی یہ
لڑکی۔۔‘‘انمول نے صاف صاف کہہ دیا۔
’’ لیکن بیٹا!‘‘ علی عظمت نے کچھ کہنا چاہا
’’نہیں ابو۔۔ جانے دیں ۔۔ اور آپ کو پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔۔ یہ
رشتہ ایک نہ ایک دن تو ٹوٹنا ہی تھا۔ بھلا جس رشتے میں ماں باپ کی مرضی ہی
شامل نہ ہو بھلا وہ کب تک نبھایا جا سکتا تھا۔ ایک نہ ایک دن اس رشتے پر
شام خزاں آنی ہی تھی۔‘‘ وہ افسوس بھرے لہجے میں کہتا ہے
’’ لیکن بیٹا۔۔!!‘‘ رضیہ بیگم آگے بڑھی تھیں
’’ امی۔۔۔ ‘‘ اُن کے دونوں ہاتھوں کر پکڑ کر کہا
’’مگر یہ رشتہ کبھی نہیں ٹوٹے گا۔۔‘‘ اس کااشار ہ حجاب کی طرف تھا۔یہ سن کر
کر اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ چھاگئی۔
* * * *
’’آپی اب آپ یہاں پر ہی رہا کریں ناں۔۔ وہاں اکیلے گھر میں آپ کا جی
گھبراتا ہوگا۔۔‘‘انمول نے ناشتہ کرتے ہوئے کہا تھا
’’ نہیں انمول۔۔ میں وہاں اکیلی تھوڑی ہوں۔۔‘‘وجیہہ نے مسکراتے ہوئے کہا
’’ کیا مطلب؟‘‘رضیہ بیگم کے ساتھ ساتھ سب کی سوالیہ نظریں وجیہہ پر تھیں۔
اس کے چہرے پر معنی خیزمسکراہٹ کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے
’’مطلب یہ ہے کہ ضرغام کا احساس ہر وقت میرے ساتھ تو ہوتا ہے۔۔‘‘ وہ
ہچکچاتے ہوئے کہہ رہی تھی
’’احساس۔۔؟تم کچھ چھپا رہی ہو ناں ہم سے۔۔‘‘علی عظمت نے کہا تھا
’’وہ بات یہ ہے ابو کہ آپ نانا بننے والے ہیں۔۔‘‘ اس کی آنکھیں شرم و حیا
سے جھک چکی تھیں
’’ کیا؟ ‘‘ خوشی میں سب کے چہرے چہک اٹھے تھے
’’ میں ماموں بننے والا ہوں۔۔‘‘ انمو ل کے چہرے پر بھی خوشی کی لہر دوڑی
تھی
’’ اور میں ممانی۔۔‘‘اپنی خوشی پر قابو کر تے ہوئے حجاب نے کہا تھا
’’ اتنی بڑی خبر تم ہمیں اب سنا رہی ہو؟‘‘علی عظمت اٹھ کر وجیہہ کے پاس گئے
اور اس کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ پھیرا
’’ ضرغام کو پتا ہے؟‘‘ رضیہ بیگم نے استفسار کیا تھا
’’ جی۔۔ انہیں معلوم ہے۔۔‘‘نظریں جھکائے وہ سب کا پیار سمیٹ رہی تھی۔
’’ یہ اچھی بات نہیں آپی! آپ نے اتنی دیر سے ہمیں یہ خبر سنائی۔۔‘‘ حجاب
وجیہہ کے گلے آلگی تھی۔ انمول بھی خوش ہو کر وجیہہ سے باتوں میں مصروف تھا
تبھی علی عظمت کی نظر رضیہ بیگم کے چہرے پر پڑی ۔ جہاں اگلے ہی لمحے خزاں
نے بسیرا کر لیا تھا۔علی عظمت رضیہ بیگم کے اس تاسف کو دیکھ کر حیران ہوئے
’’کیا ہوا بیگم؟ یہ تو خوشی کی گھڑیاں ہیں اور تم اداس ہو۔۔!!!‘‘ آہستہ نے
انہوں نے رضیہ بیگم کو مخاطب کیا تھا۔ رضیہ بیگم نے ایک حسرت بھری نگاہ علی
عظمت پر ڈالی تو آنکھوں میں�آنسو آگئے
’’ یہ کیا؟ اب بھی آنسو۔۔۔‘‘ علی عظمت نے پیار سے ان کے آنسو صاف کیے
’’خوشی کی اس گھڑی میں بھی وجیہہ آج کتنی اکیلی ہے ناں۔۔اس وقت اسے ضرغام
کی ضرورت ہے اور وہ۔۔۔‘‘ان کی آواز بھر آئی تھی
’’کس نے کہا کہ وجیہہ اکیلی ہے؟ وہ اکیلی نہیں ہے۔ اکیلے وہ لوگ ہوتے ہیں
جن کے اپنے ان کے پاس نہیں ہوتے ۔ ذرا ادھر دیکھو۔۔۔‘‘ علی عظمت نے ہاتھ کے
اشارے سے رضیہ بیگم کی توجہ تینوں کی طرف مبذو ل کروائی۔وجیہہ کرسی پر
بیٹھی تھی۔ضرغام اس کے ساتھ ہی چئیر پر تھا۔ حجاب وجیہہ کے کندھوں پر ہاتھ
رکھے ہوئے تھی۔ تینوں کے چہرے پر ایک ہنسی تھی۔
’’دیکھو! وہ تینوں کتنے خوش ہیں۔ اور تم نے سوچ بھی کیسے لیا کہ وجیہہ اب
اکیلی ہے۔ اُس کا بھائی اور بھابھی اس کے ساتھ ہیں۔دیکھو جب سے انمول کو
اپنی غلطی کا احساس ہوا ہے کیسے وجیہہ کے آگے پیچھے پھررہا ہے۔۔اور حجاب وہ
تو آپی آپی کہتے نہیں تھکتی۔۔ ۔ تم اب بھی کہتی ہو کہ وہ اکیلی ہے۔ نہیں وہ
اکیلی نہیں ہے۔سب کا پیار اس کے ساتھ ہے اور سب سے بڑھ کر ضرغام کی محبت اس
کو کبھی تنہاہونے ہی نہیں دیتی۔‘‘
’’ کہہ تو آپ ٹھیک رہے ہیں لیکن اگر وہ کبھی۔۔۔‘‘ انہوں نے اپنا جملہ
ادھورا چھوڑ دیا
’’ایسا سوچنا بھی مت۔۔!! ‘‘ علی عظمت نے انہیں تنبیہہ کی
’’ہماری بیٹی اتنی کمزور نہیں ہے کہ اتنی جلدی ہار مان لے ۔ دیکھنا تم وہ
اس کیس کو جیتے گی اور ضرغام کو باعزت رہا بھی کروائے گی۔ مجھے یقین ہے
اپنی بیٹی پر۔۔۔‘‘بڑے مان کے ساتھ انہوں نے وجیہہ کی طرف دیکھا تھا
’’مجھے بھی۔۔۔‘‘اثبات میں سر ہلاتے ہوئے انہوں نے تینوں پر نگاہ دوڑائی تھی
* * * *
’’ یہ لیجیے۔۔ دودھ پی لیں آپ۔۔‘‘حجاب نے دو دھ کا گلاس لا کر وجیہہ کے
سامنے ٹیبل پر رکھ دیا مگر اسے خبر نہ تھی۔ وہ اپنے ہاتھوں میں موجود ایک
موٹی سی سیاہ کتاب پر نظریں جمائے ہوئے تھے۔ حجاب نے گلاس رکھ کر ایک
نظروجیہہ کی طرف دیکھا جو اپنی زندگی سے بے خبر صرف ضرغام کے کیس میں محو
تھی
’’ آپی۔۔‘‘ اس نے آہستہ سے شانوں کو چھوا تو وہ بری طرح چونکی تھی
’’ ارے حجاب تم؟تم کب آئیں؟‘‘ اپنے حواس کو مجتمع کرتے ہوئے کتاب کو بند
کرکے ٹیبل پر رکھا اور پوری توجہ سے اس کی طرف دیکھا ۔ آنکھیں نیند سے
بوجھل ہو رہی تھیں مگر دیکھنے کی بھرپور کوشش کررہی تھی
’’جب آپ سٹڈی میں مصروف تھیں۔۔‘‘ اس نے دودھ کا گلاس اٹھایا اور وجیہہ کے
ہاتھوں میں تھما دیا
’’اگر برا نہ مانیں تو ایک بات کہوں۔۔‘‘وہ بلا تکلف بیڈ ہر بیٹھ گئی۔ وجیہہ
نے ایک گھونٹ پی کر اس کی جانب کرسی موڑی اور اثبات میں سر ہلایا
’’ ہاں۔۔ بولو۔۔۔ برا ماننے کی کیا بات ہے؟‘‘
’’آپ کسی دوسرے وکیل کے ہائر کر لیں اور آپ آرام کریں۔۔‘‘
’’ نہیں حجاب۔۔ یہ کیس میری زندگی ہے۔یہ صرف ضرغا م کے لئے ہی نہیں بلکہ
میرے لئے بھی ایک امتحان ہے اور مجھے اپنے رب پر یقین ہے کہ وہ اس امتحان
میں ہم دونوں کو سرخرو کر ے گا۔۔‘‘
’’ لیکن آپی۔۔ آپ کو آرام کی ضرورت ہے۔ ایسے حالات میں آپ؟‘‘وہ کچھ کہتے
کہتے رک گئی
’’ایک بیوی صرف اسی صورت میں آرا م کر سکتی ہے جب اس کے سر پرشوہر نامی چھت
ہو جو اس پر محبت کا سایہ کیے رہے کیونکہ ایک بیوی جو راحت اپنے شوہر کے
ہوتے ہوئے پاتی ہے کبھی اس کے بنا نہیں پا سکتی‘‘
’’آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں مگر ضرغام بھائی بھی یقیناًیہی چاہیں گے کہ
آپ۔۔۔!!‘‘
’’حجاب۔۔بس ایک بار وہ آجائیں پھر جیسا وہ چاہیں گے ویسا ہی ہوگا۔۔ بس ایک
بار باہر آجائیں۔،۔۔‘‘ وجیہہ نے مداخلت کی تھی۔ حجاب اب مزید کچھ نہیں کہہ
سکتی تھی۔ اس نے وجیہہ کی آنکھوں میں دیکھا جہاں صرف تنہائی تھی مگر اس
تنہائی میں بھی امید کی کرن روشن تھی۔وہ خاموشی کے ساتھ کمرے سے باہر آگئی
مگر چہرے پرایک الگ اتاسف تھا۔اپنے کمرے میں آئی تو انمول کی نظروں سے اس
کی پریشانی چھپ نہیں سکی۔کل تک جس کا پریشان ہونا اس کے نزدیک کوئی اہمیت
نہیں رکھتا تھا۔ نہ جانے کیوں آج اس کے چہرے پر وہ پریشانی کے آثار بھی
نہیں دیکھ سکتا تھا
’’کیا ہوا؟‘‘ وہ بیڈ پر ٹیک لگائے بیٹھا ہوا تھا۔ ہاتھ میں موجود کتاب کو
بند کر کے اس نے سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور پوری توجہ کے ساتھ حجاب کی طرف
متوجہ ہواجو گم صم دروازے سے داخل ہوئی اور وارڈ روب کی طرف بڑھ رہی تھی
’’ کوئی بات ہے حجاب؟‘‘وہ اپنے خیالوں میں اس قدر محو تھی کہ اسے انمول کی
آواز سنائی ہی نہیں دی۔ وہ بس یک ٹک وارڈ روب پر ہاتھ رکھے ہوئے انجان سے
دنیا میں گم تھی۔انمول کے چہرے پر شکن ابھرنے لگے۔ اس نے اٹھنے کی کوشش کی
مگر جھلسے ہوئے پاؤں رکاوٹ بنے مگر اس نے ہمت جاری رکھی
’’آہ۔۔‘‘درد کی ایک ٹیس نے جنم لیا مگر اس نے ہمت نہ ہاری۔ دونوں ہاتھوں کو
بیڈ پر جمائے اس نے پاؤں زمین پر رکھے تھے۔درد کی شدت کی وجہ سے اس نے
مٹھیاں بھینچ لیں۔ آنکھیں بھی خود بخود بند ہوگئیں مگر اس نے اٹھنے کی پوری
کوشش کی اور آخر کار وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوہی گیا مگر ٹانگ میں ایک خم
تھا۔چلنے کی کوشش کی تو چال میں لڑکھڑاہٹ تھی۔اس نے اپنا ہاتھ کمر کے پیچھے
کیا اور دوسرے ہاتھ کو گھٹنے پر رکھا
’’اف۔۔۔‘‘ درد کو برداشت کرتے ہوئے وہ آگے بڑھنے لگاوہ ابھی بھی اپنے ہی
خیالوں میں گم تھی
’’حجاب۔۔۔!!‘‘انمول نے حجاب کے شانوں پرہاتھ رکھا تو وہ بری طرح چونک کر
پلٹی تھی
’’انمول۔۔ آپ۔۔۔‘‘خیالوں کی دنیا سے وہ لوٹ آئی تھی
’’اگر آپ کو کچھ چاہئے تھا تو مجھے بتا دیتے۔ چلئیے بیٹھیں۔۔ ‘‘ سہارا دے
کر اسے واپس بیڈ کی طرف لے گئی اور پیار سے بیٹھایا۔بیٹھ کر اس نے سکھ کا
سانس لیا
’’آپ کو ابھی ڈاکٹر نے منع کیا ہے ناں چلنے پھرنے سے۔۔‘‘ نرم ہاتھوں سے
انمول کے ٹانگیں اٹھا کر دوبارہ بیڈ پر رکھیں
’’تم پریشان کیوں تھی؟‘‘ انمول نے الٹا اسی سے سوال کیا
’’ میں پریشان تھی۔۔۔!! نہیں میں تو پریشان نہیں تھی۔۔‘‘ لحاف کو دوبارہ
انمول کی ٹانگوں پر اوڑھا دیا
’’لیکن میں تمہیں کافی دیر سے بلا رہا تھا مگر تم نے میری بات سنی ہی
نہیں۔۔‘‘
’’ اچھا۔۔۔!!‘‘ حیرت سے اس نے انمول کی طرف دیکھا
’’دیکھو۔۔ اگر کوئی بات ہے تو بتاؤ۔۔یوں چھپانے سے کچھ نہیں حاصل ہوتا‘‘
’’ وہ میں آپی کے بارے میں سوچ ہی تھی۔۔‘‘ اس کے پاس بیٹھ کر اس نے کہا تھا
’’آپی کے بارے میں؟کیاہوا آپی کو؟ ٹھیک تو ہیں ناں آہی؟‘‘حجاب کا دائیں
ہاتھ اپنے داہنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے پوچھا
’’آپی کتنی اداس رہتی ہیں ضرغام بھائی کے بنا۔۔۔ہر وقت انہی کے بارے میں
سوچتی رہتی ہیں ۔ حالانکہ اس وقت انہیں آرام کی ضرورت ہے مگر وہ اب بھی صر
ف کیس پر ہی محنت کرتی رہتی ہیں۔۔ اگر ایسے ہی چلتا رہا تو ان کی صحت خراب
ہوسکتی ہے اور آگے چل کر مسئلہ بھی ہوسکتا ہے۔۔‘‘ حجاب نے اپنے ڈر کا اظہار
کیا تھا
ْ’’ اس سلسلے میں تو میں بھی سوچ رہاہوں۔۔ ۔ آپی نے تو کبھی کسی کا برا
نہیں چاہا پھر ان کے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟‘‘
’’انمول ۔۔ مشکلیں آتی ہیں ایسے لوگوں کے پاس ہیں کیونکہ وہی مشکلوں کو
بہتر انداز میں سلجھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر میں تو ا ن کی صحت کے بارے
میں بہت فکرمند ہوں۔ پہلے تو وہ اکیلی تھیں مگر اب ان کے ساتھ ایک زندگی
بھی جڑچکی ہے ۔۔‘‘حسرت کے ساتھ اس نے انمول کی طرف دیکھا
’’میں سمجھاؤں گا آپی کو۔۔۔‘‘
’’ وہ نہیں مانیں گی۔۔ میں نے بھی سمجھانے کی کوشش کی تھی مگر وہ تو بس اسی
کیس میں محو ہیں۔ کیس کے علاوہ وہ کچھ سوچنے اور سمجھنے کے لئے تیار ہی
نہیں۔۔۔‘‘
’’کاش میں کچھ کرسکتا۔۔۔‘‘ افسوس کر تے ہوئے انمول نے زیرلب کہا تھا ایک
ثاینے کے لئے خاموشی چھاگئی
’’ ویسے میں تو اتنے دن گھر ہی نہیں تھا اس لئے زیادہ کیس کے بارے میں
معلوم نہیں مگر تمہیں تو پتا ہوگا ناں۔۔‘‘اس نے جھٹ سوال داغا تھا۔
’’ کیس کے بارے میں زیادہ تو مجھے بھی معلوم نہیں کیونکہ میں بھی تو آپ کے
ساتھ ہی تھی مگر جتنا معلو م ہے ۔ اتنا بتا دیتی ہوں‘‘ حجاب نے انمول کو سب
کچھ بتادیا۔انمول کے چہرے کے تاثرات بدلتے گئے۔ایک پل میں غصہ تو اگلے ہی
لمحہ طمانیت کے اثرات نمایاں ہوتے ۔
’’ بس مجھے اتنا ہی معلوم ہے۔۔‘‘
’’ کوئی بات نہیں۔۔۔ اسی سے کام چلائیں گے ہم۔۔‘‘
’’ کام چلائیں گے ؟ کیا مطلب ہے آپ کا؟‘‘حجاب نے استفہامیہ انداز میں انمول
کی طرف دیکھا تھا
’’آپی کو یوں ہاتھ پر ہاتھ رکھے تو دیکھ نہیں سکتے ہم اور پھر یہ تم بھی
جانتی ہو کہ وکالت میں کتنی بے ایمانی چلتی ہے ، جھوٹ فریب تو جیسے پیدا ہی
انہی جگہوں پر ہوتے ہیں۔ سچ بولنے والوں کی نیا تو کم ہی پار لگتی ہے ۔۔‘‘
انمول نے تمہید باندھنا شروع کی
’’ کہتے تو آپ ٹھیک ہیں۔۔‘‘ حجاب نے تائید کی
’’اور پھر آپی کو تو تم جانتی ہی ہو وہ کبھی جھوٹ کا سہارا نہیں لیں گی اور
تمہارے بقول کیس کو اتنا عرصہ ہوگیا چلتے ہوئے ابھی تک انہوں نے ایک بھی
دلیل ایسی نہیں دی جو ان کے لئے مثبت ثابت ہوسکے۔۔۔‘‘
’’ ہاں۔۔‘‘ ایک بار پھر اس نے اثبات میں گردن ہلائی
’’تو پھر ہمیں ہی آپی کی مدد کر نی ہوگی۔۔‘‘کچھ سوچتے ہوئے انمول نے کہا
تھا
’’لیکن کیسے؟‘‘ انمول نے استفہامیہ انداز میں انمول کی طرف دیکھا تو اس کے
چہرے پر ایک مسکراہٹ چھاگئی
’’ اس کے لئے مجھے تمہاری ضروت ہوگی۔۔ کرو گی ناں میری مدد۔۔‘‘حجاب کے
دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں مین تھامتے ہوئے اس نے کہا تھا
’’ میں تو ہمیشہ آپ کے ساتھ ہوں۔۔‘‘محبت بھری نگاہوں سے اس نے تائید کی
’’تو پھر ٹھیک ہے ۔۔۔ اب بس اگلی پیشی کا انتظار ہے۔۔‘‘
’’لیکن بتائیں تو صحیح آپ کریں گے کیا؟‘‘حجاب ابھی تک کچھ سمجھ نہیں پا رہی
تھی
’’یہ تو اب اگلی پیشی میں ہی پتا چلے گا۔۔‘‘معنی خیز نگاہوں سے اس نے حجاب
کی طرف دیکھا تھا
* * * *
’’ جی مس وجیہہ عظمت ! آ پ کے پاس کوئی دلیل ہے ۔ جس کی بنیاد پر آپ ضرغام
عباسی کا دفع کر سکیں؟کیونکہ پچھلی سماعتوں میں آپ نے ایک بھی ایسا ثبوت یا
گواہ عدالت کے سامنے پیش نہیں کیا جو اس کیس کو آگے بڑھانے کو موجب بنتا
اگر آج آپ کے پاس کوئی ثبوت یا گواہ ہے تو برائے مہربانی اسے عدالت کے
سامنے پیش کریں ورنہ مجبوراً آج ہمیں اس کیس کا فیصلہ سنانا ہوگا۔۔‘‘یہ
سننے کی دیر تھی کہ پروسیکیوٹر کے چہرے شاطرانہ ہنسی چھا گئی۔ اُس نے معنی
خیز نگاہوں سے وجیہہ عظمت کی طرف دیکھا جو پرسکون انداز میں اپنی چئیر
پرٹیک لگائی بیٹھی تھی اور ہاتھ میں موجود قلم کو سکون کے ساتھ گھمائے جا
رہی تھی
’’میرے خیال سے آپ کو فیصلہ سنا دینا چاہئے۔۔کیونکہ جس طرح سے میری ساتھی
اپنی نشست پر بیٹھی ہوئی ہیں اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے پاس آج
بھی کوئی ثبوت نہیں ۔۔‘‘ اس سے پہلے کے وجیہہ کچھ کہتی پروسیکیوٹر برق
رفتاری سے اٹھی اور اپنا موقف عدالت کے سامنے پیش کیا
’’ جج صاحب! میری ان ساتھی کو قیاس آرئیاں کرنے کا بہت شوق ہے۔شاید میری
ساتھی یہ نہیں جانتیں کہ عدالت کوئی بھی فیصلہ بنا ثبوت کے نہیں کرتی۔۔‘‘
وجییہہ نے جھٹ اٹھتے ہوئے کہا
’’ تو پھر آپ کے پاس ثبوت ہے آج؟‘‘معنی خیز نگاہوں سے اس نے حجاب کی طرف
دیکھا
’’اور کیا آپ کے پاس ثبوت ہے؟‘‘الٹا وجیہہ نے سوال داغا تھا
’’ کیا مطلب ہے آپ کا؟‘‘وہ اس نے اچانک سوال کے لئے تیار نہ تھی
’’مطلب میں سمجھاتی ہیں۔۔ آپ کچھ دیر کے لئے بیٹھنا پسند کریں گی؟‘‘ ہلکی
سی مسکراہٹ کو دباتے ہوئے وجیہہ نے سیٹ کی طرف اشارہ کیا تو وہ شش وپنچ میں
بیٹھ گئی اور وجیہہ کی طرف دیکھنے لگی
’’ جج صاحب! یہ کیس چلتے ہوئے پانچ ماہ ہوچکے ہیں اور میں اس بات کا اقرار
کرتی ہوں کہ عدالت کے سامنے کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کرسکی لیکن جج صاحب۔۔
میری عزیز ساتھی جو جب سے کیس چلا ہے میرے موکل پر بار بار یہ الزام لگاتی
جا رہی ہے کہ انہوں نے یہ کیا۔۔ انہوں نے وہ کیا۔۔ لیکن جج صاحب صرف بار
بار ایک ہی جملے کی گردان الانپنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ اگر میں ثبوت فراہم
کرنے میں ناکام رہی ہوں تو میری عزیز ساتھی بھی تو عدالت کے سامنے ثبوت پیش
نہیں کرسکی۔۔‘‘
’’ جی نہیں یور آنر۔۔ میں ویڈیو بھری عدالت میں دیکھا چکی ہوں۔۔‘‘
’’ صرف ویڈیو سے کام نہیں چلتا۔۔ جج صاحب۔۔جب سے کیس شروع ہوا ہے ۔ ایک بار
بھی مس عنایہ نے کمرہ عدالت میں آکر اپنا بیان پیش نہیں کیا۔ میری عدالت سے
یہ استدعا ہے کہ انہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔۔‘‘
’’ وہ نہیں آسکتی۔۔۔ سمجھی آپ۔۔‘‘ اس نے تلخ لہجے میں کہا تھا
’’ مگر کیوں؟‘‘ دھیمے لہجے میں پوچھا
’’کیونکہ وہ ایک عزت دار لڑکی ہے اور عدالت کے چکر لگا کر اپنے کردار پر
داغ نہیں لگوا سکتیں۔۔۔۔‘‘
’’ کیا کہا آپ نے عزت دار۔۔۔ جج صاحب۔۔ جو عورت بھری عدالت میں اپنی ویڈیو
پیش کر سکتی ہے ، بھلا وہ عدالت میں پیش ہونے سے کیوں گھبراتی ہے۔۔؟ جب
ویڈیو کے ذریعے اپنے اوپر بیتی ہوئی کتھا سنا سکتی ہے تو زبان سے کے ذریعے
سنانے میں کیا حرج ہے؟‘‘
’’ مس وجیہہ ۔۔۔!!‘‘ وہ اپنا آپا کھونے لگی تھی
’’جج صاحب۔۔!! میں مس عنایہ سے کچھ سوالات پوچھنا چاہتی ہوں ۔ اس لئے آپ سے
گذارش ہے کہ انہیں عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا جائے
’’ ٹھیک ہے۔۔‘‘ جج صاحب نے اثبات میں گردن ہلائی
’’لیکن یور آنر۔۔ وہ یہاں نہیں آسکتیں۔۔‘‘پروسیکیوٹر نے دلیل دینے کی کوشش
کی تھی
’’لیکن کیوں؟ دیکھیے مس وجیہہ کا کہنا درست ہے۔ انہیں ایک بار عدالت میں
آکر یہ قبول کرنا ہوگا کہ ملزم نے ان کے ساتھ زیادتی کرنے کی کوشش کی ہے۔اس
طرح آپ کے کیس کو مضبوطی بھی مل جائے گی اور مس وجیہہ کو جو سوال ان سے
کرنے ہیں وہ بھی کر لیں گی۔۔‘‘
’’ لیکن یور آنر! وہ شوبز سے وابستہ ہیں اور ان کا عدالت میں آنا ان کے
کرئیر پر اثرانداز ہوسکتا ہے۔‘‘
’’شوبز سے مسٹر ضرغام بھی وابستہ تھے۔۔‘‘ وجیہہ نے جھٹ کہا
’’اُن کی بات کوئی اور ہے۔۔‘‘ عقابی نظروں سے وجیہہ کی طر ف دیکھا
’’جج صاحب! عدالت کی نظر میں سب برابر ہوتے ہیں ۔ ایک غریب کو جب گواہی کے
لئے طلب کیا جاسکتا ہے تو ایک امیر کو کیوں نہیں؟ کیا صرف عزت امیروں کی ہی
ہوتی ہے غریبوں کی نہیں؟ کیا صرف عدالت میں آنے سے امیروں کے کردار پر ہی
داغ لگتا ہے غریبوں کا کردار بے داغ رہتا ہے؟ میری آپ سے بس یہی استدعا ہے
کہ مس عنایہ اسی کٹگھڑے میں کھڑا کر کے سوال و جواب کئے جائیں ۔ جدھر آج
مسٹر ضرغام کھڑے ہیں۔۔‘‘ اس نے ضرغام کی طرف اشارہ کیا تھا۔ جو یک ٹک اسے
ہی دیکھتا جا رہا تھا۔ کل تک وہ وجیہہ جو صرف معصوم تھی آج بھری عدالت میں
صرف اس کے لئے لڑ رہی تھی۔ کیا واقعی بیویاں ایسی ہوتی ہیں؟ وہ سو چ رہا
تھا اور اُس سوچ سے گھن کھا رہا تھا جو وہ کل تک رکھتا ہے
’’ اگر انسان رشتوں کی زنجیروں سے باہر نکل آئے تو وہ کافی آگے جا سکتا ہے
مگر یہ جو رشتے ہوتے ہیں ، یہ انسان کو آگے بڑھنے سے روکتے ہیں کبھی ماں بن
کر ، کبھی بہن کی صورت میں تو کبھی بیوی بچوں کے روپ میں۔۔ رشتوں کی
زنجیروں میں جکڑا ہو�آدمی کبھی کھل کر سانس بھی نہیں لے سکتا ۔ قدم قدم پر
یہ رشتے اس کو کسی نہ کسی چیز سے محروم کر ہی دیا کرتے ہیں اور پھر وہ وقت
آتا ہے کہ جب اس کے اپنے، جن کی خاطر اس نے سب کچھ داؤ پر لگا دیا تھا، وہ
بھی اس کا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔‘‘ آج اسے اپنے ہی الفاظ پر افسوس ہو رہا
تھا۔ وہ کیا سوچتا تھا اور کیا ہو رہا ہے۔
’’ نہیں ۔۔ رشتوں کی زنجیروں سے نکل کر کوئی آگے نہیں بڑھ سکتا۔رشتے زنجیر
نہیں بلکہ دھاگے ہوتے ہیں جو آپس میں ملکر ایک خوبصورت احساس کو جنم دیتے
ہیں۔ اور بیوی کا رشتہ تو ایک الگ ہی حیثیت رکھتا ہے۔جب دنیا کے سارے رشتے
بچھڑ جاتے ہیں تو یہی رشتہ اس کے کام آتا ہے۔ اس کے دکھ سکھ بانٹتا ہے۔ماں
با ب تو بچپن سے لے کر جوانی تک اپنے بیٹے کا خیال رکھتے ہیں مگر جیسے ہی
ان کا بیٹا جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے تو ماں باپ بڑھاپے میں قدم رکھ
چکے ہوتے ہیں ایسے میں جتنی ماں باپ کو اپنے بیٹے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ایسے
میں اتنی ہی اس لڑکے کو کسی ایک سہارے کی ضرورت ہوتی ہے جس کے ساتھ وہ اپنا
دکھ سکھ بانٹ سکے۔جس سے اپنے دل کا حال بیان کر سکے۔ماں باپ اور بیٹے کے
درمیان تو ایک پردہ حائل ہوسکتا ہے مگر میاں اور بیوی کے درمیان کوئی پردہ
حائل نہیں ہوسکتا۔ یہ رشتہ ہی کچھ ایسا ہوتا ہے جس سے ہر پردے اٹھا لئے
جاتے ہیں۔تاکہ وہ اپنا دکھ سکھ ایک دوسرے کو بیان کر سکیں ۔ ایک دوسرے
کوسمجھ سکیں ۔ قدم سے قدم ملا کر چل سکیں۔یہ رشتے کبھی انسان کو کمزور نہیں
کرتے اور نہ ہی کسی چیز سے محروم کرتے ہیں بلکہ یہ تو انسان کو مضبوط بناتے
ہیں۔جب اسے ہمت کی ضرورت ہوتی ہے تو بیوی کی صورت میں یہ رشتہ اس کا سانجھی
بن جاتا ہے۔جب کسی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے تو یہی رشتہ اولاد جیسی نعمت سے
سرفراز کرتا ہے۔جنہیں دیکھ کر اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہے۔رشتوں سے عاری
انسان بھلا کیسے اس سکھ کو پہچان سکتا ہے ؟رشتے تو انسان کو منزل سے روشناس
کرواتے ہیں پھر بھلا ان کو نبھانے سے کیسے کوئی احساس کم تری کا شکار
ہوسکتا ہے؟ کیسے؟‘‘ اس کا من پکار رہا تھا ،۔آنکھوں سے آنسو جاری تھے مگر
شاید سمجھنے میں بہت دیر ہوچکی تھی
’’بس میری یہی ستدعا ہے عدالت سے۔۔۔‘‘وجیہہ اب اپنی کرسی پر جا بیٹھی تھی
’’ لیکن۔۔۔‘‘ پروسیکیوٹر نے کچھ کہنا چاہا مگر ضج صاحب نے مداخلت کی
’’یہ عدالت اگر شنوائی میں مس عنایہ کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیتی
ہے۔۔‘‘
******
|